فاروق ارگلی
18ویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کی بہت بڑی فوجی اور سیاسی
طاقت بن چکی تھی پورے ملک میں انگریزوں یا
ان کے حلیف حکمرانوں کی عملداری قائم ہوچکی تھی۔ عظیم مغلیہ سلطنت کی راجدھانی
دہلی کے بادشاہ پر بالادستی حاصل کرلینے کے
بعد تو پورا ہندوستان ان کا مفتوحہ ملک اور برطانیہ کی نو آبادی میں تبدیل ہوچکا تھا۔
اس دور میں اگر انگریزوں نےاپنی نسلی برتری اورمذہبی تعصب کے زیر اثر ہندوستانیوں کو
غلام بنا کر ان کی مذہبی اور تہذیبی شناخت مٹا کر پورے بڑ صغیر کو عیسائی مملکت بنانے
کی راہ نہ اپنائی ہوتی تو شاید 1857کا انقلاب رونما نہ ہوتا لیکن اس ملک پر تسلط جمانے
کے ساتھ ساتھ انہو ں نے ہندوستانیوں کو زیادہ سے زیادہ کچل کر اپنے اقتدار کی بنیادیں
مضبوط کرنے کی کوشش کی۔انگریزوں نے یہ ملک مسلمانوں سے چھینا تھا، یہاں کے باشندوں
کی عیسائی بنالینے کی زبردست خواہش کے پیچھے اسلام اور مسلمانوں سے ازلی دشمنی کا وہ
احساس ہی تھا جو صلیبی جنگو ں میں عبرت شکستوں کی صورت میں مسیحی دنیا کو ملا تھا
۔ انہوں نے طاقت حاصل کرلینے کے بعد پہلا اقدام یہی کیا تھا کہ ہندوستان میں عیسائیت
کو فروغ دے کر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کی تمام اقوام کو ہمیشہ کے لیے اپنی مذہبی وحدت کے دائرے میں لے
آیا جائے تاکہ آنے والی صدیوں تک کے لئے ان کا اقتدار مستحکم ہوجائے ۔ انگریزوں سے
ہندوستانیوں کو سب سے زیادہ نفرت اسی وجہ سے ہوئی کہ وہ ان کا مذہبی اور تہذیبی نشخص
بھی چھین لینا چاہتے تھے ۔ فرنگی استعمال سےنفرت کی جو آگ اندر ہی اندر سلگ رہی تھی۔
مئی 1857میں میرٹھ چھاؤنی سے کمپنی کی فوج کے ہندوستانی سپاہیوں کی بغاوت کے بعد اس
طرح بھڑک اٹھی کہ اس کے شعلوں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ لے لیا اور انگریز قوم کے تسلط
سے آزادی کا جذبہ خوفناک انقلابی جنگ کی صورت اختیار کرگیا۔ دہلی مجاہدین آزادی کا
قبضہ ہوجانے اور بہادر شاہ ظفر کے اقتدار اسنبھال لینے کی خبرو ں نے بریلی چھاؤنی کے
فوجیوں میں بھی جوش پیدا کردیا اور کمپنی کے توپ خانے کے ایک جواں ہمت صوبہ دار بخت
خاں نے بغاوت کا پرچم بلند کردیا۔ بخت خاں کے ساتھ مداد علی خاں، محمد شفیع رسالدار
، جنرل نیاز محمد خاں اور ظفر یار خاں جیسے پر جوش مجاہدین نے مل کر انگریزوں کے خلاف
منظّم لڑائی کا آغاز کردیا۔ شہر میں بغاوت کا چرچا ہوا تو پورا شہر مجاہدین کی حمایت
میں کھڑا نظر آیا ۔ انگریز افسران نے جب یہ رنگ دیکھا تو پہلے انہوں نے اپنے بال بچوں
کو نینی تال روانہ کی، اور اس کے بعد اس نازک صورت حال سے نمٹنے کی تدبیریں کرنے لگے
۔ انگریزوں کو جلدی میں اندازہ ہوگیا کہ اب اس بغاوت کے سیلاب کو روکنا ناممکن ہے،
اس لیے اس وقت کمشنر روہیل کھنڈ مسٹر الیکز ینڈر نے نواب خان بہادر خاں سےملاقات کی
اور ان سے کہا:
‘‘ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت جلد یہاں زبردست فساد پھوٹ پڑنے کا اندیشہ
ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کا عوام پر اثر ہے، یہ آپ کی ریاست ہے اس لیے آپ بہتر طریقے
