By Maulana Nadeemul Wajidi
(Translated from Urdu by Arman Neyazi, NewAgeIslam.com)
Corruption in high places is making the news in India today. How do we tackle corruption is the big question facing us. Only way of getting rid of this disease is to make the cultural and religious education a must for every citizen. People should be told that life is not limited till we are alive in this world. Rather the real life will be life after death. We will have to go through the rigours of the Day of Judgment answering all the questions being asked about our misdeeds.
I think, Islam is the only religion which has made the universe aware of the harsh punishments being meted out on them for the sins they commit here.
As per a Riwayat of Abu Huraira (RA), One day Prophet Muhammad (SAW) described corruption ( Amanat mein Kheyanat) and told , Let me not find anyone of us , on the Day of Judgement that a goat is riding your neck and crying and on someone’s neck a horse is riding and neighing. And you will call me and ask me to pray to God for your forgiveness and I will say, I cannot do anything for your relief and that I had given you what God had ordered. ( Sahih ul Bukhari, Raquam ul Hadith 3073).
It has become every day routine now. Right from top to bottom practically everyone is engaged in looting government treasury. Let us remember, on the Day of Judgment this corruption will become a noose and will pull the corrupt towards hell, telling the person that it is his wealth, it is his wealth. ( Bukhari Kitb ul Zakat, Raquam ul Hadith 1403)
Prophet Muhammad (SAW) had prophesized some 1400 years ago that an age will come when people will not care if the wealth they have is legitimate or illegitimate. (Bukhari Raquam ul Hadith 2083).
In Islam the right and wrong way of earning has been defined. This rule is devised by a person rather it has come as a Wahi (revelation) hence it has every detail of an individual and a community’s description of earning. This is the only way of salvation. Money is, of course, needed for a living but what kind of wealth it should be or how should it be earned only Quran-e-Kareem can guide. Its first lesson, in this regard, is that one should use the wealth earned rightfully only and should never use in any way illegitimate wealth. This teaching is there in the Quran on repeated occasions. For example “O mankind! Eat of that which is lawful and good on the earth, and follow not the footsteps of Shaitan (Satan). Verily, he is to you an open enemy.”(Al Baqura—168) This Surah is not only for the Muslims but it has been addressed to every single person to use only what is lawful and legitimate.
After twenty other Ayats of this very Sura this order has been described in another way “And eat up not one another's property unjustly (in any illegal way e.g. stealing, robbing, deceiving, etc.), nor give bribery to the rulers (judges before presenting your cases) that you may knowingly eat up a part of the property of others sinfully”. This Ayat was revealed when two Sahabis quarrelled over a piece of land. When no solution was found, it was decided to go to the Prophet (SAW) for the rightful judgment and then the above mentioned Ayat was revealed. When there used to be no proof or witness it was in the rules that the claimant had to take an oath taking God and its Prophet as a witness and when the claimant decided to take oath, Prophet (SAW) told them this Aayat, “Verily, those who purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant and their oaths, they shall have no portion in the Hereafter (Paradise). Neither will Allah speak to them, nor look at them on” the Day of Resurrection, nor will He purify them, and they shall have a painful torment.”
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-shari-ah-looks-curse/d/3857
مولانا ندیم الواجدی
کرپشن اس ملک کی تقدیر بن
چکا ہے، ہر نئی صبح ایک نئے کرپشن کا انکشاف ہوتا ہے اور محب وطن اور ایمان دار ہندوستانیوں
کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ، اگر کسی کے کانوں پر جو ں نہیں رینگتی وہ اس ملک کا برسراقتدار
طبقہ ہے، جو گذشتہ ساٹھ برسوں سے ایک ارب ہندوستانیوں پر حکومت کررہا ہے، اس طبقے میں
سیاست داں بھی ہیں اور نوکر شاہ بھی اس سے غرض نہیں کہ وہ کس پارٹی کے سیاسی لیڈر ہیں،
نہ اس سے کوئی غرض ہے وہ کس سطح کے افسر ہیں، بہ ظاہر تو اس حمام میں سب ہی ننگے نظر
آتے ہیں، کرپشن ہر جگہ نمایاں ہے، زندگی کے ہر شعبے پر اس کی چھاپ نظر آتی ہے ، ہر
صاحب اختیار موقع ملتے ہی کرپشن کے بہتے دریا میں ڈبکی لگا لیتا ہے ساٹھ سال میں کتنے کرپشن ہوئے ، شاید حکومت کے پاس
اس کی کوئی قطعی فہرست بھی موجود نہ ہو، بہت
سے کرپشن تو اب لوگوں کی یادداشت سے محو بھی ہوچکے ہیں، یوپی اے کی حکومت میں جتنے
کرپشن ہوئے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی، اٹھارہ ہزار کڑور روپے کی آبدوز ڈیل میں
درمیان کے لوگوں نے حکومت ک خزانے کو زبردست چونا لگایا ،مرکزی وزیر کمل ناتھ کی دیکھ
ریکھ میں دو ہزار پانچ سو کروڑ روپے کا اناج ایکسپورٹ کیا گیا ۔
اس میں بھی بچولیوں نے خوب کمائی
کی، ششی تھرور ، شرد پوار او رپرفل پٹیل جیسے بڑے وزیروں نے آئی پی ایل کھیلوں کو
داغ دار کیا ، دولت مشترکہ کھیلوں کی تیاری کے دوران ہر شخص نے اپنی اپنی وسعت کے بہ
قدر خوب دولت سمیٹی ،وزیر سے لے کر چپراسی تک ہر شخص نے دل کھول کر حکومت کو کنگال
کیا، ابھی حال ہی میں دو گھپلے ایسے ہوئے جس نے ہر ہندوستانی کو یہ سو چنے پر مجبور
کردیا کہ آخر اس ملک کا کیا ہوگا، ایک گھپلہ تو وہ ہے کے شاید ہی کسی ملک میں اتنا
بڑا گھپلہ ہوا ہو ، اس گھپلے کو 2Gاسپکٹرم
کے نام سے پہچانا جارہا ہے ، اس کا راست تعلق
وزارت مواصلات سے ہے، جو اے راجا کی اعلیٰ عدالت محو حیرت ہے کہ کیا اتنا بڑا مالیاتی
معاہدہ کسی غور وخوض کے بغیر محض پینتالیس منٹ میں پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے ،کہتے
ہیں کے جس کمپنی کو یہ حقوق فروخت کئے گئے تھے اس نے تینیس فیصد حصے اپنے پاس رکھ کر
باقی سرسٹھ فیصد حصص دوسری کمپنیوں کو فروخت کردئے اور اس میں بھی ہزاروں کڑوڑ کا نفع کمالیا، اس شرمناک معاہدے سے ملک کو ایک لاکھ پچہتر ہزار کڑوڑ روپے
کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔
اس خطیر رقم سے ملک میں ہزاروں
اسکول ،ہسپتال اور فلاحی ادارے بنائے جاسکتے تھے ، ملک کے تعلیمی نظام کو مستحکم کیا
جاسکتا تھا، غریبوں کے لیے آشیانے بنائے جاسکتے تھے، بمبئی میں آدرش سوسائٹی کے گھپلے
نے بد عنوانیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، اس گھپلے میں وزیر اعلیٰ سے لے کر برسر
اقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کے ایم پی ، ایم ایل اے، سرکاری افسران یہاں تک کہ بعض
فوجی حکام بھی ملوث تھے، سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک کے بدعنوان سیاست داں اور حکام
