New Age Islam
Thu Jan 16 2025, 06:44 AM

Urdu Section ( 30 Oct 2010, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Daughter of The Merciful Prophet and the Lady of Heaven, Hazrat Fatima Al-Zahra بنت رسول رحمت خاتون جنت سیدۃ النسا حضرت فاطمۃ الزہراؓ

Farooque Argali gives a detailed account of the life and personality of Hadhrat Fatima ( R.A.). She was the daughter of the first wife of Hadhrat Mohammad( PBUH), the wife of Hadhrat Ali (R.A.) and mother of Hadhrat Imam Hasan and Hadhrat Imam Hussain (A.S.). Hadhrat Fatima's life and personality is a guiding light for all the Muslim women of the world. Every aspect of her life, her childhood, youth, marriage, rukhsati, housekeeping, looking after her husband, her peity, bringing up children, patience, service to the people, charity, good behaviour, sympathy for human beings and forgiveness is an example and a model for the women of the world.

Source: Rashtriya Sahara

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-daughter-merciful-prophet-lady/d/3601


بنت رسول رحمت خاتون جنت سیدۃ النسا حضرت فاطمۃ الزہراؓ

فاروق ارگلی

سیدّۃ النسا خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی ذات گرامی اس کائنات ارضی میں ازل سے تمام گزرچکی ، تمام موجودہ اور قیامت تک تمام آنے والی خواتین میں سب سے بلند اوراعلیٰ مرتبہ کی حامل ہے۔ آپؐ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی خاتون اوّل حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی صاحبزادی ہیں ۔ شاہِ مرداں ،شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زوجہ ہیں ۔ سیدّ الشہدا جوانان جنت حضرت امام حسن ؓ وسیدّ ناحضرت امام حسینؓ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ آپ ہی کے توسل سے خانوادہ نبوی کا سلسلہ قائم ہے۔ آپ ہی کے لیے ان کے والد محترم رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

‘‘فاطمہ سیدّۃ النسا العالمین یعنی تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ’’۔ یہ بھی فرمایا کہ فاطمہ تمام خواتین جنت کی سردار ہیں۔ آنحضرت ؐ نے اپنی دختر نیک اختر سے بھی ارشاد فرمایا دیا کہ : ‘‘فاطمہ ! تو جس سے ناراض ہوگی ، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوگا’’۔

حضرت فاطمہ زہراؓ صورت وسیرت ،عادت واطوار ،رفتار وگفتار میں حضور سرور عالمؐ نے بیحد مشابہت رکھتی تھیں۔ آپ کی شخصیت میں آنحضرت ؐ کے بہت سے اوصاف کی جھلک واضح تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:

‘‘ میں نے طور طریقے کی خوبی ،کردار واخلاق ، طرز گفتگو ،لب ولہجہ ،نشست و برخاست میں حضور اکرمؐ کے مشابہ فاطمہؓ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا ۔ ان کی رفتار بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی رفتا ر تھی۔’’

 خاتون جنت سیدّہ فاطمہ زہراؓ کی سیرت مطہرہ ساری دنیا کی مسلما ن عورتوں کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ایک عورت کی زندگی کے تمام اتار چڑھاؤ ،بچپن ،جوانی ، شادی،رخصتی،سسرال ،شوہر ، خانہ داری ، عبادت ،زہد وقناعت، اولاد کی پرورش وپرداخت ،صبر ورضا، اعزا واقربا پروری ،خدمت خلق ،صدقہ وخیرات ،خوش خلقی ،انسانی ہمدردی اور صلہ رحمی غرض کہ سیدّہ ؓ کی حیات طیبہ کا رخ تمام دنیا کی خواتین کے لیے نمونہ تقلید اور مشعل راہِ ہدایت ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی چوتھی اور سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ ان سے بڑی حضرت زینب ؓ، حضرت رقیہ اور حضرت امّ  اکلثوم تھیں۔ حضرت فاطمہ زہراؓ کے سنہ ولادت کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ ایک جگہ مذکور ہے کہ آپ بعثتِ نبویؐ سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف 35سال کی تھی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ بعثت سے ایک سال پہلے پیدا ہوئیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ آپ کی ولادت نبوت کے پہلے سال میں ہوئی۔ ابن اسحاق کے مطابق حضرت فاطمہؓ خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے سال میں پیدا ہوئیں جبکہ یہ واقعہ بعثت نبوی ؐ سےساڑھے سات سال پہلے کا ہے۔ بہر نوع اس پر زیادہ تر کا اتفاق ہے کہ آپ بعثت سے پانچ سال پہلے 20جمادی الاوّل کو مکہ معظّمہ میں پیدا ہوئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بلند اقبال صاحبزادی کا نام نامی فاطمہ رکھا تھا۔ لیکن سیدّہ کو ان کے خصائص کی بنا پر مبارکہ ،زکیہ ، صدیقہ ، راضیہ ،مرضیہ ،محدثہ ،طاہرہ  اور زہرا کے القاب سے مخاطب کیا گیا۔ آپ کے نام نامی کے ساتھ ‘زہرا’ سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ آپؐ کو زہرۃ النبی ؐ یعنی آنحضرت ؐ کا پھول کہا گیا ۔ یہ لقب حضرت فاطمہؓ کی سفید رنگت اور روشن چہرے کی وجہ سے انہیں ملا ۔حضرت فاطمہ ؓ کا ایک مشہور لقب بتول ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسن وجمال ،وعلم وفضل اور شرف ومرتبہ میں دوسری عورتوں سے الگ کردیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ سے بیحد محبت فرماتے تھے اور پیار سے انہیں امّ ابیھا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ اس کی وجہ آنحضرت کی سیرت بیان کرنے والوں نے یہ بتائی ہے کہ چونکہ آپ کے والد آپ کی ولادت سے قبل وفات پاچکے تھے، صغر سنی میں ہی آپؐ والدہ کے سائے سے بھی محروم ہوگئے تھے ۔ آپ ؐ بچپن سے ہی حضرت علیؓ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسدؓ واماں کہتے تھے ۔جب ان کا انتقال ہوا تو آپ ؐ نے غمزدہ لہجے میں فرمایا تھا:

‘‘آج میری والدہ کا انتقال ہوگیا۔’’

جب حضرت فاطمہؓ پیدا ہوئیں ان کی صورت دیکھ کر آپ کو حضرت فاطمہ بنت اسدؓ یا د آجاتیں۔

شرفا ئے عرب میں یہ دستور عام تھا کہ شیر خوار بچوں کو کھلی آب وہوا اور صحت مند ماحول میں پرورش پانے کے لیے معزم قبائل کی دایہ کے سپرد کردیا جاتا تھا۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سعد کی اپنی دایہ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کی گود میں پرورش پائی تھی۔ جب حضرت فاطمہؓ کی ولادت ہوئی تو رواج کے مطابق امّ المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے انتہا ئے محبت میں اپنی اس بچی کو کسی دایہ کے حوالے نہیں کیا بلکہ پورے عرصے خود اپنا دودھ پلایا اور بچپن سے ہی اس کی تربیت پر پوری توجہ دی۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا جس وقت انتقال ہوا، حضرت فاطمہؓ بہت چھوٹی تھیں۔ والدہ کا سایہ سرسے اٹھ جانا ان کے لیے جانکاہ صدمہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدّہؓ کی تربیت ونگہداشت کے خیال سے ہی حضرت سودہؓ بنت زمعہؓ سے نکاح کرلیا تھا جو خاندان قریش کی ایک معزز خاتون تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود بھی سیدّہ کی تربیت اور نگہداشت فرماتے تھے۔ آپ ؐبچپن سے ہی نہایت ذہین ، سنجیدہ اور تنہائی پسند تھیں۔ عام لڑکیوں کی طرح کیلل کود سے انہیں کوئی رغبت نہیں تھی۔ وہ جب ننھی سی بچی تھیں ہمیشہ اپنی والدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے پاس ہی رہتی تھیں ۔ اپنی والدہ اور والد محترم سے معصومیت میں ایسے سوالات پوچھا کرتی تھیں جن سے ان کی غیر معمولی ذہانت ظاہر ہوتی تھی۔ انہیں صغر سنی سے ہی دنیا کے نام ونمود اور نمائش و آرائش سے نفرت تھی۔ایک بار حضرت خدیجہ ؓ کے کسی عزیز کے یہاں شادی تھی ۔ انہوں نے سیدّہ فاطمہؓ کے لیے اچھے اچھے کپڑے اور زیورات بنوائے ،لیکن جس وقت دعوت میں چلنے کا وقت آیا، سیدّہ نے وہ بہتر ین لباس اور زیور پہننے سے انکار کردیااور اپنے سادہ لباس میں ہی شادی میں شریک ہوئیں۔ ایک دن جب حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ انہیں تعلیم دے رہی تھیں تو ننھی منی سیدّہ نے ان سے پوچھا:‘‘ امی جان! اللہ تعالیٰ کی قدرتیں تو ہم ہر وقت دیکھتے ہیں ، کیا اللہ تعالیٰ خود نظر نہیں آسکتے؟’’

حضرت خدیجہؓ نے فرمایا:

‘‘میری بچی! اگر ہم دنیا میں اچھے کام کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کریں گے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مستحق ہوں گے اور یہی اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔’’

مکہ میں توحید الٰہی اور دین حق کی دعوت وتبلیغ کے سخت مخالف کفار ومشرکین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح سے ایذا پہنچاتے تھے ۔ آپؐ ان  سب مظالم کو برداشت کرتے ہوئے جب گھر تشریف لاتے سیدّ ہ ؓ اپنے جلیل القدر والد کو تسلی دیا کرتیں ۔ کبھی کبھی وہ اپنے پیارے والد کی مصیبتوں پر اشک بار ہوجاتی تھیں تو اس وقت حضورؐ انہیں تسلی دیتے او رفرماتے :

