سید نیاز احمد راجہ
26 اکتوبر، 2012
غور کیجئے کیا ہمارے حالات
ایسے ہی نہیں ہیں؟ اور کیا ان ہی حالات کی وجہ سے دشمن قومیں ہم پر حاوی نہیں ہورہی
ہیں؟ ہماری تعلیم و تبلیغ کی بنیاد صرف معرفت الی اللہ ہےیہی اس کی روح ہے اور یہی اس کا مغز ہے۔ باقی چیزیں
تو اس شجر کے برگ وبار ہیں!
آخری بات:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام
میں تعلیم و تعلم کا مقصد انسانوں کو رشد و ہدایت سے ہمکنار کرنا ہے، اس لئے پوری دنیا
میں پھیلے مدارس خالق کائنات کے اس بنیادی مقصد کی تکمیل کے لیے سرگرم عمل ہیں ، اس
کے برعکس لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کا مقصد صرف دنیا بنانا ہے جیسا کہ انہوں نے اپنے
نفاذ تعلیم کے وقت ہی اعلان کردیا تھا کہ اب وہی لوگ دنیا میں کامیاب و کامران رہیں
گے جو اس نظام تعلیم کے مطابق تعلیم حاصل کریں گے، ظاہر ہے جس نظام کا مقصد تعلیم صرف
دنیا حاصل کرنا ہوگا تو وہ یقینی طو رپر زمین میں فساد کا ہی سبب بنے گا ،جیسا کہ آج
ہم سب کے سامنے ہے۔ دنیا پرستی نے لوگوں کاک امن و سکون چھین لیا ہے جبکہ مال و دولت
اور ہر طرح کاسامان عیش و افر مقدارمیں ہر فرد کے پاس موجود ہے۔ اسلام ایک مکمل ایسا
نظام حیات ہے جو دین و دنیا دونوں میں ہی انسان کو سرخرو دیکھنا پسند کرتاہے۔
لارڈ میکالے کے تعلیمی مشن
اور اسلامی نظام تعلیم میں حق و باطل کا فرق ہے۔ میکالے نظام جزوی ہے اور اسلامی نظام
کلی ہے ۔ اسلام کا دیباچہ تعلیم لاالہٰ ہے جو تمام معبود ان ِ باطل کے خلاف بغاوت کا
انقلابی نعرہ ہے ۔ یعنی نفس پرستی ، غلط رسم ورواج ، نظام طاغوت جو انسانوں پر اپنی
بندگی اور فرماں برداری کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ ان تمام معبودوں کو اسلامی نعرۂ لا
الہٰ اکھاڑ پھینکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ انسان میں جو خواہش نفس رکھی گئی
ہے وہ سب سے پہلے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اُس کو خوش رکھا جائے، اس کا ہر مطالبہ صحیح
ہویا غلط پورا کیا جائے۔بلا چوں چرا اسے قبول کیا جائے۔ اور اس پر عمل کیا جائے ، اسی
کونفسِ امارہ کہتے ہیں جو ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے ۔
انسان جب نفس کی تابعد اری
کرنے لگتا ہے تو وہ نفس کو ہی اپنا الہٰ تسلیم کر لیتا ہے ، چنانچہ جن لوگوں نے دنیا
کی زندگی میں خواہشات نفس کی پیروی کی وہ آخرت میں شفیع المذنبین کی شفات سے بھی محروم
رہ جائیں گے۔غور کیجئے ۔ میکالے کے نظام تعلیم اور اسلامی تعلیم کے بنیادی مقصد میں
کتنا فرق ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اللہ کے اسی پیغام حق کو عام کرنے کے لیے ہر دور میں
جا بجا مسجدیں اور قریہ قریہ مدارس کا جال بچھا یا، اور ان کے ذریعہ ہی باطل قوتوں
کے نظاموں کا منہ توڑ جواب دیا، یہ سلسلہ اللہ کے رسول کے دور سے آج تک جاری ہے اور
انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گاپ۔ اسلام کے اسی نعرہ ٔ لا الہٰ کے قیام اور اس کی
سربلندی کے لیے علماء حق اور صلحا دین نے اپنی قیام گاہوں اور خانقاہوں تک کو عالم
انسانیت کی بھلائی اور تشنگان علم و عرفان کی سیرابی کے لیے وقف کردیا ہے، یہ خانقاہیں
اور خانقاہی سلسلے رواں دواں سمندر کی مانند تمام عالم کو ہی اپنے فیض و برکات سے سیراب
کررہے ہیں۔یہ وہ مراکز ہیں جہاں ظاہری پاکی سے کہیں زیادہ باطنی پاکی پر دھیان وگیان
دیا جاتا ہے ۔ یہ وہ سرچشمے ہیں جہاں انسانی زندگی کے ہر شعبے کی آبیاری ہوتی ہے،
