سیدہ عطیہ سلطانہ (جدہ)
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی بڑی آب وتاب کے ساتھ آتا ہے اور چلاجاتا ہے ۔ برکتیں ہی برکتیں لاتا ہے۔ کس کے حصہ میں کتنی آتی ہیں اللہ جل جلالہُ ہی بہتر جانتے ہیں ۔ صرف اس کے بندے پر منحصر ہے کہ برکتوں کے سمیٹنے میں کتنا کوشاں رہتا ہے سال میں ایک بار آنے والے اس ماہ مبارک میں ایک مسلمان کی زندگی یکسر بدل کر رہ جاتی ہے ۔ روحانی اعتبار سے فضائل وبرکات کا انبار الگ ہے ۔ تو جسمانی اعتبار سے چاق وچوبند ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ ایک عجیب طریقہ کی ورزش ہوتی ہے جو طبی اعتبار سے کسی طرح کم نہیں ہے ۔ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب ، مصر، مراکش ،متحدہ عرب امارات میں اب روشنیوں کی رونقوں کی وجہ سے رمضان کی راتیں ’’رت جگے‘‘ کی نذر ہوجاتی ہیں ۔ یہ رت جگے بابرکت خوش آئند اور روحانی بھی ہوتے ہیں اور تضیع اوقات کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں ۔ سعودی عرب میں حرمین شریفین جیسے مقدس ترین مقامات کی وجہ سے روشنیوں کی رونق روحانی ہوتی ہے اور بابرکت ہوتی ہے۔ یہی روشنی کی رونقیں باقی علاقوں میں تضیع اوقات کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ یعنی چھوٹے چھوٹے ڈھابوں اور ہوٹلوں سے لے کر بڑے بڑے عالیشان ہوٹل رات ، بھر کچھا کھچ بھرے رہتے ہیں جہاں مرد اور عورتیں کھاتے پیتے ہیں اور گپ شپ کے دوران سگریٹ چائے کافی اور شیشوں کے دور میں سحر کرتے ہیں۔ حقہ کو یہاں ’’شیشہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اب سے چند سال قبل عرب ممالک کا بیشتر حصہ ریگستان پر مشتمل تھا۔ اب جدید دور میں نئی نئی ایجادات نے رہن سہن کا طریقہ اور سلیقہ اور عادات واطوار بدل ڈالے ہیں ۔ روشنیوں کی چکاچوند نے ریگستانوں کو بقعہ نور بنا ڈالا ۔ اب لوگ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے پیسے والے ممالک میں بڑے بڑے ہوٹلوں او ر ان روشنیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عربی خیمے سجا لیتے ہیں اور ان میں سحر تک وقت گزارتے ہیں ۔ بیشک نورانی محفلیں بھی ان میں سجتی ہیں مگر اکثر جگہوں پر ان خیموں میں مرغن کھانوں اور مشروبات کا شیشہ چائے کافی سگریٹ کے ساتھ دور چلتے ہیں۔
ہر مسلمان گھرانے میں بھی مختلف نوعیت کے کھانے پینے کے سامان کی رونق رہتی ہے ۔لیکن سعودی عرب میں گھروں میں ہی نہیں بلکہ بازار بھی انواع واقسام کے کھانوں اور مشروبات سے سجے ہوئے رہتے ہیں اور ان کی ملی جلی خوشبو یات سے ساری فضا معطر رہتی ہے ۔ کھانے کی اقسام بھی مختلف ملکوں کے اعتبار سے ہوتی ہیں اور چونکہ سعودی خواتین گھروں میں کم ہی پکوان بناتی ہیں اس وجہ سے بھی کھانے پینے کے اشیاء سے بازار بھرے رہتے ہیں۔ بہر کیف رمضان بھر عصر کے بعد سے سحر تک یہ منظر جگہ جگہ دیکھنے کو ملتا ہے اور عجیب کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ ہر ملک کے رسم ورواج روایات طور طریقے الگ الگ ہوتے ہیں ۔ سماج میں اور معاشرہ میں رمضان گزارنے کے اپنے اپنے روایتی طریقے ہیں ۔ ہر ملک اورخطہ کا ماحول مزاج اور فضا مختلف ہوتی ہے۔ سعودی عرب اور امارات وغیرہ دوچار اور عرب ممالک ایسے ہیں جہاں ملازمت کے سلسلے میں آئے ہوئے مختلف ممالک کے لوگ بستے ہیں ۔ سعودی عرب میں اور خاص طور سے جدہ میں یہ رنگ برنگا ماحول سب سے زیادہ دیکھنے کوملتا ہے ۔ یہاں بھی رمضان اورافطار وسحری کے وقت جو اشیائے خورد ونوش ملتی ہیں ان کا بھی ایک عجیب سماں ہوتا ہے ۔ ہندوستان ،پاکستان کی دکانوں پر پکوڑوں ،سموسوں اور فروٹ چاٹ کی خوشبو مہکتی ہے اور برصغیر کے لوگوں کیے بھیڑ لگی ہوتی ہے، تو سوڈان ، مصر، یمن وغیرہ جیسے عرب ممالک کے اپنے روایتی کھانے اور مشروبات ومٹھائیاں دکانوں پر سجی رہتی ہیں ۔ وہاں ان ممالک کے افراد کاتانتا بندھا رہتا ہے۔ یہی نہیں ،برِ صغیر کے لوگ عربی کھانے بھی بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور عربی باشندے ہندوستانی کھانوں پر بھی ٹوٹے پڑتے ہیں ۔ یہ تورہی بازاروں کی رونق افطار اور سحری کے اوقات میں۔ جوبات یہاں قابل ذکر ہے وہ ہے اس ملک کے باشندوں کی کثرت سے فیاضی اور فراخ دلی۔ غیر ملکی بھی ان میں شامل ہیں ،لیکن سعودی مرد اور عورتوں میں بے شمار فیاض اور مخیر لوگ ہیں جو کثرت سے عوام الناس کو روزہ کھلواتے ہیں اور سحری کراتے ہیں اور صدقہ اور خیرات میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں۔
یوں تو یہاں سال کے بارہ ماہ مساجد نمازیوں سے بھری رہتی ہیں حتیٰ کہ نمازوں کے اوقات میں بازاروں اور سڑکوں پر بھی صفیں بنی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن رمضان المبارک میں عام دنوں کے بے نمازی بھی کثیر تعداد میں نماز میں شامل رہتے ہیں۔ یہاں تک کے عوام وخواص کی فیاضی کا یہ عالم ہے کہ افطار او رسحری کا مساجد میں بہت اعلیٰ پیمانے پر انتطام ہوتا ہے ۔ بالخصوص شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز ٹنوں کے حساب سے مساجد اور مدار س میں کھجور یں اور دودھ دہی، روٹی وغیرہ فراہم کرواتے ہیں ۔ حرمین شریفین میں افطار اور سحری کے وقت کئی ٹرک باہر کھڑے ہوتے ہیں اور سیکڑوں افراد کھجوریں تقسیم کرتے نظرآتے ہیں ۔ سعودی عرب میں عام دنوں میں کوئی بھوکا نہیں ملتا تو رمضان المبارک میں کہاں کوئی دیکھنے کو ملے گا۔ بلکہ کھجور اتنی کثیر تعداد میں بانٹی جاتی ہے کہ اگر اندازہ کرلیا جائے تو بلامبالغہ ایک شخص حرم میں تقسیم ہونے والی کھجوروں میں سے افطار کے وقت 4-5کلو بآسانی جمع کرسکتا ہے اور ایسا دیکھا بھی گیاہے ۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے ۔ یہ ہیں یہاں کے فیاض اور مخیر حضرات ۔ حرم شریف میں خاص طور سے مغرب کی نماز کے وقت کم از کم دس لاکھ افراد جمع ہوتے ہیں ، تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنے ٹن کھجور یں شاہ عبداللہ اور دوسرے مخیر اور فیاض حضرات تقسیم کراتے ہیں ۔ مدینہ منورہ میں تو عام دنوں میں ہی جو جمال اور برکتیں ہوتی ہیں وہ رمضان میں اور بھی پرکشش اور دل کش ہوجاتی ہیں۔ مدینہ منورہ میں توحرم کے دروازوں سے دور ہی سے لوگ پکڑ پکڑ کرلے جاتے ہیں کہ ’’آج افطار ہمارے ساتھ کریں‘‘۔اسی طرح بہت سے مخیر حضرات حرم شریف اور دوسری بڑی بڑی مساجد کے باہر ٹینٹ لگا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور غریب لوگوں کی افطار اور کھانے سے دل کھول کر امداد کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہاں کے مرد حضرات ہی فیاض اور مخیر نہیں ہیں بلکہ یہاں کے امیر گھرانے کی خواتین بھی اس معاملے میں بہت فیاض اوررحم دل ہیں ۔ یہ مخیر خواتین اپنے اپنے دلاز اور بنگلوں میں رمضان المبارک میں کافی بڑے پیمانے پر روزہ افطار کا اہتمام کرتی ہیں ، جس میں غریب ممالک جیسے صومالیہ ، سوڈان ، بنگلہ دیش وغیرہ جیسے غریب ممالک کی خواتین دل کھول کر امداد وصول کرتی ہیں۔ جب عام دنوں میں یہاں کے امراء ہر جمعرات کواپنے محلوں اور ولاز میں غریبوں کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں اور ان کے کپڑوں لتوں سے امداد کرتے ہیں توپھر رمضان المبارک میں کیا بات ہوگی۔ یہی نہیں سعودی جو اپنی زکوٰۃ نکالتے ہیں وہ بھی ملین میں ہوتی ہے اور اس سے بہت سے غریب غرباء کی امداد کرتے ہیں۔
یہ تو رہیں وہ روایات جو دور جدید میں اور کثرت زر کی وجہ سے رمضان کی رونقوں کو دوبالا کرتی ہیں ۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزررہا ہے عوام الناس جہاں اپنی پرانی شرعی یا اخلاقی روایات اور دلچسپ رسم ورواج چھوڑتے اور بھولتے جارہے ہیں یا ان کی شکل بگاڑ رہے ہیں وہیں اب بہت سے ملکوں میں وہی روایات عود کر بھی آرہی ہیں ۔ ان پرانی روایات اور رسم ورواج کی اپنی ہی ایک حلاوت اور چاشنی تھی اور جہاں جہاں اب بھی برقرار ہیں وہاں اب بھی ان کی ایک انفرادیت ہے اور اس جدید ترقی یافتہ دور میں ان کی اپنی افادیت ہے ۔10-12سال پہلے تک برصغیر میں لوگ رمضان میں روز رات کو نہیں جاگا کرتے تھے ۔ صرف شب قدر میں مساجد میں عبادتوں میں مشغول ہوتے تھے ۔ عام طور سے گھر کے تمام افراد عشاء اور تراویح کے بعد سوجا یا کرتے اور پھر سحری کے لئے سحرکے وقت اٹھتے۔ پورے ملک میں عام رواج تھا کہ 2-3بجے رات کو (موسم کے مطابق) مسلم محلوں میں ایک جگانے والا مقرر ہوتا جو اپنی مخصوص لے اور لہجہ سے آوازیں لگاتا سحری کے لئے اٹھ جاؤ۔