‘‘میری بیٹی! گھبراؤ نہیں اللہ تمہارے باپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔’’

ایک دن جب آپؐ خانہ کعبہ میں نماز ادا کررہے تھے کفار نے اونٹ کی اوجھڑی لاکر سجدے کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں ڈال دی جس کی وجہ سے آپؐ کا سراٹھا نا ناممکن ہوگیا۔ اس مذموم حرکت کا سرغنہ عقبہ بن معیط تھا۔ کسی نے سیدّہ کو اس کی اطلاع دی تو آپ بے چین ہوگئیں۔ دوڑتی ہوئی خانہ کعبہ پہنچیں اور اپنے نازک ہاتھوں سے اوجھڑی ہٹائی اور آس پاس کھڑے شرارت سے تالیاں بجاتے ہوئے اشرار کو دیکھ کر غصے سے فرمایا :

‘‘کمبختوں! اللہ تعالیٰ تم کو ان شرارتوں کی سزا ایک دن ضرور دے گا’’۔

سیّدہ کے یہ الفاظ بار گاہ الٰہی میں قبول ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد جنگ بدرمیں وہ تمام لوگ بڑی ذلت کے ساتھ مارے گئے جو اس گستاخی کے مرتکب ہوئے تھے۔

ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں جب سیدّہ ؓ پندرہ سال کی تھیں ان سے نکاح کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ ،حضرت عمر فارقؓ وغیرہ اصحاب نے پیغامات دیئے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمائے ۔ روایت ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر،ؓ حضرت عمرؓ       اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے مشورہ کیا کہ فاطمۃ الزہراؓ کے لیے کئی پیغام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچے لیکن آپ نے کوئی بھی منظور نہیں فرمایا: اب علیؓ باقی ہیں جو اللہ کے رسول ؐ کے جاں نثار ،محبوب اور عم زاد بھائی بھی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے فقرہ تنگ دستی کے باعث وہ پیغام نہیں بھیجتے ،کیوں نہ انہیں سیدّہؓ سے نکاح کا پیغام بھیجنے کی ترغیب دی جائے اور ضرورت ہوتو ان کی مدد کی جائے۔ یہ سوچ کر وہ تینوں اصحاب حضرت علیؓ سے ملے۔ اس وقت وہ جنگل میں اپنا اونٹ چرارہے تھے۔ ان تینوں نے انہیں شادی کا پیغام حضور ؐ کی خدمت میں بھیجنے کی گزارش کی۔ اس پرحضرت علیؓ نے اپنی بے سروسامانی کیوجہ سے تامل ظاہر کیا لیکن ان صاحبان کے زور دینے پر آخر رضا مند ہوگئے ۔ ویسے ان کے دل میں یہ خواہش پہلے سے ہی تھی لیکن حیا ولحاظ مانع تھا۔ بہر حال انہوں نے ہمت کر کے پیغام حضورؐ کو بھیج دیا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بخوشی منظور فرمالیا۔ آپؐ نے سیدّہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بھی بہ زبان خاموشی اپنی رضا مندی ظاہر کردی۔ اس بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ انصار ؓ کی ایک جماعت نے حضرت علیؓ کو سیدّہ کے ساتھ نکاح کا پیغام بھیجنے کی ترغیب دی۔ حضرت علیؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رشتے کی استدعا کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درخواست منظور فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:

‘‘تمہارے پاس مہر ادا کرنے کے لیے بھی کچھ ہے؟’’

آپ نے عرض کیا:‘‘ اللہ کے نام کے سوا کچھ نہیں ۔’’ حضورؐ نے فرمایا:

‘‘میں نے تمہیں جو زرہ دی تھی وہی مہر میں دے دو’’۔

حضرت علیؓ نے ارشاد نبویؐ کے آگے سرِ تسلیم خم کردیا۔ آپ کی وہ زرہ حضرت عثمانؓ نے چار سو اسی درہم میں خرید لی ، اور پھر تحفہ کے طور پر انہیں واپس لوٹادی ۔ یہ رقم حضرت علیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی تو آپ ؐ نے فرمایا:

‘‘ایک تہائی خوشبو وغیرہ صرف کرو، ایک تہائی سامان شادی اور باقی گھر کی ضروری چیزوں پر خرچ کرو۔’’

اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس ؓ کو حکم دیا کہ جاؤ ابوبکرؓ، عمرؓ اور عبدالرحمٰن بن عوف ؓ اور دیگر انصارو مہاجرین کو بلالاؤ ۔ وہ سب دربار رسالت میں حاضر ہوگئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پرکھڑے ہوکر فرمایا:

‘‘ اے مہاجرین وانصار! ابھی جبریل امین میرے پاس یہ اطلاع لے کر تشریف لائے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المعمور میں فاطمہ بنت محمدؐ کا نکاح اپنے بندۂ خاص علی ابن ابی طالبؓ کے ساتھ کردیا او ر مجھے حکم ہوا کہ عقد نکاح کی تجدید کر کے گواہان کے روبرو ایجاب وقبول کراؤں۔’’

