New Age Islam
Sun Feb 16 2025, 08:10 PM

Urdu Section ( 19 Oct 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Conversation With The Travelers of Holy Makkah کچھ باتیں دیارِ حرم کےمسافروں سے

مولانا ندیم الواجدی

حج کے دن قریب آتے جارہے ہیں، جو مسلمان سفرحج کاارادہ کرچکے ہیں ان کی تیاری آخری مرحلے میں ہے، بہت جلد وہ اس بلد امین کی مقدس سرزمین پر اپنے قدم رکھیں گے جہاں بیت اللہ شریف واقع ہے، اس گھر کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے تعمیر کئے جانے والے پہلے گھر کا شرف حاصل ہے۔ ‘‘اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے اور جو تمام لوگوں کے لئے ہدایت وبرکت والا ہے ’’ (آل عمران :96)۔

اللہ رب العزت نے اپنے اس گھر کواس قدر عزت وعظمت سے نوازا ہے کہ رہتی دنیا تک اسے مسلمانوں کا قبلہ بنادیا ۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان ہیں وہ اسی کی طرف رخ کر کے اپنی تمام نمازیں ادا کرتے ہیں اور قیامت تک اسی طرح ادا کرتے رہیں گے ، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن یعنی حج کو بھی اس گھر کے ساتھ مربوط کیا گیا، خانہ کعبہ کی تعمیر سے لے کر آج تک بند گان خداندائے ابراہیمی پر لبیک کہتے چلے آرہے ہیں اور آئندہ بھی اس پکار پر اسی طرح لبیک کہتے رہیں گے ،بیت اللہ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم  دیا تھا کہ وہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں۔ ‘‘ اورلوگوں میں حج کا اعلان کیجئے ۔ لوگ آپ کے پاس چلے آئیں گے پیدل بھی اور دہلی اونٹنیوں پر بھی جو کہ دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی’’(الحج :27)

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ آواز سنی اور لبیک کہا اور اس طرح انہیں اسلام کا ایک اہم رکن ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ،یہ رکن جسے شریعت کی اصطلاح میں حج کہا جاتا ہے زندگی میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے اور ان لوگوں پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں، استطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس مکہ مکرمہ تک جانے اور واپس آنے کا خرچ ہو اور واپسی اس کے اہل وعیال کی ضروریات کے لئے بھی مصارف موجود ہوں، ‘‘ اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس مکان کا حج کرنا ہے اس شخص کے ذمے جو کہ وہاں پہنچنے کی طاقت رکھے’’ (آل عمران :97)۔

وہ شخص بڑا خوش نصیب ہے جسے اسلام کے اس اہم رکن کی ادائیگی کی سعادت حاصل ہو اور اس سے بھی زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہے جو اس عبادت کو محض دنیاوی نام ونمود کے لئے ادا نہ کرے بلکہ اس کا مقصد فرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حج کی برکتوں ،سعادتوں اور رحمتوں کا حصول بھی ہوا اور وہ اس فرض کی تکمیل اس طرح کرے کہ اس کا حج، حج مبروربن جائے، جس کی بڑی فضیلت وارد ہے، حدیث شریف میں ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : الحج المبرور لیس لہ جزا الا لجنۃ (صحیح البخاری :2/629، رقم الحدیث :1683)‘‘ حج مبرو رکا ثواب صرف جنت ہے’’ ۔شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ حج مبروروہ ہے جس میں حاجی سے کوئی گناہ سرزدنہ ہو اور اس کے تمام کام سنت کے مطابق انجام پائیں ،قرآن کریم کی اس آیت میں یہی مراد ہے۔‘‘سوجو شخص ان میں حج مقرر کرہے تو پھر نہ کوئی فحش بات ہے اور نہ فسق اور کسی قسم کا جھگڑا ہے حج میں ’’(البقرہ :197)۔

مسافر ان دیار حرم پابہ رکاب ہونے سے پہلے کچھ دیرٹھہر کر سوچیں کہ انہوں نے اپنے حج کو حج مبرور بنانے کے لئے کیا کچھ تیار ی کی ہے ، سفر حج کے کچھ قانونی تقاضے ہیں وہ پورے کرلئے گئے ہوں گے، پاسپورٹ ، ویزا ٹکٹ ، کرنسی ، احرام سب چیزیں ضروری ہیں یقیناً ان ضروریات کی تکمیل کرلی گئی ہوگی، بہ ظاہر تیاری پوری ہوچکی ہے اور اب اس سفر میں کسی کی رکاوٹ کا کوئی امکان نہیں ہے ،مگر اس سے بڑھ کر تیاری روح کی تیاری ہے اور ان ضروریات کی تکمیل ہے جن کا تعلق دل سے ہے ، حج میں جانے سے پہلے ہمیں اس روحانی تیاری پر بھی اپنی توجہ مرکوزرکھنی چاہئے ،ہم اس سفر کے دوران پیش آنے والی ہرضرورت کی چیز فراہم کرنے میں لگے ہیں اور پوچھ پوچھ کر ضرورت کی تمام چیزیں مہیا کررہے ہیں ،ایسا نہ ہو کہ کوئی چیز رہ جائے اور راستے میں یا حرمین شریفین میں قیام کے دوران پریشانی اٹھانی پڑے ،اگر ہمیں احسا س نہیں تو حج سے متعلق ان امور کا نہیں جن پر ان اہم عبادت کی صحت او رمقبولیت کا دار ومدار ہے اور جن کے بغیر یہ سفر محض مالی اخراجات کا ذریعہ اور جسمانی مشقت کا باعث ہے ۔

یاد رہے کہ تمام اعمال کی صحت اور قبولیت کا دارومدات نیت کی درستگی پر ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:‘‘ حالانکہ ان لوگوں کو یہی حکم ہوا تھا کہ اللہ  کی اس طرح عبادت کریں کہ عبادت اسی کے لئے خاص رکھیں’’۔(سورۃ البینۃ :5)مشہور حدیث ہے: انما الا عمال بالیٔات ولکل امری مانوی (صحیح البخاری :1)‘‘تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہرشخص کو اس کی نیت کے مطابق ہی اجر ملنے والا ہے’’۔

اخلاص نیت کے بعد ضروری ہے کہ حج کے لئے نکلنے سے پہلے اپنے سابقہ اعمال پر نگاہ دوڑائی جائے ،زندگی میں کتنے فرائض وواجبات چھوڑے ہیں، کتنے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے، پھر ان گناہوں میں وہ گناہ کتنے ہیں جن کا تعلق بندگان خدا سے ہے، غیبت ،چغل خوری، حق تلفی ،ظلم وزیادتی، ناانصافی ،بددیانتی ،اذیت کوشی یہ سب وہ گناہ ہیں جو ہم کسی احساس کے بغیر ہر وقت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ہم ان گناہوں کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ یہ گناہ ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں ، یوں تو ہرمسلمان کے لیے ان گناہوں سے تو بہ کرنا اور آنے والی زندگی میں ان سے بچنے کا عہد کرنا ضروری ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:‘‘اور اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کروتاکہ تم سب فلاح پاؤ ’’ (النور:31) ، لیکن حجاج کرام کے لئے تو روح کی پاکیزگی اس لیے بھی ضروری ہے کے وہ اللہ کے گھر اس کا مہمان بن کر جارہے ہیں ، جیسے دنیا میں مہمان صاف ستھرا ہوکر میزبان کے گھر پہنچتا ہے اسی طرح ان مہمانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تمام آلایشوں اور کدورتوں سے پاک صاف ہوکر اللہ کے گھر میں قدم رکھیں اور اس یزکیہ وتطہیر کا واحد ذریعہ توبہ ہے، حدیث شریف میں ہے:التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ( سن ابن ماجۃ : 2/1419، رقم الحدیث : 4250)‘‘گناہوں سے توبہ کرنےوالا ایسا ہے جیسے اس سے کوئی گناہ ہی سرز دنہ ہوا ہو’’۔یہ تو ان گناہوں کا حال ہوا جو اللہ تعالیٰ سے متعلق ہیں اور اللہ اپنے فضل وکرم سے ان گناہوں کو معاف کرنے پر قادر ہے، دیکھا جائے تو یہ بندے اور اس کے خالق کےدرمیان کا معاملہ ہے، لیکن ان سے بڑھ کر وہ کو تاہیاں اور لغزشیں ہیں جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے ،ان تمام کوتاہیوں کے لئے متعلقہ لوگوں سے معافی مانگنا (اگر وہ زندہ ہوں) ضروری ہے اور زندہ نہ ہوں تو ان کے لئے زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب کرنا چاہئے تاکہ قیامت کے دن وہ اپنے نامہ اعمال میں آپ کے بھیجے ہوئے تحائف وہدایا  ت دیکھ کر نرم پڑجائیں ،اس طرح کی معافی کا تعلق بھی ان کو تاہیوں سے ہے جو مالیات کے شعبے سے نہ ہوں ، مثلاً کسی پر ظلم کیا ہو، جو متعلقہ لوگوں سے براہ راست معاف کرانے ہوں گے، یا ان کی معافی کی صورت یہ ہوگی کہ جو کچھ مالی واجبات کسی دوسرے کے ہیں وہ پورے طور پر ادا کئے جائیں الا یہ کہ حق والے خود ہی اپناحق چھوڑ نے پر راضی ہوجائیں ،بسا اوقات حق کی ادائیگی میں اس قدر تاخیر ہوتی ہے کہ حقدار لوگ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ، ایسی صورت میں اس کے تمام ورثا سے رابطہ قائم کرنا ضروری ہے،اگر ایک بھی وارث ایسا باقی رہ گیا جس تک اس کا حصہ نہیں پہنچا یا گیا یا اس سے معاف نہیں کرایا گیا تو اس کے ذمے یہ حق بدستور باقی رہے گا او رکوئی صورت اس سے براہ راست کی نہیں ہوگی۔

یہ نیکی اور خیر وسعادت کا سفر ہے،جس طرح دنیاوی اسفا کے لئے سفر کی نوعیت کے لحاظ سے مناسب زاد راہ لے کر چلتے ہیں ،اسی طرح اس سفر کے لئے بھی مناسب زاد راہ کی ضرورت ہے اور زاد راہ کاانتخاب خود قرآن کریم نے کیا ہے، ایک مومن کے لیے اس سے بڑھ کر نہ کوئی متاع سفر ہوسکتا ہے اور نہ کوئی زاد راہ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ‘‘ اور زادراہ لے کر چلو بلاشبہ تقوی سے بڑھ کرکو ئی زادراہ نہیں ہے’’( البقرہ:197)۔

https://newageislam.com/urdu-section/a-conversation-with-travelers-holy/d/1946


Loading..

Loading..