جمعیۃ علما ہند کے ماضی اور
حال پر مولانا ندیم الواجدی کا تبصرہ
دیوبند کی سرزمین جمعیۃ علما
ہند کے اجلاس عام میں شرکت کرنے والے مہمانوں کے لئے پلکیں بچھائے سراپا انتظار بنی
ہوئی ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ جمعیۃ کا کوئی اجلاس اتنے وسیع پیمانے پر دیوبند میں منعقد
ہوگا، اگرچہ دیوبند بڑی مختصر جگہ ہے مگر اس میں پھیلنے کی بڑی گنجائش ہے ، دارالعلوم
دیوبند کے صد سالہ اجلاس منعقد ہ 1980میں یہ تجربہ ہوچکا ہے جب لاکھوں لو گوں کا سیلاب
اس قصبے کی وادیوں میں ٹھہرا تھا، آج پھر اس اجلاس میں لاکھوں لوگوں کی آمد کی نوید
ہے۔
آج کی نسل نہیں جانتی کہ جمعیۃ
علما کیا ہے اور دیوبند سے اس کا رشتہ کیا ہے، اس کے اغراض ومقاصد کیا ہیں اور اس نے
ہندوستان کےمسلمانوں کے لیے وہ کون سی خدمات انجام دی ہیں کہ آج قیادت ماضی کے اس اثاثے
کو سینے سےلگائے آگے بڑھ رہی ہے؟اس ملک میں اور بھی جماعتیں ہیں مگر کسی کا ماضی اس
قدر تابناک نہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جن بزرگوں نے جمعیۃ قائم کی ، اس کو پروان چڑھایا،
اس کے فکر ی ارتقا میں حصہ لیا ان میں اخلاص بھی تھا، سوز بھی تھا ، تڑپ بھی تھی، خدمت
کا جذبہ بھی تھا ، آج بھی یہ جماعت ایک تناور درخت کی طرح کھڑی ہوئی ہے، اگر چہ آندھیوں
کے تھپیڑوں نے اسے ہلانے کی کوشش بھی کی مگر ان کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ تیز و تند
تھپیڑ ے بھی اس پر اثر انداز نہ ہوسکے، آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ اس جماعت کی ایک آواز
پر دیوانوں کی طرح دوڑتے ہیں، یہ تو خیر دیوبند ہے جس کی سر زمین میں اللہ نے مقنا
طیسی کشش رکھ دی ہے ، لوگ بات بے بات ہی یہاں کھینچے چلے آتے ہیں دیکھا یہ گیا ہے کہ
جمعیۃ کا ہر اجلاس شریک ہونے والوں کی کثرت سے تاریخی بن جاتا ہے ، دلی ،بمبئی اور
حیدر آباد جیسے مصروف شہر بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں کہ وسیع و عریض پنڈال بھی کثرت
ہجوم کی وجہ سے اپنی تنگ دامانی کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے،دہلی کے رام لیلا میدان کو
انسانی سروں سے بھر دینے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ،لیکن اس جماعت نے متعدد مرتبہ
یہ کارنامہ انجام دیا ہے، کیا ہے وہ راز جو اس جماعت کو عوامی حلقوں میں اس قدر مقبول
بنائے ہوئے ہے کہ لوگ موسم کے سرکردہ گرم مزاج کی پرواہ کئے بغیر اس کی ایک آواز پر
دوڑے چلے جاتے ہیں، میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند کی طرح یہ جماعت بھی
اہل دل کی روحانی تو جہات کا مرکز ہے، ماضی میں اس جماعت کے بزرگوں نے ملت اسلامیہ
کی جو بے لوث خدمت کی ہے اس نے اس جماعت کو
