محمود عالم صدیقی
تعدد ازدواج Polygamyاسلام کے اس مسائل میں سے ہے جسے اہل مغرب نے سب سے زیادہ ہدف وتنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس مسئلہ کی وجہ سے اسلام کو مردوں کی اجاروداری (Monopoly)اور عورتوں کے تئیں ظلم وزیادتی والا مذہب قرار دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں اہل یورپ کے ان الزامات کو بڑھاوا دینے میں ہمارے وہ علماء حضرات بھی سرفہرست ہیں جو تعدد ازدواج کے بلا شرط قائل ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے تعدد ازدواج کی اجازت عدل ومساوات کی شرط پردی ہے۔ اسلام سے قبل تعدد ازدواج کا چلن عرب میں اغنیاء ورؤساء کے مابین موجود تھا۔ اس تعددازدواج شرافت، مالداری اور جوانمردی کی علامت مانی جاتی تھی ۔ اغنیاء وشرفاء اپنی مالداری اور جوانمردی کے ثبوت کے لیے زیادہ سے زیادہ شادیاں کرتے تھے جس سے سوسائٹی میں خاندانی و عائلی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا تھا ۔ ایسے میں جب اسلام کی آمد ہوئی تو اسلام نے آزادی نسواں کا علم بلندکرتے ہوئے تعدد ازدواج کو چار شادیوں میں محدود کردیا۔ اس میں بھی تعدد ازدواج کو قانونی طور پر عدالت ومساوات جیسی شرائط سے مشروط کردیا جیسے قرآن میں ہے :فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ وثلاث ورباع ، فان خفتم ان لا تعدلوا فواحدۃ یعنی عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہو دودو ،تین تین ، چار چار، شادی کرلو، پس اگر تمہیں اں بات کا اندیشہ ہوکہ تم ان کے درمیان عدل و انصاف قائم نہیں کرسکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔ تعدد ازدواج کی اباحت عدل ومساوات اور اتفاق جیسی شرائط پر معلق خود اس بات پر دلالت ہے کہ اسلام تعددازدواج کو بڑھاوا دینا نہیں چاہتا بلکہ اس پر کنٹرول کرنا چاہتاہے۔فان خفتم ان لا تعدلوا فواحدۃ یہ جملہ خود انسان کو دوسری تیسری شادی کے بارے میں سوچنے سے قبل اس کے مادی ،نفسیاتی اور معاشی نتائج پر غور کرنے پر ابھارتا ہے کہ آیا وہ تمام بیویوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کرسکتا ہے یا نہیں ؟ ان کی اولاد کی بہترین تعلیم وتربیت کرسکتا ہے یا نہیں ؟ ان پر بافراغت خرچ کرنے پر قدرت رکھتا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو اسے چاہئے کہ وہ صرف ایک بیوی پر اکتفاکرے ۔ تعدد ازرواج کے مابین عدل ومساوات کے مفہوم کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ ابوزہر ہ لکھتے ہیں ’’ومن تاحیۃالدالۃ فقدجواوجب العلماء اعتبارھا بالا تفاق،وھی فی الحقیقۃ لیست ملا حظۃ عند القعدد بل ہی ملاحظۃ فی کل زواج فقد قررالفقھاء بالا جماع فی المذاہب التسعۃ الا سلامیۃ آن الزواج یکون حراما اذاتیقین مرید الزواج من آنہ سیظلم زوجۃ لا الظلم حرام فھا یودی الیہ یکون حراما فلیست العدالۃ مطلوبۃ فی التعدد فقط ،بل ھی مطلوبۃ فی کل زواج ،فمن کان لا یعدل لا یتزوج وعلیہ آن پروض نفسہ عن الا متناع عن الزنا‘‘یعنی بالا تفاق ،علماء نے تعدد ازدواج میں عدل و مساوات کا اعتبار کرنا واجب قرار دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف تعدد ازدواج میں عدل ومساوات ضروری نہیں ہے بلکہ عدل ومساوات کو برقرار رکھنا ہر شادی کے لیے ضروری ہے۔ اسلام کے نوفقہی مذہب کے فقہا ء کا اس بات پر اجماع ہیکہ شادی حرام ہوگی جب شادی کرنے والے کو اس بات کایقین نہ ہوکہ وہ اپنی پر ظلم کرے گاکیونکہ ظلم حرام ہے اور جو چیز ظلم کی طرف رہنمائی کرے وہ بھی حرام ہے ۔ چنانچہ عدل ومساوات صرف تعددازدواج میں مطلوب نہیں بلکہ یہ ہرشادی کے لیے ضروری ہے ۔لہٰذا جو انصاف نہیں کرسکتا اسے چاہئے کہ شادی نہ کرے اور اسے اپنے نفس پر قابو رکھنا چاہئے تاکہ زنا سے بچ سکے‘‘۔(مجلۃ العربی ،1961وایضا ’’المرأۃ العربیۃ فی منظور الدین والواقع ‘‘جمانہ طہ ،ص 185)
درحقیقت اسلام نے تعدد ازدواج کی اجازت انسانی مصلحتوں کی وجہ سے دی ہے ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائے ایام میں مومن مرد کفار ومشرکین سے جنگ کرتے تھے جن میں بہت سارے مسلمان شہید ہوجاتے تھے اور ان کے شہادت کے بعد ان ی اولاد اور ان کی بیویاں بے یارو مدد گار رہ جاتی تھیں ان کی حفاظت کے لیے اسلام نے تعدد ازدواج کو اہم ذریعہ پایا۔اسی طرح ان عورتوں کے لیے بھی تعدد ازدواج اہم ذریعہ تھا جو اسلام قبول کرچکی تھیں لیکن ان کے شوہر وں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔ جب وہ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے آئیں تو ان کی حفاظت کے لیے بھی تعدد ازدواج ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوا جیسا کہ قرآن میں ہے:یا یھا الذین اٰمنو اازا جا ء کم المؤ منات مھاجرات فامنحنوھن ،اللہ اعلم بایمانھن ،فان علمتموھن مومنات فلاترجعوھن الی الکفار لا ھن حل لھم ولاھم یحلون لھن ،واوتوھم ما انفقواولا جناح علیکم ان تنکحوھن اذا تیتموھن اجورھن۔ یعنی اے ایمان والوں جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو ، اللہ ان کے ایمان کو بخوبی جانتا ہے ،اور امتحان لینے کے بعد جب تم یہ جان لو کہ یہ مومن عورتیں ہیں تو تم انہیں کفار کے حوالے مت کرو،یہ عورتیں اپنے سابق کفار شوہروں کے لیے حلال نہیں ہیں اور نہ وہ کفار ان کے لیے حلال ہیں اور انہیں واپس کر دو جوانہوں نے خرچ کیا ہے، اور تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم ان سے نکاح کرو جب تم ان کامہر ادا کردو‘‘۔( الممتحفۃ:)اسی طرح اسلام نے تعدد ازدواج کو یتیم بچوں کی کفالت ،ان کے مال کی حفاظت اور ان پر ظلم وزیادتی ختم کرنے کے لیے مشروع قرار دیا ہے، جیسا کہ قرآن کا فرمان ہے:وان خفتم ان لا تقسطوا فی الیتامی،فانکحوا یعنی اگر تمہیں اس بات کا اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے درمیان عدل وانصاف قائم نہیں کرسکوگے تو نکاح کر لو۔ اس کے علاوہ بیوہ و مطلقہ سے نکاح ،یتیم بچوں کی تعلیم وتربیت ،پہلی بیوی کا بانجھ پن یا اس کا بیمار ہونا وغیرہ بھی انسانی مصلحتوں میں شامل ہیں۔
