سید منصور آغا
22 نومبر ، 2012
جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے
فاضل جج حسنین مسعودی نے اپیل محمد نسیم بھٹ بنام بلقیس اختر میں نصوص شرعیہ کے حوالے
سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شریعت نےاپنی بیوی کو طلاق دینے کا جو اختیار اس کے شوہر
کو دیا ہے وہ ‘مطلق’ (absolute) نہیں ہے۔ اپنے فیصلے کے آغاز میں لائق جج نے اسلام میں عقد نکاح
کی حقیقت بیان کی ہے اور پھر طلاق کے طریقو ں کا ذکر کیا ہے او رکہا ہے کہ طلاق احسن
ہی وہ طریقہ ہے جس کو قرآن سے سند جواز approval حاصل ہے ۔ طلاق احسن اور حسن دونوں رجعی ہیں۔ ان
میں یہ گنجائش رہتی ہے کہ ایک مقررہ مدت میں مرد اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر لے اور
چاہے تو بیوی سے رجوع کرلے تاکہ خاندان ٹوٹنے سے بچا رہے ۔ یہ ذکر پہلی قسط میں آچکا
ہے ۔ اس کے بعد جسٹس حسنین مسعودی نے اس شرائط کا احاطہ کیا ہے جن کی پابندی قرآن
اور سنت کی رو سے کی جانی چاہئے ۔ لکھتے ہیں
:
طلاق غیر رجعی کی صورت میں
، جس میں شوہر دو مرتبہ یعنی لگا تار دو طہر کے دوران طلاق دیتا ہے اور اس کے بعد بیوی
کے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کرتا ہے یا تیسری مرتبہ طلاق دے دیتا ہے یعنی تین طلاق دیتا
ہے یاطلاق کا کوئی اور طریقہ اختیار کر کے طلاق غیر رجعی نافذ کرنے کا عندیہ ظاہر کرتا
ہے تو ایسی صورت میں وہ اس عورت سے دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا ۔ قرآن پاک سورہ البقرہ
کی آیت 230 میں کہتا ہے : اگر ( دوبار طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار)
طلاق دے دی تو پھر وہ اس کیلئے حلال ن ہوگی، الایہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے
ہو اور وہ اسے طلاق دیدے ۔ تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ اللہ
کی قائم کی ہوئی حدود پر قائم رہیں گے تو ان کیلئے ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لینے میں
کوئی مضائقہ نہیں ’’ طلاق احسن کی صورت میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن کیونکہ طلاق
بدعی کا طریقہ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے ، بحث اسی طریقہ طلاق تک محدود رہے گی۔
اگر چہ اسلام اس امکان کو
نظر میں رکھتا ہے کہ زوجین کے درمیان نا قابل عبور وجودہ سے کوئی ایسی صورت پیدا ہوسکتی
ہے جس میں رشتہ مناکحت خطرے میں پڑجائے ، چنانچہ وہ ایسی ناگریز صورت میں فسخ نکاح
کیلئے ایک متعین طریقہ کار تجویز کرتا ہے لیکن اس میں بھی شادی کو بچانے کی ہر ممکن
تدبیر پر زور دیتا ہے ۔چنانچہ اسلام چاہتا ہے کہ فریقین یہ سمجھیں کہ شادی کا تانہ
بانا باہم انس و محبت ، و فاشعاری ، فکر مندی، باہم سمجھ بوجھ اور رعایت پر قائم ہے
اور اختلافات کوانہی اصولوں کے تحت دور کیا جانا چاہئے ۔ طلاق کا راستہ صرف اسی صورت
میں اختیار کیا جاناچاہئے جب تعلق اس حد تک ٹوٹ گیا ہو کہ کوئی دوسرا راستہ بچا ہی
نہ ہو اور صورت یہ پیدا ہوگئی ہو کہ فریقین او رمعاشرے کے مفاد میں یہی ہوکہ ان میں
علیحدگی کرادی جائے تاکہ وہ دونوں نئی زندگی شروع کرسکیں ۔ اس میں بھی فریقین ، خاندان