دلوں کی دنیا کا بے تاج باد شاہ بنادیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ تقسیم درتقسیم کے متعدد مرحلوں
سے گزر نے کے باوجود اور خاندانی اجارہ داری سے لے کر ملی مسائل میں علیحدگی پسندی
کے رجحان اور عملی میدان میں سست روی کے الزمات کے باوجود یہ جماعت اپنا وجود برقرار
رکھے ہوئے ہے، بلکہ اپنی جگہ بڑی مستحکم ہے، اس کا نیٹ ورک بڑا وسیع اور مضبوط ہے ،کشمیر
سے کنیا کماری تک ہر جگہ اس کی شاخیں ہیں،لوگ اس سے جڑنا چاہتے ہیں ، اس کے ساتھ مل
کر کام کرنا چاہتے ہیں، سرکاری حلقوں میں اس کو اہمیت دی جاتی ہے، اس کی آواز سنی جاتی
ہے ، پاکستان ،بنگلہ دیش ،برطانیہ ،ساؤتھ افریقہ ، امریکہ اور دوسرے ملکوں میں بھی
اس جماعت کو آئیڈیل بنا کر کام ہورہا ہے ، اس جماعت کے چراغ وہاں بھی روشنی پھیلا رہے
ہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
جمعیۃ علما ہند کے قیام کو
نوے برس مکمل ہوچکے ہیں، ہندوستان کےمسلمانوں کی یہ واحد تنظیم ہے، جس کا قیام آزادی
سے پہلے عمل میں آیا تھا اور آج بھی جب کہ آزادی کے حصول پر ساٹھ برس گزرچکے ہیں یہ
جماعت قائم ہے، نوے سال کی مدت کم نہیں ہوتی ، اس عرصے میں کتنی ہی تنظیمیں بنیں اور
ختم ہوگئیں ، آج وہ صرف تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں یا دل ودماغ کی غلام گردشوں میں
گھومتی نظرآتی ہیں، ان کا کوئی حسی وجود نہیں
ہے ، بعض تنظیمیں موجود بھی ہیں لیکن نہ وہ جمعیۃ علما کی طرح اپنا کوئی تاریخی مقام
رکھتی ہیں اور نہ کوئی قابل ذکر وجود ، آخر کیا وجہ ہے کہ یہ جماعت بوڑھی ہونے کے باوجود
جوانوں جیسے حوصلے اور جوش کے ساتھ ابھی تک زندہ ہے؟ اس سوال کاجواب ڈھونڈنے کےلئے
ہمیں 1919تک واپسی کا سفر کرنا پڑےگا، بلکہ شاید اس سے بھی سوبرس پیچھے لوٹنا پڑے جب
علما نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا تھا ، یہ 1926کے آس پاس کا زمانہ ہے،خاندان
ولی اللہی کےچشم وچراغ حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ کے فتویٔ جہاد کی بازگشت فضاؤں میں گونج
رہی ہے، علما سر پہ کفن باندھے اپنے حجروں سے نکل کر میدان میں آچکے ہیں، حضرت مولانا
سید احمد شہیدؒ اور حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہیدؒ کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف مسلح
جدوجہد کا آغاز ہوچکا ہے، 1831میں ان دونوں بزرگوں نےجام شہادت نوش کیا، اور ان کے
ساتھ ہزاروں علما بھی وطن کی آزادی پر قربان ہوگئے، تحریک نے دم توڑ دیا ، لیکن اپنے
خون سے آنے والی نسلوں کے لیے وہ رہ گزر روشن کرگئے جس پر چل کر حریت حاصل کی جاسکتی
تھی، 1857میں مسلح جدوجہد کے دوسرے دور کا آغاز شاملی اور تھانہ بھون سے ہوا ،اس میں
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور ان کے رفقا کی جماعت نے حصہ لیا ، اس میں قابل