ہزاروں کڑوڑ روپے کا کیا کریں گے ،ایک بڑے خاندان کو بھی تعیش زندگی گزارنے کے لیے
اتنے بڑے سرمائے کی ضرورت نہیں ہوتی، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے دولت مندوں
نے کرپشن کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم سوئز ر لینڈ کے بینکوں میں جمع کررکھی ہے، ایک
مضمون میں یہ انکشاف پڑھ کر حیرت ہوئی اور افسوس بھی کہ سوئز بینکوں میں دو سواسی لاکھ
کڑوڑ روپے ہندوستانیوں کے جمع ہیں، اس رقم کے ذریعے ساٹھ کڑوڑ روپے بےروزگار وں کو
ر وزگار دیا جاسکتا ہے ،تیس برس تک ایسا بجٹ بنایا جاسکتا ہے جس میں کوئی ٹیکس نہ لگایا
گیا ہو ، مسلسل ساٹھ برسوں تک ملک کے ہر شہری کو دوہزار روپے ہر ماہ دئے جاسکتے ہیں
، جس ملک کی قومی دولت کا یہ حال ہو اس ملک کے کڑوڑوں شہری خط افلاس سے نیچے زندگی
گزار نے پر مجبور ہیں جنہیں دووقت کی روٹی بھی صحیح طریقے پر میسر نہیں ہے، جن کے پاس
سرچھپانے کا کوئی معقول ٹھکانہ نہیں ہے۔ کرپشن نے اس ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا
ہے، آج عدالتیں سرکاری وکیل سے یہ سوال کررہی ہیں کہ آپ رشوت کو قانونی شکل کیوں
نہیں دے دیتے ،دوسری طرف خود عدالتیں بھی کرپشن کی دلدل سے پا ک نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے الہٰ آباد
ہائی کورٹ کے نظام پر جو تبصرہ کیا ہے وہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ جب عدالتوں کی
اہلیت اور دیانت بھی مشتبہ ہوجائے گی تو عدل انصاف کے تقاضے کس طرح پورے ہوں گے، حکومت
کی بدعنوانیوں کو لگام کون دے گا۔ آج ملک کے وزیر اعظم بھی مگر مچھ کے آنسو بہارہے
ہیں ، یوپی اے کی سب سے طاقت ور لیڈر بھی ملک کی اخلاقی صورت حال کے زوال پر شرمندگی
کا اظہار کر رہی ہیں ، صدر اور نائب صدر بھی صورت حال پر افسر دہ ہیں لیکن حل کسی کے
پاس نہیں ، اصل میں اس ملک کو مادیت کے جس راستے پر اس کے قائدین نے ڈالا ہے آج اس
نے بحران کی شکل اختیار کرلی ہے، جب تک مادیت پسندی کے اس سیلاب پر قابو نہیں پایا جائے گا اس وقت تک
بدعنوانیوں کے دلدل سے نجات نہیں ملے گی، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دلدل او رگہری ہوتی
چلی جائے گی، ملک میں کتنے گھپلے ہوئے کس کو کتنی سزا ملی ،کون اقتدار سے باہر کیا
گیا، کس کو رسوا کر کے اجتماعی زندگی سے بے دخل کیا گیا؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب
کسی کے پاس نہیں ہم تو جانتے ہیں کہ بڑے سے بڑے گھپلہ کرنے کے بعد بھی کسی کو سزا نہیں
ملتی ،بلکہ وہ اسی طمطراق کے ساتھ دندناتا پھرتا ہے ، زیادہ سے زیادہ اتنا ہوتا ہے
کہ اسے کچھ وقت کے لیے منصب سے ہٹا دیا جاتا ہے ،سکھ رام کی مثال ہمارے سامنے ہے جس
کے باتھ روم میں نوٹوں سے بھرے ہوئے تھے اور جو نوٹوں کے بستر پر سویا کرتا تھا ، کچھ
دن اقتدار سے محروم ہوا مگر جب وہ دوبارہ کامیاب ہوکر واپس لوٹا تو اسے پھر اقتدار
کی کرسی پر بٹھادیا گیا، اگر کبھی کسی وزیر ایم پی یا ایم ایل اے کو سزا دی بھی جاتی
ہے تو وہ اتنی معمولی ہوتی ہے اور اتنے مختصر وقت کے لیے ہوتی ہے کہ مجرم اسے سزا ہی
تصور نہیں کرتا، اگر اسے چند روز جیل میں گزارنے بھی پڑتے ہیں تو وہ اتنے آرام دہ