اور سماج کا بھلا ہی پیش نظر ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اسلام اس وقت تک طلاق کے سخت خلاف
ہے جب تک علیحدگی کےسوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا ہو۔
طلاق سے متعلق قرآن کے احکامات
اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ سے یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی شریعت میں طلاق کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے
اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ شوہر کے طلاق دینے کے عمل کو مشکل اور طویل بنایا جائے ۔
دوسری طرف فریقین کے درمیان شکوے و شکایات کو دور کرنے اور ان میں صلح صفائی کی ہر
ممکن تدبیر اختیار کی گئی ہےؤ سورہ الطلاق (65) کی آیت ایک اور دو میں (جن کا ذکر
بعد میں آئیگا ( طلاق پر کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور یہ یقینی بنایا گیا ہے
کہ ایسی صورت پیدا کی جائے جس سے میاں اور بیوی کے درمیان ہموار پیدا ہوسکے۔ چنانچہ
(ایک یا دو) طلاق کے باوجود بیوی کو اسی گھر میں رہنا ہے ۔ شوہر کو حکیم دیا گیا ہے
کہ اس کو گھر سے نکالا جائے تاکہ وہ شوہر کے سامنے رہے کہ ممکن ہے اس کو رغبت پیدا
ہو اور وہ اپنے فیصلے پر مکرر غور کر کے بیوی سے رجوع کرلے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘‘جبر ئیل علیہ السلام نے بیوی کے اتنے حقوق مجھے بتائے اور اس
حد تک تلقین کی کہ میں یہ سمجھا ہوں بجز زانیہ، بیوی کو طلاق نہ دی جائے ۔’’ امام جعفر
صادق رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کےاللہ کے نزدیک اس گھر سے اچھا کوئی گھر نہیں جس میں
زوجین میں اتفاق و محبت ہو، اور اس سے بد تر کوئی گھر نہیں ، جس پر اللہ کا غضب نازل
ہوجس میں عقد نکا ح کو طلاق سے کاٹ دیا جائے ۔ ‘‘ امام صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
’’ ، قرآن میں طلاق کا ذکر کئی جگہ آیا ہے اور یہ کہ طلاق کی تفصیلات کے بیان کے
اس قدر اہتمام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مسئلہ پر قرآن پاک میں کتنی اہمیت دی گئی ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ طلاق کا دشمن ہے
۔’’ ‘‘ المکارم الاخلاق ’’ میں طبرسی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے ، ‘‘نکاح
کرو مگر طلاق مت دو، طلاق سے عرش الہٰی کانپ اٹھتا ہے ۔’’ ابو داؤد ، کتاب السنہ میں
ایک دوسری حدیث میں منقول ہے ، ‘‘ حلا ل چیزوں میں اللہ کی نظر میں طلاق سے زیادہ نا
پسندیدہ کوئی چیز نہیں ۔ ‘‘ اور حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘‘ جو
شخص بار بار طلاق دیتا ہے وہ اللہ کی نظر میں دشمن ہے ’’ ۔ جلال الدین رومی رحمۃ اللہ
علیہ نے ایک حدیث نبوی کے حوالے سے لکھا ہے ، ‘‘ جہا ں تک ہوسکے طلاق سےبچو، طلاق میری
نظر میں سب سے نا پسندیدہ عمل ہے ۔’’
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ اُم ایوب
کو طلاق دینے کا ارادہ کرچکے ہیں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ طلاق
کی کوئی معقول وجہ نہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ‘‘بیشک اُم ایوب کی