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سو مشقال چاندی مہر کے عوض سیدّ ہ ؓ کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ساتھ کردیا۔ آپ نے دعا فرمائی:

‘‘اللہ تعالیٰ تم دونوں کی پر اگندگی ختم فرمائے اور تمہاری سعی مشکور ہو۔ تم دونوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور تم سے پاک اولاد پیدا ہو’’۔

نکاح کے وقت حضرت علیؓ کی عمر 21سال اور سیدّہ فاطمہؓ کی عمر پندرہ سال کی تھی۔ اس عظیم شادی کی تاریخ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے مطابق یہ نکاح ماہ صفر سنہ2ہجری کو ہوا جب کہ کچھ شوال سنہ3ہجری بتاتے ہیں۔ بعض مورّخین کے مطابق یہ نکاح جنگ احد کے بعد اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کی رخصتی کے ساڑھے چار ماہ بعد ہوا تھا۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضورؐ کے مکان سے کچھ فاصلے پر ایک گھر کرایہ پر لیا تھا۔ سید ّہ اسی گھر میں رخصت ہوکر آئیں۔ رخصتی کے وقت حضورؐ نے اپنی لخت جگر کا ہاتھ حضرت علیؓ کے ہاتھ میں دے کر فرمایا:

‘‘اے علی! پیغمبر کی بیٹی تجھے مبارک ہو۔’’

اس کے بعد سیّدہ ؓ سے فرمایا:

‘‘اے فاطمہ! تیرا شوہر بہت اچھا ہے۔’’

اس کے بعد آپ نے شوہر اور بیوی کے فرائض وحقوق بیان فرمائے اور حضرت علیؓ کے بازو تھام کر انہیں خیر بروکت کی دعا فرمائی تمام ارض وسما کے خزانوں کے مالک، سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادی ،خاتون جنت کو اپنے عظیم و شفیق باپ سے جو جہیز ملا تھا اس میں مصری کپڑے کا ایک بستر تھا جس میں اون بھری ہوئی تھی ،ایک پلنگ یا تخت،ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں، ایک مشکیزہ ،دومٹی کےبرتن یا گھڑے پانی بھرنے کے لیے ، ایک چکی، ایک پیالہ، دوچادریں ،دوبازوبند چاندی کے اور ایک جائے نماز تھی اور بس ۔

جب سیّدہ رخصت ہوکر اپنے شوہر نامدار کے مکان پر چلی گئیں تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور دروازے پرکھڑے ہوکر اندر آنے کی اجازت مانگ کر گھر میں داخل ہوئے۔ ایک برتن میں پانی منگوایا اور حضرت علیؓ کے سینہ اور بازوؤں پرچھڑکا، پھر سیّدہ کو قریب بلایا ۔ وہ شرم وحیا سے جھجکتی ہوئی سامنے آئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بھی پانی کا چھڑکا اور فرمایا:

‘‘اے فاطمہ! میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان کے بہترین شخص سے کی ہے۔’’

سیّدہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی اطاعت وخدمت میں کوئی کمی نہیں کی۔ شوہر نامدار حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سلطان الفقرا تھے۔ سیدّہؓ نے بھی فقرو فاقہ میں ان کا ساتھ دیا۔ آپ اپنے گھر کا سارا کام اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں۔ مکان کی صفائی خود کرتی تھیں۔ چکی پیستی تھیں ۔ چولہا پھونکتی تھیں۔ کپڑے دھوتی تھیں۔ مشک میں پانی بھرکر لاتی تھیں۔ یہ سارے کام کرتے ہوئے بھی عبادت اور یاد الہٰی میں محور ہتی تھیں۔

دونوں جہاں کے بادشاہ کی بیٹی پر  اکثر کئی کئی وقت کے فاقے گزرجاتے ۔ ایک دن حضرت علیؓ کو مزدوری میں ایک درہم ملا۔ اس وقت رات ہوچکی تھی ۔ آپ نے اس درہم کے جو خریدے اور گھر پہنچے ۔سیدّہ ؓ نے خندہ پیشانی سے شوہر نامدار کا استقبال کیا اور ان کے لائے ہوئے جو چکی میں پیش کر روٹی پکائی اور شوہر کے آگے رکھی ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:

‘‘اس وقت مجھے سرکار دوعالم کی یاد آئی جب آپ نے فرمایا تھا فاطمہ ؓ دنیا کی بہترین عورت ہے۔’’

جن دنوں کا یہ ذکر ہے اسلام کی فتوحات بڑھ رہی تھیں۔ مدینہ میں بکثرت مال غنیمت آنا شروع ہوگیا تھا ۔ ایک دن حضرت علیؓ کومعلوم ہوا کہ مال غنیمت میں کچھ کنیز یں بھی آئی ہیں، حضرت علیؓ نے زوجہ سے کہا:

