مولوی ممتاز علی کی مائیہ
ناز تصنیف ‘‘حقوق النسواں ’’
قویٰ اخلاقی میں تو یقیناً
عورتوں کا پلہ ہی بھاری ہے ۔شرم وحیا وعفت جس قدر عورت کی سرشت میں دیکھو گے اس قدر
کیا اس کا عشر عشیر بھی مردوں میں نہیں ہے۔ منشی عنایت اللہ لاہو ر کی بہار دانش میں
جتنے ناپاک قصے عورتوں کی مدرویگی اور بیوفائی کے ہیں ان میں سے ہر ایک قصہ میں سب
سے زیادہ نمایاں بدچلنی اوربدمعاشی کسی نہ کسی مرد کی پائی جاتی ہے جو اپنی عیارانہ
چالوں سے شیطان مجسم بن کر باعث خلل اندازی عفت عورت ہوا ہے ۔ درحقیقت ان حکایات سے
عورتوں کی نسبت زیادہ تر مردوں کی ہی بدچلنی ثابت ہوتی ہے ۔بعض حضرات عورتوں کے خلاف
اس قدر سخت تعصب رکھتے ہیں کہ اگر وہ اپنے شوہر کی موت کے بعد نکاح ثانی بھی کرلیتی
ہیں تو اس مثال کے بطور حکایت بیوفائی پیش کرتے ہیں ۔ وہ خود برخلاف حکم خدا ورسول
متعدد نکا ح کرتے ہیں ۔ کسی جورو کے حق میں اپنا فرضی عدل بھی پورا نہیں کرتے اور بیوی
کے مرتے ہی دوسری شادی کرتے ہیں اور اس شادی سے جو آفات پہلی بیوی کی اولاد پر پڑیں
گی ان کے ا بھی مطلق خیال نہیں کرتے پھر بھی بے وفا نہیں ٹھہرتے اور غریبی بے کس بیوہ
جو خدا و رسول کے حکم کی تعمیل میں اور اکثر حالات میں قوت لایموت سے عاجز آکر نکاح
جائز کرتی ہے وہ بے وفا کہلا کر ہدف تیر امت بنتی ہے ۔اگر نکاح ثانی علامت بیوفائی
ہے تو کیا وجہ ہے کہ مردوں کو سب سے زیادہ بے وفا اور دغا باز نہ کہا جاوے جو محض بندہ
نفس بن کر شادی پر شادی کرتے اور شریعت الہی کو توڑ تے اور اولاد کے حق میں کانٹے بوتےہیں
عورتوں کوبے وفا کہنے پر مردوں کو اللہ شرمانا چاہئے ۔ مسلمانوں میں نہ سہی تو نہ سہی
۔ہندوؤں کی قوم کی عورتیں بھی آخر عورتیں ہیں جو اپنی نے مثل وفاداری اور جاں نثاری
میں ہمیشہ سرخرو رہیں گی ۔ستی کی رسم کیسی ہی مذموم کیوں نہ ہوں۔ مگر اس کی اصلیت پر
غور کرو اور ایمان سے کہو کہ دنیا میں کسی قوم کسی ملت کسی مذہب میں کوئی مردوں کا
بھی ایسا وفادار گروہ دیکھایا سنا گیا ہے جو بیویوں پر اپنی جان اس طرح نثار کرتا ہوں
جس طرح عورتوں کی نوع اپنے پیارے شوہروں پر پروانہ وار جان دیتی ہے ۔مرزا صائب کہتا
ہے درمحبت چوں زن ہندو کسے مردانہ نیست۔ سوختن برشمع مردہ کا رہر پرانہ نیست۔
ان سب امور کے سوا جن میں
سے متعدد فضیلت عورت ثابت کرتے ہیں یہ بات بھی کچھ کم قابل بیان نہیں ہے۔ کہ گو اللہ
تعالیٰ کوئی صورت شکل نہیں رکھتا مگر اس پر سب اہل مذاہب جمیل کا اطلاق کرتے ہیں۔ اور
سب مسلمان اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ جمیل و یحب الجمال یعنی اللہ تعالیٰ صاحب جمال
ہے اور وہ خوبصورتوں کو دوست رکھتا ہے اس میں کیا شک ہے کہ اس نے اپنے جمال جہاں آرا
سے زیادہ تر حصہ عورتوں کو دیا ہے اور ہرقوم او رہر ملک میں مردوں کی نسبت عورتوں میں
حسن زیادہ پایا جاتا ہے ۔ یہ شان محبوبیت جو خدائے تعالیٰ نے اپنی شان کبریائی اور
نور محمدی کا نمونہ بنایا ہے عورتوں میں پائی جانی ان کی عزت و توقیر کا کافی خیال
دلاتی ہے۔ اور وہ اپنی بے مثل مسخر کنندہ طاقت میں دنیا کی تمام طاقتوں اور مردوں کی
قوتوں کو برگ کاہ سمجھتی ہیں۔ کس کو معلوم نہیں کہ جو فولاد دل کسی دنیا کی مصیبت یا
آفت سے نہ جھکتے تھے اور تیغ وتبر کیے کوچوں کو پھول کی چھڑیاں سمجھتے تھے انہیں ایک
نگاہ مست نے بے حواس کر ڈالا ۔ دنیا میں اس زور کی کون سی قوت برتی ہے جس کی ایک چنگاری
کا آتشیں اثر بہاروں کے خرمن ہوش اورعابد کی ریاضت صد سالہ کے جلانے کو کافی ہے۔ ایک
نگاہ ناز نے ہزاروں عابدوں کے زہد کو ڈبویا ہے اور بڑے بڑے پرہیز گار وں سے اپنے در
پر جبہ سائی کروائی ہے۔ غرض حسن کے مسمر یزم نے کسی کو مجنوں دار دیوانہ صحرانو ربنایا
۔کسی کو فرہاد صفت کوہ کن ٹھہرایا کیا کوئی انکار کرسکتا ہے کہ یہ شان محبوبیت اس معشوق
حقیقی کے حسن وجہاں افروز کا جزو نہیں ہے کیا یہ ذرہ اسی آفتاب عالم تاب کا نہیں ہے
جس نے جہاں کو منور کیا ہے؟ کیا عورتیں مستحق نہیں ہیں کہ فخر سے کہیں ۔گرچہ خوردیم
نسبتے سب بزرگ ۔ذرا آفتاب تا نانیم ؟
تعلیم:۔
اب وہ زمانہ نہیں رہا جب کہ
عورتوں کی تعلیم ایک نامانوس آواز معلوم ہوتی تھی ۔ اور سینا اور پکانا اور کاتنا
عورتوں کے طبعی فرائض سمجھے جاتے تھے ۔ لوگوں نے مانا یا نہ مانا مگر زمانہ نے عورتوں
کو پڑھانا شروع ہی کردیا۔ اس لئے اب وہ مرحلہ کہ عورتوں کو تعلیم دینی چاہئے یا نہیں
طے ہوگیا۔ بچوں کی نیک تربیت امورات خانہ داری کا حسن انتظام ۔حقوق اللہ اور حقوق عباد
کی معرفت اور تعلیم یافتہ شوہروں بھائیوں باپو کی نگاہوں میں مقبولیت ۔غمگین دل کی
خوشی۔ تنہائی میں رفیع مونس کی رفاقت ان سب ترغیبات یا شاید تعلیم پسند زمانہ کی محض
تقلید نے سب رسم ورواج کی بندشوں اور دستور قدیم کی بیڑیوں اور تلقین عادات کی قید
وں کو جھٹکے مار کر توڑ ڈالا ہے اور تھوڑا بہت چرچا تعلیم کا ادنیٰ اعلیٰ ہر طبقہ کی
عورتوں میں ہوگیا ہے ۔ گو کسی طبقہ میں مرات العروس وتوبتہ النصوح پسند کی جاتی ہیں
اور کسی طبقہ میں کنز المصلیٰ یا راہ نجات یا بعد حمد کافی سمجھی جاتی ہے ۔ او رکوئی
قرآن مجید یا پنج سورہ پر قناعت کرتے ہیں۔ اگر یہی رفتار زمانہ چلی جاوے تو جلد وہ
زمانہ آجائے گا کہ کسی تعلیم یافتہ شوہر کو ناخواندہ بیوی رکھنی پسند نہ آئیں گی۔
لوگ کچھ بھی کرے زمانہ ان سب مختلف خلائق کو ایک خاص درجہ تہذیب وشائشگی پر ضرور پہنچا
کررہے گا۔ خواہ یہ لوگ گرتے پڑتے خراب ہوتے سخت منزلیں طے کر منزل مقصود کو پہنچیں
خواہ سیدھی مختصر آرام کی راہ سے۔
ہم اس مختصر تحریر میں یہ
بات فرض کر کے کہ عورتوں کی تعلیم کی ضرورت سب کے نزدیک مسلم ہے صرف اس بات پر کچھ
لکھنا چاہتے ہیں کہ یہ تعلیم کس حدتک ہونی چاہئے اور اس کی کیا وجوہات ہیں۔عورتوں کی
تعلیم کی ضرورت خواہ کسی فائدہ دینی یا دنیاوی کی امید پر تسلیم کی گئی ہو ہماری رائے میں جو امر ان کی تعلیم کو مردوں
کی تعلیم کی برابر ضروری ثابت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ان میں خدائے تعالیٰ نے وہ سب قویٰ
دماغی کو بیکار کرنا اور اس حکیم صانع کی سنت کولغو ٹھہرانا ہے۔
جب عورتوں کی تعلیم کی ضرورت ان
کے قویٰ دمغی کی موجودگی پر مبنی ہے تو اس کی حد بھی ان قویٰ کیے حد استعداد واندازہ
قابلیت سے مقرر کی جاسکتی ہے۔ (جاری)
بشکریہ :۔ روز نامہ صحافت
،ممبئی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/false-authority-men-women-part-10/d/2095