سے حالات پر قابو پاسکتے ہیں ۔ آپ گورنر کی حیثیت سے اقتدار سنبھال لیں۔’’
نواب صاحب نے مسٹر الیکزینڈر
کی بات ماننےسے صاف انکار کردیا کیونکہ خود خان بہادر خاں انقلابیوں کے ساتھ رابطہ
قائم رکھے ہوئے تھے۔
31مئی 1857کی صبح کو ہی بریلی میں جنگ آزادی کا بگل بج گیا۔ انگریزوں
کے بنگلے پھونک دیئے گئے بہت سے انگریز مارے گئے ۔ صرف 32انگریز افسر شہر چھوڑ کر بھاگ
نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔ دوپہر تک شہر پر مجاہدین کا قبضہ ہوگیا اور علاقہ انگریز کی
غلامی سے آزاد ہوگیا۔ انقلابیوں کے سربراہ بخت خاں نے عمائدین شہر اور اپنے ساتھیوں
سے مشورے کے بعد نواب خان بہادر خاں سے حکومت سنبھالنے کی درخواست کی۔ خان بہادر خاں
نے جو انگریزوں کی گورنری کی پیشکش ٹھکراچکے تھے انقلابیوں کی قیادت بخوشی قبول کرلی۔
آزاد روہیل کھنڈ میں حکمراں کی حیثیت سے نواب صاحب کی مسند نشینی کی تقریب بڑی شان
کے ساتھ منعقد کی گئی۔ دہلی دربار تک یہ خبر پہنچی تو بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے خان
بہادر خاں کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں اہتمام الدولہ کا خطاب مرحمت کیا۔ انگریز مورّخ چارلس ہال
نے اپنی کتاب ‘‘انڈین میوٹنی’’ میں لکھا ہے:
‘‘شہر کی تمام سرکاری عمارتوں سے برطانوی جھنڈا اتار پھینکا گیا اور
نواب کا پرچم لہرانے لگا۔ صوبہ دار بخت خاں نے توپوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ جھنڈے کو سلامی
دی ،اسی جشن میں بہادر شاہ ظفر کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔’’
نواب خان بہادر خاں نے اس
موقع پر عوام کے نام اپنے پیغام میں کہا:
‘‘ہندوستان کے باشند! سوراج کا یہ مقدس دن ،جس کا عرصہ سے انتظار تھا
اب آچکا ہے۔ آپ لوگ اسے قبول کریں گے یا انکار کریں گے؟ آپ اس مبارک موقع سے فائدہ
اٹھائیں گے یا اسے ہاتھ سے جانے دیں گے؟ ہندو اور مسلمان برادران وطن! آپ کو معلوم
ہونا چاہئے کہ اگر انگریز ہندوستان میں رہ گئے تو وہ ہم سب کوقتل کردیں گے، اور آپ
لوگوں کو مذہب اور تہذیب چھین لیں گے۔ ہندوستانی اتنے عرصے تک انگریزوں کے فریب کا
شکار رہے اور اپنی ہی تلوار وں سے اپنے گلے کاٹتے رہے۔ اس لیے اب ہمیں وطن فروشی کے
اس گناہ سے توبہ کرنی چاہئے جو ہم سے سرزد ہوتا رہا ہے۔ انگریز اب بھی اپنی پرانی دغا
بازی سے کام لیں گے، وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف ابھار نے کی کوشش
کریں گے ،میرے عزیز ہندو بھائیو! اس فریب میں مت آنا، ہمیں اپنے باشعور ہندو بھائیوں
کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ انگریز کبھی اپنے قول کی پابندی نہیں کرتے۔ یہ لوگ
جعل اور فریب کے فن میں طاق ہیں ۔ یہ سوائے
اپنے مذہب کے دنیا کے تمام مذاہب کو مٹانے
کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ کیا انہوں نے ہم سے بچوں کو گود لینے کا حق نہیں چھین لیاہے؟کیا
انہوں نے ہمارے راجاؤں اور نوابوں کی ریاستیں نہیں ہڑپ کرلی ہیں؟ہندو اور مسلمان سب
کو ذلت کے ساتھ کس نے کچلا؟ مسلمانو ! اگر تم قرآن کریم کے احکامات پر ایمان رکھتے
ہو تو، اور اسے ہندوؤ ! تم گائے ماتا کی عزت کرتے ہو تو اب چھوٹے چھوٹے تفرقوں کو فراموش
کر کے آزادی کی اس مقدس جنگ میں شامل ہوجاؤ اور ہندوستان سے انگریز کا نام ونشان مٹادو۔
مذہبی تعصب کو دلوں سے نکال دو، سب مل کر ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہوکر دشمن کا مقابلہ
کرو، اس مقدس لڑائی میں جو شخص خود لڑے گا۔ یا لڑنے والوں کی مدد کرے گا۔دونوں جہاں
میں سرخرو ہوگا۔ اگر کوئی اس جہاد آزادی کی مخالفت کرے گا تو وہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی
مارے گا اور خود کشی کے گناہ کا مرتکب ہوگا۔’’
نواب خان بہادر خاں روہیل
کھنڈ کی مقبول اور محبوب شخصیت تھے۔ آپ روہیل کھنڈ کے حکمراں حافظ رحمت خاں روہیلہ
کے پڑ پوتے تھے۔1774میں شجاع الدولہ نے جنرل ہسٹنگز کی مدد سے روہیل کھنڈ پر حملہ کر
کے روہیلہ حکومت کے بانی حافظ رحمت اللہ خاں کو کثرہ میراں پور کی لڑائی میں شہید کردیا
تھا۔ اس کے بعد روہیلوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ انگریزوں سے صلح ہوجانے کے بعد رام
پور بچے کھچے روہیلوں کی ریاست قرار پایا۔ نواب خاں بہادر خاں کے والد نواب ذوالفقار
خاں کمپنی کی حکومت میں بریلی کے گورنر بنائے
گئے تھے۔ نواب خان بہادر خاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شرافت ونجابت کا مجسمہ تھے۔ شعر
وسخن سے بھی گہرا شغف تھا۔ آپ کا شعری مجموعہ بھی مرتب ہوچکا تھا۔ شاعری میں وہ قلند
بخش جرأت کے شاگرد تھے۔ اس کے علاوہ آپ کی ایک تصنیف ‘‘مقاصد الصالحین ’’ بھی بہت مقبول
ہوئی تھی۔ کمپنی کی حکومت میں آپ صدر امین کے عہدے پر فائر تھے۔ مولانا محمد میاں مصنف
‘‘علمائے ہند کا شاندار ماضی’’ نے ایک قلمی ‘‘تاریخ گلزاری لال’’ کے حوالے سے لکھا
ہے کہ: ‘‘1940میں نواب خان بہادر خاں کو 255روپیہ تنخواہ ملتی تھی۔ ذاتی اعزاز واکرام
، خاندانی پنشن اور آرام وسکون کی زندگی حاصل ہونے کے باوجود خان بہادر خاں انگریزوں
کی جابرانہ پالیسی سے سخت نالاں تھے۔’’ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے باغی فوجی افسر جنرل
بخت خاں کی ترغیب پر آزاد روہیل کھنڈ کی قیادت سنبھال لی۔ نواب صاحب نے زمام ِ حکومت
ہاتھ میں لیتے ہی سب سے پہلے فوج کی تنظیم کی طرف توجہ دی۔ اس کے لئے ایک جنگی مجلس
مشاورت قائم کی۔ اس کے بعد شہر کے لائق اور ذہین شخص شوبھا رام سکسینہ کووزیر اعظم
مقرر کیا۔ کہتے ہیں کہ شوبھا رام کی تقرری
پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا، جن میں نواب صاحب کے خاندانی مرشد زادے سیّد معصوم
بھی شامل تھے، لیکن خان بہادر خاں نے کسی شکایت پر توجہ نہیں دی کیونکہ انہیں اس وقت
ایک باصلاحیت عامل کی ضرورت تھی جو علاقے کا نظم ونسق سنبھا ل سکے۔ چونکہ نواب خان
بہادر خاں ایک کشادہ ذہن، راست گو اور سیکولر انسان تھے اس لیے ہندو عوام وخواص بھی
ا ن کا بیحد احترام کرتے تھے۔ انہوں نے بدھیلی کے ٹھاکر رگھوناتھ سنگھ کو راجہ کا خطاب
دیا اور فرید پور کا انچارج مقرر کیا۔ ایک اور ٹھاکر جے مل سنگھ کو کلکٹر کا عہدہ تفویض
کیا جس کی وجہ سے انہیں علاقہ کا امن وانصاف
بحال کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ نواب صاحب کی حکومت کے دائرے میں بریلی، بدایوں،
شاہجہانپور، مرادآباد اور پیلی بھینت وغیرہ روہیل کھنڈ کے سبھی اضلاع شامل ہوگئے تھے
اور اس خطے سے انگریزی حکومت کا مکمل خاتمہ ہوچکا تھا۔ بخت خاں جو انگریزی توپ خانے
میں صوبہ دار تھے، انہیں نواب خان بہادر خاں نے ہی جنرل کا عہدہ دیا تھا۔ اسی اعزاز
کے ساتھ وہ تاریخ میں جنرل بخت خاں کے نام سے معروف ہوئے ۔جنرل بخت خاں نے مجاہدین
آزادی فوج کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا
اور مختصر سی مدت میں 30ہزار تربیت یافتہ فوجی تیار کرلیے ۔ علاقہ سے انگریز کا اقتدار
ختم ہوچکا تھا۔ نواب صاحب کی لیاقت اور پر خلوص کارکنوں کی محنت سے ہر طرف امن اور
خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا۔ لوگ خو شی محصولات ادا کرنے لگے جس سے حکومت کے خزانے میں
اتنا روپیہ جمع ہوگیا کہ سرکاری کام کاج چلانے میں آسانی پیدا ہوگئی۔ مولانا محمد میاں
صاحب نے سیّدہ انیس فاطمہ بریلوی کی کتاب ‘1857کے ہیرو’ سے ایک اقتباس نقل کیا ہے جس
سے اس وقت روہیل کھنڈ کی راجدھانی بریلی میں نواب خان بہادر خاں کی آزاد حکومت کی کامیابی
کا پتہ چلتا ہے:
‘‘خان بہادر خاں کی حکومت میں پورا شہر ساری رات جاگتا رہتا تھا۔ بازار
کھلتے رہتے تھے۔ سڑکوں او رگلی کوچوں میں بڑی رونق او رچہل پہل رہتی تھی۔ مکمل امن
وامان تھا۔ لوگ نواب کی انتظامی قابلیت اور رعایات پروری کے بڑے مداح تھے۔ مسجدیں ،مسافر
خانے اور سڑکیں تعمیر ہورہی تھیں۔ امن و امان کی ڈونگی پٹتے ہی ہر چیز ارزاں ہوگئی
تھی۔ تیل روپے کا پانچ سیر ، گھی ڈھائی سیر ، گیہوں بیس سیر کے حساب سے فروخت ہورہا
تھا ۔ کوئی گھر ایسا نہ تھا جس میں کوئی تقریب نہ ہوتی ہو۔ لوگ خوش ہوہو کر ایک دوسرے
کو مبارکباد دیتے او رکہتے، خدانے اپنی رحمت سے نصاریٰ کی حکومت سے ایسی نجات دلادی
کہ ہر چیز میں برکت ہوگئی ہے۔ اسلحہ سازوں کی دکانوں پر بڑی بھیڑ رہتی تھی ،تلواروں
پر دستے چڑھوائے جارہے تھے، مجاہدوں کے غول کے غول زرد بکتر سے لیس پورے شہر میں گھوڑوں
پر سوار ہوکر نکلتے تھے۔ ‘‘ اسلام کا بول بالا، فرنگی کا منہ کالا’’ کے نعروں سے زمین
اور آسمان ہل جاتے تھے۔’’
نواب خان بہادر خاں کی سب
سے بڑی خوبی یہ تھی کہ چند ہی دنوں میں انہوں نے روہیل کھنڈ کو ایک طاقتور خود مختار
ریاست میں تبدیل کردیا۔ رانی جھانسی ،نانا صاحب ، تاتیا ٹوپے، عظیم اللہ ، شہزادہ فیروز
شاہ اور مولانا احمد اللہ شاہ سے انہوں نے قریبی رابطے قائم کررکھے تھے۔ دہلی کی جنگ
میں تعاون کے لئے نواب صاحب کو بہاد رشاہ ظفر کا پیغام ملا تو انہوں نے فوراً جنرل
بخت خاں کی مجاہدین کو زبردست فوج کے ساتھ دہلی روانہ کیا، جہاں انہوں نے تاریخ ساز
جنگی کا ر نامے انجام دیئے۔ اس حقیقت کا اعتراف مغربی مورّخین نے بھی کیا ہے کہ جنرل
بخت خاں کے ساتھ اگر خود بہادر شاہ ظفر کے فرزند شہزادہ مرزا مغل نے حسد وعداوت کے
