New Age Islam
Fri Mar 24 2023, 08:00 PM

Urdu Section ( 14 Sept 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hazrat Ali And His System of Governance حضرت علیؑ کا طرز جہاں بانی

How shameful that while Ameerul Momenin Hazrat Ali (A.S.) sought to protect the human rights of his assassin from his bed of martyrdom, and told his family to try to practice forgiveness as it was closer to taqwa, today’s Jihadi Muslims kills their own Muslim brothers in mosques. Do these Muslims deserve to be called Muslims? What sort of Islam is this: the Islam propagated by the Prophet (pbuh) or that of ibn-e-Maljam, the murderer of Hazrat Ali? Asks Ali Zaheer Naqvi.

URL of this page: https://newageislam.com/urdu-section/hazrat-ali-his-system-governance/d/1737

 

علی ظہیر نقوی

21رمضان تاریخ اسلام میں انسانیت کے اس عظیم انسان کا روز شہادت ہے جسے اس کی حق پسندی وعدالت کے سبب 40ہجری میں محراب مسجد کوفہ میں دوران نماز فجر زمانہ کی دہشت گرد باطل پرست طاقتوں کے ذریعہ شہید کردیا جاتا ہے ۔ مسجد کوفہ میں شہادت سے ہم آغوش ہونے والے انسانی تاریخ کے اس انسان کا مل کو زمانہ علی مرتضیٰ شیرخدا کے نام سے جانتا ہے۔ راہ خدا میں شہادت جیسی عظیم نعمت عاشقان راہِ خدا کی معراج ہوا کرتی ہے یہی سبب ہے ضربت شہادت سے دوچار ہونے کے بعد تاریخ اسلام وانسانیت کے محسن علی ابن ابی طالب کے منہ سے جو تاریخی جملہ نکلا تھا وہ یہی تھا’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا ‘‘۔

وصی رسوال ؐ امیر المؤمنین حضرت علیؑ کی مثال زندگی نصرت حق وعدالت کا ایسا نمونہ ہے جس کی نظیر پیش کرنے سے زمانہ قاصر ہے۔ عصر حاضرکی حکومتیں حقوق بشریت کے تحفظ اور غربت وافلاس کے دور کرنے کے بڑے بڑے دعوے اور نعرے تو بلند کرتی ہیں لیکن عملی طور پر حکومتوں کے ذمہ داران اس پر خود عامل نہیں ہوتے۔ حضرت علیہ السلام تاریخ اسلام کے وہ عظیم حاکم ہیں جو خود اپنی زندگی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے عملی اقدامات کے ذریعے زمانہ کو بتایا کہ اسلامی ریاست کے سربراہ کی زندگی اپنی رعایا کے کسی غریب ترین شخص کے مقابل کسی ہونی چاہئے۔

بقول ابن جوزی ’’حاکم ہوتے ہوئے بھی آپ اپنے اونٹوں کی مالش خود کرتے، گھر کے کام خود انجام دیتے ، جو کی سوکھی روٹی پر قناعت کرتے اور اسے بھی تھیلے میں سربہ مہر رکھتے تھے تاکہ ان کے بچے رحم کھا کر روٹی پر روغن نہ لگادیں‘‘۔آپ نے عثمان ابن حنیف کو ا یک خط میں اس کے کسی امیر شخص کی دعوت قبول کرنے پر سرزنش کرتے ہوئے لکھا ’’تیرے امام نے اس دنیا میں دو روٹیوں ایک بوسیدہ قمیض پر اکتفا کیا ہوا ہے مگر میں جانتا ہوں تو ایسا نہیں کرسکتا مگر تقویٰ می ں میری مدد کر‘‘آپ نے اپنی زندگی کو اپنی ملکت کے غریب ترین شخص کی سطح پر رکھا ہوا تھا تاکہ کسی غریب و محروم شخص میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ وہ دیکھ رہا ہے۔ کیا تاریخ ایسے حکمران کی کوئی مثال پیش کرسکتی ہے؟ حضرت علی ؑ اسلامی تاریخ کے ایسے حکمراں ہیں جن کے نزدیک ایسی حکمرانی جو حق عدل کا نظام قائم اور باطل کو زاء کرنے کے لئے نہ ہوتو وہ دنیا کی پست ترین شے سے بھی زیادہ پست تھی ۔ یہی سبب ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی ؑ کے نزدیک اس حکومت کی قیمت جو عدل وانصاف قائم کرنے میں ناکام ہو ان کی پھٹی ہوئی جوتی سے بھی کمتر تھی جس میں سماج کے مظلوم و محرم طبقہ کو انصاف نہ مل سکے۔ وہ ابن عباس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ابن عباس تمہارے خیال میں میری اس پھٹی ہوئی جوتی کی قیمت کی ہے‘‘ ابن عباس نے کہا اس کی قیمت ہی کیا ، کچھ نہیں۔ حضرت علی ؑ نے فرمایج’’یہ جوتی مجھے تم لوگوں کی حکومت و سلطنت سے زیادہ عزیز ہے اگر اس میں کسی کا حق قائم نہ کر سکوں ‘‘۔