سحری کے لئے جگانے والی اس پرانی رسم میں بھی ایک عجیب مزہ ہے ۔ پہلے زمانے کے پرانے قصبوں اور گاؤں میں آدھی رات کے سناٹوں میں بالخصوص سخت جاڑوں میں ایک شخص ہاتھ میں لالٹین اور ڈنڈالئے ہوئے یا عرب ممالک میں دف بجاتے ہوئے ‘‘سحری کے لئے اٹھ جاؤ’’ کی آوازیں لگاتا ہے تو وہ ایک عجیب سماں ہوتا ہے ۔ بچے سوتے سوتے ڈر جاتے ہیں اور جو بچے جاگتے ہوتے ہیں وہ گھروں سے نکل کے اس کے ساتھ ہولیتے ہیں ۔ مصر، شام اور اردن جیسے ملکوں میں بچے اس کے ساتھ ملکی اور اسلامی ترانے بھی گاتے ہیں ۔ وہ نئے نئے طریقے سے آوازیں لگاتا ہے اور بچے خوش ہوتے ہیں ۔ شام کے دارالسلطنت دمشق کی پرانی گلیوں میں رات کے سناٹے میں یہ کام ایک ادھیڑ عمر کی خاتون انجام دیتی ہیں اور انہیں ’مساحر تیہ‘ کہا جاتا ہے۔ آج کے دور میں یہ روایتیں خاص طور سے عرب ممالک میں پھر سے آرہی ہیں جس میں زیادہ ترشہروں اور قصبوں کے قدیم علاقے میں شامل ہیں ۔ ورنہ ماڈرن زمانے کی فلک بوس عمارتوں والے علاقوں میں تو یہ چیز ایک عجیب سی لگے گی کیونکہ مساحرتی کی آواز تو اوپر جانے سے رہی ۔پھر بھی فلسطین ،مصر اورخود سعودی عرب کے جو پرانے علاقے ہیں وہاں یہ روایت برقرار ہے۔
دوسری روایت یہ ہے کہ عرب ممالک میں رمضان میں راتیں لوگ اکثر وبیشتر گھر سے باہر گزارتے ہیں اور خواتین کی اکثریت گھروں میں ہوتی ہے۔ جو لوگ یمن ، ترکی اور اردن اور شام جیسے پسماندہ علاقوں میں اپنے گھروں سے باہر میدانوں میں یا باغوں میں راتیں گزارتے ہیں جس میں اجتماعی طور پر نوجوان یا بوڑھے قومی ترانے گاتے ہیں اور سحری تک یہی شغل ان کا ہوتا ہے ۔ یا پھر ہوٹلوں میں یا ہوٹلوں سے باہر انڈورگیمز ہوتے ہیں ۔ ترکی کی روایت یہ ہے کہ وہاں پر چونکہ صوفیانہ رنگ زیادہ غالب ہے اس لئے وہاں رمضان میں تراویح کے بعد بڑے بڑے میدانوں یا بڑے بڑے شالنگ سینٹر کے بعد صوفی درویشوں کا ایک گروپ ہوتا ہے جو صوفیانہ رقص کرتا ہے رقاصوں کا بہت ہی گھیرا دار فراک نما لباس ہوتا ہے جو رقص کے وقت گول گھومنے سے چھتری بن جاتاہے ۔ دبئی اور ابوظہبی جیسی امارات کی بھی اپنی روایات ہیں ۔ یہ امارات چونکہ نئی ہیں وہاں جدید طرز کی عمارتیں اور بڑے بڑے ہوٹلز ہیں تولوگ عربین نیتش کے نام پر جگہیں مقرر کرکے وہاں مشروبات اور ماکولات کے ساتھ ساتھ چائے کافی اور شیشہ (حقہ) پینے میں گزارتے ہیں۔جدید طرز بنے ہوئے ان علاقوں میں مساحرتی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے البتہ جو پرانی روایات میں سے ایک ہے وہ متحدہ عرب امارات میں اب پھر سے رائج ہورہی ہے اور جگہ جگہ اس کا استعمال ہورہا ہے وہ ہے توپ کا داغنا یعنی یہ توپ داغنے کا رواج افطار کے شروع ہونے اور سحری کے ختم ہونے کے لئے متحدہ عرب امارات کے علاوہ یمن ،مصر اور سعودی عرب اور اسی طرح کے دوسرے ممالک میں لوٹ کر آرہا ہے۔ اس طرح کے رواج کے لئے جگہیں بھی بہت صاف ستھری رکھی جاتی ہیں۔