ہوتے ہیں کہ جیل سے باہر اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سزا یافتہ لوگ تو بیمار کے
بہانے سے فائیو اسٹار ہوٹلوں جیسے ہسپتال میں داخل ہوکر مفت کے مزے لوٹتے ہیں ۔ اس
صورت حال پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے ،میرے خیال سے تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ ملک
کے ہر شہری کے لیے مذہب واخلاق کی تعلیم لازمی قرار دی جائے اور اسے بتلایا جائے کہ
زندگی صرف اسی دنیا تک محدود نہیں ہے، یہ تو ایک مختصر وقفہ ہے، اس کے بعد کی زندگی
ہی اصل زندگی ہے ، جہاں ہر جرم کا حساب دیناہوگا اور اس کے مطابق سزا بھگتنی ہوگی،
اخلاق تعلیم سے عاری یہ معاشرہ اسی وقت سدھر
سکتا ہے جب اسے بتلا یا جائے کہ رشوت صرف ایک سماجی او رمعاشرتی گناہ ہی نہیں بلکہ
ایک اخلاقی او رمذہبی جرم بھی ہے، میرے خیال سے دنیا کے مذاہب میں اسلام واحد مذہب
ہے جس نے اس گناہ کی ہولناکیوں سے انسانیت کو پوری طرح آگاہ کیا ہے، حضرت ابو ہریرہؓ
سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک
دن خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے آپ نے مال غنیمت میں خیانت کا تذکرہ فرمایا اور اسے
بہت بڑا جرم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قیامت
کے روز میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو اور
منمنارہی ہو، اس کے سر پر گھوڑا سوار ہو جو ہنہنا رہا ہو او روہ مجھ سے فریاد کرے او
رپکارے کہ اے اللہ کے رسول میری فریاد رسی کیجئے ، میں کہوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ
کی (پکڑ سے ) تجھے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا ، میں نے تمہیں اللہ کا حکم پہنچا
دیا تھا۔
ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن
پر اونٹ سوار ہو اور بڑ بڑ ا رہا اور وہ مجھے پکارے کہ اے اللہ کے رسول میری فریادرسی
فرمائیے تو میں کہوں گا کہ میں تجھے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے چھڑا نے کے لیے کچھ نہیں
کرسکتا میں نے تو تمہیں بات پہنچادی تھی، ایسا
نہ ہوکہ اس کی گردن پر سونا چاندی سوار ہو او رمجھے پکارے کہ اے اللہ کے رسول میری
مدد فرمائیے میں کہوں گا میں اللہ کی پکڑ سے بچانے کے لیے تیری کسی بھی قسم کی مدد
نہیں کرسکتا میں نے تو بات پہنچادی تھی( صحیح البخاری :رقم الحدیث :3073)آج کل خیانت
عام ہے ، حکمراں سے لے کر عام آدمی تک ہر شخص گلے گلے بد دیانتی میں ڈوبا ہوا ہے ،
چھوٹی چھوٹی بدیانتیوں سے لے کر بڑے بڑے کرپشن تک ہر روز دیکھے جارہے ہیں ، بڑے پیمانے
پر سرکاری اور قومی خزانے لوٹ اپنی جیبیں بھری جارہی ہیں ، یادرہے کہ خیانیت چاہے چھوٹی
ہو یا بڑی قیامت کے دن خائن کی گردن پر سوار ہوگی اور اس کے گلے کا طوق بن کر دوزخ
کی طرف گھسیٹے گی او رکہے گی میں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں۔ (بخاری : کتاب الزکوۃ
،رقم الحدیث 1403) آج وہ زمانہ آگیا ہے کہ خیانت ایک تجارت کی شکل اختیار کر گئی
ہے اور معاشرے سے اس کی سنگینی کا احساس جاتا رہا ہے ،سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم
نے چودہ سو سال پہلے ہی یہ پیشین گوئی فرمادی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا کہ لوگ اس کی
پرواہ نہ کریں گے کہ ان کے پاس جو مال آیا ہے وہ حلال ہے یا حرام ۔( بخاری ،رقم الحدیث
:2083) اسلام نے کسب معاش کے لیے حلال وحرام اور جائز وناجائز کا جو معیار قائم کیا
ہے وہ کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ
مکمل طور پر وحی الہی سے ماخوذ مستفاد ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں انسان کی انفرادی اور
اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کی رعایت کی گئی ہے۔
ا س معیار پر عمل کرنے ہی میں اقوام
وملل کی فلاح مضمر ہے، اس میں شک نہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے مال کی ضرورت ہے ، خواہ
یہ مال کما کر حاصل کیا جائے یا مانگ کر یا کسی اور طریقے سے دنیا کی تمام قومیں اس
حقیقت پر متفق ہیں کہ مال کے بغیر زندگی نہیں گزاری جاسکتی ، مگر یہ مال کیسا ہو اور
کس طرح حاصل کیا جائے، اس سلسلے میں قرآن کریم کی دو بنیادی تعلیمات ہمارے مادیت پسند معاشرے اور افراد کے لیے رہ نما بن سکتی ہیں، پہلی
تعلیم یہ ہے کہ حلال اور پاک وطیب چیزیں کھاؤ او ردوسری تعلیم یہ ہے کہ ایک دوسرے
کا مال باطل اور ناحق طریقے پر مت کھاؤ پہلی تعلیم کا ذکر متعدد آیات میں موجود ہے
مثال کے طور پر فرمایا :یَٰاَ یُّھَا اُلنَّا سُ کُلُو ا مِمَّا فیِ الاَ رََضِ حَلَلا َ طَیِّبا وَ لاَ تَتَّبِعُو
اخُطُوَٰ تِ اُ لشّیطٰنِ انَّہُ لَکُمََ عَدُ وُُّ مُّبِین(البقرۃ: 168) ‘‘ اے لوگو!
زمین کی چیزوں میں سے حلال اور پاک وطیب چیزیں کھاؤ او ر شیطان کی اتباع نہ کرو بلاشبہ
وہ تمہارے لئے کھلا دشمن ہے’’۔اس آیت میں خطاب عام ہے۔
یعنی صرف مسلمانوں ہی کو اس
کی تلقین نہیں کی گئی ہے، بلکہ دنیا کے تمام لوگوں کو اس امر کی تاکید کی گئی ہے کہ
وہ حلال اور پاک وطیب چیزیں ہی کھایا کریں ، قرآن کریم تمام انسانوں کی بھلائی کے
لئے نازل کیا گیا ہے، اس کے احکام سب سے لئے عام ہیں، اسی لیے خطاب عام لوگوں کو ہے
صرف مسلمانوں کو نہیں ہے، پھر حلال چیزوں کے استعمال کے حکم پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا
بلکہ اسی سورت کی بیس آیتوں میں مختلف احکام بیان کرنے کے بعد اس حکم کو دوسرے اسلوب
میں اس طرح بیان کیا گیا : وَلاَ تَا کُلُو ا اَ مَوَٰ لَکُم بَیَنَکُم بِاُ لَبَٰطِلِ
وَ تُدََ لُو ا بِھَاَ الَی اُ لَحُکَّا مِ لِتَا کُلُو افَریقَا مِّنْ اَ مْوَٰلِ
اُلنَّاسِ بِاُ لا ثمِ وَ اَ نتُمَ تَعْلَمُونَ (البقرۃ: 188)‘’اور کھاؤ مال ایک دوسرے
کا آپس میں ناحق اور نہ پہنچاؤ ان کو حکام تک کہ تم لوگوں کے مال میں سے ناحق طریقے
پر (ظلم وتعدی سے) کھاؤ اور تم (یہ بات ) اچھی طرح جانتے ہو’’ یہ آیت کسب معاش کے
ان تمام طریقوں کی ممانعت کو جامع ہے جو ناپسندیدہ او رناجائز ہیں جیسے چوری، ڈاکہ،
دھوکہ فریب، خیانت ورشوت ،غرض یہ کہ کوئی ناجائز طریقہ ایسا نہیں ہے جس کی اس آیت
کے ذریعہ نفی نہ کی گئی ہو۔ یہ آیت ایک خاص واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی، دور رسالت
صلی اللہ علیہ وسلم میں دو صحابیوں کے درمیان
زمین کے کسی معاملے میں نزاع پیدا ہوا ، جب بات آپس میں نہیں سلجھی تو دونوں حضرات
تصیفے کے لیے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں حاضر ہوئے ، جو صحابی زمین
کی حق ملکیت کے مدعی تھے۔
ان کے پاس کوئی ثبوت ملکیت کا نہیں
تھا، کوئی گواہ ایسا نہیں تھا جو یہ گواہی دیتا کہ زمین ان کی ہے، جب مدعی کے پاس گواہ
اور ثبوت نہ ہوں تو شرعی ضابطے کے مطابق مدعا علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ قسم
کھائے ، مدعا علیہ نے قسم کھانے کا ارادہ کیا، اس وقت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ان کو یہ آیت سنائی :اِنَّ اُلَّذِیِنَ یَشْتَرونَ بِعَھْدِ اُللہِ وَ اَیْمَٰنِھِمْ
ثَمَنَا قَلِیلاً (آل عمران:77) ‘‘مقصد یہ تھا کہ وہ صحابی جھوٹی قسم کھانے سے باز
رہیں ،انہوں نے جب یہ آیت سنی تو قسم کھانے کا ارادہ ترک کردیا اور زمین پر اپنے دعوے
سے دست بردار ہوگئے(تفسیر معالم التنز یل للغوی :1/210)قرآن تعبیر ات میں انسانی مزاج
کی بڑی رعایت کی جاتی ہے ، اور وہ اسلوب بیان اختیار کیا جاتاہے جو بڑے سے بڑے مفہوم
کو انسان کے دل ودماغ میں نہات ساد ہ اور موثر طریقے پر پیوست کردیتا ہے ، اب اسی آیت
میں دیکھ لیجئے اس میں لفظ اموالکم فرمایا گیا ہے جس کے معنی ہیں اپنے اموال ،اس میں
اس حقیقت کی طرف اشارہ ہےکہ تم دوسرے کے مال میں ناجائز طریقے پر تصرف کرنے سے پہلے
یہ سوش لیا کرو کہ جس طرح تمہیں اپنے مال سے محبت ہے ،اسی طرح دوسرا شخص بھی اپنے مال
سے محبت رکھتا ہے ، یہ سوچو کہ اگر تم نا جائز طریقے پر اس کا مال ہتھیاؤگے تو اسے
تمہاری ا س حرکت سے تکلیف ہوگئی، اسی طرح اگر اس نے یہ حرکت تمہارے ساتھ کی تو کیا تم اس کی تکلیف محسوس
نہ کروگے،کسی کےمال میں بے جاتصرف کرنے سے پہلے یہ سوچ لیا کرو گویا وہ تمہارا ہی مال
ہے، جس میں تم ناجائز تصرف کے مرتکب ہورہے ہو، پھر اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہوسکتا
ہے کہ جب تم کسی کے مال میں بے جاتصرف کروگے تو دوسرا بھی مجبور ہوکر ایسا ہی کرے گا۔
اس طرح تم دوسرے کو اپنے مال
میں بے جا تصرف کی دعوت دے رہے ہو ،ہم کھلی آنکھوں رات دن اس کا مشاہدہ کررہے ہیں
،ایک شخص دودھ میں ملاوٹ کا کاروبار کرتا ہے، بلاشبہ وہ اپنی اس حرکت سے کچھ زیادہ
نفع کمالیتا ہے لیکن وہ زائد نفع خود دوسری ملاوٹی چیزیں خریدنے میں برباد کردیتا ہے،
دوسرا شخص نقلی دوائیں فروخت کررہا ہے اسے نقلی دوائیں خریدنی پڑتی ہیں ،کچھ دوسرے
لوگ گھی تیل میں چربی ملا کر ناجائز کاروبار کررہے ہیں اسے یہ ملاوٹی گھی تیل خرید
نا پڑتارہا ہے، گویا جتنا پیسہ اس نے ملاوٹی دودھ فروخت کر کے کمایا تھا اتنا ہی پیسہ
یا اس سے کچھ کم وبیش روپیہ وہ دوسری ملاوٹی اشیا خرید کر برباد کردیتا ہے اور نقصان
اٹھاتا ہے ۔آپس میں ایک دوسرے کا مال اس لیے کہا گیا تاکہ قوم ووطن کی وحدت کا احساس
باقی رکھا جائے اور یہ ذہن نشین کیا جائے ایک دوسرے کے مال کی حفاظت مشترکہ ذمہ داری
ہے، اور باہمی تعاون کو روبہ عمل لانے کے لیے شرط اولین کی حیثیت رکھتی ہے، قرآن کریم
انسانی دلوں میں یہ جذبہ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ وہ جس طرح اپنے مال کا احترام کرتے
ہیں اور اس سے محبت رکھتے ہیں اسی طرح دوسرے کے مال کا احترام بھی کریں اور اس سے بھی
محبت کریں، اگر کسی نے دوسرے کے مال میں دس درازی کی، اسے غصب کیا ، چوری سے لے لیا،
یا دھوکہ وفریب دے کر ہتھیالیا ، یا کسی ایسی چیز کے عوض میں حاصل کرلیا ، جو چیز عوض
بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
اس نے گو یا پوری قوم اور پورے
ملک پر ظلم کیا ، وہ خود قوم کا ایک فرد ہے اور وطن کا حصہ ہے، جو گنا ہ کیا ہے وہ
خود اس کی ذات تک محدود رہے ایسا ممکن نہیں ہے، یقینی طور پر یہ گناہ متعددی ہوگا ،
او رمعاشرے کے دوسرے افراد بھی اس میں ملوث ہوں گے ، آج اس نے کسی کا مال ہڑپ لیا
ہے ، کل کو وہ اس کا ا س کے کسی بھائی کا مال ہڑپ کر کے اس گناہ کو متعدی بنانے میں
اپنے رول ادا کرے گا، قرآن کریم کی اس آیت میں لفظ باطل لایا گیا ہے ،یہ لفظ اپنے
معنی کے اعتبار سے بڑا وسیع ہے اور ناجائز کسب مال کے تمام طریقوں کو شامل ہے، چوری،
ڈاکہ، ظلم، و جبر اور تشدد کے ذریعہ مال کا حصول ،سود، قمار، رشوت اور وہ تمام معاملات
بیع وتجارت جن کی شروعات اجازت نہیں لفظ باطل میں داخل ہیں، حد یہ ہے کہ فریقین کی
رضا مندی سے بھی اگر کوئی معاملہ پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہو وہ بھی جائز نہیں اگر اس
میں شریعت کی پاس داری نہیں ہے ، مال حرام میں محنت بھی جواز کے لیے معقول وجہ نہیں
ہے، مال حرام محنت سے حاصل ہو یا بغیر محنت
کے حرام ہی رہے گا، اگرچہ اس آیت میں لاتا
کلوا کالفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں مت کھاؤ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف مال حرام
کھانے کی ممانعت ہے، پہننے ،اوڑھنے میں یار ہنے سہنے میں مال حرام استعمال کیا جاسکتا
ہے ، ایسا نہیں ہے، جس طرح کھانے پینے میں مال حرام کے استعمال کی ممانعت ہے اسی طرح
دوسری چیزوں میں بھی ہے، اس سلسلے میں قرآن کریم نے عام اسلوب بیان کا تتبع کیا ہے۔
قرآن کریم نے اسی حکم پر
اکتفا نہیں کیا بلکہ دوسرے طریقوں سے بھی انسان کوا کل حلال پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے، ایک آیت میں اکلِ حلال کو عمل صالح
سے ہم آہنگ فرما کر یہ واضح کیا گیا ہےکہ اعمال صالحہ کا صدور اکل حلال کے بغیر ممکن
نہیں ہے، اور اگر کسی نے ظاہر ی طور پر عمل صالح کیا بھی تو وہ نتائج کے اعتبار سے
مفید ہوہی نہیں سکتا ، نہ اس پر کسی اجر وثواب کی امید رکھنی چاہئے فرمایا : یَاَ یُّھَا
اُلرُّسُلُ کُلُو امِنَ اُ لطَّیِّبٰتِ وَ اُ عْمَلُو ا صَلِحَا (المومنون :51) ‘‘اے
گروہ انبیا ،حلال او رپاک چیز یں کھا ؤ او رنیک عمل کرو’’ اگر چہ اس میں خطاب انبیائے
کرام علیہم اسلام سے فرمایا گیا ہے مگر ایک حدیث میں واضح فرمایا گیا کہ یہ حکم عام
ہے، صرف انبیا ئے کرام کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے، اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ حرام مال
کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی ،فرمایا : بہت سے لوگ عبادت میں مشقت برداشت کرتے
ہیں پھر اللہ کے سامنے دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتےہیں اور یارب یارب پکارتے ہیں مگر ان
کا کھانا بھی حرام ہوتا ہے،پینا بھی حرام ہوتا ہے اور لباس بھی حرام ہوتا ہے۔