ذکر نام ہیں، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ،حضرت
ضامن شہید ؒ کے ، اس جہاد حریت میں آخر الذ کرنے جام شہادت نوش کیا، حضرت گنگو ہی
ؒ نے قید وبند کی مشقت برداشت کی ، حضرت نانوتویؒ کو روپوش ہونا پڑا اور میر کارواں
حضرت حاجی امداد اللہ ؒ نے مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کی ، اس جنگ میں شکست ہوئی اور انگریز
پوری طرح اقتدار پر قابض ہوگئے ،لیکن یہ جذبۂ حریت اسی طرح دلوں میں کبھی شعلہ بن کر
دہکتا رہا اور کبھی چنگاری بن کر سلگتا رہا، حضرت سید احمد شہیدؒ اور حضرت شاہ اسماعیل
شہیدؒ کے قافلہ حریت کے بچے کھچے جاں باز اور سرفروش مجاہدین نے 1862میں پھر ایک جنگ
کا آغاز کیا، علما صادق پور پٹنہ کے نام سے معروف یہ مجاہدین بھی ناکام رہے اور
1864میں یہ جنگ بھی ناکام پر اختتام کو پہنچی ، 1866میں دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل
میں آیا، یہ درسگاہ جن مقاصد کے لیے قائم کی گئی تھی ان میں ا یک مقصد یہ بھی تھا کہ
مادروطن کو غیر ملکی حکمرانوں کے پنجہ استبداد سے آزاد کرایا جائے ، اس مقصد کے حصول
کے لئے مختلف عنوانات اختیار کئے گئے ، 1879میں انجمن ثمرہ التربیت اور 1909میں جمعیۃ
الانصار کا قیام اس سلسلے میں ہوا، 1917میں اس درسگاہ کے سب سے پہلے فاضل شیخ الہند
حضرت مولانا محمود حسنؒ نےاس تحریک کا آغاز کیا جسے ریشمی رومال کی تحریک کہا جاتا
ہے، اس کامقصد تھا کہ دوسرے ممالک سے مدد لی جائے اور ہندوستان کو آزاد کرایا جائے
، نہایت راز داری کے ساتھ چلنے والی تحریک ناکام ہوگئی، برطانوی حکومت کو سازش کا علم
ہوگیا ،حضرت شیخ الہندؒ مکہ مکرمہ میں گرفتار کرلئے گئے ، او ر چند سال کی قید کے بعد
1920میں ایک نئے منصوبے کے ساتھ حضرت شیخ الہند نے اپنے وطن کی سرزمین پر قدم رکھا،
وہ منصوبہ یہ تھا کہ ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ عدم تشدد کے اصول پر کار بندرہ کر انگریزوں
کو ملک چھوڑ نے پر مجبور کیا جائے، اس مقصد کے لیے حضرت شیخ الہند ؒ نے 19جولائی
1920کو ترک موالات اور انگریزوں کے ساتھ عدم تعاون کا فتویٰ جاری کیا، اس فتویٰ سے
تحریک آزادی کے پانچویں دور کا آغاز ہوا، جو پچھلے اددار سے ان لیے مختلف ہے کہ اس
میں اسلحہ اٹھانے کیا ترغیب نہیں دی گئی بلکہ ہندو مسلم اشتراک واتحاد او رعدم تشدد
کے ذریعہ استخلا ص وطن کے لیے جدوجہد کی راہ اختیار کی گئی، حضرت شیخ الہند ؒ کا یہ
فکر اس قدر مقبول ہوا کہ اسے ہر حلقے میں پذیرائی ملی، علما نے اس فکر کو آگے بڑھا
یا اگرچہ 1919میں حضرت شیخ الہند ؒ کی رہائی سے قبل جمعیۃ قائم ہوچکی تھی ، لیکن اصل
راہ عمل اس جماعت کے لیے اسی وقت متعین ہوئی
