معصوم مرادآبادی
آخر کار ایک مسلمان طالب علم نے ملک کی سب سے بڑی عدالت سے اپنی داڑھی کو برقرار رکھنے کا مقدمہ جیت ہی لیا ۔ اس طالب علم کی ثابت قدمی نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی پختہ ایمان والا مسلمان اسلامی شعائر پر خلوص سے کار بند ہے تو پھر عدالت عظمیٰ بھی اس کے موقف کی تائید کرتی ہے۔
مدھیہ پردیش کے ایک نوینٹ اسکول میں پڑھنے والے محمد سلیم نامی طالب علم کو اسکول نے محض اس لئے خارج کردیا تھا اس نے عالم شباب میں داخل کردیا تھا کہ اس نے عالم شباب میں داخل ہوکر دنیا کی رنگینیوں کے بجائے اسلامی تعلیمات میں پناہ حاصل کی تھی اور سب سے پہلے روزہ نماز کی پابندی کے ساتھ اپنے چہرے کو سنت نبویؐ کے نور سے سجایا تھا ۔ عیسائی مشنری کے اسکول کو محمد سلیم کی یہ ادا ایک آنکھ راس نہیں آئی اور اسے اس بنیاد پر اسکول سے خارج کردیا گیا کیوں کہ اس نے داڑھی منڈوانے سے صاف انکار کردیا تھا ۔محمد سلیم کے والد نے اپنے بیٹے کے اس بنیادی آئینی حق کی حفاظت کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور معاملہ مدھیہ پریش ہائیکورٹ تک جاپہنچا لیکن وہاں بھی اس کی درخواست مسترد کردی گئی۔ محمد سلیم نے ہمت سے کام لے کر ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں پناہ لی لیکن ابتداء میں یہاں بھی ایک سیکولر اور منصف مزاج جج نے اس کی داڑھی پر ایسے منفی ریمارکس پاس کئے کہ پورے ملک میں ہنگامہ مچ کیا کوئی اور ہوتا تو اس صورت حالسے دل برداشتہ ہوکر گھر جا بیٹھتا یا اپنی داڑھی صاف کراکے دوبارہ اسکول کی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ لیتا ۔ لیکن محمد سلیم نے ہمت نہیں ہاری اور وہ اپنے داڑھی رکھنے کے آئینی حق کی حفاظت کے لئے لڑتا رہا اور آخر کار گذشتہ 11ستمبر کو عدالت عظمیٰ نے اس کے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے مدھیہ پردیش کے نرملا کا نوینٹ اسکول کو یہ حکم دیا کہ وہ 10ویں جماعت کے طالب علم محمد سلیم کو داڑھی سمیت اسکول میں واپس لے۔
عدالت عظمیٰ میں محمد سلیم کی کامیابی بظاہر ایک فرد واحد کی کامیابی ہے جو اس نے بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کی ہے۔ لیکن اس کا سب بڑا سبق یہ ہے کہ وہ مسلمان جو محض اس لئے داڑھی کی سنت پر عمل پیراہونے سے کتراتے ہیں کہ اس سے انہیں معاشرہ میں کسی تفریق یا تعصب کا نشانہ بننا پڑے گا انہیں آج یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ جب ایک کمسن طالب علم شریعت محمدیؐ کی پاسداری کا مقدمہ عدالت عظمیٰ سے جیت سکتا ہے تو وہ آخر کیوں ایک ایسے معاشرہ میں اپنی بنیادی شناخت پر اصرار کرنے سے گریز کرتے ہیں جہاں بھانت بھانت کے لوگ اپنی الگ الگ شناختوں اور پہچان کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے نرملا کا نوینٹ اسکول میں 10ویں کلاس کے طالب علم کو گرمی کی چھٹیوں کے دوران تبلیغی جماعت میں جانے کا موقع ملا جہاں اس نے سنت نبویؐ پر عمل کرتے ہوئے داڑھی رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن جب چھٹیاں ختم ہونے کے بعد وہ اسکول پہنچا تو اسکول انتظامیہ نے اس کی داڑھی پر ڈھیروں سوال کھڑے کردیئے ۔محمد سلیم سے کہا گیا کہ وہ داڑھی صاف کراکے اسکول آئے ورنہ اسے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ محمد سلیم نے داڑھی منڈوانے کی ہدایت کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ یہ اس کا مذہبی معاملہ ہے جس میں مداخلت کا حق کسی کو نہیں ہے۔اسکول انتظامیہ نے اس جرأت مندی کی پاداش میں محمد سلیم کو گذشتہ سال جون میں اسکول سے خارج کردیا۔ محمد سلیم کے والد نے اسکول انتظامیہ کے اس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا اور یہ معاملہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ تک پہنچا لیکن یہاں بھی اس کی درخواست مسترد ہوگئی ۔ تب محمد سلیم کے والد عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جہاں اس معاملہ نے ایک انوکھا موڑ لیا ۔ محمد سلیم کا مقدمہ جسٹس مارکنڈے کاٹجو کی عدالت میں پہنچا ،جو نہایت سیکولر اور صاف ذہن کے انسان مانے جاتے ہیں لیکن نہ جانے کس ترنگ میں انہوں نے محمد سلیم کے مقدمہ کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ ’’ملک کو طالبان کے راستے پر لے جانے کی اجازت نہیں دی سکتی‘‘ ۔جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے ایسے فیصلے میں داڑھی کے خلاف ایسے منفی تبصرے کئے جس سے پورے ملک کے مسلمانوں میں ہیجان برپا ہوگیا اور داڑھی رکھنے کے آئینی حق پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔ آخر کار جسٹس کاٹجو نے دریادلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی اور یہ ریمارکس واپس لیتے ہوئے معافی مانگ لی۔ جسٹس کاٹجو کی اس معافی کا خیر مقدم کیا گیا اور یہ بحث اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔لیکن عدالت میں محمد سلیم نے اپنا مقدمہ اعلیٰ سطحی بنچ کے سپرد کرنے کی درخواست کی اورجسٹس کاٹجو کے ریمارکس پر اعتراض کیا۔ جسٹس آروی رویندرن کی زیر قیادت بنچ نے جسٹس کاٹجو کے ریمارکس سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور چیف جسٹس آف انڈیا سے درخواست کی کہ اس معاملہ کو دوسری بنچ کے سپرد کردیا جائے ۔ محمد سلیم کی خصوصی درخواست پر جسٹس اگروال اور جسٹس سنگھوی پر مشتمل بنچ میں سماعت کی گئی۔ اس دوران گذشتہ 6جولائی کو جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے محمد سلیم سے بھی باضابطہ معذرت خواہی کی تھی۔
سپریم کورٹ کی تبدیل شدہ بنچ نے محمد سلیم کے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے نرملا کانوینٹ اسکول انتظامیہ کی سرزنش کی اور کہا کہ صرف داڑھی رکھنے کی پاداش میں آپ نے طالب علم کو اسکول سے نکال دیا؟اگر کوئی سکھ طالب علم ہوتو کیا سے داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔کل کے دن آپ یہ کہیں گے کہ داڑھی یونیفارم کے خلاف ہے لہٰذا کاٹنی ہوگی۔ عدالت نے مزید کہا کہ آج کل تو کانوں میں بالیاں پہننا ایک فیشن بن گیا ہے۔ اگر کوئی طالب علم کانوں میں بالیاں پہن لیتا ہے یا پہن لیتی ہے تو کیا اسے بھی اسکول سے نکال دیا جائے گا ۔ جسٹس بی این اگروال اور پی ایس سنگھوی پر مشتمل بنچ نے مشنری ہائی اسکول کونوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ محمد سلیم کا اسکول میں داخلہ بحال کیا جائے۔
ہم محمد سلیم کی اس کامیابی پر اسے مبارک بادپیش کرتے ہیں اور اس کے اسلامی حمیت اور غیرت کو سلام پیش کرتے ہیں۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/victory-beard-supreme-court-/d/1770