محمد ابراہیم خلیل
اسلامی تعلیمات کا ایک اہم پہلو
افراد اور اقوام کی زندگی میں تحمل وبرداشت ،عفوودرگزر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عفو ودرگزر اللہ تعالیٰ کی ہت بڑی صفت ہے، اگر یہ نہ ہوتو دنیا ایک لمحے کے لئے بھی آباد نہ رہے اورگناہوں سے بھری یہ دنیا آن واحد میں سونی پڑجائے ۔ اللہ تعالیٰ کے خاص ناموں میں سے عفو (درگزرکرنے والا)غافر ،غفور، غفار(مغفرت کرنے والا) ہیں۔ اس کی شان یہ ہے ’’اور اللہ وہی ہے جو بندوں کی توبہ قبول کرتا اور برائیوں کو معاف فرماتا ہے‘‘۔وہ گناہوں پر شرمسار بندوں کو اپنی غفار ی کا یوں یقین دلاتا ہے’’ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں البتہ اس بندے کی بڑی بخشش کرتا ہوں جو توبہ کرے اور یقین لائے اور نیک کام کرے، پھر راہ حق پر قائم رہے ‘‘۔انسانیت کے لئے مجسم رحمت بن کر تشریف لانے والے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے’’اللہ تبارک وتعالیٰ اس شخص کی عزت وشرف میں اضافہ ہی فرماتا ہے جو دوسروں کے ساتھ عفوودرگزر سے پیش آتا ہے‘‘۔رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ دعا کی جائے’’اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے او رمعافی کو پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے معاف فرما‘‘۔ظاہر ہے کہ اس دعا کے ذریعہ آپ ﷺ درحقیقت اپنی امت کو یہ تعلیم دینا چاہتے تھے کہ قبولیت دعا کے بہترین لمحے میں بندوں کو اللہ سے معافی ہی مانگنی چاہئے۔ قرآن وحدیث کی تعلیمات سے وبھی واضح ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسی بندے کو معاف کرتا ہے جو دوسروں کے ساتھ معافی اور درگزر سے کام لیتا ہے۔ مسلم دنیا کے قدیم ترین یونیورسٹی جامعۃ الازہر (مصرف) کے شیخ عبدالحلیم محمود اپنے ایک مضمون میں نیک بندوں کے درجات کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں: برائی کا بدلہ برائی سے دینا عدل ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :برائی کابدلہ برائی ہے لیکن قرآن کریم اسے عدل کہنے کے باوجود اخلاق کریما نہ کا ایک اور درجہ بیان کرتا ہے اوروہ درجہ کظم الغیظ کا ہے۔ یعنی ایک شخص کا وہ کردار جس میں برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود وہ غصے کو پی جاتا ہے۔ وہ شخص اخلاق کریمانہ کی میزان میں اس شخص سے بلند درجے کا حامل ہے جو برائی کا بدلہ برائی سے دیتا ہے۔
قرآن کریم اسی کا اکتفا نہیں کرتا بلکہ اخلاق عالیہ کا تیسرا درجہ بھی بیان کرتا ہے اور وہ درجہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے اور غصے کر پی جانے سے تجاوز کرکے عفوودرگزر تک پہنچ جاتا ہے اور معافی کی قدرت رکھنے کے باوجود اسی طرح برائی کا بدلہ برائی سے دینے اور غصے کو پی جانے کے کہیں بلند ہے۔
قرآن کریم اس سے بھی آگے ایک اور بلند ترین درجے کا ذکر کرتا ہے جو احسان کا درجہ ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو لوگ غصے کو پی جانے والے ہیں ، لوگوں کو معاف کرنے والے اور لوگوں کو احسان کرنے والے ہیں اللہ احسان کرنے والوں سے پیار کرتا ہے‘‘۔
