New Age Islam
Thu Jan 16 2025, 02:45 PM

Urdu Section ( 27 Oct 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Weightless increase in Muslim population مسلم آبادی میں بے وزن اضافہ


معصوم مراد آبادی

مسلمانوں کے لئے خوش خبری یہ ہے کہ دنیا بھر میں ان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ علم وآگہی کے میدان میں مسلمانوں کی نمائندگی مسلسل گھٹ رہی ہے اور وہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی پسپا ہورہے ہیں ۔ ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا کاہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ دنیا کے چھ ارب 80کروڑ آبادی میں مسلمان ایک ارب 60کروڑ ہیں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلم آبادی یہ اضافہ ان علاقوں میں درج نہیں ہوا ہے جہاں سے اسلام طلوع ہوا بلکہ آبادی میں اضافہ کی شرح ان علاقوں میں بڑھی ہے جہاں لوگ اسلام کے آفاقی پیغام ،مساوات اور انسانیت نوازی سےمتاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی اکثریت اس کے گہوارے یعنی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے زیادہ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں ہے جہاں دیگر مذاہب کا غلبہ ہے۔

گذشتہ ہفتہ جب ایک امریکی تحقیقی ادارے پیو (PEW)نے دنیا بھر کی مسلم آبادی کے اعداد وشمار جاری کئے تو اسے اخبارات میں نمایا ں جگہ ملی اور مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ظاہر ہے مسلمانوں کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ مذہبی طور پر عیسائیوں کے بعد اب دنیا کی دوسری بڑی آبادی بن گئے ہیں ۔امریکی تحقیقی ادارے کا کہنا ہے کہ عیسائیت کے بعد اسلام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے ۔دنیا میں عیسائیوں کی مجموعی آبادی 2ارب 10کروڑ سے زائد ہے۔

امریکی تحقیقی ادارے نے مسلمانوں کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ ان کی آبادی میں توقع سے زیادہ اضافہ درج ہوا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے روایتی علاقوں سے زیادہ ان کی آبادی اب غیر علاقوں میں بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق لبنان سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی جرمنی میں ہوگئی ہے ۔شام سے زیادہ مسلمان چین میں ہیں ،اردن اور لیبیا کی مجموعی آبادی سے زیادہ مسلمان روس میں موجود ہیں۔ ایتھوپیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً افغانستان کے مسلمانوں کی آبادی کے مساوی ہوگئی ہے ۔پرسٹن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر امائی جمال کاکہنا ہے کہ اب یہ مفروضہ غلط ثابت ہورہا ہے کہ عرب کا مطلب مسلمان اور مسلمان کا مطلب عرب ہے۔

مسلمانو ں کی آبادی کےمعاملے میں ایشیا نے عرب دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔سروے کے مطابق دنیا کے 60فیصد مسلمان ایشیا میں رہتے ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں صرف 20فیصد مسلمان رہتے ہیں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد اقلیت بن کررہتی ہے 317ملین مسلمان ان ملکوں میں رہتے ہیں جہاں اسلامی حکومت نہیں ہے۔ ایسے مسلمانوں کی چوتھائی آبادی ہندوستان (16کروڑ 10لاکھ) ایتھوپیا (2کروڑ 80لاکھ) چین (2کروڑ 20لاکھ) روس (1کرور 60لاکھ) اور تنزانیہ(1کروڑ 13لاکھ) ہے ۔ہندوستان مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے تیسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان ہیں۔ انڈونیشیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی (20کروڑ 30لاکھ ) ہے۔

مسلمانوں کی آبادی میں یہ اضافہ یقیناً خوشی کا باعث ہے لیکن کیا اتنی بڑی تعداد میں پہنچنے کے باوجود مسلمان موجود ہ دنیا کے منظر نامہ اور اثر انداز ہورہے ہیں؟ یہی دراصل وہ سوال ہے جس کا جائزہ ہم اس مضمون میں لینا چاہتےہیں کیونکہ آبادی میں اس حد تک اضافہ کے باوجود دنیا پر  ان کے اثرات بہت محدود اور بڑی حد تک مایوس کن ہیں۔ تعلیم ، سائنسی ایجادات او سیاسی اور سفارتی بالادستی کے معاملے میں اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں کی حیثیت ‘پچھ لگو’ سے زیادہ نہیں ہے۔ زبانی جمع خرچ کر کے اپنا سکے جمانے والے دوچار مسلم ممالک کو چھوڑ دیں تو آپ کو صاف طور پر نظر آئے گا کہ اس وقت دنیا میں مسلمان ایک بے وقعت اور بے وزن آبادی کی طرح ہیں۔  یوں اگر دیکھا جائے تو  اس وقت دنیا میں 57مسلم ممالک ہیں اور مسلمان مجموعی طور پر دنیا کے 232ملکوں میں آباد ہیں۔

آئیے پہلے مسلم ملکوں کا جائزہ لیں ۔تنظیم اسلامی کانفرنس (O.I.C)کے رکن ممالک کی تعداد 57ہے اور ان تمام مسلم ملکو ں میں یونیوسیٹوں کی مجموعی تعداد صرف 500ہے یعنی 30لاکھ مسلمانوں کے لیے محض ایک یونیورسٹی ۔اس برعکس امریکہ میں پانچ ہزار 758یونیور سٹیاں موجود ہیں اور خود ہندستان میں یونیورسٹیوں کی تعداد چار سو سے زیادہ ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اب سے پانچ برس پہلے یعنی 2004میں سنگھائی جیاڈ ونگ یونیورسٹی نے کارکردگی کے اعتبار سے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی تھی ۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ درجہ اوّل کی 500یونیورسٹیوں میں مسلم ممالک کی کوئی ایک بھی یونیورسٹی جگہ نہ پاسکی۔ ا س سے صاف ظاہر ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال ان 57مسلم ملکوں میں جن میں سے بیشتر وسطیٰ میں پائے جاتے ہیں اور جہاں جدید زندگی کی تمام تر آسائشیں موجود ہیں، وہاں تعلیم مسلمانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے جبکہ موجودہ دنیا میں تعلیم کے بغیر ترقی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے ترقی (UNDP)کے جمع کردہ اعداد شمار کے مطابق پوری عیسائی دنیا میں شرح خواندگی تقریباً 90فیصد ہے اور 15عیسائی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں شرح خواندگی 100فیصد ہے۔ اس کے بالکل برعکس مسلم ممالک میں اوسط شرح خواندگی تقریباً چالیس فیصد ہے اور دنیا میں کوئی ایک بھی مسلم ملک ایسا نہیں ہے جہاں خواندگی کی شرح 100فیصد ہو۔

سائنس کے میدان میں بھی مسلمانوں کی حالت دگرگوں ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں سائنس کا بول بالا ہے اور سائنسداں دن رات کی محنت سے نت نئی تحقیقات کررہے ہیں حتیٰ کہ انہوں نے حال ہی میں چاند پر پانی کے وجود کاپتہ لگایا اور خلائی سائنس کی دنیا میں نت نئے انقلاب برپا ہورہے ہیں لیکن ان تحقیقات میں کتنے مسلمان شریک ہیں اس کا اندازۃ آپ کو اس بات سے ہوگا کہ مسلم ممالک میں ہر دس لاکھ مسلمانوں میں 230سائنس داں ہیں جبکہ امریکہ میں ہر دس لاکھ افراد میں چار ہزار سائنسداں موجود ہیں اور جاپان تو اس ے بھی بڑھ کر ہے جہاں ہر دس لاکھ افراد میں سے پانچ ہزار سائنسداں ہیں ۔پوری عرب میں دنیا میں ہمہ وقتی محققین کی مجموعی تعداد 35ہزار ہے اور ہر دس لاکھ عربوں میں صرف 50تکنیک کارموجود ہیں۔عیسائی ممالک میں یہ تناسب ہردس لاکھ افراد میں ایک ہزار تکنیک کاروں کا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ دولت سے مالا مال ممالک تحقیق اور تعلیم وترقی کی مد میں کوئی خاطر خواہ رقم خرچ نہیں کرتے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اس میدان میں مسلمانوں کی کارکردگی تشویشناک حد تک کم ہے۔ مسلم  دنیا تحقیق اور تعلیم وترقی پر اپنی مجموعی پیدوار کا صرف 0.2فیصد حصہ علم و تحقیق اور ترقی کی مد میں صرف کرتی ہے جبکہ اس کے برعکس عیسائی دنیا اپنی مجموعی پیداوار کا پانچ فیصد حصہ علم وتحقیق اور ترقی کی مد میں صرف کرتی ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلم دنیا میں علم وآگہی کو اجاگر کرنے اور اس کی ترویج کی صلاحیت انتہائی کم ہوکر رہ گئی ہے ۔مصنوعات کی پیداوار اور روزگار کی کارکردگی بہت کم ہے۔تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات ،کویت اور قطر اجتماعی طور پر پانچ سو ارب ڈالرز کی مصنوعات اور روزگار سالانہ پیداکرتے ہیں جب کہ صرف اسپین ایک کھرب ڈالر ز کی مصنوعات وروزگار سالانہ پیدا کرتا ہے۔ مسلمانوں کی مجموعی پیداواری آمدنی باقی دنیا کے مقابلے میں بہت تیزی سے کم ہورہی ہے۔

مسلمانوں کی اس زبوں حالی اور پسماندگی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ انہوں نے علم وتحقیق سے اپنا رشتہ توڑ کر باہمی رسہ کشی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ ودو کو اپنی شناخت بنالیا ہے۔ وہ مسلمان جنہوں نے کسی دور میں علم وتحقیق اور سائنسی اور طبی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑدیئے تھے وہ آج علم ودانش سے رشتہ ٹوٹنے کی وجہ سے ایک بے حیثیت قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ آبادی میں زبردست اضافے کے باوجود ان کے وزن میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/weightless-increase-muslim-population-/d/2000


 

Loading..

Loading..