سید شہاب الدین
11ستمبر 2001کو امریکہ پر دہشت گردانہ حملے کےجواب میں امریکہ نےدہشت گردی کے خلاف ایک ‘عالمی جنگ’ کا اعلان کیا تھا جس کا آغاز افغانستان پرجوابی حملے سےکیا گیا۔ اسے شروع شروع میں ‘صلیبی جنگ’ کہا گیا جس سے عہدہ وسطیٰ میں عیسائی مغرب کی جانب سے اسلامی مشرق کے خلا ف تقریباً دو صدیوں تک جاری رہنے والی جنگ کی یادیں تازہ ہوگئیں جس کا مقصد اپنے مقام مقدس کو ‘بے عقیدہ ’ لوگوں کے قبضے سے واپس لینا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی یہ تصویر آج بھی برقرار ہے باوجود اس کے کہ امریکہ وبرطانیہ کے لیڈروں نے بار بار اسلام سے اس کے تعلق کی تردید کی ہے اور مختلف سطحوں پر اس بات کا اعادہ کیا ہے یہ جنگ اسلام کے خلاف نہیں دہشت گردی کے خلاف ہے۔
مسلم دنیا کےدلوں دماغوں پر اس جنگ کے اثرات کاتجزیہ کرنے سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ دہشت گردی کو کبھی بھی اس طرح عالمی نہیں ہوسکتی ہےکہ اس کا عالمی سطح پر مقابلہ کرنا پڑے ۔یہ ہمیشہ ادھر ادھر ہونے والے واقعات کی صورت میں اور مقامی نوعیت کی رہے گی۔ یہ ممکن ہے کہ کبھی کبھی دہشت گردی کے واقعات بار بار اور دنیا کے مختلف حصوں میں اس طرح ایک ساتھ ہونے لگیں کہ وہ ایک عالمی مظہر نظر آئیں ۔مگر کسی متحدہ کمان یا افراد وآلات حرب کی فراہمی کے کسی متحدہ وسیلے کی ناموجودگی میں دہشت گردی کبھی بھی ریاست کی منظم طاقت اور یقینی طور پر موجودہ دور کی سب سے بڑی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
لہٰذا دہشت گردی تو موجودہ دنیا کی چند ریاستوں تک محدود چھٹ پٹ واقعات کی صورت میں ظاہر ہورہی ہےمگر ایک عالمی جنگ کے سیاہ بادل بالکل سامنے نظر آرہے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا جسے تکبر اور مذہبی جوش وخرو ش اور سب سے بڑھ کر اقتصادی حرص و ہوس اور اسی کے ساتھ چاہے جانے کی کی نرگسی خواہش مزید دھار دار بنارہی ہیں۔
اسلام کے خلاف جنگ کی یہ صورت مختلف اسباب کے تحت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ پہلی وجہ گزشتہ دو ایک دہائیوں کے دوران کیا جانے والا یہ مسلسل پروپیگنڈہ ہے کہ ساری مسلم دنیا اسلامی شدت پسند ی کی گرفت میں ہے۔ اس کے نتیجے میں اسلام کو کٹر پن ،بنیاد پسندی اور تشدد سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے اور یہ خیال بھی عام ہوا ہے کہ اسلام اور جمہوریت ،سیکولر زم ،انسانی حقوق اور ‘جدیدیت’ کے درمیان مطابقت پیدا نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مسلم معاشرے اور ریاستیں ایک ‘اسلامی برہمی’ کی گرفت میں ہیں کیونکہ یہ غریب او رپسماندہ ہونے کے سبب مغرب کی مادی خوش حالی اور ٹکنالوجی کے میدان میں اس کی ترقی سے حسد رکھتی ہیں مگر اپنی دقیانوسیت او رحکمرانی کے فرسودہ طریقوں کی وجہ سے اپنے عوام کو اچھا کھلانے ،اچھا پہنانے اور تحفظ اور پروقار زندگی دینے سے قاصر ہیں۔ اس سب کے نتیجے میں مغربی دنیا تک میں یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے اور لاشعور میں سرایت کرگئی ہے کہ جلد یا بدیر مغرب باور عالم اسلام کے درمیان تصادم ناگزیر ہے۔