‘‘چکی پیستے پیستے تمہارے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے ہیں اور چولہا پھونکتے پھونکتے تمہارے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا ہے۔ آج حضورؐ کے پاس بہت سی کنیزیں لائی گئی ہیں کیوں نہ تم ان سے اپنے لیے ایک خادمہ مانگ لو۔’’

شوہر کی بات سن کر سیّدہ سرکارؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ،لیکن شرم وحیا کی وجہ سے عرض مدعا کی ہمت نہ ہوئی او رکچھ دیر والد کے پاس رہ کرلوٹ آئیں اور حضرت علیؓ سے کہا :‘‘مجھے ان سے خادمہ کے لیے درخواست کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔’’اس کے بعد دونوں میاں بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوئے اور اپنا مدعا ظاہر کیا۔ جواب میں دونوں جہاں کے شہنشاہ نے فرمایا:

‘‘میں تم کو کوئی قیدی خدمت کے لئے نہیں دے سکتا۔ ابھی اصحاب صفہؓ کے کھانے پینے کا  بندوبست کرنا ہے۔ میں ان لوگوں کو کیسے بھول جاؤں جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی کی خاطر وفاقہ اختیار کیا ہے’’۔دونوں خاموسی سے واپس چلے آئے ۔ ابن سعدؒ اور حافظ ابن حجر ؒ کی متفقہ روایت ہے کہ اس رات کو انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیٹی اور داماد کے گھر تشریف لائے اور فرمایا:‘‘ تم جس چیز کی خواہش مند ہو، اس سے بہتر چیز تم کو بتانا ہوں ۔ ہر نماز کے بعد دس دس بار سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر پڑھا کرو اور سوتے وقت 33۔33بار سبحان اللہ، الحمداللہ اور 34بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ یہ عمل تمہارے لیے بہترین خدمتگار ثابت ہوگا۔’’

حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی عبادت وریاضت اور تقویٰ وپرہیز گاری اس درجہ کو پہنچی ہوئی تھی کہ ہمہ وقت ذکر الہٰی زبان مبارک پررہتا تھا۔ خوف خداوندی سے ہر لمحہ لرزاں وتر ساں رہتی تھیں۔ تلاوت قرآن کے وقت عقوبت وعذاب کی آیات آجاتیں تو جسم  لرز جاتا اور آنکھوں سے سیل اشک پھوٹ پڑتا۔

امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کچھ لوگوں نے حضرت علیؓ کے بارے میں پوچھا تو آپ ؓ نے فرمایا:

‘‘تم لوگ اس شخص کےبارے میں پوچھتے ہو جو رسول اللہؐ کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور اس کی بیوی حضور ؐ کی بیٹی تھیں جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔’’

اس کے بعد حضرت عائشہ صدیقہؓ نے  بیان فرمایا کہ ایک دن رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ ،حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت حسن ؓ وحسینؓ کو طلب فرمایا اور ان پر ایک کالے رنگ کی چادر ڈال کر دعا فرمائی:

‘‘اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ان سے گندگی کودور فرمادے اور انہیں خوب پاک کردے’’۔

اس مضمون سے ملتے جلتے مفہوم کی بہت سی احادیث ترمذی ، مسلم ، بہقی اور حاکم میں موجود ہیں۔ محدثین عظام نے حضرت انس بن مالکؓ ،حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت امّ سلمہؓ اور دوسرے صحابہ کرام سےروایت کی ہیں۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ آیت تطہیر کے نزول کے بعد سرکار دوعالم کا چھ ماہ تک یہ معمول رہا کہ آپ صبح نماز فجر کے لیے نکلتے وقت سیّد ہ فاطمہؓ کےدروازے پر جاتے اور آواز دیتے :

‘‘اے اہل بیت ! نماز پڑھو اور آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے۔’’(ترمذی)

ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ دروازے پر ایک رنگین پردہ لٹکا ہوا ہے ۔آپ نے یہ بھی دیکھا کہ سیدّہؓ کے دونوں ہاتھوں میں چاندی کے کنگن ہیں۔ یہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹ گئے ۔والد کی ناراضی کے خیال نے انہیں رنجیدہ کردیا اور وہ بہت روئیں۔ ایسے میں حضور ؐ کے خادم حضرت ابورافعؓ وہاں پہنچ گئے اور سیّدہؓ سے اس گریہ وزاری کا سبب پوچھا ۔سیّدہؓ نے حضورؐ کے آنے اور بغیر کچھ فرمائے واپس چلے جانے کے بارے میں بتایا تو ا نہوں نے کہا:

‘‘حضور ؐ نے خوبصورت پردے اور کنگن کو ناپسند فرمایا ہے۔’’

اس پرآپ نے دونوں چیزیں آپ کی خدمت میں یہ کہلا کر بھیج دیں کہ

‘‘میں نے ان چیزوں کو اللہ کی راہ میں دےدیا۔’’

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیاری بیٹی کی اس بات پر بے حد خوش ہوئے ۔ سیّدہ ؓ کے لیے دعا فرمائی اور وہ چیزیں فروخت کرکے قیمت اصحاب صفہ کے اخراجات میں صرف کردی۔

ایک دن حضرت علی مرتضیٰؓ بھوکے پیاسے گھر پہنچے اور زوجہ سے کچھ کھانے کے لئے مانگا ۔ انہوں نے بتایا کہ آج تین دن سے گھر میں کچھ نہیں ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا:

‘‘تم نے مجھ سے پہلے کیوں نہ کہا؟ ’’ سیّدہؓ نے جواب میں فرمایا : ‘‘میرے سرتاج! میرے باپ نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ کبھی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں۔’’

سیدّہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی سخاوت اور رحمدلی کے بے شمار واقعات احادیث میں موجود ہیں۔ اس جگہ تفصیل کی گنجائش نہیں ۔ اجمالاً چند واقعات ہی پیش کیے جارہے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی مرتضیٰؓ نے ساری رات ایک باغ کو سینچنے کی مزدوری کی۔ اجرت سے ا نہوں نے جو خریدے سیّد ہؓ نے جو کا آٹا پیسا اور کھانا تیار کیا۔ عین کھانے کے وقت ایک سائل نے آواز دی۔

‘‘میں بھوکا ہوں۔’’

سیّدہ ؓ نے وہ سارا کھانا سائل کو دے دیا۔ پھر  باقی رکھے ہوئے جو کو پیسا اور روٹی بنائی ۔ ابھی کھانا تیار ہی ہوا تھا کہ دروازہ پر کسی یتیم نے آواز لگائی ۔ سیدّہ ؓ نے وہ کھانا یتیم کو عطا کردیا۔ تھوڑے سے جواب بھی موجود تھے۔ آپؓ نے انہیں پیس کر روٹی تیار کی تبھی ایک مشرک قیدی نے اللہ کا واسطہ دے کر کھانا مانگا ۔آپؓ نے وہ کھانا بھی خیرات کردیا اس رات سیّدہ ؓ کے گھر والے سب بھوکے سوئے ۔ اسی گھر کے لیے یہ آیت شریفہ ناز ہوئی:

‘‘اور وہ اللہ کی راہ میں مسکین ،یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔’’ (الدہر ،آیت 8)

ایک بار قبیلہ بنو سلیم کا ایک ضعیف آدمی مسلمان ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دین کے ضروری احکام اور مسائل سمجھائے ۔پھر اس سے پوچھا تیرے پاس کچھ مال بھی ہے۔ اس نے کہا :

‘‘خدا کی قسم ، اپنے قبیلے کا میں سے زیادہ مفلس ونادار انسان ہوں۔’’

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا:

‘‘ تم میں سے کون اس مسکین کی مدد کرے گا؟’’

حضرت سعد بن عبادہؓ اٹھے اور عرض کیا:

‘‘یا رسول اللہ ! میرے پاس ایک اونٹنی ہے ۔ میں وہ اس کو دیتا ہوں۔’’

حضورؐ نے  پھر فرمایا:

‘‘تم میں سے کون ہے جو اس کا سرڈھانک دے؟’’

سیّدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنا عمامہ اتار کر اعرابی کے سرپر رکھ دیا۔ اس کے بعد حضور ؐ نے اس کے کھانے کے کیے صحابہ ؓ سے پوچھا ۔ حضرت سلمان فارسیؓ نےا سے اپنے ساتھ لیا اور چند گھروں سے کھانے کے لیے دریافت کیا، لیکن کہیں سے کچھ نہ ملا۔آخر میں حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے دروازے پر دستک دی اور عرض کیا:

‘‘اے اللہ کے سچے رسو ل کی بیٹی ! اس مسکین کی خوراک کا بندوبست فرمائیے’’۔

جواب میں سیّدہ ؓ نے گلو گیر لہجے میں فرمایا:

‘‘ اے سلمان ؓ ! خدا کی قسم آج ہم سب کو تیسرا فاقہ ہے۔ دونوں بچے (حسنؓ و حسینؓ ) بھوکے سوئے ہوئے ہیں ،لیکن میں خالی ہاتھ نہ جانے دوں گی ۔ میری یہ چادر شمعون یہودی کے پاس لے جاؤ اورکہو کہ فاطمہؓ بنت محمدؐ کی یہ چادر رکھ لو اور اس غریب انسان کو تھوڑا ساکھانے کا سامان دے دو۔’’

حضرت سلمان ؓ چادر لے کر یہودی کے پا س پہنچے اور اس سے مدعا بیان کیا۔ شمعون یہ سن کر دم بخود رہ گیا۔ پھر اس نے پکار کر کہا:

‘‘اے سلمانؓ! یہ وہی لوگ ہیں جن کی خبر تو ریت میں دی گئی ہے۔ گواہ رہنا میں فاطمہؓ کے باپ پر ایمان لایا۔’’

اس نے کچھ اناج حضرت سلمانؓ کو دیا اور چادر سیّدہؓ کو واپس بھیج دی۔ سیّدہ ؓ نے آٹا پیس کر روٹیاں بنائیں اور حضرت سلمانؓ کے حوالے کردیں۔ حضرت سلمانؓ نے عرض کیا:

‘‘اس میں سے کچھ اپنے بچوں کے لیے بھی رکھ لیں۔’’

سیّدہ ؓ نے جواب دیا:

‘‘جو چیز میں اللہ کی راہ میں دے چکی وہ میرے بچوں کے لیے جائز نہیں۔’’

جب حضرت سلمانؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بات بتائی تو آپ نے دعا فرمائی:

‘‘یا اللہ! فاطمہ تیری کنیز ہے، اس سے راضی رہنا۔’’

ایک بار سیّدہ ؓ کی طبعیت ناساز تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک معمر صحابی حضرت عمران بن حصینؓ کے ساتھ بیٹی کی عیادت کے لیے تشریف لائے ۔ دروازے پر پہنچ کر اندر آنے کی اجازت مانگی۔ سیّدہ ؓ نے عرض کیا:

‘‘تشریف لائیے’’۔

آپ ؐ نے فرمایا:

 ‘‘میرے ساتھ حصین ؓ بھی ہیں۔’’

سیّدہ ؓ نے عرض کیا:

 ‘‘ابا جان! میرے پاس ایک عبا کےسوا کوئی کپڑا نہیں کہ پردہ کرلوں۔’’

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اندر پھینک کر فرمایا:

‘’لو اس سے پردہ کرلو’’۔

آنحضرت ؐ نے بیٹی کا حال پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ دود سے پریشان ہیں اور بھوک نے انہیں بے جان کررکھا ہے اور گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

‘‘ اے میری بیٹی صبر کر، میں بھی تین دن کے فاقہ سے ہوں ۔اللہ تعالیٰ سے میں جو کچھ مانگتا وہ مجھے ضرور عطا کرتا لیکن میں نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔’’

پھر آپؐ نے سیّدہ ؓ کے سر پر ہاتھ پھیرا ،اور فرمایا:

‘‘اے لخت جگر! دنیا کے مصائب سے دل برداشتہ نہ ہو ۔تم جنت کی عورتوں کو سردار ہو۔’’

سرکار دوجہاں کو حضرت فاطمہؓ سے کتنی محبت تھی اس کا اندازہ بخاری شریف کی اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ابوجہل کی بیٹی غورا سے نکاح کرنا چاہا ۔ سیّدہؓ اس خبر سے بیحد رنجیدہ ہوئیں۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیف پہنچی ۔ اسی وقت غورا کے سر پر ست بھی حضور ؐ سے اس نکاح کی اجازت لینے پہنچ گئے۔ آپ اسی صدمے کے عالم میں مسجد میں تشریف لائے اور منبر پرکھڑے ہوکر فرمایا:

‘‘آل ہشام ( ابوجہل کی اولاد) علیؓ سے اپنی لڑکی عقد کرنے کی اجازت مجھ سے چاہتے ہیں ،لیکن میں اجازت نہ دوں گا۔ البتہ علیؓ میری بیٹی کو طلاق دے دیں ،پھر وہ یہ نکاح کرسکتے ہیں۔ فاطمہؓ میرے جسم کا ٹکڑا ہے ۔ جس نے اس کی اذیت دی، اس نے مجھے اذیت دی۔ جس نے فاطمہ ؓ کو دکھ پہنچایا اس نے مجھے دکھ پہنچایا ۔ میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرنا چاہتا ،لیکن خدا کی قسم اللہ کے رسول کی بیٹی اور دشمن خدا کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں۔’’

آپ کے اس ارشاد کے بعد حضرت علیؓ نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ یہی نہیں حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کی زندگی میں دوسری شادی کا خیال تک دل میں نہیں آنے دیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح اپنی بیٹی سے محبت کرتے تھے اسی طرح اپنے داماد حضرت علیؓ اور نواسوں حضرت حسن و حضرت حسین ؓ اور نواسی حضرت زینب ؓ کو دل وجان سے پیار کرتے تھے ۔ حسنینؓ سے آپ  کی شفقت اور دلی محبت تو انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ دونوں نواسوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا جگر کا گوشہ سمجھتے تھے۔ انہیں دوش مبارک پر بیٹھاتے تھے اور نہایت پیار سے انہیں بوسے دیتے تھے۔ حضرت علی ؓ سے فرماتے تھے:

 ‘‘ جن سے تم ناراض ہوگے ان سے میں بھی ناخوش ہوں گا، جن سے تمہاری لڑائی ہے ان سے میری بھی لڑائی ہے، جن سے تمہاری صلح ہے ان سے میری بھی صلح ہے۔’’

اپنے شفیق والد سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا سیّدہ ؓ پر ایسا اثر ہوا کہ بیمار ہوگئیں ۔ چھ ماہ تک زندہ رہ کر آپ کی یاد میں گریہ کناں رہیں ۔آپ کی مفارقت میں یہ اشعار آنسوؤں میں ڈھل کر دل سے نکلے تھے:

