علیم اللہ اصلاحی
نئی دہلی 14مارچ ؍ وہ 15مارچ 2005کو صبح تھی جب باشندگان اوکھلا نے اپنی آواز اپنے ریڈیو سیٹ پر سنی دارالحکومت دہلی کی حاشیائی بستی اوکھلا کے لئے ناقابل یقین واقعہ تھا جب ان کےکانوں میں امرت گھولنے والی آواز آئی کہ ‘‘یہ ریڈیو جامعہ 90.4ایف ایم ہے ’’ ۔پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ‘‘جامعہ کمیونٹی ریڈیو’’ اوکھلا کی دھڑکن بن گیا ۔عوام کے لیے جامعہ کمیونٹی ریڈیو کی آواز دراصل جامعہ ملیہ اسلامیہ کی آواز تھی۔ لہٰذا انہوں نے ‘‘جامعہ ایف ایم’’ سے وہی امید یں باندھ لیں جو پہلے جامعہ سے وابستہ تھیں ۔یعنی تعلیم کا عملی زندگی اور سماج سے خوبصورت رشتہ .......تعلیم کے ساتھ ذہنی اور اخلاقی تربیت کا حسین تصور .......برادران وطن اور قوم وملت کے درمیان الفت ومحبت کی خوشگوار فضا قائم کرنے کےلئے سنگھرش .....نئی نسل کی تخلیقی جوہر کی شناخت اور اس کی افزائش ......ادب ،ثقافت ،سائنس اور آرٹ کے وسیلے سے قومی وملی تعمیر وترقی اور انسانی صلاح وفلاح کی ہمہ گیر تحریک برپا کرنا ......یعنی ایک نئی قوم اور نئے ملک کا جو خواب کبھی اس دیار شوق اور شہر آرزو (جامعہ) کے ان دیوانوں (بانیاں جامعہ) نے دیکھا تھا،اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کےلئے ‘‘جامعہ ریڈیو’’ ایک ‘‘کلیدی کردار’’ ادا کرے گا ،اور جس کے بارے میں ابولاثر حفیظ جالندھری مرحوم نے کہا تھا۔
یہ ملت جب کبھی اپنی زیاں کاری کو جانے گی وجود اس جامعہ کا معجز ے سے کم نہ مانے گی لیکن جلد ہی یہ تمنائیں سوکھے پتے کی طرح خزاں کی حشر سامانیوں کی نذر ہوگئیں ۔ایک ایک کر کے امیدوں کے چراغ بجھتے گئے اور احساس زیاں کاری کے احساس کے باوجود کوئی کرامت ظاہر نہ ہوئی۔ اس صو رت حال کا انکشاف اس وقت ہوا جب ریڈیو جامعہ کے ذریعہ نشر کردہ ایک اشتہار میں ایک مخصوص فرقہ کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرتے ہوئے ‘‘کنڈوم ’’کو ‘‘ٹوپی ’’ جیسے ‘‘مذہبی شعار’’ سے تشبیہ دی گئی اور اس کے رد عمل میں اوکھلا کمیونٹی نے شدید غم وغصہ کا مظاہرہ کیا۔ چنانچہ عوامی احتجاج کے مدنظر ‘‘روزنامہ صحافت’’ نے ‘‘جامعہ ریڈیو’’ کے تعلق سے ایک سروے کیا ،اور اس سلسلے میں طلبا اساتذہ ،منتظمین ،صحافی نیز مختلف بااثر سیاسی و سماجی شخصیات اور عوام الناس سے تبادلہ خیال کیا کہ آخر جامعہ ریڈیو کے بارے میں عوام وخواص کے کیا تاثرات ہیں؟ تو ادیب اور سماجی شخصیت ڈاکٹر راشد شمسی کا کہنا تھا کہ ‘‘ جامعہ میں ریڈیو اسٹیشن تو قائم ہوگیا ۔
لیکن جیسے باقاعدہ براڈ کاسٹنگ کہا جاسکتا ہے۔ وہ صورت پیدا نہ ہوسکی۔ کسی بھی اسٹیشن کے لئے صرف ایک ٹرانسمیٹر کاہونا کافی نہیں بلکہ پروگراموں کی ترتیب ،ان کی افادیت ، ان کا فنی معیار اور باقاعدہ تربیت بافتہ عملہ کے ساتھ ساتھ ایک منظم لائحہ عمل کا ہونابھی ضروری ہے۔ جب کہ اوکھلا کے مشہور شاعر اسرار جامعی کے بقول اس ریڈیو کے ذریعہ پیش کئے جانے والے کسی بھی پروگرام میں نہ تو ‘‘موضوع ومناسبقت ’’ کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی ‘‘حسب مراتب’’ کا ،گھسی پٹی کئی کئی دن پرانی خبریں ،وہی دس پانچ منی بیگم ،غلام حسنین اور کفیل آذر کی غزلیں ،صابر برادرس کی کچھ قوالیاں ،جامعہ کی کہانی ، کرکٹ دنیا لے دیکر وہی ‘‘ڈھاک کے تین پات’’ والی بات ہے ۔اول روز سے جامعہ ریڈیو پروگرام کے سامع خالد حبیب جو کہ پیشہ سے ایک انجینئر ہیں کہ شکایت تھی کہ ایف ایم کا نیٹ ورکنگ پرابلم تو ہمیشہ ہی رہتا ہے اور چلتے چلتے فریکونسی ماڈیولیشن اچانک رک جاتا ہے اور سننے والا سمجھتا ہے کہ کوئی تکنیکی خرابی ہے یا مشین درست نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سامع کا رشتہ پروگرام سے کمزور ہونے لگتا ہے اور اخیر میں وہ ریڈیو ہی بند کردیتا ہے۔
بعض افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ جامعہ ریڈیو کی ایک بہت بڑی کمی اینکر کی ہے، کوئی جدت، ندرت ،نفاست اورتخلیقیت کا مظاہر نہیں بلکہ بندھے ٹکے موضوع اس پر بھی انتہائی غیر ضروری گفتگو ۔ اس طرح کی بھی شکایات سامنے آئیں کہ اس ریڈیو ایف ایم پر ٹیلی فونی گفتگو میں فرد ثانی کے ساتھ بد تمیزی بھی کی جاتی ہے اور فو ن کرنے والے نازیبا گفتگو سے نوازے جانے کے علاوہ اپنی غلطی تسلیم نہ کرنا اور لوگوں کے نیک مشورے اور آرا کا بھی استقبال کرنے کے بجائے مذاق میں اڑادینا اور بلا وجہ اپنی بات پر ہی اصرار کرنا تو ان کا معمول سا بن گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے زبان وبیان کے حوالہ سے بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا اور تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ وہی عام پرائیویٹ چینلوں کی طرح پست اور غیر معیاری زبان ،سوقیانہ الفاظ ،تذکیروتانیث اورتلفظ کی بے انتہا غلطیاں معلوم نہیں جامعہ کے پاس ایسے افراد کے انتخاب کا کون سا پیمانہ ہے؟ ۔شعبہ ماس کام کے ریسرچ اسکالر راج جئے جامعہ ریڈیو کے ذریعہ غیر ضروری پروگراموں کو فروغ دئے جانے پر بھی احتجاج کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلاوجہ ‘‘جامعہ ریڈیو’’ کے ذریعہ بھوجپوری ،پنجابی اور ہریانوی زبان و کلچر سامعین کے سرتھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ریڈیو کا کام یقیناً ایک علاقہ کے سامعین کو دوسرے علاقہ کی زندگی ،رہن سہن ،حالات اور تہذیب سے روشناس کرانا ہوتا ہے ۔لیکن کسی مخصوص ‘’حلقہ سامعین’’ کے لئے اس طرح کے پروگرام کیسے موزوں سمجھے جاسکتے ہیں ۔وہ براڈ کاسٹنگ کااصول بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کمیونٹی ریڈیو کے سارے پروگرام جنرل ہونے چاہئے ،بصورت دیگر یہ اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔ روزنامہ صحافت نے جب اس کی تصدیق اور حقیقت حال جاننے کی ذاتی کوشش کی اور تقریباً ایک ہفتہ تک لگاتار مختلف اوقات میں نشر ہونے والے پروگراموں کو سنا تو یہی احساس ہوا کہ اس معاملے میں لوگوں نے مبالغہ سے کام نہیں لیا ہے۔
کیونکہ منتظمین کی غفلت اور ریڈیو کے ذمہ داروں کی عدم توجہی کے سبب اب یہ ریڈیو اتنا نیچے جاچکا ہے کہ ہم کسی لوکل یا کم طاقت والے ریڈیو اسٹیشن سے بھی اس کا موازنہ نہیں کراسکتے ۔حالانکہ ہر سال ریڈیو کے نام پر طلبا سے لاکھوں روپے اکٹھا کئے جاتے ہیں۔اور ہر طالب علم سے فی کس 50روپے لئے جاتےہیں ۔اس نامہ نگار نے 13000طلبا پر مشتمل 2009میں جمع ہوئی اس رقم کا تخمینہ لگایا تو معلوم ہوا کہ صرف ایک سال میں ساڑھے چھ لاکھ(6,50000) روپئے جمع ہوئے ہیں ۔ اس خطیر رقم کا کیا ہوتا ہے؟ یہ ایک دلچسپ معمہ ہے۔ طلبا نےیہ بھی کہا کہ چونکہ ان سے ‘‘کمیونٹی ریڈیو’’ کے لئے پیسے لئے جاتے ہیں اس لئے ان کا اس ریڈیو پر پورا حق ہے ۔ اسکےباوجود ریڈیو انتظامیہ ایسا پروگرام کیوں نہیں ترتیب دیتی جو طلبا اور کمیونٹی دونوں کے لئے مفید ثابت ہو۔ واضح رہے کہ ‘’جامعہ ریڈیو’’ ان اداروں میں سے ایک ہے جسے وزارت برائے اطلاعات ونشریات نے باضابطہ قانونی درجہ دیا ہے اور یہ آل انڈیا ریڈیو کوڈ کے ماتحت بھی ہے۔ اور مزید جامعہ کے دستور العمل میں اس چینل سے متعلق درج الفاظ کے مطابق ‘’یہ ریڈیو ایف ایم 90.4جامعہ کے ارد گرد تقریباً 10کیلو میٹر تک جاتا ہے اور اس ریڈیو کے لئے تمام پروگرام انور جمال قدوائی ریسرچ سینٹر کے اساتذہ اور طلبا کے ذریعہ دہلی میں مختلف جماعتوں اور تنظیموں کے اشتراک سے پیش کئے جاتےہیں’’لیکن شاید یہ دستور العمل تک ہی محدود ہے ۔کاش ! ‘‘جامعہ ریڈیو’’ خود کو ‘‘اسم بامسمی ’’ ثابت کرتا تو قوم وملت اوروطن سب کا بھلا ہوتا۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/desolation-jamia-community-radio-yearns/d/2583