حقو ق النسواں مولوی ممتاز
علی کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1898میں لکھی گئی تھی۔
مولوی ممتاز علی علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کے ہمعصر تھے۔ حقوق النسواں
اسلام میں عورتوں کے حقو ق پہلی مستند تصنیف ہے۔ مولوی ممتاز علی نے نہایت مدلل طریقے
سے قرآنی آیات اور مستند احادیث کی مدد سے
یہ ثابت کیا ہے کہ مردوں کی عورتوں پرنام نہاد برتری اور فضیلت اسلام یا قرآن کا تصور
نہیں ، بلکہ مفسرین کےذہنی رویہ کا نتیجہ ہے ، جو مرد انہ اشاونیت (Chauvanism)کے شکار تھے۔ اس کتاب
کی اشاعت نے آج سے 111سال پہلے ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیا تھا۔ کچھ نے اس کتاب
کی سخت مخالفت کی لیکن بہت سے علما نے اس تصنیف کا خیر مقدم کیا اورکچھ نے خاموشی ہی
میں بہتری سمجھی روز نامہ ‘‘صحافت’’ ممبئی اسے اس لئے سلسلہ وار شائع کررہا ہے کہ ایک
صدی بعد بھی یہ تصنیف اور اس کے مضامین آج کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں، اس لئے بالکل
نئے معلوم ہوتے ہیں۔ امید کی یہ مضامین بغور پڑھے جائیں گے اور اس عظیم الشان تصنیف
کا شایان شان خیر مقدم کیا جائے گا۔۔۔۔۔ایڈیٹر
قرآن مجید کی صرف تین آیتیں
ہیں جو پردہ کے متعلق کہی جاسکتی ہیں۔ پہلی آیت سورہ نور کی ہے جس میں فرمایا ہے کہ
ایمانداروں کو کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں ذرا نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو محفوظ
رکھیں کہ اس میں ان کے لئے پاکیزگی ہے۔ اللہ کو ان کے ہر ایک کام کی خبرہے ۔ایماندار
عورتوں کو بھی کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھیں ذرا نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو
محفوظ رکھیں اور سوائے اس زنیت کے جو کھلی نظر آتی ہو اپنی اور کوئی زنیت نہ دکھاویں
اور اپنے گریبانوں پر اپنے دو پٹے ڈالے رکھیں
اور اپنی زینت کسی پر نہ کھولیں ۔مگر ہاں اپنے شوہر یا اپنے باپ یا ایسے مردوں پر جو
کمرے میں ہیں اور کچھ غرض نہیں رکھتے یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کے بھید نہیں پہچانتے
اور عورتوں کو اپنے پاؤں زور سے مار کر نہیں چلنا چاہئے تاکہ ان کا چھپا سنگار معلوم
ہو۔
پہلی آیت میں مردوں کو ہدایت
فرمائی ہے کہ وہ اپنی نظر ذرانیچی رکھیں اور پاکبازی اختیار کریں۔ دوسری آیت میں انہیں
الفاظ میں وہ ہی حکم اسی قدر نظر نیچی رکھنے اور پاکبازی کا عورتوں کو دیا گیا ہے۔
یہاں تک تو جس قدر حکم شرم وحیا و پاکبازی کا عورتوں کو دیا گیا ہے اتنا ہی مردوں کو
دیا گیا ہے ۔کوئی خاص پردہ عورتوں کے واسطے تجویز نہیں کیا گیا۔ لیکن چونکہ عورتوں
میں شرم وحیا مردوں کی نسبت زیادہ ہے اس لئے اسی زیادتی کے موجب اس شرم و حیا کو عمل
میں لانے کا حکم دیا گیا اور وہ یہ ہے کہ عورتوں کی حرکات ایسی نہیں ہونی چاہئے کہ
ان کی زینت یا آرائش جو دوسرے آدمی کو بظاہر ہر نظر نہیں آتی ان حرکات سے اس پوشیدہ
زینت کی نمائش ہو۔ عرب کی عورتیں اپنے گریباں کھلے رکھتی تھیں اور چاک گریباں سے سینہ
نظر آتا رہتا تھا جو موجب سخت بے حیائی کا تھا۔ اس بے حیائی کو روکنے کے لئے گریبانوں
پر دوپٹہ ڈالنے یعنی ان کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اس قسم کی نمائش
صرف شوہر یا باپ یاد یگر محرم رشتہ دار یا
نوکر چاکر یا کم عمر بچوں کے روبرو جائز ہے ۔ اس حکم میں جو بالتخصیص عورتوں کے لئے
ہے۔ دوا مور قابل غور ہیں اول یہ کہ شوہر ودیگر محارم کے سوا اور کسی کو پوشیدہ حسن
یا زیب وزینت کھول کر دکھانی ممنوع ہے ۔ البتہ جس قدر خونی بخود ظاہر نظر آتی ہو اس
کا نظر آنا ہر شخص کے روبرو جائز ہے۔ دوم یہ کہ گھر وں میں چونکہ اس قسم کی تکلیف
درستی لباس کا ہر وقت قائم نہیں رہ سکتا جیسا باہر نکلنے میں کیا جاتا ہے اس لئے نوکر
چاکر وں کے روبرو بھی یہ تکلیف کی سخت پابندی معاف ہے ۔ دوسری آیت سورہ احزاب کی ہے
جس میں عورتوں کو فرمایا کہ تم اپنے گھروں ٹھہرو اور جس طرح ایام جاہلیت میں دکھاتے
پھرنے کا دستور تھا اس طرح مت دکھاتی پھرو ۔ اس آیت میں صرف زمانہ جاہلیت کی بے حیائی
و بے شرمی کو کہ عورتیں سنگار کر کے اکھاڑوں میں جاتیں اور بے حیائی کے اشعار پڑھتیں
منع فرمایا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ گھر میں ٹھہر نے کا جو ذکر ہے وہ اس آوارہ گردی
زمانہ جاہلیت کے مقابلہ میں ہے اس کا یہ منشا ہر گز نہیں کہ جائز ضرورتوں کے لئے بھی
گھر سے نکلنا ممنوع ہے بے شک شریف حیا دار عورتوں کو ایسے ناپاک میلوں میں ہرگز نہیں
جانا چاہئے بلکہ اپنے گھر ٹھہرنا چاہئے ۔ اس آیت میں صرف ایام جاہلیت کی آوارگی کو
روکا گیا پردہ سے آیت کا بالکل تعلق نہیں ہے۔ اس آیت سے یہ نہیں نکلتا ہے کہ ایام
جاہلیت کی سی نمائش کے بغیر او رنہایت شریفانہ طور پر ضرورتاً عورت کا باہر نکلنا ممنوع
ہے۔
نہ یہ ہے کہ غیر محارم رشتہ
داروں کا گھروں میں آنا اور عورت کا ان کے روبرو ہونا ممنوع ہےاور ان دونوں امور کا
جواز سورہ نور کی آیت مذکورہ بالا سے ثابت ہے۔ بڑا قطعی ثبوت اس امر کا کہ اس آیت کو پردہ سے کچھ تعلق نہیں ہے یہ ہے کہ
رسول خدا کے اخیر عہد تک ازواج مطہرات اپنے حوائج اور نماز اور عیدین کے لئے برابر
باہر پھرا کرتی تھیں۔ اگر گھر میں ٹھہر نے کا حکم دینے سے ہر دم او رہر آن گھر میں
ٹھہرنا ضروری ہوتا اور حوائج ضروری کےلئے باہر جانا جائز نہ ہوتا تو ازواج مطہرات باہر
کیوں ۔حضرت عائشہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرنے سودہ بنت زمعہ کو باہر
پھرتے دیکھ لیا تھا اور اس طرح پھرنے پر اعتراض کیا وہ جناب رسول خدا کے پاس واپس آئیں
اور حال عرض کیا ۔ آپ اس وقت حضرت عائشہ کے حجرہ میں کھانا کھارہے تھے۔ آپ نے فرمایا
کہ اللہ نے اجازت دی ہے کہ تم اپنے ضروری کاروبار کے لئے باہر نکلا کرو۔
اذن اللہ لکن ان تخرجن لحو
ائجکن ۔علی ہذٰا قیاس آنحضرت صلعم کے حضرت عائشہ کو حبشی بازیگر وں کے تماشا دیکھلانے
کا قصہ مشہور ہے اور کتب حدیث میں درج ہے گو اس کی نسبت امام نودی نے یہ لکھا ہے کہ
اس وقت حضرت عائشہ صغیر سنی تھیں اور بلوغت کو نہ پہنچی تھیں اور نہ تب تک پردہ حکم
نازل ہوا تھا۔ مگر یقیناً امام صاحب کا یہ خیال صحیح نہیں ہے یہ واقعہ مدینہ میں وفد
حبشہ کے پہنچنے کے بعد کا ہے۔ اور وفدحبشہ کے پہنچنے کا زمانہ ارباب سیر نے 07ہجری
لکھا ہے۔ مگر 07ہجری میں حضرت عائشہ کی عمر سولہ سال سے متجاوز تھی اور اس وقت آیت
حجاب نازل ہوچکی تھی۔
یہاں یہ بات بھی بیان کرنی
ضرور ہے کہ یہ آیت عورت عام اہل اسلام (جاری)
بشکریہ :۔ روز نامہ صحافت
، ممبئی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/false-authority-men-women-part-17/d/2122