یہاں احسان سے مراد ایسی بھلائی ہے جو مجرم کو مکمل معافی دینے کے بعد اس کے ساتھ حسن سلوک کے طور پر کی جاتی ہے۔ جس کاوہ نہ تو حق دارہے اور نہ ہی وہ اس کا کوئی مطالبہ کرتا ہے، اردو زبان میں بھی ایسی ہی نیکی کو احسان کہا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے ’’فلاں کا مجھ پر احسان ہے‘‘ یعنی اس نے بغیر کسی استحقاق کے میرے ساتھ بھلائی کا سلوک کیا ہے۔ہر شخص جو اللہ سے معافی کا خواستگار ہے، اس سب کو معاف کردینا چاہئے ،جس نے معاف کیا وہ معاف کردیا جائے گا۔ دوسروں پر احسان کرنے سے ظلم کی یاد ختم ہوجاتی ہے ،حق اداکردہ بلکہ اسے حق سے بھی سوادو، بس اتنے سے عمل سے ظلم ختم ہوجائے گا۔ جس معاشرے میں مظلوم اور محروم نہ ہوں ، وہی معاشرہ فلاحی معاشرہ ۔.....ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں اگر ہم تحمل وبرداشت کرتے ہوئے معاف کرنا اور معافی مانگنا شروع کردیں۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپس کے ٹوٹے ہوئے رشتو ں کو ازسر نو جوڑ کر سب کو محبت و اخوت کی ایک ہی لڑی میں پرونانہ صرف یہ کہ اہم ترین قومی ضرورت ہے بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر قوم کے منتشر افراد کو اخوت ومحبت کی لڑی میں پروکر ایک عظیم قوم بنایا جاسکتا ہے۔ دوباہم دست گریباں گروہوں کے اپنے اپنے مطالبات اور موقف پر اڑے رہنے کے بجائے اگر اپنے کچھ مطالبات سے دست بردار ہوکر کسی درمیانی صورت پر رضا مندی کے ساتھ فریق مخالف سے مصالحت کرلی جائے تو اسی میں طرفین کے لئے بھی بہتری ہے اور حق تعالیٰ شانہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے، قرآن میں اسی حقیقت کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلائی گئی ہے’’مسلمان تو سب دینی رشتے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں، اس لئے اپنے دوبھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو( تاکہ یہ اسلامی برادری قائم رہے) اور صلح کراتے وقت اللہ سے ڈرتے رہا کرو(یعنی حدودشرعیہ کی رعایت رکھا کرو) تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح وصفائی کراتا، بھلائی کی بات کہتا اور ایک دوسرے کو اچھی باتیں پہنچاتا ہے۔ (اگرچہ وہ صلح وصفائی کی نیت سے جھوٹ سے کام لے)امیر المومنین خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے قاضیوں کے لئے یہ فرمان جاری فرمایا: رشتے داروں کے مقدمات کو انہی میں واپس لوٹا دیا کرو تاکہ وہ خود برادری کی امداد سے آپس میں صلح کی صورت نکال لیں ۔فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر چہ فاروق اعظمؓ کے فرمان میں یہ حکم رشتے داروں کے باہمی جھگڑوں سے متعلق ہے مگر اس میں حکمت مذکورہ ہے کہ عام ہے، باہمی کدورت اور عداوت سے سب ہی مسلمانوں کو بچانا ہے، اس لئے حکام اور قضاۃ کے لئے مناسب یہ ہے کہ مقدمات کی سماعت سے پہلے اس کی کوشش کرلیا کریں کہ کسی صورت سے فریقین کی آپس میں رضا مندی کے ساتھ مصالحت ہوجائے ۔ (بحوالہ معارف القرآن ،مفتی محمد شفیع)
سعودی عرب میں قاضی کی عدالت میں مقدمے کی باقاعدہ شروع ہونے سے قبل سرکاری سطح پر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح فریقین میں مصالحت ہوجائے اور معاملہ طول پکڑ نے کے بجائے یہیں پر ختم ہوجائے۔ اسلام کا اصل مقصد اصلاح بین الناس ہے، لہٰذا یہ اصلاح اگر مجرم کوکسی صورت میں معافی دے کر حاصل کی جاسکتی ہے تو یہی راستہ اسلام کا عین صراط مستقیم ہے۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/forbearance-forgiveness-/d/1943