جب حضرت شیخ الہند ؒ 1920میں مالٹا سے رہا ہوکر ہندوستان واپس لوٹے اور انہوں نے ایک
نئے منصوبے کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا۔
بات جمعیۃ کے قیام کی چل رہی
تھی، نومبر 1919میں دہلی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس مولانا فضل حق کی صدارت میں ہوا۔
اس میں پورے ملک سے لوگوں نے شرکت کی تھی، اس موقع پر علما کی ایک بڑی تعداد موجود
تھی ، اجلاس نے فراغت کے بعد ان حضرات علما نے اپنے ایک الگ جلسہ منعقد کیا جس کا موضوع
تھا ‘‘ مستقبل کے ہندوستان میں علما اپنا کردار کس طرح ادار کریں ’’ علما کا خیال تھا کہ اس وقت ملک میں ہر طبقے کی اپنی ایک
الگ جماعت ہے، یہ جماعتیں اپنی اتحاد ی اور اجتماعی قوت سے ملک وقوم کی مختلف النوع
خدمات انجام دے رہی ہیں ، لیکن آج تک علما ہند کی کوئی متفقہ جماعت یا انجمن قائم نہیں
ہوسکی ، جب کہ موجودہ حالات میں اس کی ضرورت بھی ہے ، اور علما کا فرض بھی بنتا ہے
کہ وہ خود بھی متحد ہوں اور ملت کو بھی اتحاد کی دعوت دیں ، اس اجتماع میں ملک کے بہت
سے بڑے علما شریک تھے ، تمام شرکا کی رائے ہوئی کہ علما کی بھی ایک جماعت ہونی چاہئے
جو ملت کے مشترکہ مذہبی اور سیاسی امور میں رہنمائی کا فرض اداکرنے کی اہل ہو، تمام
حاضرین اس حقیقت پر متفق تھے کہ ‘‘ان کی آواز اسی وقت باوقعت ہوگی جب وہ ایک باقاعدہ
او رمنظّم جماعت کی طرف سے بلند ہو، اور اس کی تعلیم و رہ نمائی کی تکمیل اسی صورت
سے ہوسکتی ہے کہ یہ اسےاتفاق واتحاد کی قوت سے مؤثر بنائیں’’اسی وقت جمعیۃ علما ہند
کی تاسیس کا فیصلہ ہوا، تمام حاضرین نے جمعیۃ کی رکنیت قبول فرمائی ،حضرت مولانا مفتی
کفایت اللہ دہلویؒ اس کے اولین صدر قرار پائے ، طے پایا کہ اگلے ماہ دسمبر میں اس کا
پہلا اجلاس منعقد ہوگا۔
یہ فیصلہ اس اعتبار سے تو
دانش مندانہ تھا ہی کہ علما وقت نے زمانے کے تقاضوں کو سمجھا ،اپنے فرائض منصبی کا
احساس کیا، اور تمام فقہی اور نظریاتی اختلافات فراموش کر کے ایک دفاق میں شامل ہونے
پر اتفاق کیا، لیکن یہ اس اعتبار سے بھی نہایت اہمیت کا حامل تھا کہ پورے ملک کے علما
اور عوام کی قیادت کی ذمہ داری حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلویؒ کے سپر د کی
گئی،جنہوں نے دارالعلوم دیوبند میں فکری اور دینی تربیت حاصل کی، جنہوں نے حضرت شیخ
الہندؒ جیسے قائد حریت سے انقلابی حالات میں قیادت کرنے کا ہنر سیکھا، 1919سے آج تک
جمعیۃ کی قیادت کی ذمہ داری کا بارگراں علما دیوبند ہی کے دوش پر رہنا ہے، یہ اس بات
کی علامت ہے کہ اہل علم سے لے کر عوام تک سب لوگ دارالعلوم کو مذہبی قیادت کاسرتاج
مانتے ہیں۔
جمعیۃ علما ہند کے قائدین
نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ ان کے فکری رہ نما شیخ الہند
حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ ہیں، جمعیۃ علما ہند نے دل وجان سے حضرت شیخ الہند
ؒ کو اپنا رونما اور قائد تسلیم کیا اور ان کا افکار وخیالات سے رہ نمائی حاصل کی،
تاریخ آزادی ہند کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ کے دل میں جذبہ
ٔ حریت کا شعلہ شر رفشاں رہتا تھا ، ان کی آنکھوں میں آزادی وطن کےخواب سجے رہتے تھے،
جمعیۃ کے قائدین میں یہ جذبۂ حریت حضرت شیخ الہندؒ سے بہ طور وراثت منتقل ہوا، حضرت
شیخ الہند ؒکے جس فتوی ترک موالات نے ملک کی آزادی کی جدوجہد کے سست رفتار گھوڑے کو
صبا رفتار بنایا اس کی باگ ڈور جمعیۃ کے قائدین کے ہاتھوں میں رہی، آج جمعیۃ بڑے فخر
سے کہتی ہے کہ اس نے ملک کی آزادی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا ہے، اس جماعت کا یہ دعویٰ
سچائی پر مبنی ہے، مگر جمعیۃ کچھ نہ کرپاتی اگر اسے حضرت شیخ الہندؒ کی فکری رہ نمائی
دورسرے علمائے دیوبند کی قیادت میسر نہ ہوتی ،قوم پرستی کا جذبہ بھی جمعیۃ کو حضرت
شیخ الہند ؒ سے ملا ہے،انہوں نے جمعیۃ کو حضرت شیخ الہندؒ سے ملا ہے، انہوں نے جمعیۃ
علما ہند کےدوسرے اجلاس منعقدہ دہلی 1920کے صدارتی خطبے میں فرمایا تھا کہ ‘‘برادران
وطن نے تمہاری اس مصیبت میں جس قدر تمہارے ساتھ ہمدردی کی ہے اور کررہے ہیں وہ اخلاقی
مروت اور انسانی شرافت کی دلیل ہے، اسلام احسان کا بدلہ احسان قرار دیتا ہے ۔‘‘ آزادی
سے پہلے جمعیۃ علما ہند نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کا جو دانش مندانہ فیصلہ کیا
وہ بھی اسی نظر یے کی بنیاد پر کیا اور آزادی کے بعد برسوں تک بلکہ آج تک اگر جمعیۃ
کے رہ نماؤں کے دلوں میں ملک کی واحد قوم پرست پارٹی انڈین نیشنل کانگریس کے لئے جو
نرم گوشہ ہے وہ بھی اسی نظریئے کا آئینہ دار ہے۔
جمعیۃ علما کے اب تک جتنے
بھی صدور اور نظما ہوئے ہیں ان میں اکثر علما دیوبند کی ہے،اب تو خیر اس جماعت پر ایک
الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اس جماعت کو علما دیوبند نے یرغمال بنا لیا ہے، مگر
جو لوگ یہ سوچتے ہیں وہ اس جماعت کے لیے علما دیوبند کی جدوجہد کو نظر انداز کردیتے
ہیں دیوبند کے فیض یافتہ جمعیۃ کے ان قائدین میں سے تھے جنہوں نے سر سے کفن باندھ کر
ملک کی آزادی میں حصہ لیا ،یہی لوگ تھے جنہوں نے تقسیم ملک کے وقت مسلمانوں کے سیل
رواں کو پاکستان کی سرحدوں کی جانب بڑھنے سے روکا، یہی لوگ تھے جنہوں نے ملک کے مسلمانوں
کی ہر مرحلے پر قیادت کیا،اگر آج اس جماعت کی زمام کار علما دیوبند کے ہاتھوں میں ہے
تو نکتہ چینوں کو خود اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ جمعیۃ
علما کا قیام دراصل اس سلسلے کو آگے بڑھانے کاعمل تھا جس کی ابتدا حضرت شاہ عبد العزیز
