مولانا محمد مجاہد حسین حبیبی
آغا ز اسلام اور حضور سرکار
دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے عرب اور غیر عرب ملکوں میں
عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ حتیٰ کہ بے جان چیزوں کی طرح انہیں خریدا اور بیچا جاتا
ہے۔ انہیں قتل کردینا ان کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرنا کوئی گناہ اور زیادتی سمجھا جاتا
تھا ۔ وراثت میں نہ تو ان کا کوئی حصہ ہوا کرتاتھا اور نہ ان کی کوئی عزت ہوتی تھی۔
شوہر کے مرنے کے بعد بیوی شوہر کے بیٹے کی ملکیت سمجھی جاتی۔ اگر عورت خوبصورت ہوتو
تو وہ اسے اپنےپاس رکھتا ورنہ اسے دوسرے کے ہاتھوں بیچ دیا کرتا تھا۔ عورت کو جنسی
آگ بجھانے کا محض ذریعہ اور گناہ کی پیداوار سمجھا جاتا تھا۔ عورت پر ظلم وزیادتی
کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہوجاتا تھاجب وہ پیدا ہوتی اور بالکل چھوٹی بچی ہوتی تھی۔
عرب کے کئی قبائل میں یہ بری رسم عام تھی کہ بچی کے پیدا ہونے کے بعد اسے زندہ درگو
ر کردیا جاتا تھا۔ قرآن کریم میں اہل عرب کےاس بدبختانہ عمل کا اللہ رب العزت نے خود
تذکرہ فرمایا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ۔‘‘ جب ان میں سے کسی کو بیٹی ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پرسیاہی چھاجاتی
۔ اور وہ غصہ کی وجہ سے خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا کہ اس بری
خبر کے بعد لوگوں کو کیا منھ دکھائے ۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو رہنے دے یا
مٹی میں دبادے’’۔(سورہ نحل ۔آیت نمبر :59،58) ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے۔‘‘ اپنی
اولاد کو مفلسی اور محتاجگی کے سبب قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں
بھی۔ ان کا قتل بہت بڑی غلطی او رگناہ ہے’’ (سورہ نبی اسرائیل ۔آیت :31)۔
ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ
اہل عرب بچیوں کو انتہائی حقارت اور نفرت کے نظر سے دیکھتے تھے۔ شقاوت او ربدبختی کی
حد یہ تھی کہ وہ انہیں زندہ رکھنے کے حق میں بھی نہ تھے بلکہ فخر یہ اپنی بیٹیوں کو
زندہ قبر میں دفنا دیا کرتے تھے۔ لیکن جب اسلام آیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نے مسلمانوں کو جہاں اللہ کی وحدانیت کی تعلیم دی اپنی رسالت کا اقرار کروایا وہیں
کلمہ پڑھنے والےمسلمانوں کو قتل ناحق سے بچنے کی ہدایت فرمائی او ر عورت اور بچیوں
کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھنے کی خاصی تاکید فرمائی۔ اس سلسلے میں چند حد یثیں ملاحظہ
فرمائیں۔ بیٹی کی پرورش پرجنت کی بشارت: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس آدمی کے یہاں
بیٹی پیدا ہوئی پھر نہ تو وہ اسے زندہ دفن کرے اور نہ اسے ذلیل سمجھے اور نہ اپنے بیٹو
کو اس پر ترجیح دے تو اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔(ابوداؤد )
حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے
ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کی تین
بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے معاملے میں صبر سے کام لے اور اپنی کمائی میں سے انہیں کھلائے
،پلائے اور پہنائے تو وہ بیٹیاں قیامت کے دن اس کے لئے آگ سے بچاؤ کاذریعہ ہوجائیں