طلاق ایک بڑا گناہ ہے ’’۔ چنانچہ طلاق دینے کے حق یا اختیار کا استعمال بلاجواز حقیقی
یونہی غصہ میں یا من چاہے نہیں ہونا چاہئے ۔مسلم شادی او رطلاق اور خاندانی معاملات
سے متعلق شرعی ماخذات ، قرآن او رسنت کے اس
سرسری مطالعہ سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ شریعت نے شوہر کو طلاق کا حق دیا ہے مگر
یہ حق قطعی ، بلا جواز اور غیر مشروط نہیں ہے۔ اس نظریہ کی مزید توثیق سورہ نساء کی
آیت 35 سے ہوتی ہے ۔‘‘ او راگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے
کا اندیشہ ہوتو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں
سے مقرر کردو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال
دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔’’ ( 35:4)
چنانچہ قرآن حکم دیتا ہے
کہ جب بھی زوجین کے درمیان غصہ گرمی یا نا چاقی ہو تو ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ مرد
طلاق کا حق استعمال کر کے شادی کے اس بندھن کو توڑ ڈالے جس میں کچھ ناہمو ار ی پیدا
ہوگئی ہے۔ اس تنازعہ کے حل کاپہلا قدم قرآن یہ بتاتا ہے کہ ایک حَکَم شوہر کے خاندان
سے اور دوسرا بیوی کے خاندان سے مقرر کیا جائے اور ان کو اتنی مہلت دی جائے کہ وہ تنازعہ
کے حل کی ہر ممکن کوشش کرسکیں اور اس کے بعد کوئی فیصلہ دیں۔ اور امید یہ کی جاتی ہے
کہ حَکَم جو بھی فیصلہ دیں گے، اس کو دونوں فریق قبول کریں گے ۔ یہ اہم بات قابل غور
ہے کہ قرآن نے ‘حَکَم’ (arbiter) کا لفظ استعمال کیا
ہے ، ثالث (mediator) کا نہیں ۔ چنانچہ ان کو محض ثالثی ہی نہیں کرنی ہے بلکہ تنازعہ کو
حل کرنے کیلئے بصورت منصف حُکم بھی صادر کرنا ہے اور یہ امید کی گئی ہے فریقین ان کے
حکم پر عمل کریں گے۔ یہ بات اہم ہے کہ حَکَم کی تقرری کے حکم کے ساتھ (اگلی آیت میں
) ہی قرآن نے یاد دلا دیا ہے ، ‘‘اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار
میں مغرور ہو، اور اپنی بڑائی پرفخر کرتا ہو’’ (النساء :36) یہ اس بات کی تلقین ہے
کہ فریقین سرکشی اور خود سری اختیار نہ کریں اور اس فیصلے یا مشورے پر عمل کریں جو حکم دیں۔ (مغروریت
اور تکبر کی روش پر اس اظہار نا پسندیدگی ساتھ اسی آیت مبارکہ (63) کے ابتدائی حصہ
میں یہ حکیمانہ نصیحت بھی فرمائی گئی ہے:‘‘ اللہ کا کہا مانو، اس کے (حکم کے ) ساتھ
کسی اور (کے حکم کو ) شریک نہ کرو، ماں باپ کے ساتھ بھلا برتاؤ کرو، قرابت داروں او
ریتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور پڑوسی رشتہ دار ، اجنبی، ہمسایہ سے
،پہلو کے ساتھی سے اور مسافر سے، ان عورتوں مردوں سے جو تمہارے قبضے میں ہیں احسان
کا معاملہ رکھو ’’۔ اس تلقین کی روشنی میں جو عورت نکاح میں آئی اور جس نے برضا ورغبت
خود کو مرد کے حوالے کیا، بدرجہ ہاحسن سلوک کے حقدار ہے ۔ مترجم)
قرآن حکم دیتا ہے : ‘‘اے
نبی جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی مدت کیلئے طلاق دیا کرو، اور عدت کے
زمانے کو ٹھیک سے شمار کرو، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا تب ہے ( زمانہ عدت میں) نہ تم