آسمان غبار آلود ہوگیا، آفتاب لپیٹ دیا گیا، دنیا تاریک ہوگئی، نبی ؐ کے بعد زمین نہ صرف غمگین ہے بلکہ فرط الم سے شق ہوگئی ہے۔ ان پرقبیلہ مصر کے لوگ اور تمام اہل یمن روتے ہیں۔ بڑے بڑے پہاڑ اور محلات گریہ کناں ہیں۔ اے خاتم الرسل ! اللہ آپ پر رحمت نازل فرمائے۔’’

آپ کی چھ اولادیں ہوئیں۔ شبیہ رسول سیّد نا امام حسن رضی اللہ عنہ، شہید کربلا سیّد نا امام حسین رضی اللہ عنہ ،حضرت محسنؓ، حضرت اُمّ کلثومؓ ،حضرت رقیہؓ اور سیّدہ زینب ؓ ۔ حضرت محسن ؓ اور حضرت رقیہؓ کا انتقال صغریٰ میں ہی ہوگیا تھا۔ آپ کے عظیم المرتبت صاحبزدوں سیّد نا امام حسنؓ اور سیّد نا امام حسینؓ سے ہی سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا خانوادہ ساری دنیا میں پھیلا ۔ نبی اکرمؐ کے انہی دونوں نواسوں کی لازوال قربانیوں نے اپنے نانا کے دین کو قیامت تک کے لیے قائم ،زندہ وتابندہ کردیا۔

مذکور ہے کہ حضورؐ کے وصال کے بعد میراث کا مسئلہ سامنے آیا۔ فدک ایک باغ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ  وسلم کو کچھ مسلمانوں نے اس شرط پر دے رکھا تھا کہ اس سے جو پیدا وار ہوگی وہ آنحضور ؐ کے لیے ہوگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات میں اس آمدنی میں سے کچھ اپنے اہل وعیال کے لیے رکھ کر باقی مسافروں اور مسکینوں پر صرف فرمایا کرتے تھے۔ لوگوں نے سیّدہؓ سے کہا کہ فدک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت تھا اس لیے اب وہ اس کی وارث ہیں۔ سیّدہؓ نے  خلیفہ ٔ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس فدک کی وراثت کا دعویٰ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:

‘‘فاطمہ ؓ ! میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزا کواپنے اعزا سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ انبیا علیہم السام جو ترکہ چھوڑتے ہیں وہ پورے کا پورا صدقہ ہوتا ہے۔ اس میں وواثت جاری نہیں ہوتی اس لیے اس جائداد کی تقسیم نہیں کرسکتا البتہ حضورؐ کی حیات طیبہ میں اہل بیت اس سے جو استفادہ کرتےتھے اب بھی کرسکتے ہیں۔ اس جواب سے سیّدہؓ کو بیحد صدمہ پہنچا اور اپنی وفات تک انہوں نے حضرت ابوبکرؓ سے بات نہیں کی۔ روایت ہے کہ سیّدہ ؓ کی زندگی کے آخری ایام میں حضرت ابوبکرؓ عیادت کے لیے حاضر ہوئے تو انہوں نے ان کی اندر آنے کی اجازت دی اور اپنی رنجش دور فرمائی ۔( تذکار صحابیات)

اپنے والد کی امت کی سیّدہؓ کو اتنا خیال تھا کہ حضرت امام حسنؓ فرماتے ہیں کہ آپ ایک رات نماز میں مشغول تھیں، اسی حالت میں صبح ہوگئی۔ آپ نے مسلمانوں اور مسلمات کے لیے بہت سی دعائیں مانگیں لیکن اپنے لئے اللہ  تعالیٰ سے کچھ نہیں مانگا ،میں نے عرض کیا مادر مہربان! سب کےلئے آپ نے دعا فرمائی اپنے لیے کیوں نہیں کی۔ سیّدہ ؓ نے فرمایا:

‘‘بیٹا! پہلا حق باہروالوں کاہے۔’’

حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو شرم وحیا اور پردہ داری کا بیحد لحاظ تھا۔ ان کی حیا ت میں  کسی نامحرم نے ان کو نہیں دیکھا ۔ انتقال کے وقت انہوں نے وصیت فرمائی کہ ان کا جنازہ پردہ میں لے جایا جائے۔ ان کی وصیت پر پوری طرح عمل کیا گیا اور تدفین رات کے وقت کی گئی ۔ نماز جنازہ حضرت عباسؓ نے پڑھائی اور حضرت علیؓ ،حضرت عباسؓ اور حضرت فضل بن عباسؓ نے قبر میں اتارا ۔ آپ دار عقیل کے ایک گوشے میں مدفون ہوئیں ۔ رضی اللہ عنہا۔

(بشکریہ راشٹریہ سہارا،نئی دہلی)

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/the-daughter-merciful-prophet-lady/d/3601

 

Loading..

Loading..