بجائے تعاون کیا ہوتا توانگریز سکھوں اور نیپالی گورکھوں کی زبردست فوج کے باوجود دہلی
کو فتح نہیں کرسکتے تھے۔
نواب خان بہادر خاں نے اپنی
بے پناہ سیاسی سوجھ بوجھ اور جوانمردی سے یہ ثابت کر دیکھا یا تھا کہ بہادر روہیلہ پٹھانوں کا خون ان کی رگوں میں دوڑ رہا ہے،
جو کسی بھی مرحلے پر چٹان کی طرف ثابت قدم رہتے ہیں۔ انہوں نے روہیل کھنڈ کی آزادی
پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ آگے بڑھ کرکمایوں کی پہاڑی ریاستوں کو بھی انگریز کے پنجہ
اقتدار سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ انہوں نے انگریزوں کے گڑھ نینی تال پر فوج کشی کرنے
کا فیصلہ کیا۔ خان بہادر خاں نے پہلی بار اکتوبر 1857میں اپنے پوتے میر خاں کی قیادت
میں نینی تال پر چڑھا ئی کی۔ نینی تال پر حملہ کرنے میں خان بہادر خاں کو عجلت اس لیے
تھی کہ انگریز وہاں اپنی طاقت جمع کررہے تھے اور کسی وقت وہ روہیل کھنڈ پر حملہ کرسکتے
تھے۔ اس سے پہلے ہی وہ ان کا زور توڑ دینا چاہتے تھے ۔ چونکہ مجاہدین آزادی پہاڑوں
پر لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے اس لیے میر خاں کو کامیابی نہیں ملی۔ خان بہادر خاں
نے بریلی سے تازہ دوم مجاہدین کو فوج بھیج دی جس کے بعد مجاہدین ترائی کے علاقے کو
روندتے ہوئے کاٹھ گودام تک پہنچ گئے ۔ لیکن اس جگہ بھی اسی بدبختانہ روایت کا اعادہ
ہوا جو پورے ملک کی جنگ آزادی کی ناکامی کا باعث بنی ۔ مجاہدین کی فوج میں چند غداران
وطن بھی شامل تھے جو مجاہدین کی ہر نقل وحرکت او رحکمت عملی کی خبر انگریزوں کو فراہم
کررہےتھے۔ اس زبردست حملے میں انگریزوں کو بروقت اطلاع مل جانے اور ان کے بھاری توپ
خانے کی وجہ سے مجاہدین کا حملہ ناکام رہا ۔ خان بہادر کو اپنے ہی لشکر میں موجود انگریزوں کے جاسوسوں
کی حرکت کا علم ہوا تو انہوں نے ایسے بہت سے فوجیوں کو گرفتار کرلیا جو انگریز ی لکھنا
پڑھنا جانتے تھے۔ خان بہادر خاں کو شبہ تھا کہ ان میں ہی غدار ہوسکتے ہیں جو انگریز
وں کو پل پل کی خبر پہنچاتے تھے۔ خان بہادر خاں کے حکم پر ایک نئی تازہ دم فوج نینی
تال پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجی گئی۔ گھما سان لڑائیاں ہوئیں لیکن نینی تال پرفتح حاصل
نہ ہو ۔ اگرچہ انگریزوں نے مجاہدین کے ڈر سے اپنے اہل وعیال کو الموڑہ روانہ کردیا۔
نینی تال پر مجاہدین کے حملے اور جھڑپیں برابر جاری رہیں۔
نواب خان بہادر خاں کی آزاد
حکومت کامیابی سے چل رہی تھی لیکن دہلی، اودھ ، جھانسی او رکانپور میں مجاہدین آزادی
کے پے درپے شکستوں کا اثر روہیل کھنڈ پر بھی پڑنا لازمی تھی۔ خان بہادر خاں نے بریلی
کو مجاہدین آزادی کی پناہ گاہ بنادیا تھا۔
صرف روہیل کھنڈ نہیں بلکہ
یہ ہندوستانی جنگ آزادی کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے کہ رامپور کے نواب یوسف علی خاں
انگریزوں کے حلیف تھے۔ ‘اخبار الصناوید’ میں سرسید احمد خاں لکھتے ہیں کہ نواب یوسف
حسین خاں نے انگریزوں کو لکھا:‘‘ یہ موقع بہت مناسب ہے، اگر آپ منظور کریں تو ہم روہیل
