سیگرڈ نوکل
31 مئی، 2013
ہم جن ماحولیاتی مسائل سے دو چار ہیں وہ صنعتی ترقی اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں اور اس طرح انہیں وجود میں آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۔ دوسری طرف اسلامی مآخذ ات ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پرانے ہیں اور یکسر مختلف سیاق و سباق میں پیش کئے گئے ہیں۔ چنانچہ افراد اور ماحول کے درمیان تعلق کے اعتبار سے ہم صرف ان خیالات پر بات کرسکتے ہیں جو عمومی نوعیت کے ہیں۔
کچھ اصطلاحات ایسی ہیں جو ہم تک اسلام کے توسط سے پہنچی ہیں مثلاً ‘‘فطرت ’’ جو حقیقی فطری ترتیب میں تخلیق کے بارے میں ہے ، ‘‘ توحید’’ یعنی تخلیق کی وحدانیت جو ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات میں تمام اشیاء ایک دوسرے سے مربوط ہیں، اور چونکہ وہ سب خدا کی نشانیاں ہیں اس لئے سبھی یکساں اہمیت اور قدرو قیمت رکھتی ہیں اور اس قابل ہیں کہ ان کی حفاظت کی جائے۔ اسی طرح ‘‘ میزان’’ یعنی توازن ہے، جو مخلوقات میں مکمل نظم و ضبط قائم ہونے کی حالت ہے جسے بر قرار رکھنا یا بحال کرنا لازم ہے ۔ ان کے علاوہ ‘‘ خلافۃ ’’ کا تصور بھی ہے جو انسان کو ساری خلق کے متولی اور امین کا کردار سونپتا ہے ۔ خلق خدا میں تنظیم قائم رکھنا بنی نوع انسان کی ذمہ داری ہے۔ زمین کے ثمرات سے لطف اندوز ضرور ہوا جائے لیکن اس کے وسائل بے دردی سے ضائع نہیں ہونے چاہئیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابتدائی دور کے مسلمانوں کی باتوں اور افعال سے بھی ایسی مثالوں کا پتہ چلتا ہے جو تحریک دیتی ہیں کہ ہمیں قدرتی و سائل کے استعمال میں احتیاط او رکفایت سے کام لینا اور اپنے جانوروں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی چاہیئے ۔ یہ باتیں بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ماضی میں مسلم خطّوں میں ایسے قوانین اور ضوابطہ نافذ رہے ہیں جنہیں فطرت اور جنگلی حیات کے تحفظ کے طریقے سمجھا جاسکتا ہے۔ اب انہی ضوابط کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں جو ‘‘ حریم ’’ اور ‘‘ ہمۃ’’ کے نام سے قائم کئے گئے علاقوں پر لاگو ہوتے تھے۔ یہ چشموں او رندی نالوں کے ارد گرد قائم حفاظتی علاقے تھے جن میں کوئی بستی آباد کرنے وغیرہ جیسا کام کرنے کی اجازت نہیں تھی تاکہ پانی کو آلود ہونے سے بچایا جائے ۔
ماحولیاتی تحفظ میں مسلمانوں کی دلچسپی :
زیادہ تر مسلمان مذہب اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان تعلق سے نا آشنا ہیں۔ البتہ وہ اس سے ذرا زیادہ عمومی انداز میں واقف ہیں۔ میونخ میں قائم اسٹفٹنگ انٹر کلچر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام آج کل ایک چھوٹا سا سروے کیا جارہا ہے جس میں ابھی تک ملنے والی آراء یہ ثابت کرتی ہیں کہ مذہب کو سنجیدگی سے لینے والوں کا کہنا ہے کہ مذہب ان سے فطرت کا احترام کرنے کا تقاضہ کرتا ہے جس سے انہیں اپنی روز مرّہ زندگی میں اس ہدایت پر عمل کرنے کی ترغیب ملتی ہے، وہ سر سبز علاقوں کی حفاظت میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں ، لوگوں کو پانی یا خوراک کا کفایت شعاری سے استعمال کرنے پر اکساتے ہیں یا جو کچھ بھی وہ استعمال کریں اس کے بارے میں سوچ بچار کر نے کو کہتے ہیں ۔تاہم مسلمانوں کو ماحولیات کے بارے میں آگہی دینے کے لیے کوئی جامع عملی مطالعات دستیاب نہیں ہیں ۔ انہیں ابھی تک اس سیاق و سباق سے تعلق رکھنے والا گروپ سمجھا ہی نہیں گیا، یا پھر ایسا گروہ سمجھا جاتا ہے جو اس طرح کے موضوعات کی پہنچ سے باہر ہے۔
