عرفان صدیقی
اگر سپریم کورٹ نے وہی کیا جوقوم کا بہت بڑا طبقہ چاہتا تھا، اگر سپریم کورٹ نے وہی کیا جس کیلئے پاکستان کا میڈیا سیل آواز اٹھارہا تھا ،اگر سپریم کورٹ نے وہی کیا جو عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ نے چاہا۔اگر سپریم کورٹ نے وہی کیا جو وفاق کےوکلا اور اٹارنی جنرل نے مانگا ،اگر سپریم کورٹ نے وہی کیا جس کا تقاضا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین کرتا ہے اور اگر سپریم کورٹ نے وہی کیا جو تہذیب واخلاقیات او رعدل وانصاف کا پاس ولحاظ کرنے والی کسی بھی عدالت کو کرنا چاہئے تھا تو پھر یہ ہنگامہ سا کیو ں برپا ہے؟ اور اگر تمام مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ہیں ۔ اگر تمام مقدمات ٹھوس شواہد سےعاری اور بے بنیاد ہیں اگر تمام مقدمات کسی بھی عدالت کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تو پھر انگاروں پہ لوٹنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اور اگر حکومت اپنے تمام تر تحکم کے ساتھ تخت وتاج پر قابض ہے اگر تمام چھوٹے بڑے ریاستی ادارے اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اگر خود اس نے احتساب عدالتوں کے ججو ں کا تقرر کرنا ہے اگر خود اسی نے گواہ لانے ہیں ، اگر وہ خود ہی وکیل صفائی ہے تو پھر اس پر کپکپی کیوں طاری ہے اور وہ ہذیانی کیفیت میں کیوں مبتلا ہے؟اگر یہ سارے مقدمات سیاسی انتقام میں لتھڑا ہوا خس وخاشاک تھے اور کوئی اندورنی یا بیرونی عدالت کسی طرح کی سزا نہیں سنا سکتی تھی تو جمہوری او ر عوامی ساکھ رکھنے والی سب سے بڑی جماعت نےایک ایسے ڈکٹیٹر سے ہاتھ کیوں ملایا جو ذوالفقار علی بھٹو اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں مکروہ تلخ نوائی کرتا رہا اور جس نے اپنی کتاب میں دونوں قومی رہنما ؤں کے بارے میں غلیظ زبان استعمال کی؟ اگر یہ سارےمقدمات ریگ ساحل پہ بنے نقش ونگار تھے جنہیں بے لاگ عدل کی کمزورسی موج اپنے ساتھ لے جاسکتی تھی توقومی تاریخ کے سیاہ روآمر کے ساتھ مذاکرات اور اندرونی وبیرونی قوتوں کی ضمانتوں کے ساتھ ایک ڈیل کی تہمت کیوں مول لی گئی؟ صدارتی انتخابات سے صرف ایک دن قبل پرویز مشرف نے یہ رسوائے زمانہ آرڈیننس کیوں جاری کیا اور آرڈیننس کے اجرا کے اگلے دن خلاف آئین صدارتی انتخابات کی حیا باختہ مشق کے دوران پیپلز پارٹی کیوں ایوانوں میں بیٹھی رہی جبکہ ساری اپوزیشن جماعتیں مستعفی ہوکر صدائے احتجاج بلند کررہی تھیں؟
کہانی اتنی بھی سادہ نہیں جتنی بنائی جارہی ہے۔این آر او ایک پس منظر کی داستان پاکستان کی لوح پر لکھی گئی جو پوری قوم کے سامنے ہے۔ آج پرویز مشرف این آراو کے اجرا کو ایک بڑی غلطی قرار دیتا ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو سےکھلی بغاوت کرتےہوئے مشرف کے فرمان سے کھلی بغاوت کرتے ہوئے پاکستان آگئیں ۔انہوں نے ہر قسم کی مفاہمت کونظر انداز کرتے ہوئے افتخار محمد چوہدری کو اپنا چیف جسٹس قرار دیا ۔ انہوں نے این آر او کو نظر انداز کرتے ہوئے 3نومبر کی ایمر جنسی کو ایک اور مارشل لا قرار دیا۔ پاکستان آنے کے بعد انہیں اہل وطن کے جذبہ و احساس کا بہت اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا اور ان کی سیاسی ترجیحات این آر او کی قدغنوں سے آزاد ہو رہی تھیں ۔بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ محترمہ زندہ رہتیں تو این آر او کاپیش منظر بالکل بدل جاتا ۔انہیں ایسی پارلیمنٹ اور ایسی غمگسار اپوزیشن ملتی تو وہ این آر او کی فرد ملامت کو ایک طرف پھینک کر میثاق جمہوریت کی روشمی میں زیادہ معتبر زیادہ باوقار اور زیادہ موثر راستہ ضرور نکال لیتیں ۔
پیپلز پارٹی کی قیادت اور حکومت اندازہ ہی نہ کرسکی کہ محترمہ کے قتل ، مشرف کی رخصتی ،ڈوگرہ راج کے خاتمے، مسلم لیگ(ن) سے دوری ،آزاد عدلیہ کی بحالی اور توانا میڈیا کے ابھارتے سب کچھ بدل دیا ہے۔انہیں یہ بھی احساس نہ ہوا کہ اب ان کی سپاہ میں کوئی بینظیر نہیں رہی۔اگر ان حقائق کا ادراک ہوتا تو پیپلز پارٹی پھونک پھونک کر قدم اٹھاتی ۔مد مقابل سیاستدانوں کی نااہلیوں، گورنر راج اور تخت لاہور پر قبضے کی مہم جوئی سےگریز کرتی۔ چٹکیاں کاٹنے کے بجائے قومی ادارو ں سے بہتر تعلقات کار قائم کرتی۔ وعدوں کا بھرم رکھتی ۔میثاق جمہوریت میں موجود احتسابی نظام کو عملی شکل دیتی ۔میثاق میں ایک سچائی اور مفاہمت کمیشن کا واضح نقشہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔ یہ کمیشن تشکیل دے کر این آر او کا مقدر اس کے حوالے کردیتی۔ معافی تلافی کا اطلاق 1986اور 1999کی درمیانی مدت تک محدود رکھنے کے بجائے حقیقی مفاہمت اور ایک نئے پاکستان کے عزم راسخ کے ساتھ سارے ماضی پر محیط کردیتی ۔ ان میں سے کوئی کام نہ کیا گیا۔ جابہ جامچانیں بنا کر چار سو اندھا دھند تیر اندازی شروع کردی گئی۔ اپوزیشن ،میڈیا ، فوج اور عدلیہ کسی کو معاف نہ کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس خوش گمانی کو ایمان کا درجہ دے دیا گیا کہ مشرف کا جاری کردہ آرڈیننس ،مقدس کتاب کی طرح خوشبو میں بسے غلاف میں لپٹا ،قومی سیاست کے سنہری طاق میں سجارہے گا اور تمام ریاستی داروں سمیت پوری قوم ا س کے سامنے بستہ کھڑی رہے گی۔
میرے پاس اس روش کیلئے بے حکمتی سے زیادہ نرم اور بامعنی لفظ کوئی نہیں اور المیہ یہ ہے کہ ‘بے حکمتی’ اب بھی عروج پر ہے اور اسی کو درپیش چیلنجوں کی چارہ گری بنایا جارہا ہے ۔ لکھ چکا ہوں کہ پی پی پی کے کرتا دھرتا ،چار مفروضو ں کی بنیاد پر اپنی بقا کا معرکہ لڑرہے ہیں ۔ فوج ہماری دشمن ،عدلیہ ہماری دشمن ،میڈیا ہمارا دشمن ،نواز شریف ہمارا دشمن ۔یہ چاروں دشمن اپنے اپنے طور پر یا باہمی اشتراک سے ہمارے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔فوج کی آنکھیں ڈال کر تو تکار کا حوصلہ ابھی پیدا نہیں ہوا لیکن باقی تینوں پر سنگ زنی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔شام ڈھلے جن کے ہوش وحواس بھی اپنی گرفت میں نہیں ہو تے ۔وہ بھی عدلیہ کو ‘‘اپنی حدوں’’ کے اندر رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ عدلیہ نے صرف ایک سطری فیصلہ کیوں نہ دیاکہ ‘‘این آر او خلاف آئین ہے’’ اور بس ۔ کیا یہ لوگ ماضی کے عدالتوں کے لاتعداد ایسے فیصلوں سے آگاہ نہیں جن میں کسی قانون کی حیثیت کا تعین کرنے کے بعد اس کے اثرات ونتائج سے تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ کیا عاصمہ جیلانی کیس میں صرف اتنا ہیا کہہ دیاگیا تھا کہ یحییٰ خان غاصب ہے۔‘‘ کیا مارشل لاؤ ں کو جائز قرار دینے والی عدالتوں نے صرف یہی کہنا کافی خیال کیا تھا کہ ‘نظر یہ ضرورت کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف کاک اقدام درست ہے’’؟کیا 31جولائی کو 280صفحات کا فیصلہ جاری کرنے کے بجائے اتنا کہہ دینا مناسب نہ ہوتا کہ ‘‘مشرف کا 3نومبر کا اقدام غیر آئینی ہے؟’’
کوئی پنجاب کو لاشیں بھیجنے کا مژدہ سنارہا ہے ،کوئی کہہ رہا ہے کہ اب کے عدالتی قتل ہوا تو پاکستان بھی نہیں رہے گا، کوئی صحافیوں کے ہاتھ کاٹنے کی دھمکیاں دے رہا ہے، کوئی ججوں کو طعنے دے رہا ہے کہ الزام لگنے پر تم نے کیوں استعفیٰ نہ دیا؟سب کچھ اس این آر او کے خلاف فیصلہ آنے پر ہورہا ہے جس کادفاع نہ پارلیمنٹ نے کیا نہ حکومت نے ۔ایک لاش ،سپریم کورٹ کی دہلیز پر پھینک دی گئی اور جج صاحبان نے تجہیز وتکفین کا حکم جاری کیا تو ماتم بپا ہوگیا۔کیا یہ طرز عمل اس جمہوری سسٹم کی بقا واستحکام کا سبب بنے گا جس کے قصیدے گائے جارہے ہیں۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/will-democracy-be-strengthened-this/d/2272