ان کو گھروں سے نکالو او رنہ وہ خود نکلیں ، الا یہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں۔
یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے
اوپر خود ظلم کرے گا ، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی ) کوئی صورت پیدا
کردے ۔پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدّت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا تو انہیں بھلے طریقے
سے (اپنے نکاح میں ) روکے رکھو یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہو جاؤ ۔ اور ویسے آدمیوں
کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں۔ او رگواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کیلئے ادا کرو۔
یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ہر اس شخص کوجو اللہ اور آخرت پر
ایمان رکھتا ہو، جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہو ئے کام کرے گا، اللہ اس کیلئے مشکلات سےنکلنے
کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق (سامان زندگی، آسائش ) دیگا
، جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔(2،1:36)
سورہ طلاق کی یہ ابتدائی آیات
طلاق کے اختیار پر کچھ پابندیاں عاید کرتی ہیں۔ ان آیات کے بموجب مرد کے پاس طلاق
کی معقول وجہ ہونی چاہئے ۔ مقررہ مدت (طہر) میں ہی طلاق دینی ہے اور اس کا اعلان ایام
ماہواری کے بعد قبل اس کے کہ اس سے ہم بستر ہوا ہو، کیا جائے گا۔اگر اس مدت طہر میں
ہم بستری ہوگئی تو مرد کو طلاق کیلئے عورت کے آئندہ ماہواری سے فراغت کاانتطار کرنا
ہوگا۔ ایک شرط یہ ہے کہ طلاق دو انصاف پسند خدا ترس گواہوں کی موجودگی میں دی جائے
گی ۔ قرآن اور سنت نے جو طریقہ مقرر کردیا ہے ، اس سے تجاوز یا اختلاف کی کوئی گنجائش
نہیں ۔ یہ طلاق احسن ہے ۔ سورہ طلاق کی محولہ بالا آیات میں اور قرآن اور سنت میں
جہاں کہیں بھی طلاق کاذکر ہے ، وہ طلاق احسن ہی ہے ۔ اس رائے پر پہنچنے کی کوئی وجہ
نہیں ہے کہ طلاق کے سب سے زیادہ منظور شدہ (approved) طریقہ کار میں مذکور
شرائط کو طلاق کی انتہائی نا پسند دیدہ او رمذموم قسم طلاق بدعی پر نافذ کیا جانا چاہئے
۔ اس رائے کے برخلاف طلاق بدعی پر شرائط مذکورہ بالا کا سختی سے نفاذ مطلوب ہے۔
طلاق کو قانوناً درست اور
قرآن و سنت کے مطابق ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ مدّت طُہر ( ماہواری ختم ہونے کے
بعد بغیر اس کے کہ اس کے بعد خلوت کی ہو) دی جانی چاہئے ۔ علاوہ ازین یہ کہ اگر شوہر
ایام ماہواری کے بعد بیوی سے ہم بستری کر لیتا ہے تو اس کیلئے اس مُدّت طُہر میں طلاق
دینا ممنوع ہے۔ اب اگر وہ اپنے طلاق کے ارادہ پر قائم ہی رہتا ہے تو اسے اگلی ماہواری
کے ختم تک رکنا پڑے گا۔ اس قانونی پوزیشن کی تائید حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
کے کیس سے ہوجاتی ہے جس کو سبھی کتب احادیث نے نقل کیا ہے۔ روایت کیا گیا ہے کہ حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ محترمہ امینہ بنت غفار رضی اللہ عنہ کو ایام
ماہواری کے دوران طلاق دیدی ۔ حضرت عبداللہ