دوسری وجہ اس حقیقت میں پائی جاتی ہے کہ نو آباد یاتی دور کے بعد کے زمانے میں امریکہ کو ایک زبر دست نو آبادیاتی طاقت سمجھا جارہا ہے جو ‘آزادی’ اور ‘جمہوریت’ کے نام پر ساری دنیا میں غلبہ قائم کرنے ، دنیا کے تمام ناقابل تجدید وسائل پر قابض ہونے اور انہیں اپنے فائدے سے لیے استعمال کرنے اور اپنی مصنوعات ،ٹکنالوجی اور فاضل سرمائے کے لیے اپنی شرطوں پر بازار حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کی وجہ سے ساری دنیا خاص طور پر مسلم ریاستوں میں عوامی برہمی پیدا ہورہی ہے ۔ ان مسلم ملکوں میں حکمراں طبقے اپنے بیرونی حلیفوں ہے ہاتھ ملائے ہوئے ہیں ، انہیں اپنا آقا سمجھتے ہیں بلکہ اپنی بقا کے لئے ان کی مدد پر منحصر ہیں۔اقتصادی استحصال اور سیاسی محرومیاں مل کر امریکہ مخالف جذبات کو شدید تر کررہی ہیں۔یہ سیاسی محر ومی مذہبی زبان میں اظہار پاتی ہے اور اس طرح مسلم ریاستوں میں ایسے گروپ ابھرتےرہتے ہیں جو عوام کی جائز اور فطری امنگوں کا اظہار اسلامی بنیاد پسندی کے نظریے او رکبھی کبھی مجنونہ تشدد کے واقعات کے ذریعے کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کو نشانہ بنانے سے متعلق مغرب کی تردید کو محض منافقت سمجھا جارہا ہے اور اسلامی گروپوں کے اس الزام کو عوامی قبولیت حاصل ہورہی ہے کہ امریکہ مسلم ریاستوں کوکچلنے یا تقسیم کرنے کے ارادے سے باندھ رہا ہے۔ چنانچہ امریکہ کی سب کچھ حاصل کرنے کی روش اور مسلم جذبات کے پرزور اظہار کا رجحان ایک دوسرے کو طاقت اور شدت پہنچا رہے ہیں۔ تیسری وجہ ان مغربی ماہرین کی پیدا کردہ ہے جو قرآن پاک کو تشدد کی کتاب سمجھتے ہیں ۔ وہ اسلام کو کٹر پن کے مذہب کےطور پر پیش کرتے ہیں جو اپنے پیروؤں کو غیر مسلموں کے خلاف ایک مسلسل تصادم کی حالت میں رکھتا ہے اور انہیں اس بات کی لئے اکساتا ہے کہ اگر وہ اپنے مذہب کےلیے اعلیٰ ترین قربانی پیش کریں گے تو آخرت میں اس کا اجر پائیں گے۔ اسلام کو بدنام کرنے اور رسول اللہ ﷺ کی تصویر بگاڑ نے اور اسلام کی غلط تعبیر وتشریح کی یہ کوشش ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف خوف، عدم اعتماد او رشکوک وشبہات پیدا کرتی ہے اور دونوں فریقوں میں ایک دوسرے کی منفی شبیہ کو مضبوط کرتی ہے۔ یہ ‘ماہر ین ’ اور دونوں جانب کے عوام یہ فراموش کردیتے ہیں کہ امریکہ ،یورپ اور دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان کم وبیش پر امن اور تخلیق انداز سے ہو رہے ہیں اور یہ کہ مسلم معاشروں اور مغرب کے معاشروں کے درمیان ایک عرصے سے باہمی اشتراک اور تعاون کے رشتے رہے ہیں۔
مسیحی چرچ کے ایک حلقے نے مسلم علاقوں میں صدر بش کے مسیحا نہ کردار کی پر جوش تائید کی ہے ۔ شاید انہیں ان کے وجود میں مسلم علاقوں میں نہ صرف اسلام کے فروغ کو روکنے بلکہ اس عمل کا رخ پھیرنے کا ایک موقع نظر آرہا ہے۔ بنگلہ دیش ، پاکستان، انڈونیشیا او رمقبوضہ ریاستوں میں مشنری سرگرمیوں میں آنے والی شدت کی خبریں بھی ساری دنیا میں مسلم ذہن کو مضطرب کررہی ہیں۔
دہشت گردی کے سلسلے میں امریکہ نے جانب دارانہ رویہ اختیار کیا ہے جس کا اظہار فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی دہشت گردی کو اس کی مکمل اور بلاشرط حمایت سے ہوتا ہے ۔مسلم دنیا میں اس امریکی رویے کے خلاف نکتہ چینی ا س لیے بھی شدید تر ہوئی ہے کہ امریکہ نے چیچنیاں کے خلاف روسی دہشت گردی کے سلسلے میں دومعنی رویہ اختیار کیا اور آئر لینڈ کے پرتیتینٹ لوگوں کے خلاف کیتھولک لوگوں کی دہشت گردی یا مسلم ہندوستانیوں کے خلاف ہندو تو کی دہشت گردی یا کشمیر میں جاری سرحد پار دہشت گردی میں پاکستان کی شمولیت کے سلسلے میں سفارتی خاموشی برتی ہے۔ امریکہ ایک جانب تو جمہوریت کا علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر دوسری طرف جاگیردارانہ اور چند افراد پر مبنی حکومتوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔
اس نتیجے تک پہنچنے پر مجبور کر دیئے جانے کے بعد مسلم دنیا کوافغانستان اور عراق کے خلاف امریکی فوجی کارروائی اور ایران پر اس کے دباؤ کے پس پشت ایک سنگین اور شیطانی ارادہ کافرما نظر آتا ہے۔ یہ سوالات سر اٹھا رہے ہیں کہ کیا امریکہ مسلم ریاستوں ،ایران ، پاکستان ، سوڈان کے خلاف حملوں کےلیے زمین ہموار کررہا ہے۔ تیسری دنیا میں امریکہ مخالف جذبات کو مسلم دنیا میں تہ نشیں پین اسلام کی لہر سے تقویت حاصل ہوتی ہے ۔گزشتہ دوصدیوں کے دوران مسلم معاشروں میں ظلم ومظلومیت کا احساس پیدا ہوا ہے اور وہ امریکہ کے تمام سیاسی یا فوجی اقدامات کو اسلام او رمسلم دنیا کے خلاف سازش سمجھنے لگے ہیں ۔ اس کے باوجود کسی بھی ممتاز مسلم مفتی یا عالم نے دہشت گردی یا جہاد فی سبیل اللہ کی حمایت نہیں کی الاّ یہ کہ یہ اپنے دفاع یا فطری آزادی حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ مگر ذرائع ابلاغ جہاں ایک طرف اسلام کی معقول او ردانشمندانہ آوازوں کونظر انداز کرتے ہیں وہیں انہوں نے اسامہ بن لادن کو عظیم شیخ الاسلام کا منصب دے دیا ہے اور اس کی دہشت گردی کے خطرے کو جہاد قرار دے کر اسے قوی الہیکل شخصیت بنادیا گیا ہے جیسے وہ صلیبی جنگوں کے زمانے کا صلاح الدین ایوبی یا مسلم شدت پسندی کے اس زمانے میں چے گوارا کا مسلم متبادل ہے۔
اس صورت حال میں اسلامی موقف یہ ہوگا کہ نوع انسانی قومی پالیسی کے آلۂ کار کی حیثیت سے تشدد کو ترک کرے اور تمام ریاستیں ایک ایسے نئے عالمی نظام کی صورت گیری اور تعمیر کے لیے تعاون کریں جو ہماری مشترک انسانیت ہمارے مشترک ثقافتی اور مادی ورثے ،تمام انسانوں کے لیے مساوات اور انصاف ،تمام افراد اور جماعتوں کے انسانی وقار کے احترام اورمسائل کو اسلحہ کے ٹکراؤ کے ذریعہ نہیں مکالمے کے ذریعہ حل کرنے کی پختہ یقین دہانی پر مبنی ہو۔
مسلم دنیا ترقی اور جمہوریت چاہتی ہے مگر سب سے بڑھ کر اسے امن اور بیرونی مداخلت اور اندورنی تشدد سے رہائی چاہئے ۔مسلم دنیا کو فلسطینیوں یا چیچن لوگوں کے کاز کی حمایت ترک نہیں کرنی چاہئے اور نہ وقار اور خود مختاری کے لیے جدوجہد کرنے والے مسلم فرقوں کے ساتھ ہمدردی ختم کری چاہئے۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/muslim-world-vs.-war-terror/d/1707