مولوی ممتاز علی کی مائینہ
ناز تصنیف‘‘حقوق النسواں’’
مگر کیا ان مضمونو ں کی کتابوں
کے پڑھانے کی مخالفت ہم اس وجہ سے کرتے ہیں کہ عورتوں کے مزاج میں کوئی ایسی خصوصیت
ہے جو اس تعلیم کی منافی ہے۔ نہیں یہ بھی نہیں بلکہ ہم ان کتابوں کا پڑھانا صرف اس
نظرسے ناپسند کرتے ہیں کہ جن اغراض کے لئے ہم عورتوں کی تعلیم ضروری سمجھتے ہیں ان
اغراض کے لئے ان کتابوں کا فی الحال پڑھانا چنداں مفید نہیں ہے۔ عورتوں کی تعلیم کی
ضرورت کے لئے کوئی تو یہ دلیل لاتا ہے کہ تعلیم پاکر وہ اپنے پرائے کے حقوق سے بخوبی
آگاہ ہوجائیں گی۔ کوئی کہتا ہے کہ خانہ داری نہایت سلیقہ سے کرنے لگیں گی۔ کوئی فرماتے
ہیں کہ بے علم نتواں خداراشناخت ۔ یہ سب دلائل صحیح ہیں مگر اصلی امری یہ ہے کہ یہ
سب خوش کرنے کی باتیں اور دلائل کی تعداد بڑھانے کا حیلہ ہے ۔ موجودہ تمدنی حالت میں
عورت باوجود اپنی جہالت کے جملہ حقوق سے آگاہ۔ خانہ داری میں نہایت سگھڑ اور طاعت
وعبادت الہٰی کی شائق پائی جاتی ہیں۔ بے شک یہ صحیح ہےکہ بے علم معرفت الہٰی ممکن نہیں
ہے مگر جس علم سے یہ بات حاصل ہوتی ہے وہ اور علم ہے۔ مرات العروس اور زبد ۃ الحساب
سے عرفان الہٰی میں کسی درجہ کے حاصل کرنے کی امید رکھنا خیال بے ہودہ ہے۔ کتابیں لکھنے
والے اور تقریریں کرنے والے عورتوں کی تعلیم کے فرضی اور خیالی فائدے کچھ ہی بتایا
کریں اور وہ کسی حد تک صحیح بھی ہوں مگر جہاں تک ہم کو لوگوں کے مزاج شناسی کا تجربہ
ہوا ہے اس کے رو سے کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کو تعلیم دینا زیادہ تر اس غرض سے ہے کہ
ان کی صحبت باعث مسرت اور ان کی ہمکلامی دلچسپ او رموجب تفریح و انشراح خاطر ہو۔ اگر
چہ الفت و محبت کا مدار تعلیم یافتہ بے تعلیم ہونے پر نہیں لیکن الفت دلی اور خلوص
قلبی کا اظہار اور ان اصول کو ترقی دینا جو سچے انس اور محبت کے سرچشمے ہیں جیسا تعلیم
یافتہ بیوی سے ہوسکتا ہے وہ ناخواندہ سے نہیں ہوسکتا۔
ہم لوگوں میں پردہ کے تشدد
نے مستورات کی تحریرات کو بھی پردہ میں بٹھا دیا ہے افسوس ہمیں اپنے دوستوں سے کوئی
خط ایسا نہیں ملا جو کسی تعلیم یافتہ اہلیہ نے اپنے شوہر کی یاد میں لکھا ہو لاچار
ایک غیر قوم کی تعلیم یافتہ عورت کا ایک خط ہدیہ ناظرین کو کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک عورت
کے خط کا اردو ترجمہ ہے جو اپنے شوہر کے فراق میں ایسی بے تاب ہوگئی تھی کہ اس نے اس
بیچارگی میں اپنے وقت کے مشہور اہل دل حکیم
کی طرف رجوع کیا اور اپنا حال لکھ کر اپنے دود کا علاج چاہا۔
خط:۔
جناب من۔ آپ نے اپنی تحریرات
میں محبت کی سخت مصیبتوں کی کیفیت بیان کی ہے۔ لیکن مجھے یاد نہیں کبھی آپ نے کوئی
ایسی تدبیر بھی لکھی ہے جس پر عمل کرنے سے وداع احباب کی تکلیف میں صبر آجائے اور
اپنے عزیز رفیق سے بچھڑتے وقت دل کم حوصلہ سنبھل جاوے ۔ اس وقت یہ دلفگار اسی رنج ومحن
میں گرفتار ہے۔ میرا عزیز شوہر چند سال کے لئے خدمت ملکی پر مامور ہوکر گیا ہے۔ اس
کے ساتھ رہنے کی محبت اور اس کے درد انگیز وداعی کلمات نے مجھ میں کچھ تاب و تواں نہیں
چھوڑی رات دن کا کوئی لحظ ایسا نہیں گذتا جب میں اس کے تصور میں محونہ پائی جاؤں جس