مندرجہ بالا معلومات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے تعددازدواج کی اجازت خاص انسانی مصلحتوں کی وجہ سے دی ہے اس میں بھی عدل و مساوات ،نان ونفقہ اور متعدد بیویوں سے پیدا شدہ اولاد کی تعلیم وتربیت وغیرہ کرنے کی شرط لگادی۔ اگر ان میں سے کوئی بھی شرط مفقود ہوجائے تو تعدد ازدواج اسلام میں جائز نہیں ہے ۔ جیسا کہ جمانہ طہ اپنی کتاب ’’المرأۃ العربیۃ فی منظور الدین والواقع‘‘ میں رقم طراز ہیں۔’’ أن القعدد فی دین الا سلامی من حیث مبدأ غمالیس مطلوبا الذاۃ و منفرد کا لکھوی کما کان فی السابق وانما ھو المواجھۃ ضرور ۔ۃ اولحل مشکلۃ ‘‘ یعنی شریعت اسلام میں تعدد ا زدواج فی نفسہ مطلوبہ نہیں ہے اور ناہی اسے خواہشات نفسانی کے لئے شروع ک یا گیا ہے جیسا کہ تعددازدواج اسلام سے قبل تھا، بلکہ تعدد ازدواج انسانی ضرورت یا انسانی مشاکل کے لئے شروع کیا گیا (ص 185)
اسلام کی اسی تعلیم پر صحابہ کرام اور ائمہ کرام عمل پیرا رہے یہاں تک کہ اسلامی دنیا علمی انحطاط کا شکار ہوئی۔ جس میں لوگوں نے قرآن وحدیث کو چھوڑ کر شروعات و تعلیمات وغیرہ پر عمل کرنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے لوگ اسلام اور اس کے قوانین سے کافی حد تک دور ہوگئے او ر تعددازدواج اسلام نے انسانی مصلحت کی وجہ سے جائز قرار دیا تھا، اس کے برخلاف لوگ خواہش نفسانی کی وجہ سے شادیاں کرنے لگے ۔ اس ضمن میں وہ علما ء بھی شریک کاررہے جنہوں نے عورتوں کو اسلام کے نام پر تعلیم سے محروم رکھا، پردے کے نام پر گھر میں بند کردیا اور الرجال قوامون علی النساء کا غلط مفہوم رائج کر کے عورتوں کے تمام اسلامی حقوق سلب کر لیے ۔ جس اسلام نے عورتوں کے لیے مسجدوں کے دروازے کھول دیے تھے اسی اسلام کا بہانہ بنا کر ا ن پر مسجدوں کے دروازے بند رکردیے ۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کی یہ نصف اجتمع جاہل اور ان پڑھ بن کر رہ گئی ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا تآنکہ 1798میں مصر پر نابلیوں نے حملہ کیا۔ جس کی وجہ سے اسلام کو نشاۃ ثانیہ ہوئی ۔ اس حملے کی وجہ سے یورپ اور اسلامی ممالک میں براہ راست رابطہ ہوا۔ یورپی ناقدین ومؤرخین نے مسلمانوں کی بدحالی دیکھی اور انہیں اپنی تحریروں میں قلم بند کیا اور اسلام واسلامی تہذیب کو اس بدحالی کا ذمہ دار قرار دیا ۔ جیسے ای رینان Erevanنے مشرقی وسطیٰ کے مسلمانو ں کی تعلیمی صورتحال کو قلم بند کیا اور اس تعلیمی انحطاط کا ذمہ دار اسلام مذہب کو قرار دیا۔ سرولیم میور نے ہندوستان کے مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی قلم بند کی اور اسلام کو علم دوست کے بجائے علم دشمن قرار دیا۔فرانس کے عالم دوق داراکور DUCDHARCOURI A.M.L.Eنے مصر کی عورتوں کی صورت حال لکھی اور ان کی زبوں حالی کے تئیں اسلام پر حملہ کیا۔ ای رینان اورسرولیم میور کے جوابات سے جہاں جمال الدین افغانی ، محمد عبدہ اور سرسید احمد خاں نے اپنی کتابوں اور تحقیقی مضامین کے ذریعہ دیے تو وہیں قاسم امین نے ایک طرف ’’دوق دارا کور ’’کے الزامات کا اپنی کتاب ‘‘مصر و المصر یون‘‘(1894) میں رد کیا تو دوسری طرف اپنی کتا ’’تحریر المرأۃ (1899) جو انہوں نے مفتی مصر امام محمد عبدہ کی مشارکت میں لکھی تھی، میں پردہ ، تعددازدواج اور تعلیم نسواں جیسے مسائل سے متعلق مسلمانوں کے مابین جو غلط فہمیاں تھیں انہیں دور کیا اور ان پر مکمل اسلامی تعلیم کی روشنی میں مدلل بحث کی۔