ا س صورت میں ان کی دعا کیسے قبول
ہوسکتی ہے ۔ روایات میں اکل حلال کے بڑے فضائل اور اکل حرام کی بے شمار مذمتیں وارد
ہیں جن سےثابت ہوتا ہے کہ معاشرے کی تطہیر اکل حلال کے بغیر ممکن نہیں ، حتیٰ کہ نماز
روزہ جیسی بنیادی عبادتیں بھی درجہ قبولیت سے سرفراز نہیں ہوسکتیں ، او رنہ صدقہ وخیرات
سے ناپاک کمائی پاک بن سکتی ہے، ایک مرتبہ صحابی رسول حضرت سعد بن وقاص ؒ نے سرکار
دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے لیے مستجاب الدعوات ہونے کی
دعا فرمادیجئے ،فرمایا اے سعد اپنا کھانا حلال او رپاک کرلو ، تم مستجاب الدعوات بن
جاؤگے ، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہےبندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ
ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور جس شخص کا گوشت حرام مال
سے بنا ہوا ہو وہ گوشت تو جہنم کی ہی لائق ہے ،( المعجم الاوسط للطبرانی :14/261، رقم
الحدیث : 6683) حضرت عبدا للہ ابن مسعود ؓ کی روایت میں سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس
ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی بندہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب
تک اس کا قلب او رزبان مسلم نہ ہوجائے اور جب تک اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے محفوظ
نہ رہیں اور اب کوئی بندہ مال حرام کھاتاہے۔
پھر اس کو صدقہ کرتا ہے تو وہ قبول
نہیں ہوتا ، اس میں خرچ کرتا ہے تو برکت نہیں ہوتی اور وارثوں کے لیے چھوڑ تا ہے تو
وہ جہنم کی طرف لے جانے کے لئے ذریعہ بن جاتا
ہے (مسند احمد بن حنبل : 87/25، رقم الحدیث :3491) حضرت عبدا للہ ابن مسعود ؓ ہی سے
روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ا س ذات کی قسم جس کے
قبضے میں میری جان ہے قیامت کے روز کوئی بندہ اپنی جگہ سے نہ ہٹے گا جب تک اس سے چار سوالوں کا جواب نہ لیا جائے گا،
ایک یہ کہ اس نے اپنی عمر کو کہاں ضائع کیا،
دوسرے یہ کہ اپنی جوانی کس شغل میں برباد کی، تیسرے یہ کہ اپنا مال کہاں سے کمایا او
رکہا خرچ کیا او رچوتھے یہ کہ اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا ۔( المعجم الا وسط للطبرانی:16/367،رقم
الحدیث :7791)آج ہمار ملک گلے گلے بدعنوانیوں کے دل دل میں ڈوبا ہوا ہے، اس سے نکلنے
کے لیے اسلام جیسے مکمل اور فطری مذہب کی جامع اور حقیقی تعلیمات ہی کی ضرورت ہے ،
عموماً لوگ اس لیے بدعنوانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں نہ انسانی قانون
کا خوف ہے اور نہ خدائی قانون کا ، انسانی قانون کے بارے میں تو ان کا خیال یہ ہے کہ
وہ جب چاہے پیسے سے خرید کر اسے اپنے حق میں کرسکتے ہیں اور خدائی قانون کو وہ مانتے
ہی نہیں، حالا نکہ خدائی قانون کو ماننا اور اس پر دل سے عمل کرنا ہی بدعنوانیوں کے
اس طوفان سے ملک وقوم کو باہر نکال سکتا ہے ،کاش ہمارے ملک کے ارباب بسط وکشاد اس پہلو
سے بھی غور کرلیں، ورنہ یہ معاشرتی او رسماجی ناسور مسلسل پھیلتا رہے گا، اور بالآخر
ملک کے نظام معیشت کو تباہ وبرباد کردے گا۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-shari-ah-looks-curse/d/3857