شے پرمیری نظر پڑتی ہے اسی کی یاد دلاتی ہے میں بہ نسبت معمول کے اس کی اولاد اور اس
کے مال و اسباب کی اب زیادہ خبر گیری کرتی ہوں۔ اور ان شغلوں میں دل بہلا تی ہوں مگر
یہ شغل بجائے تسلی دینے کے اور زیادہ بے چین کرتے ہیں اور ان کو یاد دلاتے ہیں ۔ میں
بار باران کمروں میں جاتی ہو ں جہاں بیٹھ کر اس سے باتیں کیا کرتی تھی۔ لیکن جب اس
کو نہیں پاتی تو اس کی کرسی پر بیٹھ کر بے اختیار روتی ہوں میں ان کتابوں کو پڑھتی
ہوں جن کو وہ شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ اور ان
لوگوں سے باتیں کرتی ہوں جن کی وہ قدر کیا کرتا تھا۔ دن میں سوسومرتبہ اس کی تصویر
کو دیکھتی ہوں او رگھنٹوں اس کی تصویر کے روبرو تصویر بنی بیٹھی رہتی ہوں کبھی میں
ان روشوں پر ٹہلتی ہوں جہاں اس کے بازو سے لگ کر ٹہلا کرتی تھی اور ان گفتگو ؤں کو
یاد کرتی ہوں جو ہم آپس میں کیا کرتے تھے۔ ان میدانوں اور چیزوں کو دیکھتی رہتی ہوں
جو کبھی ہم دونوں دیکھا کرتے تھے ۔ اور ان اشیا پرنظرجمائے رکھتی ہوں جن کو وہ دکھلا
تا تھا اور وہ ہزاروں باتیں دل میں گذرتی ہیں جو اس نے ان چیزوں کی نسبت ان موقعوں
پر بتائی تھیں۔ لوگ شرقی ہوا سے ڈرتے ہیں کہ اس سےسردی زیادہ ہوتی ہے مگر میرے وہ باد
صبا ہے جو میرے رفیق کی خبر لاتی ہے کیو نکہ جس روز وہ ہوا چلتی ہے اس روز غالباً اس
کا خط آتا ہے جناب من آپ سے اس عاجز کی یہ التماس ہے کہ اس حالت میں کوئی ایسی تدبیر
بتلائیے کہ کسی طرح اس دل غم دیدہ کو اس فراق میں کچھ تسکین ہو۔ فقط
جن شریف خاندانوں کے نوجوانوں
کالجوں اور اسکولوں میں تعلیم پاتے ہیں ۔ علمی مجالس سے انس رکھتے ہیں۔ تعلیم یافتہ
لائق اشخاص کی تقریریں سننا اور ان کی صحبت کا لطف اٹھانا پسند کرتے ہیں اور خالی اوقات
میں مفید کتابوں اور اخباروں کا پڑھنا او رلکھنا ان کا شغل ہے کیا اگر ان کو اپنی ماؤں
او ر بہنوں کی صحبت میں بھی اپنے علمی مذاق کی گفتگو کرنے اور سننے کا موقع ملے تو
یہ کیا یہ خوش صحبتی ان کی خوشی کو دوبالا نہ کریں گی۔ ہم نے مانا کہ لڑکیاں تعلیم
پاکر ایسی لائق نہیں بن جاوے گی کہ ان کے بھائی یا ان کے دوسرے عزیز اقارب لڑکے ان
کی ہم کلامی سے کوئی فائدہ علمی حاصل کرسکیں۔ ایک انٹرنس یا بی اے پاس کردہ طالب علم
اپنی بہن سے جس نے مرات العروس اور مجالس النسا اور اسی قسم کے اور چند رسائل اردو
یا فارسی میں گلستاں بوستاں بھی پڑھی ہوئی ہو کیا۔علمی گفتگو سننے اور مذاق علمی پورا
کرنے کی توقع رکھ سکتا ہے مگر یہ ایک غلطی ہے جو سمجھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ اشخاص کی صحبت صرف استفادہ علمی
کی غرض سےپسند کی جاتی ہے۔ نہیں اس کی پسندیدگی
کی وجہ وہ مجانست ہے جو دوپڑھے ہوئے آدمیوں میں بانطبع ہوتی ہے ۔ دوآدمی گو درجہ
علمیت میں نہایت فرق بعید رکھتے ہوں مگر وہ فرق اس فرق سے بہت کم ہے جو عالم اور جاہل
محض میں ہوتا ہے۔
ایک یونیور سٹی کا سند یا
فتہ ریل میں سوار ہوتا ہے اور اپنے درجہ میں تین چار اور شخصوں کو پاتا ہے جن میں تین
بے علم مہاجن ہیں اور ایک مڈل کلاس کا طالب علم۔(جاری)
بشکریہ :۔ روز نامہ صحافت
،ممبئی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/false-authority-men-women-part/d/2106