کھنڈ میں اپنی (انگریزوں کی طرف سے) حکومت قائم رکھیں کیونکہ جب (خان بہادر خاں) کو
پوری طاقت حاصل ہوجائے گی تو پھر اجرا ئے حکومت میں بہت مشکلیں ہوں گی اور ریاست (رام
پور) کو خطرات میں مبتلا ہونا پڑےگا۔’’ نواب رامپور اس سے پہلے خان بہادر خاں کی حکومت
پر حملہ کر کے مرادآباد پر قبضہ کرچکے تھے، لیکن یہ قبضہ عارضی ثابت ہوا۔ خان بہادر
خاں کی فوج نے نواب مجو کی قیادت میں مراد آباد کو آزاد کرالیا تھا۔ ان دنوں نواب یوسف
علی خاں کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ خود رام پور کے فوجی سپاہی برملا کہنے لگے تھے
کہ رام پور کی نوکری سے خان بہادر کی فوج میں بھرتی ہوجانا اچھا ہے۔
نواب یوسف علی خاں کی انگریز
نوازی اور ساز باز کے سدباب کے لیے جنرل بخت خاں کی قیادت میں 9جون 1857کو رام پور
پر دھاوا بول دیا گیا۔ کئی ہزار فوجیوں نے شہر کو گھیر لیا۔ یہ بیحد مضبوط محاصرہ تھا۔
نواب رامپور نے حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے بخت خاں کی فوجوں کا مقابلہ نہیں
کیا لیکن اس موقع انہوں نے بڑی ذہانت کے ساتھ خود کو بچایا ۔نواب صاحب نے ایک بڑی رقم
اور قیمتی تحائف جنرل بخت خاں کی خدمت میں روانہ کیے اور مجاہدین کے سفیر مولوی سرفراز
علی کی اس قدر خاطر تواضع کی کہ انہو ں نے واپس آکر بخت خاں کو صلح کے لئے راضی کرلیا۔
لیکن جنرل سے اس وقت یہ ایسی غلطی ہوگئی تھی کہ اس کے خوفناک تنائج بعد میں سامنے آئے
۔اگرچہ نواب رامپور نے بخت خاں کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ انگریز وں سے کوئی تعلق
نہ رکھیں گے ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نواب صاحب کے مشیر خاص علی بخش خاں خفیہ طریقے پر
انگریزو اور نواب صاحب کے درمیان رابطہ کا ذریعہ بنے رہے۔
صاحب ‘‘علمائے ہند کا شاندار
ماضی’’ رقم طراز ہیں کہ :
‘‘ خان بہادر خاں کو رامپور کی غداری ،روپیہ کی کمی اور آپس کے نفاق
کی وجہ سے ہر فوجی مہم میں ناکامی ہورہی تھی، مگر وہ ہمت ہارنے والے آدمی ہیں تھے،
لیکن جب دہلی او رلکھنؤ کے زبردست مورچے انگریزوں کے قبضے میں پہنچ گئے اور روہیل کھنڈ
انگریزوں کی ابھرتی ہوئی قوت کے سامنے واحد علاقہ رہ گیا تو نینی تال کے انگریز بھی
امداد ی فوجیں آجانے پر دلیرانہ ٹوٹ پڑے ۔ یہاں ان کے حوصلے ٹوٹ چکے تھے تاہم خان بہادر
خاں نے شہزادہ فیروز شاہ ، بنڈے میر خاں ،ولی داد خاں وغیر ہم کی سرکردگی میں شہر سے
پانچ میل دور ندی کے کنارے مورچہ قائم کیا اور بذات خودمورچہ سنبھالا۔ صبح صادق سے
بہت بڑے علاقے میں دست بدست اور توپ وتففگ کی جنگ ہوتی رہی ، کشتوں کے پشتے لگ گئے،
شہزادہ فیروز شاہ ، ولی داد خاں، بنڈے میر خاں وغیر ہم نے حق مرادنگی ادا کردیا۔ خان
بہادر خاں کی فوج میں 133مجاہدین ایسے تھے جو روزانہ سر سے کفن باندھ کر میدان میں نکلتے تھے۔’’
اس جنگ کے چشم دید حالات ایک
انگریز فوجی افسراپنی کتاب ‘‘1857کے معر کو ں کی یادداشت ’’ میں لکھتا ہے: ‘‘خان بہادر
خاں کی فوج میں غازیوں کی ایک جماعت بھی تھی جو بلاشبہ سر سے کفن باندھ کر جان دینے
اور جان لینے کے ارادے سے آئی تھی ۔ یہ مسلمان شوق شہادت کے نشے میں چور تھے۔ ان کی
داڑھیاں سفید تھیں۔ انگلی میں چاندی کی انگوٹھی پہنتے تھے، جن کے نگینوں پر ‘یا اللہ’
کندہ تھا۔ ہر غازی کی کمر میں ایک سرخ پٹا
بند ھا ہوتا تھا ۔ ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور پشت پرڈھال ۔ دین کا نعرہ لگاتے ہوئے
ہمارے سامنے آئے اور حملہ آور ہونے سے پہلے ان کا سردار جو بیس سال کا بے ریش و بروت
نوجوان تھا، جس کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا، آگے بڑھ کر ہم سے مخاطب ہوا، کیا تم
کافروں میں کوئی حوصلہ مند ہے جو میرا مقابلہ کرسکے؟ اگر ہے تو سامنے آئے۔ اس کی آواز
پر ہماری صفوں میں سناٹا چھا گیا۔ کوئی نوجوان آگے نہیں بڑھا ۔ ایک منٹ بعد پھر یہی
چیلنج دیا ، کہ میں پانچ آدمیوں سے تنہا مقابلہ کرسکتا ہوں۔ لیکن پھر بھی کوئی حرکت
نہ ہوئی۔ آخر جھنجھلا کر اس نے تلوار میان سے نکالی اور ہماری صفوں پر حملہ آور ہوا۔
اس نے اس شدت سے حملہ کیا کہ چشم زدن میں اٹھارہ سپاہیوں کو زخمی کر کے ڈال دیا۔ ا
سکی بے نظیر شجاعت سے کمانڈنگ افسر اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے حکم دیا کہ اس نوجوان
کو زندہ اٹھالیا جائے ۔ اس نے کہا
‘‘تم زندہ شیر کو گرفتار نہیں کرسکتے ۔ چنانچہ زخمی ہوجانے کے بعد جبکہ
اس کے ہر عضو سے خون کے فوارے ابل رہے تھے ، اس نے دوبار ہ اسی شدت سے حملہ کیا۔ جب
کمانڈنگ افسر نے دیکھا کہ آگر اس کو قتل نہ کیا گیا تو سو آدمیوں کی کمپنی کا صفایا
کردے گا تو مجبوراً اس نے حکم دیا کہ سنگینوں سے اس کا خاتمہ کردو۔ یہ سن کر سپاہیوں
نے اسے نرغے میں لے کر بیک وقت کئی سنگین اس کے سینے میں پیوست کردیں، لیکن جب تک وہ
زندہ رہا تلوار کے جوہر دکھاتا رہا۔ اس کا ہاتھ اس وقت ساکت ہوا جب اس کی روح پرواز
کرگئی۔’’(بحوالہ بدایوں کا جہاد حریت، ازمولوی محمد سلیمان)
اسی معرکہ میں ایک مجاہد آزادی
کی بہادری کا ثبوت یہ ہے کہ انگریزی فوج کا کمانڈر سرکولن اس کے ہاتھ سے بال بال بچا،
زخمی حالت میں وہ کولن تک پہنچ گیا تھا لیکن تبھی ایک سکھ فوجی نے اس پر تلوار سے زبردست
وار کرکے اس کاسرتن سے جدا کردیا۔
آخر جنگ چھاؤنی کے علاقے میں
ہوئی ۔ اس موقع پر کچھ نئے بھرتی شدہ سپاہی مورچے پر لائے گئے تھے جو میدان میں زیادہ
دیر ٹک نہیں سکے اور ا ن میں بھگدڑ مچ گئی، اس سے نواب خان بہادر کو شکست کا سامنا
کرنا پڑا اور انگریزی فوج شہر میں داخل ہوگئی۔ 5مئی کی رات کو بریلی پرقیامت ٹوٹ پڑی
تھیں، شہر ی جان ،مال اور آبرو بچانے کےلئے شہر سے بھاگ رہے تھے۔ یہ بھگدڑ اتنی بڑی
تھی کہ بہت تھوڑے لوگ شہر میں رہ گئے تھے جنہیں انگریزوں نے موت کے گھات اتار دایا۔
خان بہادر خاں نے آخر ی مورچہ
ہارنے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے ترائی کے جنگلوں میں چھپ کرگوریلا جنگ کا
ارادہ کرکے شہر چھوڑ دیا۔ اس شیردل مجاہد نے 31مئی 1857سے فروی 1857تک صرف آٹھ ماہ
روہیل کھنڈ پر آزاد اور خود مختار حکمراں کی طرح حکومت کی۔ اس چھوٹی سی مدت میں اگر
چہ مستقل طور پر جنگی معر کے جاری رہے لیکن اس کے ساتھ ہی خطے میں بہترین نظم ونسق