رضی اللہ عنہ کے والد جناب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اس کی اطلاع رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اپنی بیوی
سے رجوع کریں، اگر طلاق دینے کے ارادے پر مصر ہیں تو اگلی مُدّت طُہر کے دوران دیں۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایام ماہواری کے دوران طلاق دینا سختی سے منع ہے اور اس
حکم کی خلاف ورزی یا اندیکھی کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں
کہ قرآن یہ حکم کیوں دیتا ہے کہ طلاق ایام طُہر میں ہی دی جانی چاہئے اور سنت نبوی
اس حکم پر عمل کرنے پر اصرار کیوں کرتی ہے،جیسا کہ حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہ
کے واقعہ سے ظاہر ہے۔ قرآن کے احکامات کے مطابق ایام ماہواری میں شوہر کو بیوی سے
قربت نہ کرنے کا حکم ہے ۔ایسی صورت میں کہ بیوی تک اس کی رسائی نہیں ہے، عین ممکن ہے
کہ خود اپنے اوپر اور اپنے خاندان کے اوپر پڑنے والے طلاق کے اثرات کا صحیح تناظر میں
ادراک نہ کرسکے۔ جب کہ وہ ایسی صورت میں بیوی کی اہمیت کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے
کااہل ہوگا جب بیوی تک اس کی رسائی ہوگی اور وہ ازدواجی رشتہ سے لطف اندوز ہونے اور
بیوی کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی پوزیشن میں ہو گا ۔ یہ صورت شوہر کے طلاق دینے کے ارادے
کو کمزور کردے گی ۔ ایام طُہر کے دوران ایسی صورت میں جب زو جین کے درمیان خلوت ہوگئی
ہو، طلاق دینے سے روکنے کی حکمت یہ سمجھ میں آجاتی ہے کہ طلاق دینے میں جتنی ممکن
ہو تاخیر ہوجائے تاکہ شوہر کواپنے ارادے پر از سرے نو غور کرنے کاموقع مل جائے ۔ایک
مُدّت طُہر میں جنسی تعلق کے بعد اگر عورت کو مقررہ وقت پر ماہواری نہیں ہوتی تو یہ
استقرار حمل کی علامت سمجھی جائے گی ۔ اور ہوسکتا ہے یہ علم ہوجانے کے بعد کہ وہ بچے
کا باپ بننے والا ہے، شوہر طلاق کے ارادے کو ترک کردے۔ حتمی مقصد یہ ہے کہ ایسی صورت
پیدا کی جائے کہ جس سے رشتہ ازدواج بر قرار رہے اور خاندان ٹوٹنے سے بچ جائے ۔
طلاق کے قانوناً درست ہونے
کیلئے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ طلاق دو گواہوں کی موجودگی میں دی جائے ، بلکہ قرآن
یہ متعین کرتا ہے کہ گواہ کیسے ہوں، قرآن ا س بات پر زور دیتا ہے گواہ انصاف پسندہوں
۔ اس شرط کی مصلحت یہ ہے کہ عدل کے تقاضوں
کو محسوس کرتے ہوئے وہ زوجین کو ہر ممکن حد تک سمجھائیں بجھائیں ، ان کو طلاق کے ارادے
سے باز رہنے کی تلقین کریں، ان سے گزارش کریں ، ان کو شانت کریں، ان کے درمیان وجہ
اختلاف کو دور کرائیں تاکہ وہ پرامن ازدواجی زندگی بسر کر سکیں ۔ مندرجہ بالا بحث سے
یہ بات صاف ہوتی ہے کہ بشمول نان و نفقہ شادی کے بعد شوہر پر بیوی کی جتنی بھی ذمہ
داریاں عائد ہوتی ہیں ان سے بچنے کا حیلہ تلاش کرنے کیلئے یہ دعویٰ کرنا یا یہ ثابت
کردینا کہ اس نے بیوی کو طلاق دیدی ہے، کافی نہیں ہے، بلکہ بیوی کی ذمہ داریوں سے برأت
حاصل کرنے کیلئے اس کو لازماً یہ حجت پیش کرنی ہوگی او ریہ ثابت کرناہوگا کہ (الف)
شوہر اور بیوی کی طرف سے مقرر (ایک ای ک منصف مزاج ) حَکَم نے زوجین کے درمیان اختلافات دور کرانے او رتنازعہ
کو حل کرانے کیلئے (مشترکہ طور سے ) مداخلت کی تھی اور کوشش کی تھی اورپھر ایسی اور
پھر ایسی وجوہ سے جن کو شوہر کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا ، کوشش مصالحت ورفع اختلاف
کی مساعی کامیاب نہیں ہوئی ۔ (ب) بیوی کو طلاق دینے کی اس کے پاس کوئی معقول وجہ تھی
۔ (ج)طلاق ایام طُہر میں دی گئی اور اس مُدّت طُہر کے درمیان شوہر نے بیوی سے ہم بستر
ی نہیں کی تھی ۔ شوہر کی طرف سے مندرجہ بالا نکات پر حجت پیش کرنے اور ان سب کو ثابت
کرنے کے بعد ہی طلاق نافذ ہوگی اور شادی ٹوٹے گی ۔اسی کے بعد شوہر اپنی بیوی کی جملہ
ذمہ داریوں، بشمول ادائیگی نان نفقہ سے سبکدوش ہوسکے گا۔ اس طرح کے تمام کیسوں میں
عدالت شوہر کی طرف سے پیش دلائل کو سختی سے جانچ کرے گی اور قاطع ثبوتوں پر زور دے
گی ۔ ہمارے سامنے جو کیس ہے اس میں اپیل کنندہ مذکورہ بالا عناصر (نکات) کو ثابت کرنے
میں ناکام رہا ہے جن کے ثابت ہوجانے کے بعد ہی ، اس کے بیان کے مطابق اس نے جو طلاق
دی ہے وہ نافذ ہوتی اور رشتہ ازدواج منقطع ہوجاتا ۔ اگر چہ ایسا لگتا ہے کہ اس کی طرف
سے یہ ثابت کرنے کی ایک کمزور سی کوشش کی گئی ہے کہ طلاق دئے جانے سے پہلے فریقین کے
خاندانوں کے بڑے بزرگوں نے مصالحت کرانے کی کسی طرح کی کوشش کی تھی ، لیکن یہ دلیل اس کیلئے کسی کام کی نہیں کیونکہ طلاق کے
نافذ ہونے کیلئے مذکور مندرجہ بالا تمام شرطوں کا پورا ہونا ثابت نہیں کیا گیا ہے
۔
چنانچہ مذکورہ بالا وجوہ سے
اپیل کنندہ کی درخواست کو خارج کیا جاتا ہے اور رویزنل کورٹ (Revisional) کے حکم کو برقرار رکھا
جاتا ہے او رمجسٹریٹ کی عدالت کو حکم دیا جاتا ہے کہ فریقین کو نوٹس جاری کر کے اس
کیس پر از غور و خوض کرے ۔ ٹرائل کورٹ سب سے پہلے فریقین کی جانب سے پیش دلائل کی بنیاد
پر نان و نفقہ کی عبوری رقم طے کرے گا جو اپیل کنندہ مدعیہ کو ادا کرے گا ۔ عدالت اس
بات کو یقینی بنائے گی کہ راحت کی مقررہ رقم اس تاریخ سے جو عدالت طے کرے، حکم صادر
کرنے کے چار ہفتوں کے اندر اندر مدعیہ کو ادا کردی جائے ۔دستخط حسنین مسعودی ، جج سری
نگر ، مورخہ 30.04.12
جیسا کہ اس مضمون کے ابتدائی
حصہ میں عرض کیا گیا تھا کہ بعض حلقو ں نے اس فیصلے کو ‘‘ شریعت مطہرہ میں عدالت کی
مداخلت’’ قرار دیا اور اس کے خلاف سرگرم ہونے کا عندیہ ظاہر کیا ہے ۔ اس حکم کے خلاف
نظر ثانی کی دو درخواستیں عدالت نے سماعت کیلئے منظور کرلی ہیں۔ توقع ہے کہ سماعت دسمبر
کے پہلے ہفتہ میں ہوگی۔ ایک درخواست جسٹس (ریٹائرڈ) بشیر احمد کرمانی کی جانب سے اور
دوسری بار کونسل جے اینڈ کےہائی کورٹ کی جانب سے دائر ہوئی ہے ۔بشمول جماعت اسلامی
جموں و کشمیر کئی تنظیموں نے نظر ثانی اپیل کا خیر کا مقدم کیا ہے اور دلیل دی ہے کہ
اگرچہ اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک نشست میں طلاق ثلاثہ سخت گناہ ہے، مگر اس طرح طلاق
مغلظہ نافذ ہوجاتی ہے ۔ جماعت کے ترجمان ایڈوکیٹ زاہد علی نے 9 نومبر کو اس فیصلے کے
سلسلے جو تفصیلی بیان دیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مسعودی نے قرآن اور حدیث کو
جو تشریح کی ہے اور ان سے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ درست نہیں ہیں ۔ اب یہ معاملہ ایک
نئے زاویہ ساتھ عدالت میں پہنچ گیا ہے ۔ اس لئے اس پر کوئی تبصرہ کرنا یا رائے دینا
مناسب نہیں ۔ البتہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر
بھی کیونکہ طلاق بدعی کی پیروی میں سر گرم ہوگئی ہے، اس لئے مناسب معلوم دیتا ہے کہ
ان کی توجہ طلاق کے معاملے میں مولانا سید ابو لا علیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے
کی جانب مبذول کرائی جائے ، جس کی روشنی میں
یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے تائید و حمایت کس چیز کی کی جارہی ہے ؟ کھلی معصیت کی یا قرآن
و سنت میں مذکور طریقہ کار کی ؟ ‘‘تفہیم القرآن ’’ میں سورۃ البقرۃ کی آیت 229 کی
تشریح (نمبر 250) مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
‘‘طلاق کا صحیح طریقہ جو قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے، یہ ہے کہ
عورت کو حالتِ طُہر میں ایک مرتبہ طلاق دے جائے ۔ اگر جھگڑا ایسے زمانے میں ہو جب کہ
عورت ایام ماہواری میں ہے، تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں ہے۔ ایام سے فارغ ہونے
کا انتظار کرنا چاہئے ۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے تو دوسرے طُہر میں دوبار
ہ ایک طلاق اور دیدے ، ورنہ بہتر یہ ہے کہ پہلی ہی طلاق پر اکتفاکرے ۔ اس صورت میں
شوہر کو یہ حق حاصل رہتا ہے کہ عدّت گزرنے سے پہلے پہلے جب چاہے رجوع کرلے اور اگر
عدّت گزر بھی جائے تو دونوں کیلئے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضا مندی سے دوبارہ
نکاح کرلیں ۔ لیکن تیسرے طُہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کو رجوع کرنے
کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہوسکے
۔ رہی یہ صورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں ،جیسا کہ آج کل جہلا کاعام طریقہ ہے، تو یہ شریعت کی
رو سے سخت گناہ ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت کی ہے اور حضرت عمر
رضی اللہ عنہ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیتا
تھا آپ اس کے کوڑے لگاتے تھے ’’۔
بہر حال اب یہ معاملہ عدالت
کے زیر غور ہے اور توقع ہے کہ نظر ثانی اپیلوں کی سماعت کے دوران تمام پہلوؤں پر سیر
حاصل بحث ہوگی ۔ امید ہے کہ یہ ہندوستانی عدالتی تاریخ کا ایک اہم کیس بنے گا اور ان
مسلم خواتین کے حقوق نان نفقہ کیلئے ایسی نظیر سامنے آجائے گی جو شوہروں کے جوش غضب
کا شکار ہوکر گھر بدر کردی جاتی ہیں اور پھر کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور
ہوتی ہیں اور اس کرب کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوتی ہیں کہ دین رحمت کے سائے میں ان کو
ظلم او رناانصافی کا شکار بنادیا گیا ۔ اس ستم ظریفی کا یہ پہلو بڑا ہی عبرت ناک ہے
کہ طلاق بدعی کا گناہ تو سرزد ہوتا ہے دین سے بے بہرہ مرد سے ، مگر طلاق بدعی کو سند
جواز عطا کئے جانے کے نتیجہ میں زندگی اصلاً عذاب ہوتی ہے عورت کی ۔ (ختم شد)
22 نومبر ، 2012 بشکریہ روز
نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL: