علامہ قطب الدین حنفی
24 اگست، 2012
آدمی کی توبہ پو ری اس وقت
ہوتی ہے جب بندوں کے
حقوق بھی پورے ادا کرے ، یہ بات یاد رکھیں بندوں کے حقوق صر ف تو بہ سے معاف نہیں ہوتے، بلکہ ان کو ادا کرنا چاہئے ، مثلاً کسی کا مال ناجائز طور سے لے لیا یا کسی سے قرضہ لیا
تھا اس کا قرضہ ادا کرے (قرض دینے والے کو یاد ہو یا نہ ہو) یا کسی کے مال میں اپنی
طرف سے خیانت ہوچکی ہو یا اس کو کوئی چیز مذاق میں لے کر رکھ لی ہو( جبکہ وہ اس کے
دینے پر دل سے راضی نہ ہو)یا کسی سے سود لیا ہو یا غلط بیانی سے دھوکہ دیکر مال کمایا
ہو تو اس طرح کے سب قسم کے اموال واپس کردے۔ جو مال کسی کو بتائے بغیر چھپ کر لیا تو
اس کی واپسی کے وقت یہ بتانا ضروری نہیں کہ میں نے آپ کے مال میں خیانت کی تھی ، ہدیہ
کےنام سے دینے میں بھی ادائیگی ہوجائے گی ۔
چھوٹے بھائیوں بہنوں کا حق
مارنا:۔
کئی جگہ یوں ہوتا ہے کہ باپ کے انتقال کے بعد بڑے بھائی
مل کر باپ کے ساری ملکیت ، جائیداد و اموال پر قبضہ کرلیتے ہیں اور بہنوں کو ان کا
شرعی حق نہیں دیتے ، یہ سراسر ظلم ہے اور جو حق اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کا مقرر کردیا
ہے اس کو خود کھا جانا حرام ہے اور ناجائز ہے، ان لڑکیوں کا خود حق نہ مانگنا دلیل
اس بات کی نہیں کہ انہوں نے اپنا حق چھوڑ دیا
ہے او رمالیات میں تو بالخصوص رواجی خاموشی معتبر نہیں، نیز جھوٹی معافی کا بھی کوئی
اعتبار نہیں خصوصاً جبکہ نابالغ بہن، بھائی بھی وارثوں میں ہوں تو ان کی تو معافی یا
مال چھوڑنے پر رضا مندی شرعاًہر گز معتبر ہی
نہیں، یا اس طرح بھائی کی وفات پر اس کی بیوی (یعنی بھابی) اور اس کی اولاد کو حق نہ
دینا اور خود ہڑپ کرنا سراسر ظلم ہے ، اور حرام سے اپنے پیٹ کو بھرنا ، ایسے لوگ گویا
اپنے پیٹوں میں جہنم کی جلتی ہوئی آگ کے انگارے بھر رہے ہیں، لہٰذا بہنوں کا ، بھائیوں
کا ، یتیموں کا جو مال کھایا ہوا ب جب اللہ نے توبہ کی توفیق دی تو فوراً ادا کرنا
شروع کردیں اور فوراً سارا ادانہ کرسکیں تو آہستہ آہستہ دیتے رہیں اور اپنے وصیت نامے میں لکھ جائیں کہ اگر میں ادانہ
کرسکا تو میرے باقی مال میں سے یا میرے رشتہ دار مجھ پر احسان کرتے ہوئے اتنا مال فلاں
فلاں کو لوٹا دیں جو میں نے ناجائز طور سے غلطی سے کھالیا تھا۔
خوب سمجھ لیجئے نفلی حج و عمرہ کرنے سے ، مسجد او رمدرسہ میں لگانے سے ، یتیم خانہ میں دینے سے
، ان سب سے زیادہ ضروری ہے کہ جن کا مال لیا ہوا ہے ان کو پہلے ادا کریں۔اور تجارت
کی لائن میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ مال
لے لیتے ہیں اور نقصان ہوگیا تو سمجھتے ہیں کہ اب ان کو واپس لوٹانا ضروری نہیں ، حالانکہ
وہ بھی لوٹانا ضروری ہے ، اب جب حالات اچھے
ہوجائیں تو فواً لوٹا ئیں یا وہ لوگ اپنے حصے کا مال دل کی خوشی سے معاف کریں۔آپ کی
طرف سے کسی ڈریا زبردستی کے بغیر تو اور بات
ہے۔
کسی کو غلط سودا بیچا ہے ،
جھوٹ بول کر پیسے زیادہ لئے ہیں یا رشوت لی ہے تو اگر وہ لوگ زندہ ہوں ان کا پتہ معلوم
ہو اور ادا کرنے کی طاقت ہے تو ان کو ادا کریں اور اگر اب خود بالکل ہی ادا نہیں کرسکتے
تو ان کے پاس جاکر معافی مانگیں اور ان کو بالکل خوش کردیں کہ جس سے اندازہ ہوجائے
کہ انہوں نے حقوق کو بالکل معاف کردیئے ، البتہ نابالغ کے معاف کرنے سے بھی معاف نہ
ہوگا ، اس کا حق لوٹانا ہی فرض ہوگا۔اب خواہ آپ پر احسان کرتےہوئے کوئی اس کاذمہ لے
