فاروق ارگلی
ہریانہ ہمارے ملک کا مردم خیز خطہ ہے۔ قدیم ترین روایات کے مطابق ہریانہ کی تاریخ کاآغاز ویدوں کے زمانہ سے ہوتا ہے۔ ہندوستان کے عظیم ترین رزمیہ مہا بھارت میں ہر یانہ کی مرکزی اہمیت ہے کیونکہ کوروؤں اور پانڈووں کی جنگ عظیم کا میدان کرو کشیتر ہریانہ ہی میں واقع ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد پانی پت کا میدان بڑی بڑی جنگوں اور دو تہذیبوں کے اتصال کا گوانہ رہا ہے۔دور مغلیہ میں ہریانہ دہلی کا ہی ایک حصہ تھا لیکن 1857کے انقلاب میں ہندوستانیوں پر غلبہ حاصل کرلینے پر جھجر اور بہاد ر گڑھ کے نوابیں اور ریواڑی کے بہادر مجاہد آزادی راؤ تلارام سے اقتدار چھین لینے کے بعد انگریزوں نے ہر یانہ کے کچھ علاقوں کو مرکزی برٹش حکومت میں شامل کرلیا اور پٹیالہ ،نابھ اور جیند کے علاقے اپنے وفادار ہندوستانی حکمرانوں کو بخش دیے۔اس طرح ہریانہ ایک صدی تک پنجاب کا حصہ بنارہا ۔نومبر 1966میں پنجاب کی نئی تقسیم کے بعد ہر یانہ ایک مکمل ریاست کی صورت میں ملک کے نقشے پر ابھرا اور حیرت انگیز تیز رفتاری سے تعمیر وترقی کی راہ میں آگے بڑھ کر ہندوستانی کا ترقی یافتہ اور خوشحالی صوبہ بن گیا۔
ہریانہ کی سرزمین انسانی تہذیب کے ارتقا ئی دور سے ہی مردم خیز رہی ہے۔ یہاں ہر زمانہ میں اہل علم ، اہل ہنر، اہل سیف اور اہل عرفان ہستیاں پیدا ہوتی رہی ہیں جن کے تذکروں سے ہماری تاریخ جگمگارہی ہے۔گزشتہ ایک ہزار برسوں سے ہریانہ بزرگان دین اور علم وادب کے اکابرین کا مرکز ہے۔ ہندوستان کی قدیم ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کی زندہ علامت اردو زبان کی تاریخ میں بھی سرزمین ہریانہ کی خاص اہمیت ہے۔ اردو کے لافانی شاعر غالب کا ہریانہ سے گہرا تعلق رہا ہے کیو نکہ فیروز پور جھر کہ ان کا نانہالی شہر ہے۔ پانی پت کی پاکیزہ دھرتی میں جہاں حضرت بو علی شاہ قلندر ؒ اور انگنت اولیا و صلحا آرام فرما ہیں وہیں اس شہر نے اردو زبان و ادب کو متعدد ایسے گرانیہا گوہر آبد ار عطا کیے ہیں جن کی چمک دمک لازوال ہے۔ انہی میں اردو علم وادب کے کوہ نور خواجہ الطاف حسین حالی کی شخصیت سب سے نمایاں ہے۔ ہریانہ کے اس سپوت پر نہ صرف اردو زبان و ادب کی عالمی برادری بلکہ سارے ہندوستان کو ناز ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حالی کی ہمہ جہت شخصیت کی دوسری مثال اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک سے ایک بڑھ کر انگنت شاعرو ں ، ادیبوں، محققوں ، ناقدوں اور دانشوروں کے باوجود تلاش نہیں کی جاسکتی ۔ حالی بیک وقت صاحب فکر شاعر، صاحب طرز ادیب، صاحب نظر ناقد اور صاحب دل مصلح قوم تھے ۔ حالی کی عظمت کا اندازہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ وہ اردو شعرا کی اس سب سے پہلی صف کے امام ہیں جنہوں نے بامقصد اور وسیع فکر ی پیش منظر رکھنے والی جدید نظمیہ شاعری سے روشناس کرایا ۔اردو زبان اور اس کا شاندار ادب اگر آج دنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانوں میں اپنا مقام بناسکا ہے تو اس میں حالی کا اشتراک سب سے اہم ہے کیونکہ حالی کو ہی اردو تاریخ کے سب سے پہلے تنقید نگار ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ حالی نے مقدمہ شعر وشاعری اور غالب کی شاعری پر یادگار حالی لکھ کر نہ صرف اردو تنقید کا پہلا دروازہ کھولا بلکہ غالب کو غالب بنانے اور انسانی تاریخ کا بہت بڑا مفکر شاعر ثابت کرنے کی اس دور میں ساز علمی مہم کا آغاز کیا جو غالبیات کا دقیع وسیع موضوع بن کر نہ صرف اردو کے عبقری اور دانشوروں بلکہ دوسری عالمی زبانوں کے ناقدین اور محققین کے لیے تفہیم غالب کی نئی نئی شاہراہیں تعمیر کررہی ہے۔
آج کے دور میں اردو شاعر ی برصغیر کی تمام زبانوں کی شاعری سے زیادہ مقبول اور عام پسند ہے ۔ نہ صرف ہند وپاک بلکہ عالمی سطح پر اردو کی نئی بستیوں تک اس کی مقبولیت کا پرچم لہرارہا ہے۔ اردو شعر وادب کی خود روبیل کو تراشنے سنوارنے اور شاداب بنانے میں اردو تنقید کا کردار بنیادی ہے لیکن اس بنیاد کا پہلا پتھر حالی نے ہی نصب کیا۔ مقدمہ شعر وشاعری ،لکھ کر حالی نے اردو شعر سخن کی حقیقت اور اس کے حسن وقبح کو عالمانہ وضاحت لیاقت اور بلندنظر ی کے ساتھ پیش کر کے دنیا ئے شاعری کو نئی انقلابی روشنی سے منور کیا۔
ایک محبّ قوم ووطن او ر عظیم ریفا ر مر کی حیثیت سے مولانا الطاف حسین حالی کی شخصیت ہماری سماجی تاریخ میں بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری اور نثر نگاری کو انسانی اخلاقی ،مادی اور روحانی قدروں کے فروغ کے لیے ایک طاقتور ہتھیار کی طرح استعمال کیا۔ ہندوستان پر انگریز قوم کے اقتدار کے بعد مسلم معاشرہ جس طرح مظلوم ،تباہ حال، زوال پذیر اور تباہی و بربادی کا شکار تھا اور جسے بچانے اور ترقی کی رہ پر گامزن کرنے کے لئے سرسید احمد خاں جیسا بلند پایہ ریفا رمر سیاستداں اور محبِ قوم وملت آگے بڑھا ۔ سرسید کی تحریک سے متاثر ہوکر حالی نے اس عظیم نصب العین کو مزید طاقتور بنانے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ انہوں نے سرسید کے مشن کو آگے بڑھانے میں ان کے شانے سے شانہ ملا کر کام کیا۔حالی نے سرسید کی عملی، علمی اور فکری جہتوں کو اپنی شاہکار کتاب‘‘ حیات جاوید’’ میں اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا جس نے سرسید کے مشن اور ان کی شخصیت کو منزل عروج تک پہنچا دیا۔ مسلم قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے ہی حالی نے ‘‘ مدوجز ر اسلام’’ کے عنوان سے اپنا لافانی مسدس تخلیق کیا۔ یہ ایک ایسی بامقصد شعری تخلیق ہے جس میں قوم وملت کو بیدار کرنے والی وہ الہامی طاقت ہے جو آگے چل کر شاعر مشرق علامہ اقبال کی بانگ درا بن کر تمام عالم میں گونجی۔
ہریانہ، ہندوستان اور اردو کے اس نامور فرزند کی ولادت 1837کو پانی پت کے محلّہ انصار یان میں ہوئی ۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزوبخش تھا۔ حالی کے جد اعلیٰ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں ایران سے ہندوستان آئے تھے ۔ مدت دراز تک یہ خاندان نہایت معزز ،مقبول اور خوشحال رہا۔ لیکن استداد زمانہ کے ہاتھوں حالی کے والدخواجہ ایز دبخش غربت وافلاس کی زندگی گزاررہے تھے۔حالی نے اسی تنگدستی اور ناداری کے ماحول میں آنکھ کھولی۔ ان کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد والدہ کا انتقال ہوگیا۔ جب وہ 9سال کے تھے والد بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ ان کی پرورش ان کے بڑے بھا ئی نے کی۔ ابتدا میں اس وقت کے دستور کے مطابق مکتب میں داخل کرایا گیا ، جہاں انہوں نے قرآن کریم حفظ کیا۔ اس کے ساتھ ہی پانی پت کے معروف استاذ میر جعفر علی سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی شدید خواہش انہیں قدرت سے ودیعت ہوئی تھی۔ فارسی کے ساتھ ساتھ وہ عربی زبان بھی سیکھنے کی کوشش کررہے تھے لیکن صرف 17سال کی عمر میں ان کے پیروں میں شادی کی بیڑی ڈال دی گئی لیکن یہ پابندی حصول علم کے لیے ان کے شوق وجنون کو روک نہ سکی۔ وہ 1854کا سال تھا جب ایک دن وہ گھر والوں کو بتائے بغیر پیادہ پادہلی روانہ ہوگئے ۔ دہلی میں انتہائی دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے انہوں نے شہر کے مشہور عالم دین اور مدرس مولوی نوازش علی سے ڈیڑھ سال تک صرف ونحواور منطق کی بلندپایہ کتابیں پڑھیں ۔ اس دوران اپنی ذہانت اور لگن سے عربی اور فارسی میں غیر معمولی دستگاہ حاصل کرلی۔ 1856میں حالی کو ضلع حصار کی کلکٹر ی میں کلرک کی ملازمت مل گئی اور وہ گھر گرہستی کی ذمہ داری سنبھالنے لگے۔ لیکن سکون و اطمینان کی یہ مدت بہت چھوٹی ثابت ہوئی۔ 1857میں پہلی جنگ آزادی نے دہلی میں طوفان برپا کردیا۔ ان ایام میں حالی اپنے گھر پانی پت میں ہی رہے پانچ سال کی بیکاری نے انہیں پریشان کردیا تھا اس لیے 1863میں تلاش معاش کے لیے دہلی پہنچنے پر انہیں جہانگیر آباد کے نواب اور عہد غالب کے نامور شاعر نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ کے بچوں کو تعلیم دینے کی ملازمت مل گئی ، وہ جہانگیر آباد میں 8برسو ں تک شیفتہ کی قربت میں رہے۔ شیفتہ اردو فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے۔فارسی میں وہ حسر تی تخلص کرتے تھے۔ شیفتہ کی ملازمت اور صحبتوں سے حالی کے ادبی اور شعری ذوق کو نکھر نے کا بہترین موقع ملا۔ حالی نے ابتدا میں شیفتہ سے اپنے کلام پراصلاح لی لیکن پھر انہیں غالب کے تلا مذہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوگئی اور وہ غالب کے نامور شاگردوں میں نمایاں ہوئے ۔ حالی نے اپنے ان دونوں اساتذہ کا ذکر اس شعر میں بڑی محبت سے کیا ہے:
حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہوں
غالب کا معتقد ہوں، مقلد ہوں میر کا
فروری 1869میں مرزا غالب کا انتقال ہوا۔ ان کے شاگردوں نے مرثیے لکھ کر خراج عقیدت پیش کیا۔ حالی نے بھی مرزا غالب کا مرثیہ لکھا پڑھا جو سب سے بڑھ کر ہے یہ مرثیہ اظہار غم اور دنیا سے جانے والے سے عقیدت کا اثر انگیز شعری شاہکار ہے۔ شیفتہ کی ملازمت کے بعد اپنے دوست پیارے لعل آشوب کے توسط سے حالی کو حکومت ہند کےمطبع ودارالا شاعت لاہور میں ملازمت مل گئی جہاں انہیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی گئی کتابوں اور دوسری تحریروں کو اردو زبان و محاورہ کے مطابق درست کرنے کی ذمہ داری سپرد ہوئی۔ یہاں حالی نے نہ صرف انگریزی زبان میں دسترس حاصل کی بلکہ انہیں مغربی مصنفین ،شاعروں اور ادیبوں کو پڑھنے سمجھنے کا موقع ملا اور مغربی اصول تنقید سے بھی واقف ہونے کی صلاحیت بھی حاصل ہوئی جس کی بدولت وہ اردو تنقید اور قومی ملی و مقصد ی نیچرل شاعری کی شاہراہ پر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے۔
1874میں محکمہ تعلیمات پنجاب کے سربراہ کرنل ہالر ائڈ نے لاہور میں انجمن پنجاب کے تحت جدید طرز کے مشاعروں کا آغاز کیا۔ اس میں مولانا محمد حسین آزاد کے ساتھ حالی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس سے قبل مشاعروں میں مصرع طرح پر شعرا اپنا غزلیہ کلام سنایا کرتےتھے ۔ لیکن مغربی ادبیات کے اثر سے ان نئے مشاعروں میں مختلف مقصدی عنوانات پر نظمیں پیش کرنے کاچلن شروع ہوگیا۔ بطور جدید شاعر حالی میدان کے فاتح ثابت ہوئے۔ انہوں نے لاہور کے ان مشاعروں میں برکھا رت ، حب وطن ،مناظرۂ رحم وانصاف اور نشاط امید جیسی ناقابل فراموش منثویاں پیش کیں جو عوام میں بے حد مقبول ہوئیں۔ اس ضمن میں حالی لکھتے ہیں:
‘‘1857میں جب کہ راقم پنجاب گورنمنٹ ڈپو سے متعلق لاہور میں مقیم تھا ۔ مولوی محمد حسین آزاد کی تحریک او رکر نل ہالر ائڈ ڈائریکٹر سررشتہ تعلیم پنجاب کی تائید سے انجمن پنجاب نے ایک مشاعرہ کیا تھا جو ہر مہینہ میں ایک بار انجمن کے مکان میں منعقد ہوتا تھا۔ اس مشاعرہ کا مقصد یہ تھا کہ ایشیائی شاعری جو حسن وعشق اور مبالغہ کی جاگیر بن گئی ہے، اس کوجہاں تک ممکن ہو وسعت دی جائے۔’’
(مجموعہ نظم حالی ، بحوالہ تاریخ مشاعرہ از ڈاکٹر تنویر احمد علوی)
کچھ عرصہ بعد حالی کا تقرر دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں بطور استاذ ہوگیا۔ اس زمانہ میں سرسید سے ملاقات ہوئی جس کے بعد ان کی زندگی کا وہ زریں دور شروع ہوا جس میں انہوں نے دائمی شہرت اور عظمت کے نقو ش لوحِ تاریخ پر ثبت کیے ۔1888 میں ریاست حیدر آباد کے وزیر اعظم سرآسمان جاہ اینگلو عربک اسکول کے معائنے کے لیے دہلی آئے، حالی کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں انہوں نے 75روپے ماہوار وظیفہ مقرر کردیا۔جسے بعد میں 100روپے کردیا۔ حالی کی قناعت پسندی اور علم وادب وملک وملت کے خدمت کے جذبے اور ذوق وشوق کی یہ انتہا تھی کہ وظیفہ کی رقم کو زندگی گزارنے کے لیے کافی سمجھتے ہوئے انہوں نے اسکول کی مستقل ملازمت چھوڑ دی اور خود شاعری ،ادب اور قوم کی فلاح وبہبود کے لیے وقف کردیا۔
اپنی نجی زندگی میں خواجہ الطاف حسین حالی منکسر المزاج ،حلیم ،حق گو اور درویش صفت انسان تھے۔ اعلیٰ ادنیٰ سب سے محبت اور شفقت کا برتاؤ کرنے والے رقیق القب اور رحمدلی انسان تھے۔ غریبوں ،کمزوروں ،معذوروں اور بے سہاروں کی مدد کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے تھے۔ صبر و استغنا ان کی فطرت کا خاصہ تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کی بدگوئی نہیں کی۔ وہ متدین اور خداپرست تھے، اسلامی شعائر اور اقدار کی سختی سے پابندی کرتےتھے لیکن مزا جاوہ انتہائی فراخدلی اور سیکولر انسان بھی تھے ۔انہوں نے سماجی طور پر ہندو مسلمان میں کوئی تفریق یا تعصب پسند نہیں کیا۔ ان کے ہم جلیسوں اوردوستوں میں ہر قوم کے لوگ شامل تھے۔ حالی ایک روشن خیال اور ترقی پسند انسان تھے، قدیم سماجی روایات کے برخلاف وہ تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے ۔ انہوں نے پانی پت میں لڑکیوں کے لیے باقاعدہ اسکول قائم کیا تھا۔ 1904میں برطانوی حکومت ہند نے انہیں شمس العلما کے خطاب سے سرفراز کیا۔ ا س کے دس سال بعد 3دسمبر 1914کو دنیا ئے فانی سے رخصت ہوئے اور پانی پت میں واقع آستانہ حضرت بوعلی شاہ قلندر پانی پتی علیہ الرحمہ کے سائے میں آرام فرما ہیں ۔ خواجہ حالی نے اپنے پیچھے علم وفن کا جو گرانقدر خزانہ چھوڑا ہے ،گزرتے زمانوں کے ساتھ اس کی قدر وقیت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ان کی تصنیفات میں مسیحی مشنری پادری عماد الدین کی اسلام اور دیگر ہندوستانی مذاہب کے خلاف ہر زہ سرائی کے جواب میں لکھی گئی کتاب ‘‘ تریاق مسموم ’’ ، عورتوں کی تعلیم اور اصلاح کے لیے انہوں نے چار جلدوں پر مشتمل کتاب مجالس النسا تصنیف کی ، جس میں خواتین کی زبان اور محاور ے بے حد دلچسپ انداز میں برتے گئے ہیں اس کتاب پر دہلی کے ایجوکیشنل دربار میں لارڈ نارتھ برک نے انہیں 4سو روپے کا انعام دیا تھا۔ ان کی ایک کتاب مضامین حالی 1904میں شائع ہوئی تھی۔ دراصل یہ مختلف اخبارات اور سرسید کے جریدے تہذیب الاخلاق میں شائع ہونے والے ان کے فکر انگیز مضامین کا مجموعہ ہے۔ حیات سعدی 1882میں مکمل ہوئی تھی اس کتاب میں شیخ سعدی کے حالات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں یہ اردو کی پہلی باقاعدہ سوانحی کتاب ہے جس میں واقعات کی ترتیب کے ساتھ فلسفیانہ نہج پر صاحب سوانح کی شخصیت اور حالات سے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ مقدمہ شعروشاعری ، اپنی نوعیت کے لحاظ سے اردو ادب کی پہلی کتاب ہے جس میں فن شاعری کی موضوع پر عالمانہ اور فاضلانہ تنقید ی نظر ڈالی گئی ہے۔ حالی نےزور دیا کہ دیگر اصناف سخن کے علاوہ غزل خاص طور پر اصلاح طلب ہے۔ دراصل حالی اردو غزل میں عشق ومحبت ،عورت اور مرد کے تعلق اور دمانی معاملات کے بجائے نیچرل ،قومی ملکی ،تہذیبی اور سیاسی موضوعات کو رائج کرنا چاہتے تھے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالی نے مقدمہ شعر وشاعری کے ذریعے صحت مند تنقید کی بنیاد ڈالی اور آنے والے نقادوں کے لیے ایک راہ عمل تیار کردی جس پر اردو تنقید کا کارواں رواں دواں ہیں۔
حالی کی تصنیفات میں یادگار غالب، حیات جاوید، مدد جزر اسلام اور دیوان حالی ہمیشہ زندہ رہنے والی کتابیں ہیں۔ دیوان حالی میں پہلے دور کی جو غزلیہ شاعری شامل ہے ، اس کا حسن بیان اور شاعرانہ بصیرت یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اگر حالی نے صرف غزل کو ہی اپنی شاعری کی اساس بنایا ہوتا تب بھی ان کا کلام انہیں اردو شعریات میں ہمیشہ زندہ رکھنے کی ضمانت ہوتا۔دیوان میں زیادہ حصہ اس کلام کا ہے جس میں انسانی زندگی ہر پہلو سے بہتر بنانے والے حقیقت پسندانہ اور اصلاحی مضامین کو زبان و بیان کی شیرینی اور جذبۂ و احساس کی گہرائیوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مناجات بیوہ، چپ کی دار ،شکوہ ٔ ہند وغیرہ حالی کی ایسی تخلیقات ہیں جن کا ثانی اردو شاعری میں مفقود ہے۔ جہاں تک مدد جزر اسلام یعنی مسدس حالی کا تعلق ہے،بقول سرعبد القادر مدیر مخزن ، بڑے بڑے نکتہ چین اور معترض بھی اس نظم کی عظمت اور اس کی عالمگیر ہر دلعزیز سے انکار نہیں کرسکتے ۔ حالی نے مسدس لکھ کر ایک ایسا بگل پھونکا کہ زمانہ طالب علمی سے لے کر بڑے ہونے تک کروڑوں لوگوں نے اسے پڑھا اور سنا ہے میں نے بذات خود دیکھا ہے کہ ایسے لوگ بھی جن کا کوئی اصول ہے اور نہ ہی ان کے دل میں مذہب او رملت کا احساس ہے اور وہ فقط عیش طرب کے دلدادہ ہیں اور نغمہ اندوہ اور نالہ غم کے نام سے بھی کوسوں دور بھاگتے ہیں ، وہ بھی جب کسی مجلس میں مسدس حالی سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے قوم کی سوگوار ی دیکھ کر اشکوں کا سیلاب جاری ہوجاتا ہے ، بلکہ ہمارے ملک کے غیر مسلم بھائی بھی مسدس کے پر سوز اشعار سنتے ہیں تو ان کی آنکھیں بھی نم ہوجاتی ہیں۔’’
بحیثیت مجموعی حالی کثیر الجہات انسان اور سحر طراز شاعر تھے اور انہیں اپنی جادو بیانی کا ادراک تھا:
لذت ترے کلام میں آئی کہا ں سے یہ
پوچھیں گے جاکے حالی جادو بیاں سے ہم
URL for this article: