New Age Islam
Sat Feb 15 2025, 08:50 AM

Urdu Section ( 24 Oct 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sir Syed Ahmad Khan’s Literary, Scholarly And National Contributions سرسید احمد خاں کی ادبی ،علمی اور قومی خدمات


محمد خورشید خان

1857کا غدر مسلمانوں پر انتہائی تباہ کن ثابت ہوا۔ اس غدر میں مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا اس وقت سرسید احمد خاں بجنور میں تھے ۔ انہوں نے وہاں پرکئی  انگریز خاندانوں کی جانیں بچائیں اور مسلمانوں میں علم کی بڑی کمی تھی چاروں طرف جہالت کا دور دورہ تھا اس کا سرسید کے دل پرگہرا اثر پڑا کہ ان کے پورے خیالات ہی بدل ڈالے ۔ انگریزوں نےمسلمانوں کے اوپر جو ظلم ڈھائے اسے دیکھ کر ان کی آنکھیں نم  ہوگئیں ۔ اور آپ نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ اس اجڑی ہوئی قوم کو نہ سنبھا لا گیا تو جلد ہی قوم تباہ وبرباد ہوجائے گی۔سر سید نے انگریزوں کی جانیں بچا کر ان کے دلوں میں ہمدرددل کا جذبہ پیدا کرلیا۔ وہ جانتے تھے کہ انگریزوں کی چاروں طرف علمبردار ی ہے اس لئے سرسید نے سوچا کے ان کے خلاف کچھ کرنے کے بجائے ان سے مل کر چلنے میں فائدہ ہے۔لہٰذا 1875میں انہوں نے علی گڑھ میں مسلمانوں کی تعلیم کے لئے ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی سال میں گیارہ طلبہ نے داخلہ لیا۔ یہ مدرسہ ترقی کر کے 1877میں محمڈن اینگلو یوریئنٹل کالج بنا اس کالج میں پہلے سال 26طلبا مسلمان گریجویٹ ہوئے غیر مسلموں کی تعداد الگ ہے اور 1920میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا ۔ جو آ ج کل ہندوستان کا نمایاں علمی ادارہ ہے۔ 1878میں سرسید احمد خاں کو سرکا خطاب ملا۔ یہ خطاب ان کے نام مخصوص حصہ بن گیا سرسید کے نام سے جانتے ہیں۔

سرسید احمد خاں نے انگریزوں کی بغاوت کا صحیح پش منظر اپنی تصنیف ‘‘اسباب بغاوت ہند’’ لکھا ، جس میں انہوں نے (انگریزوں کو قائل کیا کہ مسلمانوں کی یہ سورش ان کے غلط پالیسیوں کی وجہ سے رونما ےہوئی ہے اب سرسید نے طے کرلیا کہ مسلمانوں کی بقا صرف جدید تعلیم کے حصول میں ہے اس لحاظ سے آپ نے 1866میں انگلستان کا سفر کیا وہاں لندن میں آپ نے بہت سی انگریزی کتابوں کا وسیع مطالعہ کیا وہاں سے واپس آکر 1870میں آپ نے اکسفورڈ یونیورسٹی کی طرح ایک یونیورسٹی بنانے کا ذہن بنایا اور سب سے پہلے آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس رسالہ کے ذریعہ آپ نے قوم کو مغربی تعلیم کی اہمیت سے روشناش کرایا۔ سرسید نے تہذیب الاخلاق میں ایک مضمون ‘‘ گزر اہوا زمانہ’’ لکھا، اس میں انہوں نے نوجوانو ں کو قومی بھلائی کے کاموں پر آمادہ کیا۔ انہوں نے تہذیب الاخلاق میں نہایت عام فہم اورشگفتہ زبان میں مضامین لکھے ۔ انہوں  نے ‘‘عمررفتہ ’’ میں ایک نوجوان کے دلچسپ خواب کو بیان کیا ہے انسان زندگی بھر اچھے اور برُے کام کرتا ہے بڑھاپا آتے ہی اس کو اپنی عافیت کے اندیشہ کا خیال آتا ہے۔اور تب وہ توبہ کرتا ہے ۔ مگر جب تک بہت دیر ہوجاتی ہے۔‘‘بحث وتکرار ’’ میں انہوں نے بتایا ہے کہ جس طرح کتے ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے پر غرّاتے ہیں دانت نکالتے ہیں نتھنے پھلاتے ہیں بھونکتے ہیں جو کمزور ہوتا ہے وہ دُم دبا کر بھاگ جاتا ہے اسی طرح انپڑھ جاہل آدمیوں کی محفل میں ہوتا ہے ۔آکر بیٹھ جاتے ہیں بات چیت ہوتی ہے لہجہ تیزہوتا ہےپھر تکرار بڑھ جاتی ہے اور ہاتھا پائی ہوتی ہے انسان کو چاہئے کہ وہ بات چیت کے دوران تہذیب کا دامن نہ چھوڑ ے۔ ‘‘ امید کی طوشی’’ میں سرسید نے نہایت خوش اسلوبی سے امید کی اہمیت کو بتایا ہے امید زندگی کی سہارا ہے امید زندگی میں داخل ہوکر لوگوں کو نئی زندگی بخشی ہے۔