اور نابالغ کو اس کے مال کی ادائیگی کرے۔ اور بالغان میں بھی اگر کوئی معاف نہ کرے تو اس سے مہلت لے لیں او رتھوڑا تھوڑا کما کر اور
آمدنی میں سے بچا کر ادا کرلیں اور اگر ادائیگی سے پہلے ان میں سے کسی کا انتقال ہوجائے
تو اس کی اولاد یا دیگر شرعی ورثاء کو باقی ماندہ پہنچادیں۔
اگر مسلمان اصحاب حقوق کے
پتے اور ٹھکانے معلوم نہ ہوں تو ان کی طرف
سے ان کے حقوق کے بقدر زکوٰۃ کے مستحق شرعی مسکینوں کو صدقہ دیدیں۔ جب تک پوری ادائیگی نہ ہو صدقہ کرتےرہیں اور نیز مسلمانوں اہل حقوق
کیلئے خواہ مالی حقوق ہوں ، خواہ آبرو کے
حقوق ہوں بہر حال دعا خیر اور استغفار ہمیشہ پابندی سے کریں اور اگر کسی غیر مسلم کا
ناحق زبانی دل دکھایا ہے تو حتی الا مکان اس سے بھی معافی مانگیں اور اگر غیر مسلم کا مالی حق ہم پر ہے تو
تفصیل بالا کے تحت اس کو بھی اس کا حق لوٹا
ئیں یا اس کے وارثوں کو دیں اور اب اگر اس کا کچھ پتہ نہیں کہ کہا ں ہے ؟ یا مرچکا ہے تو اس کے حق کی بقدر جو مال ہے وہ کسی
جائز رفاہی کام میں بھی لگادینے کی گنجائش ہے، یعنی اتنی رقم شرعی مساکین پر صدقہ کرنا
واجب نہیں ہے۔(بحوالہ اسلامی معیشت کے بنیادی اصول ، ص 344)۔
اسی طرح شوہر کی طرف سے بیوی
کا مہر ادا نہیں کیا جانا مہر ملتے بھی تو لڑکی کے والد وصول کر کے خود قبضہ کرلیتے
ہیں بچپن سے اس کو پالا پڑھا یا وغیرہ یا اسی طرح اس کی شادی میں خوب خرچہ کیا اس کے
عوض یہ مہر کی رقم ہے جو مجھے مل گئی ہے۔ خوب
سمجھ لیں کہ مہر کی یہ رقم اب بھی اس لڑکی ہی کی ملکیت ہے ، اس کے باپ کی مذکورہ سب تاویلیں بالکل غلط
او ربے وزن ہیں، لہٰذا اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کے مہرکی رقم پر اس طرح تاویلات فاسدہ سے قبضہ کرچکا ہو تو واپس لوٹائے اور استعمال میں
لاچکا ہوتو بھی واپس لوٹائے یہ سب اس پر فرض ہے ، نیز بعض شوہر جو اس بات پر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ بیوی نے مجھے مہر معاف کردیا، اس دھوکے سے نکلنا بھی
ضروری ہے کیونکہ رسمی طور پر بیوی کے معاف
کرنے سے مہر معاف نہ ہوگیا کیونکہ اکثر عورتیں
یہ سمجھ کر معاف کروں یا کروں مہر کی رقم ملنی تو ہے نہیں، کہہ دیتی ہیں کہ جاؤ معاف کیا، سو خوب سمجھ لیں اس طریقے
پر دی گئی معافی کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ وہ بادل ناخواستہ معاف
کرنا ہی ہے او رمالیات میں تو بالخصوص رواجی خاموشی ہر گز شرعاً معتبر نہیں لہٰذا شوہر
حضرات کی ادائیگی فوراً کریں۔
نیز بعض جگہ عموماً رواج ہے
کہ جس کا انتقال ہو ا اسی کے مال سے فقرا ء و مساکین کوکھلاتے ہیں اور اس کے کپڑے خیرات کی نیت سے دیدیتے
ہیں حالانکہ وہ مال اب ورثا کا ہوگیا مرنے والے کا نہیں رہا، اب اگر سب وارث بالغ ہوں او رموجود ہوں تو
ان کی خوشی سے شرعی مسائل کی پابندی کے ساتھ بدعات ورسوم سے بچتے ہوئے تقسیم کیا جاسکتا
ہے نیز نابالغ کو ہر حال میں اس کا حصہ دینا ہی فرض
ہے، اس کی خوشی سےبھی کہیں خیرات میں دینا جائز نہیں ہے۔ بہت
سے وارثین مرنے والے کاقرضہ ادا کرنا سب سے اہم فرض ہے خواہ اس نے وصیت نہ بھی کی ہو، لہٰذا اس میں کوتاہی کرنا یہ مرنے والے پر بھی
ظلم ہے اور اپنے اوپر بھی ۔
24 اگست ، 2012 بشکریہ : اخبار
مشرق ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/huqooq-ul-ibad-its-obligations/d/8805