گی۔(ابن ماجہ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ و سن بلوغ
کو پہنچ جائیں ۔ تو وہ (پرو رش کرنے والا) قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ میں اور
وہ ایسے ہوں گے پھر آپ نے ہاتھ کی انگلیوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ملادیا (یعنی
ایسے قریب ہوں گے)۔(مشکوۃ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کی دوبیٹیاں تھیں۔ اس نے کچھ
مانگا اور میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے اسے وہی دے دیا۔ اس نے اس
کھجور کو اپنی دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا۔
پھر اٹھ کر کھڑی ہوئی اور چلی گئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے میں نے آپ کو یہ بات بتائی تو آپ
نے فرمایا جو کوئی ان لڑکیوں کے بارے میں کسی آزمائش میں ۔مبتلا ہوجائے پھر وہ ان
سے اچھا سلوک کرے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم کی آگ سے پردہ بن جائیں گی۔ (بخاری
ومسلم)
حضور کی ان پاکیزہ باتوں کا
یہ اثر ہوا کہ چند دنوں میں عرب قوم کی کایا پلٹ گئی۔ جو عورتوں کی عصمت وعفت کے ساتھ
کھلواڑ کرتے تھے وہ ان کے ناموس کے محافظ بن گئے۔ جو بچیوں کو زندہ درگور کرتے تھے
۔ وہ بچیوں کی پرورش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے او ر ان کی دیکھ ریکھ اور بہتر تعلیم
وتربیت کو اپنے نجات و مغفرت سمجھنے لگے۔ یہ سلسلہ ماضی قریب تک جاری رہا۔ لیکن اب
چند سالوں سے مسلمانوں میں بھی بچیوں کے تعلق سے غلط ذہنیت فروغ پارہی ہے۔ ان کی ولادت
کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ اور ان کے ساتھ براسلوک بھی عام ہوتا جارہا ۔ ہم مسلمانوں
کے لیے یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ جو کام کفارہ ومشرکین اسلام سے پہلے انجام دیتے
تھے آج مسلمان کہلانے والے وہی کام انجام دے رہے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات سے دوری کا
نتیجہ :گذشتہ دو ماہ کے اخبارات ملاحظہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کتنی تیزی کے ساتھ بچیوں
کو قتل کرنے اور ان کے ساتھ براسلوک کرنے کا مزاج مسلم معاشرہ میں عام ہوتا جارہا ہے۔
کہیں بچی پیدا ہونے کی وجہ سے ماں کو جلایا جارہا ہے، کہیں بچی اور ماں کو زہر کھلایا
جارہا ہے۔ کہیں بچی پیدا ہونے کے سبب بیوی کو طلاق دی جارہی ہے ۔ بچیوں کی ولادت کے
بعد جو حالات رونما ہورہے ہیں اخبارات کے ذریعہ ہم اور آپ تک وہ باتیں پہنچ جاتی ہیں
۔لیکن شکم مارد میں جن بچیوں کا قتل ہورہا ہے ان سے کون آگاہ ہے؟ ان کی تعداد کیا
ہے؟ مسلمانوں کو یہ کیا ہوگیا ہے؟ یہ کیوں ہورہا ہے؟ اوراس کے بچنے کی تدبیر کیا ہے؟
بہت سارے سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جن کے جوابات بھی بہت سارے ہیں پہلی بات: یہ کون
دین ومذہب آدمیت و انسانیت سے غافل اور اللہ کی ذات پر بھروسہ نہ ہونے کے سبب لوگ اس قسم کا گھناؤنا کام انجام دے
رہے ہیں ۔ دوسری بات ! یہ ہے کہ جہالت کے سبب کچھ لوگ بچیوں کو پرایا مال سمجھتے ہیں
۔ پھر جہیز کے خوف کے سبب اور کسی کو داماد بنانا اپنے لیے ذلت کا ذریعہ سمجھتے ہیں
۔ اس لیے وہ اس طرح کا اقدام کر بیٹھتے ہیں۔ تیسری بات: غربت سے تنگ آکر یا وسائل
کی کمی کے سبب اس طرح کی حرکت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا سباب میں سے پہلے
دو کا حل یہ ہےکہ علمادانشور او رپڑھے لکھے حضرات لوگوں کو قرآن وحدیث کی روشنی میں
بچیوں کی قدر ومنزلت ، ان کے مقام مرتبے اور ان کی پرورش کے تعلق سے جو بشار تیں حدیثوں
میں بیان ہوئی ہیں ان سے لوگو ں کو آگاہ کریں۔ اللہ کی ذات سے امید دلائیں کہ جس طرح
وہ آپ کو روزی دے رہا ہے اسی طرح وہ آپ کی بچیوں کو بھی روزی دے گا اور ان کے خوردونوش
کا انتظام فرمائے گا۔ ساتھ ہی جہیز کی مذمت اس کی خرابیوں سے مسلمانوں کو آگاہ کریں
تاکہ یہ بری رسم معاشرہ سے ختم ہو اور لوگوں کے لیے لڑکیوں کی پرورش کرنا اور ان کی
شادی کرنا وغیرہ آسان ہوسکے۔ اس طرح بہت ساری بچیوں کی جان بچائی جاسکتی ہے ۔تیسری
بات کا حل یہ ہے کہ اہل ثروت حضرات اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری سمجھیں ۔مسجدوں میں
سنگ مر مر اور ٹائلز لگانے ، ایئر کنڈیشن لگانے ، مینار وگنبد بنوانے ،امام کو حج کروانے
،پیر صاحب کو موٹی رقم نذر پیش کرنے سے سوگنازیادہ اہم یہ ہے کہ غریب مسلمان بھائی
کی مالی امداد واعانت کی جائے تاکہ بچیوں کی زندگی بچ سکے۔ دیکھئے غریب مسلمان بھائی
کی امداد واعانت پر اللہ اور اس کے رسول نے کیا خوشخبری دی ہے۔
غریب مسلمانوں کی امداد واعانت
پر بشارت: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے
اللہ اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے ۔ اور جو کوئی کسی مسلمان کی کسی تکلیف
کو دور کردے تو اللہ اس کے بدلے قیامت کے دن
کو تکلیفوں میں سے کسی تکلیف کو در کردے گا۔ (ابوداؤد ۔حدیث نمبر :3539)حضرت
عبداللہ وبن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں
جنہیں اللہ نے لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ لوگ اپنی ضرورتیں ان کے پاس لے کر آتے ہیں
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے عذاب سے مامون (محفوظ )فرمایا ہے۔ التر غیب والترہیب
:حدیث نمبر :3862)
غریب مسلمانوں کی امدادنہ
کرنے پر وعید : حضرت جریرین عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پررحم نہیں کرتا ۔(بخاری ،مسلم،
ترمذی) ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو زمین
والوں پررحم نہیں کرتا تو جو آسمانوں پر ہے وہ اس پر رحم نہیں کرتا ۔( طبرانی فی الکبیر
،حدیث نمبر :2/355)
غریب اور یتیم بچوں کی پرورش
کے سلسلے میں حدثیں: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں اور یتیم کا پرورش کرنے والا جنت میں
اس طرح ہوں گے۔ اور آپ نے انگوٹھے کے بغل والی اور بیچ والی انگلی سے اشارہ فرمایا
اور ا ن دونوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ رکھا۔
(ترمذی : حدیث نمبر : 1918)یعنی یتیم بچوں کی پرورش کرنے والا جنت میں حضور کے بہت
قریب ہوگا۔ اس سلسلے میں مزید حدیثیں ملاحظہ فرمائیں کے یتیموں کو پرورش کرنے کا صلہ
وثواب کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کے گھر وں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جہاں کوئی یتیم
ہو اور گھروالے اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور مسلمانوں کے گھروں میں سب سے برا گھر
وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اوراس کے ساتھ براسلوک کیا جاتا ہو( ابن ماجہ ۔حدیث
:3679)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ روایت ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ بیوہ او رمسکین کے لئے کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے
والے کی طرح ہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ مجھےلگتا ہے کہ حضور نے یہ بھی فرمایا وہ مسلسل
قیام کرنے اور روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔( بخاری ۔حدیث نمبر :6007۔مسلم ۔حدیث نمبر
2982)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس
ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ اللہ قیامت کے دن اس آدمی کو عذاب نہیں دے
گا جس نے یتیم پر رحم کیا ہو اور بات چیت میں نرمی برتی ہو۔ اور اس کی یتیمی او ربے
بسی پررحم کیا ہو۔ (الترغیب والترھیب ۔حدیث نمبر :756) قتل ناحق کی مذمت: حضرت ابودردا
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہر گناہ معاف کردیا جائے گا سوائے اس کے کہ کوئی آدمی کفر
پر مرا ہو۔ یا جان بوجھ کر کسی آدمی نے مومن کو قتل کیا ہو۔( نسائی ۔حدیث نمبر
:3984)
حضرت برأبن عازب رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد رفرمایا دنیا کو ختم کیا
جانا اللہ کے نزدیک اس بات سے بہت آسان ہے کہ ناحق کسی مسلمان کو قتل کیا جائے ۔(الترغیب
و التر ھیب ۔حدیث نمبر : 3588) اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کسی بھی مسلمان کو
قتل کرنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ جانور پر ظلم سزا: حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ایک عورت کو صرف ایک بلی کی وجہ سے عذاب میں داخل کیا گیا۔ بلی کو اس نے قید کردیا
تھا یہاں تک کہ وہ مرگئی ۔ جب سے اسے باندھا
تھا نہ اسے کھانا کھلایا تھا اور نہ ہی پانی پلایا تھا اور نہ ہی اسے کھلا چھوڑا کہ
وہ خود سے زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی ۔(بخاری ۔حدیث نمبر : 5632) جب بلی پر ظلم کرنے
اور اسے بھوکا مارنے کی یہ سزا ہے تو آپ خود انداز ہ لگاسکتے ہیں کہ بچیوں کو قتل
کرنے والا کیسے نجات پاسکتا ہے۔
جانور پر رحم کرنے کا صلہ:
حصرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نےارشاد فرمایا (پچھلی امت کا یہ واقعہ ہے ایک آدمی کو سخت پیاس لگی وہ پانی تلاش
کرتا ہوا) ایک کنویں کے پاس پہنچا ۔کنویں میں ڈول نہ ہونے کیوجہ سے وہ خود کنویں میں
اترا پانی پی کر شکم سیر ہوگیا ۔کنویں کے پاس ایک کتا تھا جو پیاس کی شدت کی وجہ سے
کیچڑے چاٹ رہا تھا۔ کتے کی اس حالت کو دیکھ اس آدمی کو رحم آگیا ۔ وہ پھر سے کنویں
میں اترا ۔ اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھر کو کنویں کے اوپر آیا اور اس کتے کو پانی
پلایا اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل
فرمادیا ۔( بخاری ۔حدیث نمبر 3632)
غور کریں جب جانور پررحم کرنے
کا یہ صلہ وثواب ہے تو انسان بالخصوص صنف نازک او ربے سہارا لڑکیوں اور بچیوں پررحم
کرنے کا صلہ کیا ہوگا؟
امید ہے کہ مذکورہ بالا سطور
پڑھ کر بچیوں پر ہورہے ظلم وستم کو روکنے کے لیے آپ ضرور قدم اٹھائیں گے اور سماج
و معاشرہ میں بڑھتے ہوئے اس بدبختانہ کام کو روکنے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیں غفلت برتنے
پر اللہ کے حضور ہمیں جواب دہ ہونا پڑے گا ۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
بشکریہ ‑ ہمارا سماج، نئی دہلی
URL: