New Age Islam
Sun Sep 15 2024, 03:24 AM

Urdu Section ( 28 Nov 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

False Authority of Men over Women: Part 23 عورت اور ان پر مردوں کی جھوٹی فضیلت: قسط 23

حقو ق النسواں مولوی ممتاز علی کی تصنیف ہے۔

یہ کتاب 1898میں لکھی گئی تھی۔ مولوی ممتاز علی علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کے ہمعصر تھے۔ حقوق النسواں اسلام میں عورتوں کے حقو ق پہلی مستند تصنیف ہے۔ مولوی ممتاز علی نے نہایت مدلل طریقے سے قرآنی آیات اور مستند  احادیث کی مدد سے یہ ثابت کیا ہے کہ مردوں کی عورتوں پرنام نہاد برتری اور فضیلت اسلام یا قرآن کا تصور نہیں ، بلکہ مفسرین کےذہنی رویہ کا نتیجہ ہے ، جو مرد انہ اشاونیت (Chauvanism)کے شکار تھے۔ اس کتاب کی اشاعت نے آج سے 111سال پہلے ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیا تھا۔ کچھ نے اس کتاب کی سخت مخالفت کی لیکن بہت سے علما نے اس تصنیف کا خیر مقدم کیا اورکچھ نے خاموشی ہی میں بہتری سمجھی روز نامہ ‘‘صحافت’’ ممبئی اسے اس لئے سلسلہ وار شائع کررہا ہے کہ ایک صدی بعد بھی یہ تصنیف اور اس کے مضامین آج کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں، اس لئے بالکل نئے معلوم ہوتے ہیں۔ امید کی یہ مضامین بغور پڑھے جائیں گے اور اس عظیم الشان تصنیف کا شایان شان خیر مقدم کیا جائے گا۔۔۔۔۔ایڈیٹر

زبیر نے کہا کہ اللہ کی قسم تو اگر ان کے ساتھ سوار ہوجاتی تو یہ مجھ کو اس قدر شاق نہ گذر تا جس قدر تیرا اپنے سرپر بوجھ اٹھا کر لانا مجھے شاق گذرا ہے۔

اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ اسما جس طرح او ر لوگوں کے روبرو ہوتی تھیں اسی طرح اپنے جیٹھ پیغمبر خدا کے روبرو ہوتی تھیں انہوں نے کوئی فرق پردہ کے باب میں اپنے جیٹھ یعنی پیغمبر خدا اور غیر محرموں میں نہیں رکھا تھا ۔ نہ رسول خدانے کوئی اس قسم کا فرق ان کا بتلا یا تم اور غیرمحرموں کے روبرو تو ہوا کرو اور  ہمارے روبرو ہونا موت کے برابر خطرناک سمجھو ہاں وہی مزاجوں کے وہم سے کچھ بعید نہیں کہ وہ یہ کہیں کہ ممکن ہے کہ اس وقت اسما کے منہ پر برقع پڑا ہوا اور وہ گھوڑے کو چرا کر اور بوجھ سر پراٹھا کر برقع اوڑھے آرہی ہوں اور پیغمبر خدا نے محض بیرونی قرائن سے ان کو شناخت کرلیا ہو مگر ان وسوسوں کا علاج بجزلا حول پڑھنے کے اور کچھ نہیں یا زیادہ اطمینان چاہو تو اس حدیث کو ملاحظہ کرو جو صاحب  فتح القدیر نے نقل کی ہے اور جن کامضمون یہ ہے کہ ایک مرتبہ اسما نہایت مہین کپڑے پہن کر آپ کی خدمت میں آئیں آپ نے فرمایا کے اے اسما جب لڑکی بالغ ہوجائے تو اس کو سوائے ہاتھ او رچہرہ کے کوئی حصہ جسم کا غیر محرم لوگوں کے سامنے نہیں کھولنا چاہیے ۔پس کچھ شک نہیں کہ اولا اس حدیث کے وہ معنے ہیں جو اخیر میں بیان ہوئے اور ثانیاً اس حدیث میں جو ممانعت ہے وہ عورت کے پاس صرف تنہا ئی میں جانے کی ہے۔ محرم رشتہ داروں کی موجودگی میں کسی عورت کے پاس جانے ممانعت نہیں ہے۔

شبہ دوم: ام سلمہ کی حدیث سے جس کو اصحاب نے بیان کیا ہے ثابت ہوتا ہے کہ جناب پیغمبر خدا نے ام سلمہ کو عبداللہ  ابن مکتوم کے روبرو ہونے سے منع کیا حالانکہ وہ محض نابینا تھا اور فرمایا کہ وہ اندھا ہے تم اندھی نہیں ہو۔