سرسید احمد خاں 1817میں دہلی کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد میر متقی اور والدہ بڑی نیک سیرت باہمت ،بااخلاق اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔ آپ کی تعلیم وتربیت میں والدہ کا ہی سب سے بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے آپ کو ایمانداری اور سچائی کی زندگی پر چلنے کا راستہ سکھایا۔ سرسید پڑھ لکھ کر 1838میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہوگئے ۔ ان کی سچائی اور ایمانداری سےمثاثر ہوکر سرکار نے انعامات سے نوازہ اور ترقی کر کے جج بن گئے ۔ 1842میں بہادر شاہ ظفر نےسرسید کو ‘‘عارف جنگ جوالدولہ’’ کا خطاب عطا کیا ۔سرسید انگریز حکومت کے وفادار ہونے کے باوجود حق بات کہنے میں کبھی نہیں جھجکتے تھے ۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف سختی سے نکتہ چینی کی ہے۔

سرسید نے پہلے میر امن نے اس وقت کی بول چال کی زبان میں باغ وبہار لکھی تھی اس کی زبان قصے کہانیوں تک محدود رہی۔ غالب نے اپنے خطوط کے ذریعہ اپنے دوستو ں کو آسان زبان میں ایسے خطوط لکھے جس میں انہوں نے مراسلے کو مکالمے سے آگے نہ بڑھنے دیا ۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے سرسید احمد خاں نے قلم اٹھایا اور اسی آسان اور سہل زبان کو رواج دیا جو روز مرّہ کی گفتگو میں بولی جاتی ہے۔ انہوں نے عبارت آرائی سے بھرپور پرہیز کیا ۔ انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق میں زبان کے متعلق لکھا ہے۔

‘‘جہاں تک ہوسکا ہم نے اردو زبان کے علم وادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پر چوں کے ذریعہ کوشش کی۔ مضمون کے ادا کرنے کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ رنگین عبارت سے جو تشبیہات اور استعارات خیالی سے بھری ہوئی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پراس کا کچھ اثر نہیں ہوتا پرہیز کیا’’ ۔