امیر المؤمنین حضرت علی ؑ کے فرامین میں معر کۃ الآرا فرمان جو نہج البلاغہ میں موجود ہے مصر کے گورنر مالک اشتر کو تحریر کیا گیا ہے۔ اس دستوری عہد نامہ کو اسلامی حکومت کے چار ٹر سے بھی تعبیر کیاجاتا ہے جس کے ذریعہ آپ کی طرز جہاں بانی کہ زرین اصول واضح ہوتے ہیں۔ رعایا کے حقوق کے سلسلہ میں حاکموں کا رویہ کیسا ہونا چاہئے ،وہ لکھتے ہیں:

’’پسماندہ طبقہ جس کا کوئی سہارا نہیں ہوتا مسکینوں ، محتاجوں ، فقیروں اور معذوروں کا طبقہ ہے ان میں سے بعض ہاتھ پھیلاکر مانگنے والے ہوتے ہیں اور کچھ کی صورت خود سوالی ہوتی ہے اللہ کی خاطر ان بیکسوں کے بارے میں ان کے حق کی حفاظت کرنا جس کا اس نے تمہیں پاس پہنچ نہیں سکتے انہیں نگاہیں ٹھکراتی ہیں اور لوگ ان سے بچتے ہیں ۔ اپنے وقت کا ایک حصہ فریادیوں کے لئے وقف کردینا۔ سب کام چھوڑ کر ان سے ملنا ۔ ایسے موقع پر تمہاری محفل عام رہے جس کا جی چاہے بے خوف چلاآئے۔ ہاں فوجیوں ،امیروں اور پولس والوں سے اس مجلس کو خالی رکھنا۔‘‘

مشہور عیسائی مورخ جارج برداق نے اپنی تصنیف ندائے عدالت انسانی میں لکھا ہے’’علی ؑ کی تمام تر توجہ مساوات وعدل کے قوانین کو موثر طریقے سے بروئے کار لانے پر مرکوز تھی۔ ان کے افکار اور انداز فکر حکومت اور ان تمام تر حکمت اسی مقصد کے حصول کے لئے وقف تھی ۔ جب کسی ظالم نے عوام کے حقوق کی پاعمال کی یا کسی کمزور سے تحقیر آمیز رویہ اختیار کیا علی ؑ اس سے سختی سے نمٹے ‘‘۔ حضرت علی ؑ نے معاشرتی زندگی میں عدل کو کتنا لازمی قرار دیا ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

ایک دن کچھ لوگ جنہوں نے آپ کی بیعت بھی کررکھی تھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کے خیر خواہ ہیں آپ کو یہ مشورہ دینے آئے ہیں کہ اگر آپ اشراف عرب کو دوسروں پر ترجیح دیں تو ان کی پیش رفت کے لئے مناسب ہوگا۔ آپ اس تجویز سے ناراض ہوئے اور فرمایا کیا تم مجھے یہ حکم دیتے ہوکہ میں رعایا پر ظلم کروں یا دوستوں کا ایک گروہ اپنے گرد جمع کرلوں ؟ خدا کی قسم جب تک دنیا موجود ہے اور ستاروں کی گردش باقی ہے میں یہ کام نہیں کرسکتا ۔ اگر یہ مال میرا اپنا بھی ہوتا تو بھی اسے برابر تقسیم کرتا جبکہ یہ مال تو ہے ہی خدا کا‘‘۔

حضرت علی ؑ کے زمانہ حکومت میں معاشرہ کے کسی طبقہ کو اجازت نہ تھی کہ وہ عدل وانصاف کے خلاف کوئی عمل کرے ۔ ایک دفعہ بازار سے گزرتے ہوئے آپ نے ایک کھجور فروش کو دیکھا کہ وہ باقص اور بڑھیا کھجور بیچ رہا ہے ۔ آپ نے اس کی سرزنش کی۔ اس نے اپنا قصور دریافت کیا تو آپ نے فرمایا’’ کیا تو میری حکمرانی میں مسلمانوں کو طبقات میں تقسیم کررہا ہے؟‘‘یعنی امیر تو عمدہ قسم کی کھجور خریدیں اور غریب ناقص قسم کی ۔ آج انسانی معاشرہ جس طرح سرمایہ دارانہ تقسیم کے زیر اثر اعلیٰ ،متوسط اور غریب طبقوں میں تقسیم ہوچکا ہے اس تقسیم کے خلاف امیر المؤمنین نے چودہ سوسال پہلے آواز اٹھا کر عدل الہٰی ومساوات محمدی کے نظام کو قائم کیا تھا۔

امیر المؤمنین حضرت علی ؑ حقیقی اسلامی آئیڈیالوجی کے ایسے حکمراں ہیں جو بیت المال کا مصرف عدالت اسلامی کے اصولوں پر اس طرح قائم کرتے ہیں کہ مساوات وعدالت کا دامن مجروح نہیں ہونے دیتے خواہ اس راہ میں ان کے اپنے بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرت علی ؑ کے بھائی عقیل اپنے بھوکے بچوں کے ہمراہ جب حاکم وقت حضرت علی ؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیت المال سے اپنے زیادہ حصہ کے طلبگار ہوئے تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھائی کے بھوکے بچوں کو دیکھ کر بھائی کی محبت اصولوں پر غالب آجاتی مگر یہاں ایسا نہیں ہوا۔ آپ نے واضح طور پر اپنے بھائی کو منفی جواب دیا اور اپنے منصبی جواب کے فلسفہ کو اپنے بھائی کے سامنے پیش کرنے کے لئے لوہے کی ایک سلاخ آگ پر تپاکر ان کے جسم کے قریب لے گئے تو وہ چیخ پڑے۔ تب آٖ نے کہا ’’تم دنیا کی آگ سے ڈرتے ہو اور میں جہنم کیا آگ سے نہ ڈروں ‘‘۔عصر حاضر کا حکمراں طبقہ جو اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عیش وعشرت کی زندگی کے ساتھ مال ودولت کو اکٹھا کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہا ہے، حضرت علی ؑ کے یہ جملے آج بھی ان کے لئے درس عبرت ہیں۔

’’اگر میں چاہتا تو اس شہد خالص ،گیہوں اور ریشمی کپڑوں کو اپنے مصرف میں لانے کے لئے کوئی راہ نکال لیتا لیکن کیا مجال کہ مجھ پر خواہشات غالب آجاتیں ۔ میں تو رات کو شکم سیر ہوکر سوجاؤں اور بھوکے پیٹ اور پیاسے کلیجے میرے آس پاس تلملاتے رہیں ‘‘۔ اسی طرح لوگوں کے حق کے ساتھ خیانت کے سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں:

’’خدا کی قسم اگر ساتوں اقلیم میں ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دی جائیں صرف اس جرم کے عوض کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا جو اس کے منہ میں ہے چھین لوں تو میں ایسا کبھی نہ کرونگا‘‘۔

جس عدل کا قرآن کریم اور تعلیمات نبوی میں جابجا ذکر ہوا ہیک حضرت علی ؑ اس پر سختی سے عامل رہے ۔ یہی وجہ تھی کہ عرب کے سردار، سرمایہ دار طبقہ اور جاہ ومنصب کا طالب دنیا پر ست طبقہ آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہوگیا اور آپ کو قتل کرنے کی سازشیں رچنے لگا ۔ باطل طاقتیں ظاہر اً اپنے مقصد میں کامیاب ہوئیں اور آپ نے جام شہادت نوش کیا، ظاہر اً علی ؑ ابن ابی طالب شہید ہوگئے مگر آپ کے کردار وایمان کو دنیا کا کوئی سورما قتل نہ کر سکا ۔ جب آپ کے قاتل ابن ملجم کو گرفتار کر کے آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو اپنے بیٹوں حسنین سے اس طرح وصیت کرتے ہیں ’’دیکھو اس کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنا جو کچھ تم کھاؤ وہی اسے بھی کھلانا ۔ اس کے خوف ووحشت پر رحم کرنا‘‘۔عدالت کی آبرو علی نے بستر شہادت سے حقوق وعدالت کی تعلیم اپنے بیٹوں کو اس طرح دی کہ دیکھو اگر میں زندہ رہ گیا تو میں جانتا ہوں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔ لیکن اگر اپنے زخم سے جانبرنہ ہوسکا تو یہ مسئلہ تمہارے اختیار میں ہے اگر تم قصاص لینا چاہتے ہو تو اس کی ایک ضربت کے عوض ایک ہی وار کرنا لیکن اسے اگر تم معاف کردو تو یہ تقویٰ سے نزدیک ہوگا۔

یہ بات اپنے آپ میں کتنی عبرتناک ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی ؑ اپنے کردار کے ذریعے بستر شہادت سے اپنے قاتل کے حقوق نیز عدل وانصاف کا درس انسانیت کو دے رہے ہیں جبکہ عصر حاضر کا جہادی مسلمان اپنے ہی بھائیوں کو مسجدوں اور عبادت گاہوں میں بے دریغ قتل کرنے سے نہیں چوکتا ۔ کیا اس طرح کے مسلمان خود کو مسلمان کہلانے کے لائق ہیں؟کیا اسلامی تعلیمات اس کی متقاضی ہیں کہ انہیں مسلمان کہا جائے ؟ آخر یہ کون سا اسلام ہے ! پیغمبر اسلام کا بتایا ہوا اسلام یاحضرت علی ؑ کے قاتل ابن ملجم کا اسلام۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/hazrat-ali-his-system-governance/d/1737


Loading..

Loading..