جواب: اگر یہی بات ہے تو عورت کو مرد کے چہرہ پر نظر ڈالنی بالکل حرام ہوتی لیکن جب مستورات برقع یا چادر اوڑھ کر باہر نکلتی ہیں تو ان کی نظر اجنبی مردوں کے چہروں پر ضرور پڑتی ہے گومردان کو نہ دیکھ سکیں ۔پس وہ ہی اعتراض صحیح ہوتا تو ازواج مطہرات کی نسبت کیا کہا جائے گا جو عیدین میں آتی جاتی تھیں اور باہر اپنے حوائج ضروری کو نکلتی تھیں اور خانہ کعبہ کا طواف کرتی تھیں۔ کیا معاذ اللہ ان کا یہ فعل ناجائز تھا اور رسول خدا اس ناجائز فعل پرسکوت فرماتے تھے۔ ہر گز نہیں ۔ اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کے چونکہ عبداللہ ابن مکتوم نا بینا تھا ممکن ہے کہ اس کے لباس میں بلحاظ ستر عورت کوئی ایسا نقص ہو جس کی وجہ سے اس کا ام سلمہ کے روبرو ہونا نامناسب سمجھا گیا ہو۔ چنانچہ علامہ ابن حجرنے بخاری میں یہی لکھا ہے کہ عبداللہ ابن مکتوم کا کوئی جزوبدن ضرور کھلا ہوگا جس کی اس کو بوجہ نابینا ہونے کے خبر نہ ہوگی اور اجنبی لوگوں کے چہرے دیکھنے کے جواز کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ہمیشہ عمل یہ ہی رہا ہے کہ مستورات مساجد اور بازاروں اور سفر کو جاتی تھیں او رنقاب ڈال لیتی تھیں کہ مرد نہ دیکھیں مگر مردوں کو کبھی یہ حکم نہیں ہوا کہ وہ اپنے چہرے پرنقاب ڈالا کر یں کہ ان کو مستورات دیکھنے نہ پائیں ۔ اسی واسطے امام غزالی بھی اس جواز پر یہی حجت لائے ہیں او رکہا ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ عورت کو اجنبی مرد کے چہرہ کا دیکھنا ناجائز ہے۔

شبہ سوم یہ ہے کہ اچھا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ عورتوں کو گھر میں مقید رکھنے کا حکم شریعت میں نہیں ہے۔ الااگر احتیاطاً رفع فتنہ کے لئے ایسا کیا جائے تو کیا مضائقہ ہے اور اس حالت موجود میں انقلاب پیدا کرنے سے کیا منفعت متصور ہے؟

جواب: اس کے جواب میں ہم تین امور پیش کرتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ایسا کرنے سے ہم اس الزام کے مورد بنتے ہیں جو خدائے تعالیٰ نے یہودیوں پر قرآن مجید میں عائد کیا ہے کہ جس چیز کو ہم نے حلال کیا اس کو وہ حرام ٹھہرا تے ہیں اور جس چیز کو ہم نے حلال کیا اس کو وہ حرام بتلاتے ہیں۔ اگر یوں ہوتا کہ عورتیں احتیاطاً بہت کم نکلا کرتیں اور اپنے عزیز واقارب کے ہمراہ نکلتیں اور زیادہ تر گھروں میں رہتیں تو سمجھا جاتا کہ وہ احتیاطاً ایسا کرتی ہیں۔ یہ احتیاط نہیں کہلاتی کہ ایک حلال شے کو عملاً حرام قطعی سمجھ لیا جائے۔

دوسرا امر اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم لوگوں میں جو عورتیں بدکاری نے فرمایا ہے کہ تم لوگوں میں جو عورتیں بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر چار گواہ لاؤ ۔ پس اگروہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو مرتے دم تک گھر میں روکے رکھو۔

اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کا سخت پردہ جیسا کہ مسلمانوں میں آج کل رائج ہے خداوند تعالیٰ کے نزدیک صرف بدکار عورتوں کے لئے محض بطور سزا کے تجویز ہوا ہے۔ خداوند تعالیٰ ہر مسلمان کی بہو بیٹی کو ایسی سزا سے محفوظ رکھے۔

تیسرا جواب اس امر کا کہ حالت موجودہ میں انقلاب کرنے سے کیا فائدہ ہوگا یہ ہے کہ سیکڑوں بدیو ں اور خرابیوں کا دفعیہ ہوجائے گا ۔سوچنا چاہئے کہ جب کوئی شخص اپنی کسی رشتہ دار عورت کو دوسرے شخص سے چھپا تا ہے تو وہ کیا خیال ہے جو اس کو محرک اس پر وہ خلاف شرع کا ہوتا ہے ۔ ہماری دانست میں صرف دوخیال محرک اس امر کے ہوسکتے ہیں۔(جاری)

بشکریہ  روز نامہ صحافت ، ممبئی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/false-authority-men-women-part/d/2161


Loading..

Loading..