یورپ میں ماحولیاتی اسلام کا پروجیکٹ :
اس حوالے سے معروف ترین اداروں میں سے ایک برٹش فاؤنڈیشن فار ایکو لوجی اینڈ انوائز نمینٹل سائنسز ( آئی ایف ای ای ایس) ہے۔ یہ ایک منظور شدہ این جو او سے جو بین الاقوامی سطح پر فعال تنظیم مذاہب اور تحفظ کے اتحاد ( اے آر سی) کا ذیلی ادارہ ہے، جس کے ساتھ مل کر اس نے افریقہ میں ساحلی علاقوں کے تحفظ کے اقدامات پر بھی کام کیا تھا ۔اس اقدامات اور برطانیہ میں اپنی سر گرمیوں کی بنا پر یہ ادارے ذارئع ابلاغ میں ‘‘ ماحول دوست اسلام’’ کا تصور کامیابی سے اجاگر کرنے میں مدد گار ثابت ہورہے ہیں۔ یہ ادارے پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ تیار کردہ اپنے نیوز لیٹر ‘‘ ایکو اسلام’’ میں اسلامی اور ماحولیاتی بحث اور افکار کا متاثر کن امتزاج پیش کرتے ہیں۔ اس نیوز لیٹر میں ماحولیات کے عالمی موضوعات کے علاوہ روز مرّہ زندگی او رعملی نوعیت کے مسائل پرمہارت سے لکھے گئے مضامین شائع کئے جاتےہیں ۔
مسلمانوں کی ذمہ داریاں :
ایسا لگتا ہے جیسے مسلمانوں کو ابھی مذہب او رماحولیات کے درمیان تعلق کو مزید واضح طو رپر سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ دونوں بالکل مختلف چیزیں ہیں ، جنہیں وہ اب تک ایک دوسرے کے قریب نہیں لا پائے ۔ ممکن ہے کہ ‘‘ ماحول دوست اسلام’’ جیسی کوئی تحریک نئے خیالات اور تصو رات سامنے لانے کا مؤجب بن جائے اور لوگوں کو اس قابل بنادے کہ وہ ماحولیاتی مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھیں او راپنے طرز زندگی اور روز مرّہ عادات کو نئے انداز ِ فکر کے ساتھ دیکھنے لگیں۔
لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے ساتھ مساجد یا مسلم گروہوں کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔ ہم ان لوگوں کی بات کررہے ہیں جو عموماً یہ محسوس نہیں کرتے کہ ان معاملات کا ان سے کچھ لینا دینا ہے۔ ان لوگوں میں ماحولیات پر گفتگو اپنی جگہ بنا سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ ماحولیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے دیگر گروہوں اور اداروں کے ساتھ نیٹ ورکنگ بھی ممکن ہے ۔ اس سے تحفظ ماحولیات کی تحریک ایک قدم مزید آگے بڑھے گی ۔
ماحولیات ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہر شخص کو ، چاہے مرد ہو یا عورت ، خود اپنے فائدے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ پھر ماحولیاتی اور موسمیاتی تحفظ کی بات محض بھیڑ چال نہیں رہے گی بلکہ روحانی معاملہ بن جائے گا۔
31 مئی ، 2013 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/environment-friendly-islam-/d/11879