New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 09:30 PM

Urdu Section ( 21 Oct 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Proposed Central Madrasa Board: Need To Seriously Think مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ سنجیدہ وغور وفکر کی ضرورت

مولانا یٰسین اختر مصباحی

ہندوستان کے متعدد وصوبو ں میں کئی مدرسہ بورڈ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد سے قائم ہیں۔ جن کے ملحقہ ہزاروں مدارس تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ابھی چند سال پہلے مدھیہ پردیش راجستھان میں یہ بورڈ قائم ہوا ہے۔ بہار وبنگال میں بھی ایک عرصہ سے مدرسہ بورڈ قائم ہے جس کے بعض ملحقہ مدارس میں تعلیمی متاثر ہونے کی بات کہی جاتی ہے جس میں ایک حد تک صداقت بھی ہے لیکن وہاں کے غیر ملحقہ مدارس بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ تعلیم کی طرح زندگی کے بہت سے شعبوں میں پیدا ہونے والے زوال و انحطاط کے اندر حالات زمانہ کا بھی اثر ہے، جس سے خودمسلم معاشرہ بھی دوچار ہے۔ بہار کے انہیں ملحقہ مدارس کے طلبہ اتر پردیش کے مدارس میں اتنی بڑی تعداد میں پڑھتے ہیں کے مغربی ومشرقی یوپی کے ہر مسلک کے ملحقہ وغیر ملحقہ دارالعلوم میں ان کی تعداد پچاس فیصد سے زیادہ ہوتی ہے۔ کسی بھی صوبہ میں حکومتی مداخلت کا کوئی قابل ذکر حادثہ کسی بھی مدرسے میں کبھی نہیں سنا گیا ۔ جب کے صوبہ ومرکز میں ہر طرح کی حکومتیں آتی جاری رہتی ہیں ۔مجوزہ ومرکزی مدرسہ بورڈ کے پیچھے اگر خدانخواستہ کوئی اسلام دشمن سازش کارفرما ہے تو دنیا اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہے کہ صدیوں کی اسلام دشمنی وعلما دشمنی کے باوجود اپنے وقت کی سپر پاوربرطانوی حکومت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور اس کا آفتاب قبل ڈوبا تو اپنے مخصوص برطانوی دائرے میں سمٹ کررہ گیا ۔ روس نے جو کچھ کیا اس کا انجام سب کے سامنے ہے اور کچھ دنوں بعد انشا اللہ امریکہ کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔ اتر پردیش صدیوں سے دینی تعلیم کا مرکز ہے۔ آج بھی ہر مسلک کے مرکزی مدارس اتر پردیش ہی میں ہیں۔ یہاں مسلک کے سیکڑوں مدارس ‘‘امتحانات عربی و فارسی بورڈ اتر پردیش’’ جیسے آزادی سے بہت پہلے انگریزوں نے قائم کیا تھا اس سے ملحق ہیں اور بورڈ کے نصاب پر مشتمل درجات عالم وفاضل کا امتحان ان کے طلبہ دے کر بورڈ کی سند حاصل کرتے ہیں۔اور بورڈ سے منظور شدہ مدرسین کوبذریعہ بینک تنخواہ ملتی ہے ۔ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ غیر ملحق مدارس کے بہت سے مدرسین کی قلت تنخواہ بھی بہت سی برائیوں اور خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق علی اشرف فاطمی ،سابق وزیر مملکت فروغ انسانی وسائل ،حکومت ہند کی پیش کردہ تجویز برائے تشکیل ‘‘مرکزی مدرسہ بورڈ’’ کے سلسلے میں جو کام شروع ہوا تھا،اس ‘مجوزہ بورڈ’ کے مسو دہ پرمسلم ممبران پارلیمنٹ اس وقت نظر ثانی کررہے ہیں۔ ترمیم واصلاح ودیگر ضروری کارروائیوں کے بعد اگر بورڈ کا بل پارلیمنٹ میں پیش اور ممبران پارلیمنٹ کے بحث ومباحثہ کے بعد پاس ہوجاتا ہے تو یہ بورڈ سی بی ایس سی کے مساوی ایک نصاب تیار کرے گا جس کا امتحان دے کر مدارس کے طلبہ ہائی اسکول اور انٹر کے مساوی سند حاصل کرسکیں گے ۔ ایسا ہی سلسلہ مدتوں سے اتر پردیش میں جاری ہے‘‘عربی وفارسی بورڈ’’ کے تیار کردہ نصاب کے مطابق مدارس کے طلبہ عالم وفاضل کا امتحان دیتے ہیں او رکامیاب طلبہ ا س کی سند حاصل کرتے ہیں۔ جس سے ان کے اپنے نصاب تعلیم میں کوئی خلل اورخنہ واقع نہیں ہوتا ۔ ‘‘مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ ’’ سے متعلق مرکزی حکومت کی طرف سے پیش کردہ مسودہ جو بحالت موجودہ ناقابل قبول ہے، اس مسودہ میں مناسب و اطمینان بخش ترمیم و اصلاح اور مدارس کے تعلیمی نصاب ونظام وانتظامی ودفتری امور میں عدم مداخلت کی قانونی یقین دہانی (بذریعہ پارلیمنٹ ایکٹ) کے بعد مجوزہ مرکزی بورڈ سے اپنی مرضی وصواب دید کے مطابق جو مدارس الحاق کرانا چاہیں وہ الحاق کراسکتے ہیں اور جب چاہیں وہ اپنا الحاق ختم کراسکتے ہیں۔

البتہ درجہ فضیلت تک کی تعلیم دینے اور دورۂ حدیث کے بعد دستار بندی کرنے والے مدارس اگر اپنے قدیم انداز سے کام کرتے رہیں تو بہتر ہے اور اپنے طلبہ کو سی بی ایس ای کا امتحان دلانے کے لیے اپنی شاخوں اور زیر اثر مدارس سے کام لے سکتے ہیں ۔غیر ملحقہ مدارس بھی اپنے طلبہ کو ملحقہ دہانی ضروری ہے:(1)مدارس کا الحاق ان کی اپنی صوابدید پر منحصر ہوگا کہ وہ بورڈ سے الحاق کریں یا نہ کریں اور الحاق کے بعد اگر کوئی ملحق مدرسہ اپنا الحاق کسی وجہ سے باقی اور جاری رکھنا مناسب نہ سمجھے تو اسے کوئی وجہ بتائے بغیر بھی اپنا الحاق ختم کرنے کا پورا اختیار ہوگا۔ (2)ملحقہ مدارس کے دینی وعلمی اور تبلیغی وروحانی مزاج ومفاد کے خلاف مجوزہ بورڈ کی جانب سے نہ کوئی حکم جاری ہوسکتا ہے نہ کسی قسم کی مداخلت کی جاسکتی ہے (3)اپنے مدارس کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کی ترتیب واصلاح اور ترمیم کا حق ضرور ملحقہ مدارس کو ہوگا۔ اپنے نصاب کے اندر نگریزی وہندی کمیپوٹر وغیرہ کی تعلیم وترتیب کی حد اور مقدار ملحق مدارس ہی طے کریں گے اور ہر ملحقہ مدرسہ کی مجلس انتظامی ہی اپنے مدرسہ پر ہر طرح کا کنٹرو ل رکھے گی۔(4)ملحقہ مدارس کے داخلی معاملات ،ان کی زمین جائداد ،ان کی مدرسین وملازمین ، ان کے نصاب ونظام ،ان کے حساب وکتاب وغیرہ اور ان مدارس کے کسی بھی باہمی تنازع کی شکل میں مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ کی طرف سے کوئی عملی اور قانونی مداخلت نہیں ہوگی۔(5)مجوزہ بورڈ اگرکوئی مدرس وملازم اپنے کسی ملحقہ مدرسہ کو دینے کی ذمہ داری لے گا تو بورڈ کے تعلیمی وتربیتی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لیے کسی مناسب مدرس وملازم کے انتخاب وتقرری کا اختیار ملحقہ مدرسہ کو ہی ہوگا۔(6)متعدد صوبائی حکومتوں کی طرف سے ملحقہ مدارس کے جاری نظام تنخواہ ،گرانٹ اور دیگر معاملات میں مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ مداخلت کرے گا نہ ان میں کوئی رکاوٹ ڈالے گا۔

 موجودہ حالات میں اس کا بھی قومی امکان ہے کہ حکومت کے بعض وزرا وحکام ان مجوزہ بورڈ کے سلسلے میں علما ودانشوران ملت کے اختلاف رائے کو بہانہ بنا کر مجو زہ بورڈ کی پوری فائل ہی کو سرد خانے میں ڈالنے کی کوشش کریں تاکہ مدارس کے طلبہ ہائی اسکول وانٹر کے مساوی کوئی سندنہ پاسکیں اور اس بورڈ کے ذریعہ مدارس کو کسی قسم کی مالی امداد نہ مل سکے ۔ جب اس کے برعکس بے شمار غیر مسلم ادارے اور تنظیمیں ہر سال کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے تعلیم کے نام پر مر کزی حکومت سے وصول کررہی ہیں۔ حکومت ہند کا فرض ہے کہ مسلم علاقوں میں اسکول وکالج قائم کرنے پر توجہ دے اور پرائیویٹ مسلم اسکول وکالج کے قیام اور ان کی منظوری کے معاملے میں بھی انصاف اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرے۔ اسی طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ اسلامیہ نئی دہلی کے اقلیتی کردار میں کسی قسم کی رخنہ اندازی نہ ہونے دے اور مسلمانان ہند کی تجارتی وملازمت کی راہ میں ضروری حد تک آسانیاں فراہم کرے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہے تو اس تبصرہ وتجزیہ کے تسلسل میں آئندہ اضافہ ہی ہوتا رہے کہ ‘‘مسلمانوں کے تعلق سےکانگریس کا ہر کام بدنیتی سے شروع ہوتا ہے اور نامرادی پر ختم ہوجاتا ہے۔’’

https://newageislam.com/urdu-section/the-proposed-central-madrasa-board/d/1967


Loading..

Loading..