New Age Islam
Fri Mar 31 2023, 12:51 AM

Urdu Section ( 5 Oct 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

There Is One More Side To The Picture ایک رخ اور بھی ہے تصویر کا

ظفر آغا

کیا مسلمان ہونا اس ملک میں ایک گناہ ہے؟ یہ جملہ میرے کانوں میں آج بھی نہ صرف گونج رہا ہے، بلکہ مجھ کو رہ رہ کر پریشان کررہا ہے۔ دراصل یہ فقرہ گجرات انکاؤنٹر میں بے گناہ ماری جانے والی عشرت جہاں کی بہن مسرت جہاں کا ہے ، جو اس نے ابھی چند روز قبل مشہور سوشل اور سیاسی خاتون رضاکار شبنم ہاشمی کے ایک کنونشن میں بولا تھا اور یہ جملہ سن کر میرا دل بے ساختہ چاہا کہ میں کھڑا ہوکر اس سے یہ کہہ دوں کے ہاں اس آزاد ہندوستان میں مسلمان ہونا آزادی کے ساٹھ برسوں بعد بھی گناہ ہے۔ جس ملک میں عشرت جہاں جیسی معصوم لڑکی کو دہشت گردی کا تمغہ پہنا کر زبردستی گولی ماردی جایئے اور اس کی ماں بہن عشرت جہا ں کی موت کے پانچ برس بعد بھی انصاف کے لئے دردر بھٹکتی رہیں ، اس ملک میں لفظ مسلمان کسی گناہ سے کم نہیں ہوسکتا ...جہاں معصوم طالب علموں کا دل دہاڑے بٹلہ ہاؤس دہلی جیسی جگہ پر انکاؤنٹر ہوجائے اور پھر ہیومن رائٹس کمیشن پولس کی ایف آئی آر کی بنیاد پر یہ کہہ دے کہ ہاں بٹلہ ہاؤس میں انکاؤنٹر ہی ہوا تھا، ایسے ملک میں رہ رہے مسلمانوں کو اگر اپنی زندگی ایک بوجھ اور ایک گناہ محسوس ہونے لگے تو یہ کوئی حیرت ناک بات نہیں ہے، جس ملک میں نریندر مودی مسلمانوں کی کھلی نسل کشی کروا کر آئے دن انتخاب جیتتا رہے، اس ملک کے مسلمان کو اپنی زندگی اگر ایک گناہ محسوس ہوتو یہ بھی کوئی چونکانے والی بات نہیں ہوگی۔

بے شک آزادی کے بعد مودی کے گجرات تک ہندوستانی مسلمان کی زندگی اس کے لئے ایک بوجھ بن کررہ گئی ۔ ملک کا بٹو ارنہ کیا ہوا گویا مسلمان پر قہر ٹوٹ پڑا، جنہوں نے پاکستان بنوایا وہ تو چلے گئے لیکن جو اپنے وطن کی محبت میں یہیں کے ہولئے ،ہندوستان نے اس کی قدر تو چھوڑیے ،ان کو ہر قسم کی سزا کا مستحق قرار دے دیا۔ اس ملک میں رہ رہے مسلمانوں کی معاشی طور پر کمر توڑنے کے لئے 1952میں زمینداری ختم کردی گئی اور دیکھتے دیکھتے وہ نوابین ،جن کے دروازوں پر ہاتھی تھے، ان کے گھروں میں خاک لوٹنے لگی، ان کی ساری ملکیت ،زیور اور نہ جانے کیسی کیسی نایاب اشیابنیوں کے رہن کے بہی کھاتوں میں ایسے غرق ہوئیں کہ ان کا پھر کبھی پتہ نہیں چلا ۔ اوپر سے فسادات کا ایسا سلسلہ شرو ع ہوا کہ مسلمان نہ سہم کر صرف مسلم بستیوں میں سمٹ کر رہ گئے ،بلکہ اس کے محلے آہستہ آہستہ سلم میں تبدیل ہوگئے ۔نوبت یہاں تک آئی کہ پوری قوم ایک نفسیاتی خوف کا شکار ہوکر احساس کمتری میں مبتلا ہوگئی، جو رہی سہی کسر بچی تھی وہ نوکریوں کے عنقاد ہونے میں پوری کردی۔

مسلمانوں کی بے سروسامانی تو 1980کی دہائی تک ہوگئی تھی، پھر 1990کی دہائی میں بی جے پی کے عروج نے تو قیامت ہی ڈھادی۔ بابر کی سنتانوں ہندوستان چھوڑ و اور بابری مسجد ہٹاؤ ہم وہاں مندر بنائیں گے ،پھر بابری مسجد شہید کردی گئی اور وہاں ایک رام مندر بھی بنا ،یعنی بی جے پی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنا کر یہ بھی اعلان کردیا کہ اس ملک پر پہلا حق رام کا  ہے، اللہ کا نہیں ۔ یعنی 1992میں بابری مسجد شہید کر کے بی جے پی اور آر ایس ایس نے ہندوستان کو باقاعدہ ایک ہندو راشٹر کی شکل دینی شروع کردی۔ ظاہر ہے کہ اب مسلمان کے ساتھ باقاعدہ دوسرے درجے کے شہری کا سلوک ہونے لگا۔ اگر مسلمان کو دوسرے درجے کا شہری ہونے کا بھی احساس نہیں تھا تو  2002میں نریندر مودی نے مسلم نسل کشی کروا کر مسلمان کو دوسرے درجے کے شہری ہونے کا بھی احساس دلادیا اور پھر یہ عالم ہوا کہ بھرے سیمینار اور کنونشن میں مسلمان چیخ چیخ کر یہ پوچھنے لگا کہ کیا اس ملک میں مسلمان ہونا گناہ ہے؟گزشتہ 62۔60برس کے تجربے اور تاریخ تو یہی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسلمان ہونا اس ملک میں کسی گناہ سے کم نہیں ہے لیکن ٹھہریے ! یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے ،تصویر کے دوسرے رخ پر تو ہندوستانی مسلمانوں نے ابھی تک نگاہ نہیں ڈالی اور تصویر کا دوسرا رخ اگر آپ کے سامنے پیش کردیا جائے تو آپ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اگر مسلمانوں کے لئے کوئی اس سرزمین پر جنت ہوسکتی ہے تو وہ مقام محض ہندوستان ہی ہے۔ ارے دنیا میں ہندوستان جیسا کوئی دوسرا ملک ہے کہ جہاں مسلمان کو ایسی سیاسی ، سماجی اور مذہبی آزادی حاصل ہو،جیسی ہندوستان میں حاصل ہے، ابھی رمضان گزرے چند دن بیتے ہیں ۔ ہر مسجد نمازیوں سے بھری پڑی تھی ، ہر جمعہ کو سیکڑوں مسجدوں کا مجمع سڑکوں پر نماز پڑھتا تھا۔ پھر عید آئی تو ہر مسلم محلے خوشی سے جھوم اٹھے، جس غیر مسلم کو دیکھو وہ اپنے مسلمان دوست کو عید کی مبارکباد دے رہا تھا اور بغل گیر ہورہا تھا ۔بھلا پاکستان میں رہنے والے ہندو کو ہولی، دیوالی منانے کا ایسا حق حاصل ہے؟ پاکستان تو پاکستان ، سعودی عربیہ میں کوئی غیر مسلم اپنے گھر کے اندر غلطی سے بھی کسی بھگوان کی مورتی نہیں رکھ سکتا ہے۔ یہ تو ہندوستان ہی ہے کہ جہاں جو چاہے ، جس انداز میں چاہے اپنا مذہب منائے اور اپنے تہوار وں پر رنگ رلیاں منائے۔پھر کوئی اسلامی ملک ہے، جہاں مسلمان کو ایسی سیاسی آزادی حاصل ہے، جیسی کہ ہندوستان میں حاصل ہے ۔ یہ مسلم ووٹ بینک کی قوت تھی کہ جس نے متحد ہ طور پر یکجا ہو کر بی جے پی کو ایک بار نہیں دوبار پارلیمانی انتخابات میں شکست دے دی اور بی جے پی نے شرافت سے اپنی ہار تسلیم بھی کرلی ۔ ایسے ہی صوبائی سطح پر مسلمانوں نے کبھی ملائم سنگھ تو کبھی لالو یادو تو کبھی مایا وتی جیسے لیڈر وں کو طاقت دے کر ملک کا سیاسی نقشہ بد ل دیا۔ ایسی آزاد وجمہوری سیاست ساری دنیا میں مسلمان کو کہیں نصیب نہیں جیسی ہندوستان میں ان کو حاصل ہے۔

اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اس ہندوستان میں اپنی زندگی کو ایک گناہ سمجھ کر ہار جائیں اور اپنے مصائب کا روناروتے ہیں، یا پھر آپ میں اگر جمہوری سیاست کابخوبی سمجھنے کی صلاحیت ہو تو اسی ہندوستان کو اپنے لیے ایک جنگ کا مقام بنالیں ۔ وہ قوم جو ہار کر اپنی قسمت کا رونا روتی رہے ایسی قوم دنیا کے کسی کونے میں بھی ہو ،اس کے لئے زندگی ایک بوجھ اور ایک گناہ بنی رہے گی، لیکن وہ قوم جس کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی جرأت ہو ایسی قوم بدترین حالات میں بھی اپنی زندگی کو جنت میں تبدیل کرسکتی ہے اور مسلمان کوئی ایسی گئی گزرہی قوم بدترین حالات میں بھی اپنی زندگی کو جنت میں تبدیل کرسکتی ہے اور مسلمان کوئی ایسی گئی گزری قوم نہیں کہ وہ ہار بیٹھ جائے۔ آج سے کوئی ڈیڑھ سوبرس قبل تک اس ملک کی عنان حکومت مسلمان کے ہی ہاتھوں میں تھی۔ اسی مسلم قوم کے مغل بادشاہوں کے دربار میں انگریز سرجھکا کر ہندوستان میں تجارت کرنے کی اجازت مانگتا تھا۔ اسی ہندوستان کے دہلی، آگرہ اور لکھنؤ جیسے شہروں کا شمار مسلم شاہی دور میں یورپ کے شہروں سے کہیں ترقی یافتہ شہروں میں ہوتا تھا ۔ اس وقت کے مسلم گھرانوں میں دولت ٹھاٹھیں مارتی تھی اور اس کا سبب یہ تھا کہ اس دور کا مسلمان اپنی زندگی کو ایک گناہ نہیں سمجھتا تھا۔اس وقت بھی و ہ ایک اقلیت تھا اور گنتی میں آج بہت سےبہت کم تھا،لیکن اس دور کے مسلمان کو کوئی ڈر وخوف نہیں تھا اور اس کو خوف محض اس لئے نہیں تھا کہ وہ کم تھا ،وہ اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی حاکم اس وجہ سے تھا کہ اس دور میں اس میں حکومت کرنے کی صلاحیت تھی اور یہ صلاحیت اس وجہ سے تھی کہ وہ اپنے ارد گرد کے زمانے پر قادر تھا اور یہ قدرت اس نے اپنی عقل ولیاقت سے حاصل کی تھی، جو اس دور کے علوم پرمہارت حاصل ہونے سے پیدا ہوتی تھی۔

اس کے خلاف 21ویں صدی کامسلمان نہ صرف ہندوستان ،بلکہ ساری دنیا میں بے سروسامانی کاشکار ہے۔ اس کی وجہ محض یہی ہے کہ اس کو اب زمانے پر قدرت نہیں حاصل ہے۔ آج کے زمانے پر قادر ہونے کےلئے جن علوم پر پہلے قدرت ہونی چاہئے ، مسلمان ان علوم سے بے بہرہ ہے۔ وہ انگریزی کو اپنا دشمن سمجھ کر جدید تعلیم میں پسماندہ ہوگیا، اس کے مدرسوں اور علما نے تقریباً ایک صدی تک ہر سائنسی اور ٹکنالوجیکل ترقی کے خلاف فتویٰ دے کر اس کو دور حاضر کے سائنسی علوم میں بھی پیچھے کردیا۔ وہ جدید علوم سے اس قدر کٹ کررہ گیا کہ ابھی جب مدرسوں میں جدید علوم شامل کرنے کی بات ہوتی تو اس کے علمانے پھر اس کے خلاف شور وغوغا بپا کرنا شروع کردیا۔ ظاہر ہے کہ دور حاضر پر قدرت تو کیا وہ دور حاضر کے علوم میں پچھڑ کردنیا کی ایک پسماندہ قوم ہوکر رہ گیا۔ زندگی کی دوڑ میں جو پچھڑگیا، اس کو پھر ہر کوئی دبا لیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہی مسلم اقلیت جو کبھی اسی ہندوستان میں حاکم تھی ، اب اسی مسلم اقلیت کو اپنی زندگی گناہ لگی۔ بے شک اس ہندوستان میں آپ نے ہر قسم کے مظالم کو برداشت کیا اور آپ کو زندگی جہنم لگنے لگی،لیکن اسی جمہوری ہندوستان میں آپ کے لئے وہ مواقع بھی ہیں کہ آپ چاہیں تو اپنی زندگی جنت میں تبدیل کرلیں، اس لئے رونا چھوڑ ئیے او راپنی زندگی اپنی کاوشوں سے خوش وخرم کرلیجئے اور پھر دیکھئے یہ ہندوستان کیسا جنت مقام ہے۔ شرط یہ ہے کہ زمانے کو ویسے ہی مٹھی میں کرلیجئے ، جیسے کبھی مغل دور میں زمانہ آپ کی مٹھی میں تھا اور یہ تب ہی ممکن ہوگا،جب آپ جدید تعلیم کو اپنی مٹھی میں کرلیں گے اور تب ہی آپ کو آپ کی زندگی ایک گناہ نہیں محسوس ہوگی۔

Zafar_agha@yahoo.co.in

URL: https://newageislam.com/urdu-section/there-one-more-side-picture/d/1856


Loading..

Loading..