محدث دہلویؒ کے فتویٔ جہاد سے ہوئی اور جس کے نتیجے میں ہندوستان کے علما نے بالخصوص
دبستا ن شاہ ولی اللہ سے فیض حاصل کرنے والے علما نے حکومت برطانیہ کے خلاف کم از کم
چار بار مسلح جدوجہد کی ، یہاں تک کہ حضرت شیخ الہند ؒ نے اس تشدد جد وجہد کو عدم تشدد
اور رواداری میں تبدیل کرکے ایک نئے دور کا آغاز کیا، جمعیۃ علما اسی دور کی پیداوار
ہے،سال تاسیس (1919) سے 1947تک آزادی وطن کے لئے غیر مسلح جدوجہد کی قیادت کا فریضہ
اسی جماعت نے انجام دیا، حضرت شیخ الہند ؒ نے اپنے خطبہ صدارت میں ارشاد فرمایا تھا:
‘‘اگر موجودہ زمانے میں توپ بندوق ،ہوائی جہاز کا استعمال مدافعت اعدا کے لئے جائز
ہوسکتا ہے باوجود یہ کہ قرون اولی میں یہ چیزیں نہ تھیں تو مظاہروں اور قومی اتحادوں
اور متفقہ مطالبوں کے جواز میں تأمل نہ ہوگا کیونکہ موجودہ زمانے میں ایسے لوگوں کے
لئے جن کے ہاتھ میں توپ بندوق او رہوائی جہاز نہیں یہ ہی چیزیں ہتھیار ہیں’’۔آزادی
سے پہلے اور آزادی کے بعدجمعیۃ کی تاریخ حضرت شیخ الہندؒ کے اسی فکر کو لے کر آگے بڑھی
ہے،آزادی سے پہلے جمعیۃ نے مکمل آزادی کو اپنا نصب العین بنا کر مختلف محاذوں پر قائدانہ
رول ادا کیا، تحریک خلافت ،رولٹ ایکٹ کے ہنگامے ،جلیاں والا باغ کی مصیبت ،شدھی سنگھٹن
کا فتنہ ، شاردا ایکٹ کا معاملہ ، داردھا ایجوکیشنل اسکیم ،نہرو رپورٹ کی ہنگامہ خیزی
،قصہ خوانی بازار کا درد ناک حادثہ ،ہر جگہ جمعیۃ علما سینہ سپرد نظر آتی ہے، جمعیۃ
علما ہند کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے تحریک پاکستان کی بھرپور مخالفت کی اور
جب ہزار مخالفتوں کے باوجود پاکستان بن گیا تو ہندوستان کےمسلمانوں کو ترک وطن سے باز
رکھنے کے لیے اس جماعت نے اپنی پوری طاقت لگادی ،آج دہلی اور مغربی یوپی میں جو مسلمان
نظر آتے ہیں وہ اسی جماعت کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جمعیۃ کے اس کردار نے اسے مسلمانوں
میں تو مقبو ل بنا یا ہی ہے،برداران وطن کو بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے کہ اگر
ہندوستان میں مسلمانوں کی کوئی نمائندہ جماعت ہے تو یہی ہے، یہ جماعت کبھی تھک کر نہیں
بیٹھی اور نہ اس جماعت کے بزرگوں نے ملت کے مفادات کی قیمت پر کوئی سمجھوتہ کیا، وہ
لوگ چاہتے تو آزادی کے لئے اپنی بے مثال قربانیوں کو کیش کراکے صدارتیں اور وزارتیں
حاصل کرسکتے تھے، مگر انہوں نے آزادی کے بعد بھی اپنا وہی کردار باقی رکھا جو آزادی
سے پہلے تھا ،یہی اس جماعت کی محبوبیت اور مقبولیت کی دلیل ہے۔
جس جماعت کا ماضی اس قدر شاندار
ہو اس کا حال بھی شان دار ہونا چاہئے ،اور شان دار حال کے ساتھ ایک شان دار مستقبل
کے لیے اس کی جدوجہد کا سفر بھی جاری رہنا چاہئے، جمعیۃ کے موجودہ اراکین و عہدیداران
کے لئے آج کا دن یوم احتساب بھی ہے، وہ غور کریں کہ جس عظیم الشان وراثت کے وہ امین
ہیں انہوں نے اس وراثت کی حفاظت بھی کی ہے یا نہیں؟اللہ نے ان کی جماعت کو مقبولیت
سے نوازا ہے، اس ملک کے لاکھوں مسلمان آپ کی جماعت کی آغوش کو مایوسی کے اس ہولناک
سفر میں اپنی آخری پناہ گاہ تصور کرتے ہیں، کیا جمعیۃ کے موجودہ قائدین نے واقعی اپنی
اس جماعت کو مسلمانوں کے لیے ایک آخری پناہ گاہ کے طور پر باقی رکھنے کی کوشش کی ہے؟
اس جماعت کوموجودہ حالات میں اتحاد کی سخت ضرورت ہے ،کون نہیں جانتا کہ یہ جماعت ان
دنوں باہمی اختلاف کا شکار ہے، اس اختلاف نے جماعت کی فعالیت پر بھی اثر ڈالا ہے اور
نیک نامی کو بھی متاثر کیا ہے، اگرچہ جماعت کی صفوں میں پہلے بھی اختلافات ہوئے ہیں
اور ان اختلافات کے نتیجے میں تقسیم در تقسیم کی صورت بھی پیش آئی ہے، لیکن اس وقت
اختلاف کی جو نوعیت ہے اس نے دہلی اور دیوبند کو ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی دیوبند
او رجمعیۃ ہے وہاں وہاں سب کو ٹھیک اسی طرح دومختلف خیموں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے جس
طرح 80کے بعد دارالعلوم کی تقسیم کے نتیجے میں وابستگان دیوبند دومختلف گرہوں میں تقسیم
ہوگئے تھے، کیا یہ صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے؟ دیوبند کی سرزمین پر منعقد ہونے والا
یہ اولین اجلاس عام اس تبدیل کا محرک بن سکتا ہے ؟
دیوبند کا اجلاس عام نتیجہ
خیز ہونا چاہئے ،یہ ہر شخص کی آرزو بھی ہے اور دعا بھی ، جمعیۃ کاسرمایہ ،اس کے کارکنوں
کی محنت ،عوام کا وقت اور پیسہ ضائع نہ جائے کوشش یہی ہونی چاہئے ،جو فیصلے ہوں عمل
کے جذبے سے ہوں، جو تقریر یں ہو مثبت اور تعمیری ہوں، میں پھر حضرت شیخ الہند ؒ کا
حوالہ دوں گا جنہوں نے جمعیۃ علما ہند کے اجلاس دوم کی صدارت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
تھا ‘‘اگر ہم تجاویز پاس کرکے اور صرف چند ساعت کی گری محفل کو اپنی تقریروں اور خطبوں
کا ماحصل سمجھ کر منتشر ہوگئے تو ہماری مثال ٹھیک اس مریض کی سی ہوگی جو اکسیر شفا
کی تکرار زبان سے بار بار کرتا رہے لیکن اس کا استعمال ایک دفعہ بھی نہ کرے’’کیا جمعیۃ
کے قائدین اور اجلاس عام کے حاضرین اپنے فکری رہنما کے ان خیالات پر توجہ دیں گے؟ میں
اپنا یہ مضمون شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد حقانی ؒ کےان جملوں پر ختم کرتا ہوں
جو انہوں نے اپنے خطبہ صدارت (انیسواں اجلاس عام سورت اکتوبر 1956)میں ارشاد فرمائے
تھے ‘‘ برادران عزیز جمعیۃ علما ہند جو آپ کے سامنے ہے روشن مستقبل کا نقشہ پیش کرتے
ہوئے دعوت عمل دے رہی ہے، آئیے اب آپ اپنے عمل اور کردار سے اس کا مضبوط بنائیے’’۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/jamiat-its-objective-/d/2035