ایک بہت دلچسپ بات رمضان کے تعلق سے یہ ہے کہ مصر اور مراقش میں رمضان کی شروعات سے پہلے دکانوں میں لالٹینوں کا انبار لگ جاتا ہے جنہیں فانوس کہا جاتا ہے اور اس کی جمع فوانیس ہے ۔ اس روایت کے رائج ہونے سے متعلق جو باتیں منسوب ہیں ان میں یہ ہے کہ 358ہجری میں 15رمضان کو تیونیشیا کا فاطمی رہنما اس وقت مصر کا حکمراں تھا تو جب وہ قاہرہ آیا تو قاہرہ والوں نے رنگ برنگی قندیلوں اور فانوسوں سے اس کا استقبال کیا جو سڑکوں سے اس کے محل تک سجادی گئی تھیں۔ اس وقت سے یہ فوانیس رمضان المبارک کا ایک جزولانیفک بن گئے ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ بچے خوش ہوتے ہیں ۔رمضان سے پہلے سب سے زیادہ فوانیس کی خریداری ہوتیح ہے جو گھروں میں لٹکائے جاتے ہیں جوٹین کے بنے ہوتے ہیں اور ان میں رنگ برنگے شیشے یا پلاسٹک لگائے جاتے ہیں۔ ایک اور روایت کے مطابق مصر میں فاطمی خلیفہ الحکیم بامراللہ کے دور میں خواتین کو گھروں سے کبھی بھی باہراپنے محرم کے بغیر نکلنے کی اجازت نہیں تھی لیکن صرف رمضان کے مہینے میں وہ بغیر محرم کے نکل سکتے تھیں۔ اس دوران ان کو باہر نکلنے کی اجازت دی گئی تھی اس شرط پر کہ ایک بہت چھوٹا سا بچہ ہاتھ میں لالٹین لے کر آگے آگے چلے اور خواتین یا خاتون اس کے پیچھے ہوں۔ یہ رنگین قند یلیں اس بات کی علامت تھیں کہ خاتون آرہی ہیں لہٰذا لوگ راستے سے ہٹ جائیں ۔ اس کے علاوہ جو اہم بات ہے وہ یہ کہ مصر میں عیسائیت کی ایک شاخ جسے Coptic Churchکہتے ہیں کے ماننے والے بھی کثیر تعداد میں ہیں ۔ تو ہندوستان میں جس طرح مسلمانوں میں ہندوؤں اور آتش پرشتوں کی مجوسیوں کی بہت ساری رسمیں داخل ہوکر رچ بس گئی ہیں اسی طرح کہا جاتا ہے کہ مصر میں عیسائیت کے ماننے والوں کی تقلید میں یہ روایت بھی آگئی ہے ۔ مصر ی عیسائی اپنے کرسمس کے موقعوں پر رنگین لالٹینیں استعمال کرتے ہیں۔ بہر حال ان قندیلوں کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بچے یا بوڑھے سب مصر کے قدیم علاقوں ،قصبوں اور گاؤں میں یہ قندیلیں اور لالٹینیں لے کر نکل جاتے ہیں اور جوشیلے نغمے یا شعبان اور رمضان کے تعلق سے نشید (ترانے) گاتے پھرتے ہیں ۔ اس طرح سے ایک اسلامی جذبہ اور جوش غالب رہتا ہے جس کی وجہ سے روزوں پر بھی اچھا اثرپڑتا ہے ۔ وہ کم سے کم دوسری خرافات سے تو بچ جاتے ہیں جہاں لوگ فلک بوس عمارتوں میں رات مشروبات ،ماکولات اور شیشہ میں گزار کر برباد کرتے ہیں۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/day-night-ramadan-arab-world/d/1763