سرسید نے اردو زبان میں بڑی وسعت پیدا کی اور اس کی اپنے اسلوب وبیان اور اپنے انداز تحریر سے عبارت میں دلکشی پیدا کی اور زبان کو سادہ اور سلیس بنایا سرسید شاعر بھی تھے ان کا تخلص آبئی تھا ۔تہذیب الا خلاق کے ذریعہ سرسید نے مسلمانوں کے اندر اصلاحات کی کوشش کی ۔ آپ تعلیم نسواں کے مخالف تھے ، ان کا کہنا تھا کہ مردوں میں تعلیم دینے سے عورتیں خود بخود یافتہ ہوجائیں گے ۔سرسید نے ہندو اور مسلمانوں دونوں کی بہتری کی کوشش کی 1885سے 1888تک انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی زبردست مخالفت کی او رمسلمانوں کو ہر طرح سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کی صلاح دی۔ انہیں مضامین کی وجہ سے سرسید احمد خاں کے مخالفین پیدا ہوگئے اور ان کے خلاف مضامین لکھے جانے لگے۔ جن اخبارات میں آپ کے خلاف مضامین شائع ہوئے اس میں مراد آباد سے شائع ہونے والا ‘‘لوح محفوظ’’ کانپور سے نکلنے والا ‘‘نور الآفاق ’’ اور آگرہ سے شائع ہونے والا ‘‘تیرہویں صدی’’ وغیرہ ہیں اور ان میں آپ کے کارٹون بھی شائع ہوئے ۔ آپ کو ‘‘کافر بھی کہا گیا ۔مخالفین نے آپ کے خلاف خوب زہر افشانی کی لیکن سرسید کو اپنی قوم پر بھروسہ تھا وہ اپنے ارادے پر اٹل رہے ۔MAO کالج کے مخالفین نے ایک فتویٰ علمائے مکّہ سے بھی منگوایا جس میں تحریر تھا کہ ایمان والوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اس درسگاہ کو منہدم کردیں۔ اس کی سخت مذمت کرتے ہوئے سرسید نے انجمن اسلامیہ لاہور میں ایک عظیم جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا ۔

‘‘میں عرض کرتا ہوں کہ میں ایک کافر ہوں مگر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر ایک کافر آپ کی قوم کی بھلائی کے لئے کوشش کرے تو آپ اس کو اپنا خادم اور خیر خواہ نہیں سمجھیں گے۔ آپ میرے محنت اور اپنی مشقت سے اپنے بچوں کے لئے ایک عظیم تعلیمی ادارہ بننے دیجئے اس کالج کو قائم کرنے میں مجھے دس سال لگے  ہیں اور آپ ایک ہی دن میں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں’’۔

آپ کی تقریرسن کر لوگوں کے دل بھر آئے اور تمام مردوخواتین نے سرسید کو حمایت اور بھرپور مدد دینے کا وعدہ کیا۔ عورتوں نے اپنے زیورات اتار کر سرسید کی جھولی میں ڈال دی۔ علمی وادبی کارنامے: سرسید احمد خاں نے 1859میں مرادآباد میں فارسی مدرسہ قائم کیا اور 1864میں مرادآباد میں یتیم خانہ کھولا ۔ 1864میں غازی پور تبادلہ ہوگیا وہاں سا ئنٹفک سوسائٹی قائم کی اور ایک فارسی مدرسہ بھی قائم کیا جو آجکل وکٹوریہ ڈگری کالج کے نام سے مشہور ہے۔ اسی سال سرسید کا تبادلہ علی گڑھ میں ہوا یہاں انگریزوں کی مدد سے Aligarh British Indian Association قائم کی ۔ 1866میں علی گڑھ کے زمیندار وں نے سرسید کی تحریک کو سراہا اور پوری مدد کا وعدہ کیا۔ 1884میں Education Conferenceقائم کی ۔ 1898میں آپ کا انتقال ہوا۔

تصانیف : جام حجم سرسید کی پہلی تصنیف ہے جو 1840میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں بادشاہ امیر تیمور سے بہادر شاہ تک کا تعارف کرایا۔

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/sir-syed-ahmad-khan’s-literary,-scholarly-and-national-contributions--سرسید-احمد-خاں-کی-ادبی-،علمی-اور-قومی-خدمات/d/1978


 

Loading..

Loading..