جب جب بھی دینی تشنگی کی وجہ سے ملت میں کمزوری آئی ہےیہی وہ مرکزی ادارے ہیں جنہوں
نے اس میں نئی روح پھونکی ہے ۔ انہی مراکز کی فکر مندیوں نے ہی نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں
بلکہ پورے عالم کو ہی چاہے وہ عرب ہوں یا عجم ، سب کو ہی راہِ ہدایت دکھائی ہے ۔ یہی
وہ درگاہیں ،درس گاہیں اور خانقاہیں توہیں جن کے وسیلے سے ہم تک یہ وسیع ہدایت روشن
ہے ، اور جیسے تیسے ہی سہی آج بھی دورِ ظلمات کےلیے روشنی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اب
آئیے چلتے ہیں اس سرچشمہ کائنات کی طرف ،اس آبجوئے حیات کی طرف جہاں قال اللہ وقال
الرسول کے مستانے لا الہٰ الااللہ اور محمد رسول اللہ کے جام سے سرشار ہیں۔ جہاں کی
راتیں راہِ حق کی مستانوں سے منور ہیں، جہاں کے دن خلقِ خدا کے لیے شاہِ راہ ہیں ۔
جہاں کی فضائیں عنبر یں ، جہاں کی ہوائیں مشک بار اور جہاں کی گھٹائیں شبنمی شبنمی
ہیں۔جہاں کے زمزمہ ٔ لا الہٰ الا اللہ اور ترانہ ٔ محمد رسول اللہ کی گونج سےعرش و
فرش لرز اٹھتے ہیں ۔ جہاں اللہ کے مہمانوں پر نور کی بارشیں ہوتی ہیں۔ جہاں نیکیوں
کی فصلیں اُگتی ہیں جہاں فرشتے اللہ والوں پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور جہاں نور سحر
پر ندوں کی چہچہاہٹ سے گونج اُٹھتی ہے۔ یہ وہ جادہ و منزل ہے ، یہ وہ منبع علم و حکمت
ہے جہاں خالق کائنات اور تخلیق کائنات کے تمام
راز و رموز پر غور و فکر کی ترغیب بھی ملتی ہے اور بہت کچھ پا لینے کی تڑپ بھی ۔ یہ
وہ چشمہ ہے جہا ں دنیا بھرکے پیاسے اپنی پیاس
بجھانے کے لیے پرندوں کی طرح پرَپھیلائے اترتے ہیں اور سیراب ہو ہو کر جب وہ اپنے اپنے
ٹھکانوں پر پہنچتے ہیں تو وہ اوروں کو بھی اس در تک پہنچا نے کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔
یہ نہ کسی ماؤنٹ بیٹن کے فتنو ں کی کمین گاہ ہے نہ ہی کسی لارڈ میکالے کی خواہش نفس
کی تعلیم گاہ۔ یہ تو عالم انسانیت کے لئے رشد و ہدایت ، محبت و اخوت کی وہ درس گاہ
ہے جس کی اصل بنیاد آج سے جس کی بنیاد ڈیڑھ ہزار سال قبل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے دور میں قائم ہوئی ۔ یہ سلسلۃ الذہب ہے جس کی کڑی مدرسہ مفتاح العلوم ہے اور
عالم اسلام کی برگزیدہ شخصیت حکیم الامت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ
اللہ علیہ کے ہاتھوں 1336 ہجری میں جلال آباد تھانہ بھون ، ضلع مظفر نگر عمل میں آئی
۔ جو تقویٰ ، ایثار و خلوص کی اپنی مثال آپ ہے۔
حکیم الامت ،مجد دملت حضرت
مولانا شاہ محمد اشرف تھانوی نور اللہ مرقدہ نے اپنی پوری زندگی تصوف و سلوک اور شریعت
و طریقت پر گزاری ۔ علاوہ ازیں ان کا سب سے اہم کام عرصہ دراز سے متروک تصوف و سلوک
کو اپنی مجد دانہ صلاحیتوں سے آسان سے آسان اور سہل سے سہل بنا کر لاکھوں فرزندان
توحید کو روحانی غذا کافر اہم کرنا ہے۔ انہوں نے اپنی خانقاہ اور مدرسہ مفتاح العلوم
کی کلید سب سے پہلے ایسے درنا یاب کو سونپی جس کے بارے میں وہ خود فرماتے ہیں ۔ ‘‘عیسیٰ
او رمسیح دونوں سب سے آگے بڑھ گئے ، وہ میرے ان گیارہ خلفاء میں ہیں جو مجھ سے زیادہ
شفیق ہیں ’’ ۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے فیض صحبت کی جو عظیم جماعت کی جو عظیم
جماعت تیار ہوئی ان میں حضرت مسیح الامت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب آبادی کی شخصیت
علم ،عمل ، تقویٰ ، روحانیت ،اخلاص، مروّت
وللہیت میں ایک مثال شخصیت تھی، ان کے مرید ین ، معتقدین اور مستفیدین کی کثیر تعداد
دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔جو سلف و صالحین کی پاکیزہ روایات کو عام کرنے کےفرائض
بھی انجام دے رہی ہے۔ آپ کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مجمع عام
میں فرمایا کہ میرے جی میں آتا ہے میں وہ بات کیوں نہ کہہ دوں اور میں سب کے سامنے
صاف صاف کہتاہوں کہ مولوی مسیح اللہ صاحب سے مجھے محبت ہے ‘‘ حضرت حکیم الامت کے بعض
خلفاء بھی اس جلسہ میں شریک تھے انہوں نے حضرت حکیم الامت کی زبان سے یہ الفاظ سن کر
طے کرلیا کہ آج سے ہم کو بھی مولوی مسیح اللہ سے محبت ہوگئی ۔حکیم الامت کے مولوی
مسیح اللہ کے بارے میں مذکورہ ملفوظات سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکیم
الامت اور مسیح الامت میں ایک دوسرے سے کس حد تک قلبی لگاؤ او رمحبت تھی۔ لہٰذا یہ
کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ بظاہر یہ دو جسم تھے مگرروحانیت کے ایک قالب تھے ۔ مولانا
مسیح اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد ان کے اکلوتے فرزندارجمند مولانا صفی اللہ
صاحب ( بھائی جان) نے 1992 میں خلافت کا شرف حاصل کیا اور اپنی عمر کے آخری لمحات
تک سلسلہ ٔ تھانوی کی پاسبانی کی۔ وہ اپنے والد محترم کے معرفت ، زہد وتقویٰ اور ارشاد
سلوک میں سچے امین و جانشین تھے ۔ اور سرچشمہ ٔ علم و روحانیت کے شاہ کلید مفتاح العلوم
کی نظامت کے فرائض کی ادائیگی میں نمایاں رول ادا کیا۔ ان کے نام وکام میں بڑی یکسانیت
پائی جاتی ہے، نیکی و تقویٰ کی زندگی انہیں وراثت میں ملی ہوئی تھی ، انہیں ہر طبقہ
میں یکساں عزت ووقار اور قدر و منزلت حاصل رہی ، اور وہ اس عظیم اثاثے کی اپنے آخری
دم تک حفاظت بھی کرتے رہے۔ زندگی کے آخری چند برسوں شدید علیل رہے اور 2 مارچ
2012 بروز جمعہ اس دار فانی سے دارلبقا ء کو لبیک فرمایا۔ اللہ تعالیٰ انہیں بلند درجات
سے نوازے آمین۔ مولانا صفی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے بعد آپ کے صاحبزادگان مولانا صفی
اللہ (ناظم اعلیٰ) اور قاری ولی اللہ (نائب ناظم) نے اس کا رہائے عظیم کو سنبھال رکھا
ہے، ناظم اعلیٰ مولانا صفی اللہ نے بھی اپنے پیشرؤں کی زندگیوں کو ، صلحائے امت کی
سیرت کو اپنے لیے آئیڈیل قرار دے رکھا ہے اللہ تعالیٰ انہیں بھی وہ تمام خوبیاں اور
صلاحتیں و دیعت فرمائے جو سلسلہ ٔتھانوی میں بدرجہ اتم موجود تھیں تاکہ محترم حفی اللہ
بھی دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں اسی طرح اعلیٰ مقام حاصل کرسکیں جس طرح ان کے بزرگوں
کو حاصل تھیں۔ مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد اس دور کا وہ منفرد اور تنہا ادارہ ہےجہاں
عوامی چندہ کا دھندہ نہیں ہوتا بلکہ ہمدردان ملت اور مخلصین ملت کے چند ثروت مند لوگوں
کے تعاون سے ہی کامیابیوں کی منزلیں طےکرتا آرہا ہے ۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک انشاء
اللہ قائم رہے گا جب تک کہ اس کے کلید برداروں
میں نیک نیتی اور اخلاص باقی رہے گا ۔ اللہ رب العزت اس ادارے کو قائم و دائم رکھے
آمین ۔بہرحال آج کے دورِ ظلمات میں علمائے حق اور صوفیائے رہانیین کا وجود خواہ کتنا
ہی قلیل کیوں نہ ہو اسے اللہ کی حکمت و مشیت ہی کہی جائے گی ۔ ہمیں یقین ہے اللہ تعالیٰ
اپنے دین کو جب تک اس دنیا میں قائم رکھنا چاہے گا اس کے خاص بندے بھی ہردور میں پیدا
ہوتے رہیں گے اور حق کا سفینہ یوں ہی رواں دواں رہے گا۔
26 اکتوبر ، 2012 بشکریہ :
روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/madrasas-repositories-knowledge-wisdom-/d/9228