اس کے بعد اسلامی دنیا میں عورتوں کے مسائل پر بہت سارے تحقیقی مضامین لکھے گئے ۔ ان مضامین وکتابوں میں تعدد ازدواج کو بھی خاص اہمیت دی گئی ہے۔ ان تحریروں کا لب لباب یہ ہے کہ اسلام میں تعددازدواج بغیر کسی انسانی مصلحت اور شدید ضرورت کے جائز نہیں۔ بلکہ تعدد ازدواج اسلامی تعلیمات کے اسی طرح منافی ہے جس طرح طلاق جسے خدا نے ابغض الحلال قرار دیا ہے۔ جس کے بارے میں قاسم امین کہتے ہیں :’’ان الطلاق محظور فی نفسہ میاح للخر ورۃ ‘‘یعنی طلاق فی نفسہ ناجائز ہے جسے ضرورت کے تحت جائز قرار دیا گیا ہے۔‘‘ (الاعمال الکاملۃ: قاسم امین، ص 399)۔
دور حاضر میں اسلام کی ازادی نسواں کی تحریک میں سابق مفتی مصر ،مجد د اسلام اور مشہور مصلح تعلیم امام محمد عبدہ-1950 1849) کونمایاں حیثیت حاصل ہے ۔ وہ پہلے عالم دین ہیں جنہوں نے موجود دور میں تعدد ازدواج کو ناجائز قرار دیا اور اس ضمن میں کئی دلائل پیش کئے ہیں جو اسلامی تعلیم کے عین موافق ہیں۔ تعدد ازدواج کے ناجائز ہونے کے امام محمد عبدہ کی پہلی دلیل یہ ہے قرآن نے تعدد ازدواج کی شرط عدل و مساوات پر رکھی ہے، آج کے دور میں یہ شرط بالکلیہ مفقود ہے۔ اگر لاکھوں لوگوں میں سے ایک میں عدل ومساوات کی شرط پائی بھی جائے تو اسے قاعدہ نہیں بنایا جاسکتا اور جب فساد انسان کے نفوس پر غالب ہوجائے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ آج مرد اپنی بیویوں کے ساتھ انصاف نہیں کررہا تو ایسے وقت میں حاکم کے لیے جائز ہے کہ وہ تعدد ازدواج کومطلقاناجائز قرار دے ۔ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ مرد تعدد ازدواج کی صورت میں اپنی بیویوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں اور انہیں نان ، نفقہ و دیگر آرام وآسائش کے حقوق سے محروم رکھتے ہیں ۔ لہٰذا حاکم وقت یا قاضی کے لیے جائز ہے کہ وہ اس فساد کو روکنے کی غرض سے تعدد ازدواج پر پابندی لگادے۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ متعدد سوتیلی ماؤں کی وجہ سے سوتیلی اولاد ایک دوسرے سے نفرت وکینہ رکھتے ہوئے پروان چڑھتی ہیں اور جو ان ہوتے ہوتے ایک دوسرے کی جانی دشمن ہوجاتی ہے ۔ انہیں آپسی عداوت اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر وں کو برباد کر لیں۔ لہٰذا ایسی صورت میں خاندان اور گھر کی حفاظت کے مدنظر قاضی یا حاکم وقت کے لیے جائز ہے کہ وہ تعددازدواج کو ناجائز قرار دے۔(ملاحظہ ہو: الاعمال الکا ملہ للا مام محمد عبدہ ،فتوی فی تعددالزوجات ، ج ۲،ص۱۲۴)۔
اس عبارت میں امام محمد عبدہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تعددازدواج کا معاملہ حکومت یا قاضی کے ہاتھ میں ہو اور تعددازدواج بغیر کسی شدید ضرورت کے نہ پائی جائے تقریباً یہی بات قاسم امین نے اپنی کتاب ’’تحریر المرأۃ‘‘ میں لکھی ہے۔ وہ تعددازدواج کی اجتماعی برائی کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’شریعت میں یا قرآن میں جن آیتوں میں تعددازدواج کی اجازت دی گئی ہے انہی آیات میں تعدد ازدواج کو منع بھی کیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمان ہے : فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی وثلاث ورباع فان خفتم ان لا تعدلوافواحدۃ اوساملکت ایما نکم ذلک ارتی ان لا تعولوا۔ دوسری آیت میں ہے:ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء ولو حرصنم فلا تمیلو اکل العیل فقریرہ ھا کالمعلقۃ۔ان دونوں آیتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شریعت نے انصاف نہ کرنے کے خوف کی وجہ سے ایک بیوی پر اکتفاکرنے کو واجب قرار دیا ہے۔ پھر یہ بھی وضاحت کردی ہے کہ عدل غیر ممکن ہے ۔ اسی بات کو اور زیادہ وضاحت سے لکھتے ہیں ۔’’ وغایۃ مایستفارمن آیۃ تحلیل انماہو حل تعدد الزوجات اذاامن الجور، وھذا الحلال ہو کسائر انواح الحلال تعتریہ الا حکام الشریعۃ الا خری ومن المنع والکراہۃ وغیر ھما بحسب ما یترتب علیہ من المقاسد و المصالح فاذا غلب علی الناس الجود مین الزوجات کما ہو مشاہد فی ازماننا اونشا أن تعدد الزوجات فسادفی العائلات وتعد احدود الشریعۃ الواجب التزا مھا و قیام عداوۃ بین اعضا ء العائلۃ الواحدۃ وشیوع ذلک الی حدیکار یکون عاما جاز للحاکم دعا یۃ للمصلحۃ العامۃ ان یمنع تعددالزوجات بالشرط وبغیر شرط علی حسب مابراہ موافقا لمصلحتۃ الا حۃ ‘‘ ۔ ترجمہ آیت تحلیل کا مطلب یہ ہے کہ تعدد ازدواج جائز ہے۔جب فتنہ وفساد سے مامون ہو۔ یہ اباحت (حلال) دیگر اباحات کی طرح ہے جسے شریعت کے دیگر احکام مفاسد ومصالح کے پیش نظر منع و کراہت میں تبدیل کردیتے ہیں ۔ جب زوجین کے مابین فتنہ غالب آجائے جیسا کہ آج ہمارے زمانے میں مشاہد ہ کیا جاتا ہے یا تعددازدواج کی وجہ سے خاندانوں میں بگاڑ پیدا ہوجائے ،فساد برپا ہو جائے اور ایک ہی خاندان کے ممبران کے درمیان عداوت پیدا ہوجائے اور یہ تمام برائیاں عام ہوجائیں تو ایسے وقت میں حاکم وقت کے لیے جائز ہے کہ وہ مصلحت عامہ کی رعایت کرتے ہوئے تعددازدواج کوشرط وبلا شرط ناجائز قرار دے دے۔(ص 396الاعمال الکا ملۃ)
امام محمد عبدہ کے تعددازدواج ، مسلم عورتوں کے تعلیمی مسائل ،حجاب ،طلاق اور میراث وغیرہ سے متعلق نظریات کو قاسم امین نے اپنی کتاب تحریر المراۃ میں تفصیل سے پیش کیا ۔ اس کے بعد بہت سارے تحقیقی مضامین اور کتابیں لکھی گئیں جن میں تعددازدواج کو بھی خاص اہمیت دی گئی ہے۔
ہندوستان میں تحریک نسواں کا آغاز علی گڑھ تحریک کے زیر اثر ہوا۔ کہا جاتا ہے ککہ سر سید احمد خان نے 1879-70میں اپنے سفر یورپ کے دوران مسلم عورتوں کی تعلیم اور ان کی آزادی کے مسئلے پر نظر ڈالنے کی ضرورت محسوس کی تھی۔تاہم ان کے تعلیمی پروگرام میں اس مسئلے کو ثانوی حیثیت دیا گئی تھی۔البتہ تحریک نسواں کا آغاز دارالعلوم دیوبند کے ایک فاضل جناب ممتاز علی کے ذریعے ہوا۔ ممتاز علی 1887میں سرسید احمد خان کے زیر اثر آئے اور انہوں نے کچھ انگریزی تعلیم حاصل کی اور پھر تمام عمر علی الا علان عورتوں کی تعلیم اور ہندوستان میں ان کے حقوق کے حمایت میں صرف کردی۔ اس سلسلے میں انہوں نے عورتوں کے لیے ایک رسالہ ’’تہذیب نسواں‘‘ جاری کیا جو سرسید احمد خاں کے رسالے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا مثنیٰ مانا جاتا تھا۔ اسی طرح انہوں نے عورتوں کے حقوق سے متعلق ایک مایہ ناز کتاب ’’حقوق نسواں‘‘ (1898) کے نام سے تحریر فرمائی ۔ اس کتاب میں انہوں نے ان روایتی دلائل کا تجزیہ کیا جس کے ذریعے اسلام میں مردوں کو عورتوں پر فوقیت دی جاتی ہے ۔ ان کے نزدیک حیوان اور حیوان کے مابین جسمانی طاقت برتری کا معیار نہیں ہوسکتی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں کو کچھ ایسے حیاتیاتی افعال انجا م دینا پڑتے ہیں جس کے لیے ان کا نظامِ اعصاب اور جذباتی زندگی مکلف ہوتی ہے۔ لیکن اس سے نہ کسی حیاتیاتی یا ذہنی کمتری کی پیش گوئی ہوتی ہے اور نہ اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے ۔پیغمبر ی یاقیادت کے مردانہ پیشے ، مستقل سخت کوشی ،بے تعلقی اور محنت کی زندگی کے متقاضی ہوتی ہیں اور اس کے لیے بلاشبہ عورتیں جسمانی طور پر موزوں نہیں ہوتیں ۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں خاص عنایت الہی سے نوازا گیا ہے یعنی حاملہ ہونے ، بچہ جننے ،دودھ پلانے اور انسان کی آئندہ نسلوں کی خبر گیری اور نگہداشت کے فرائض ان کو سونپے گئے ہیں ۔ تعدد ازدواج سے متعلق ان کا قول ہے کہ چونکہ مرد ایک عورت سے زیادہ عورتوں سے ایک وقت میں محبت نہیں کرسکتا اسی لیے تعددازدواج کی مشروط اجازت خود تعددازدواج کی تنسیخ کرتی ہے۔ یہی نظریہ مشہور ناول نگار مولوی ڈپٹی نذیر احمد کا بھی تھا جنہوں نے اپنے ناولوں میں مستقل تحریک نسواں کی پالیسی کی وکالت کی ہے۔ ان کے بعد اسی نقطۂ نگاہ کو راشد الخیری کی صحافتی اور ادارتی نگہداشت نے آگے بڑھایا۔
ہندوستان میں آزادی نسواں کی تحریک کو ایک اہم موڑ دینے میں مشہور جیورسٹ جناب امیر علی صاحب کا نمایاں کردار ہے۔ انہوں نے آزادی نسواں سے متعلق خیالات کا اپنی یکتائے ر وزگار کتاب ’’اسپرٹ آف اسلام ‘‘ میں تفصیلی ذکر کیا ہے اور تعددازدواج کو موجودہ دور میں ناجائز قرار دیا ہے۔آج عرب ممالک میں بیشتر دانشور حضرات تعددازدواج کے مسئلے پر محمد عبدہ اور ان کے فکری مدرسے سے متاثر نظر آتے ہیں جس مدرسے کے اہم ممبران میں عبدالرحمن الکوائبی المغربی (1889-1940) ،قاسم امین (1863-1908) ،شیخ رسید رضا (1865-1935)،شیخ ابو عبدالرحمن عبد الحلیم محمد ابوشقہ صاحب کتاب ’’تحریر المرأۃ فی عصر الرسالۃ ‘‘،محمد غزالی صاحب الکتاب ’’ قضا یا المرأۃ بین التقالید الرا کدۃ والوافدۃ ‘‘ عباس محمود العقاد صاحب الکتاب ’’المرأۃ القرآن ‘‘ ،عبداللہ عفیقی صاحب کتاب ’’المرأۃ العربیۃ فی جا ھلیتھا واسلامھا‘‘،جمانہ طٰہٰ صاحب کتاب ’’المرأۃ العربیۃ فی منظور الدین والوافع ، عفیف عبدالفتاح طیارہ صاحب کتاب ،،روح الدین الاسلامی‘‘ ڈاکٹر محمد عمارہ صاحب کتاب ‘‘ تیارات فی الفکر الاسلامی‘‘ وغیرہ کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ ائمہ اربعہ بھی عدم مساوات کی صورت میں تعدد ازدواج کو ناجائز مانتے ہیں ۔ محمد عبدہ اور ا ن کے مدرسے سے متاثر علماء کے خیالات کی وجہ سے مصر میں تعددازدواج کے کنٹرول کے لیے ایک کمیٹی جسے لجہّ الاشراف کے نام سے جانا جاتا ہے تشکیل دی گئی۔ یہ کمیٹی تعددازدواج سے متعلق ضروری وغیر ضروری اسباب کو سامنے رکھتے ہوئے تعددازدواج کی اجازت فراہم کرتی ہے۔ بلاشبہ یہ تعددازدواج کنٹرول کمیٹی اسلام کے حکم کے عین مطابق ہے۔ مگر افسوس ہمارے ہندوستانی علماء تعددازدواج کے متعلق اپنے پرانے موقف پر قائم ہیں اور اس میں کسی بھی طرح کی اصلاح وتجدید کے شدید مخالفت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی مصلح تعددازدواج سے متعلق کسی بھی طرح کی اصلاح وترمیم کی بات کرتا ہے تو اسے مسلم پرسنل لا میں مداخلت قرار دیکر اس کی مخالفت شروع کردیتے ہیں ۔واضح رہے کہ اسلامی وخلیج ممالک میں دو طرح کے مسلم دانشور وعلماء پائے جاتے ہیں ۔ ایک Conservativeیا محافظین ،جن کی تعلیم اور نشوہ نما خالص دینی ادارے وماحول میں ہوتی ہے۔
دوسرے مترین یعنی روشن خیال طبقہ جن کی تعلیم وتربیت موجودہ دور کے مدارس میں ہوتی ہے، جن میں اسلامیات کو بطور خاص مضمون پڑھا یا جاتا ہے ۔ عربی مادری زبان ہونے کی وجہ سے اسلام کے اہم مراجع و مصادر ان کی دست رس میں ہوتے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جس نے موجودہ دور کے مسائل کا حل اپنی تالیفات وتصنیفات کے ذریعے ناصرف پیش کیا بلکہ یورپ کے ناقدین کے ان حملوں کا بھی منہ توڑ جواب دیا جو انہوں نے اسلام پر کیے جس میں جمال الدین افغانی اور ان کا فکری مدرسہ وغیرہ پیش پیش ہیں۔ انہی حضرات کی کوششوں کی وجہ سے تعددازدواج کی سپر ویژن کمیٹی تشکیل ہوئی تا ہم ہندوستان میں محافظین علماء ہی مذہبی امور پر قابض ہیں جو پرانے رسم و رواج سے سرموانحراف کفر سمجھتے ہیں ۔یہ شایداس کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم ہے جہاں محدود دائرے میں اور خاص مکتبہ فکر کو سامنے رکھ کر تعلیم دی جاتی ہے ۔ لہٰذا آج تعددازدواج یا دیگر مسائل سے متعلق غلط نظریات کا پایا جانا ہمارے اسی نصاب تعلیم کا ثمرہ ہے۔ اور جب کوئی مسلم دانشور رسم ورواج کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ علما ء کی جماعت ان مصلحین کے خلاف اپنی پوری طاقت لگادیتے ہیں اور انہیں ملحدوکافرجیسے خطابات سے نوازتے ہیں۔ بقول محمد امام غزالی اور استاد حسام عطا: ’’لوبذل ادعیاء الاسلام کی محاریۃ اعداء اللہ و العبطلین عشرمایذلون فی حرب اولیاء اللہ الصارفین لا تنصر اسلام من زمن البعید۔ یہ اسلام کے دعوے دار جتنی طاقت اسلام کے مجددوں و مصلحوں کے خلاف صرف کرتے ہیں اگر اس کی عشر عشیر طاقت بھی وہ اسلام کے دشمنوں کے خلاف لگاتے تو اسلام آج دنیا پر غالب ہوگیا ہوتا‘‘۔ (محمد غزالی ’’قضایا المرأۃ بین التقالید الرا کدۃ والوافدۃ‘‘ ص 19)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/polygamy,-islam-ulama-/d/1765