اور عوام کی فلاح وبہبود کے حوالے سے بھی خان بہادر خاں نے شاندار مثال قائم کی۔آزادی
کی جنگ پوری طرح ہار جانے کے باوجود شیر دل نواب نے آخری سانس تک کافر انگریزں کے خلاف
جہاد جاری رکھا۔ وہ تھوڑے سے جاں نثار وں کے ساتھ انگریزوں پر گوریلا حملے کرتے اور
زبردست نقصان پہنچاکر جنگلوں میں چھپ جاتے۔ ایک گوریلا حملے کے وقت خان بہادر خاں بری
طرح زخمی ہوکر گر گئے ۔ انگریزوں نے انہیں گرفتار کرلیا۔ ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ پہلی
پیشی پر جب وہ نام نہاد عدالت میں لائے گئے تو کرسی پر بیٹھنے کےلئے کہا گیا ۔ نواب
صاحب شان بے نیازی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے فرش پر بیٹھ گئے کہ ‘‘مدتوں کرسی پر بیٹھتا
رہا، اب قیدیوں کی طرح زمین پر بیٹھوں گا۔’’انہیں زبردستی کرسی پر بیٹھایا گیا ۔ انہوں
نے عدالت میں اپنا بیان دیتے ہوئے کہا تھا:
‘‘چونکہ روہیل کھنڈ ہمارا موروثی ملک تھا اس وجہ سے جنرل بخت خاں اور
جملہ رعایا نے مجتمع ہوکر مجھ کو مسند نشین کیا۔ جس وقت تم لوگوں نے ملک سے فرار حاصل
کیا، ہم نے قبضہ کرلیا، انگریزوں کی فوج سے جو مقابلے ہوئے ان میں دونوں طرف کے لوگوں
کا خون بہا، فیصلہ کرنا اب تمہارے ہاتھ میں ہے جو چاہو کرو۔’’
انگریز کی عدالت میں یہ مقدمہ
تو ایک قانونی ڈھونگ تھا۔ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا ۔ انہیں پھانسی کی سزا کا حکم سنا
دیا گیا۔ مولانا غلام رسول مہر کے مطابق 1860میں انہیں پھانسی پر لٹکانے سے پہلے ان
سے کہا گیا کہ کچھ وصیت یا نصیحت کرنی ہوتو کرسکتے ہیں، نواب صاحب نے فرمایا: نہیں
، مجھے کچھ نہیں کہا0 ہے’’ اور یہ شعر پڑھا:
بجرم کلمۂ حق می کشند غوغائیست
ز مرگ زندگیم می شود تماشا
ئیست
پھانسی کے بعد انگریز وں نے
نواب صاحب کی لاش ورثا اور عوام کے حوالہ کرنے سے انکار کردیا، کیونکہ انہیں خدشہ تھا
کہ لوگ جنازے کا جلوس نکالیں گے اور ان کی قبر عوام کی زیارت گاہ بن جائےگی۔ انگریزوں
نے بڑی خاموشی سے بریلی جیل کے پھاٹک کے پاس دفن کردیا اور قبر کا نشان باقی نہ رکھا
۔1957میں جب آزاد ہندوستان میں اوّلین جنگ آزادی کی صد سالہ یادگار منائی گئی اس وقت
اس شہید وطن کی قبر تلاش کی گئی ۔ انگریز وں نے نواب خان بہادر خاں کے مکان واقع شاہ
آباد کو گولہ باری کر کے مسماری کردیا تھا۔ یہ مقام آج بھی خان بہادر خاں کا ٹھیرہ
کے نام سے مشہور ہے۔
روہیل کھنڈ کا بہادر سپوت
نواب خان بہادر خاں بھی پہلی جنگ آزادی کے بڑے بڑے رہنماؤں کی طرح ناکام ہوکر مادروطن
پر قربان ہوگیا۔ پہلی جنگ آزادی کی مجموعی ناکامی اور انگریزوں کی کامیابی کا ، انگریز
افسر اعلیٰ سر ڈبلیو رسل نے اپنی کتاب ‘‘ My Diary in India’’ میں اس طرح تجزیہ کیا
ہے:
‘‘پھر ہمیں یہ ماننا پڑتا ہے کہ انگریز خواہ کتنے بھی بہادر کیوں نہ
ہوں ، اگر تمام ہندوستانی متحد ہوکر ہمارے خلاف کھڑے ہوجاتے تو ہندوستان میں ایک انگریز
بھی باقی نہ رہتا ۔’’
(بشکریہ روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/nawab-khan-bahadur-great-hero/d/2117