ملالہ پر طالبان کے حملے کو
جائز ٹھہرانے کی ناکام کوشش
سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
24 دسمبر، 2012
اپنے مضمون کی قسط 6 میں العبیری
نےدلائل اور فقہاء کے اقوال کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر وہ شخص (عورت
، مرد ، بچہ ) جو لڑائی میں جسمانی او ر معنوی
طور سے حصہ لے اسے قتل کرنا جائز ہے ۔ اس سلسلے میں وہ دریدہ الصمۃ
کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر قتل کئے جانے کو جواز کے طور پر پیش کیا
گیا جس کی عمر سو سال تھی اور اسے قبیلے ہوزان نے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں صلاح کار
کی حیثیت سے بلایا تھا ۔
اسی طرح انہوں نے طائف کے
محاصرے کے وقت ایک عورت کے قتل کا واقعہ بھی پیش کیا ہے جس نے قلعے پر چڑھ کر مسلمانوں
کو فحش انداز میں للکار ا تھا اور جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر تیر مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا ۔
مندرجہ بالا دونوں واقعات
میں سو سالہ ضعیف اور ایک عورت براہ راست طور پر جنگ میں ملوث تھے اور جنگ میں عملی
طور پر حصہ لیا تھا اسلئے ان احادیث کا اطلاق
غیر ملوث افراد پر نہیں کیا جاسکتا ۔
بہر حال ، قرآن اور احادیث
مبارکہ میں غیر متحارب افراد اور غیر متحارب عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا
گیا ہے ۔
اسلامی قانون جنگ کے دوران
عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع کرتا ہے اور صرف ان سے لڑنے کی اجازت دیتا ہے جو مسلمانوں
کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں ۔
قرآن فرماتا ہے
‘‘ اور ان سے لڑو جو تم سے لڑتےہیں مگر حد سے تجاوز نہ کرو کیونکہ اللہ
حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (البقرہ :190)
آگے چل کر قرآن کہتا ہے
‘‘ اور ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ کا خاتمہ نہ ہوجائے اور دین اللہ ہی
کا ہے لیکن اگر وہ باز آئیں تو پھر کوئی لڑائی نہ ہو سوائے ان کے ساتھ جو لوگ ظلم
کرتے ہیں ۔’’ ( البقرہ : 193)
اس طرح قرآن نے غیر محارب
افراد کے قتل کی ممانعت کی ہے ۔ ابن العربی
اپنی کتاب الا حکام القرآن میں فرماتے ہیں
‘‘ کافر عورتوں کو قتل نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ نہ لڑیں ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ جب وہ لڑیں انہیں قتل کیا جائے گا ’’۔
الموردی نے الاحکام السلطانیہ
ص 41 میں لکھا ہے
‘‘ جنگ میں عورتوں اور بچوں کا قتل ممنوع ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے ۔’’
ابن مالک اور القضی کا بھی یہ مذہب ہے کہ کسی بھی حالت میں یہاں تک کہ
اگر کفار عورتوں اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کریں تو بھی ان کا قتل جائز نہیں
ہے ۔
مندرجہ بالا حدیثوں اور فقہاء
کی آراء سے یہ واضح ہے کہ عورتوں اور بچوں جو غیر محارب ہوں ان کا قتل کسی بھی صورت
میں جائز نہیں ہے ۔
گذشتہ مہینے پاکستان کے سوات
علاقے کی نابالغ طالبہ ملالہ پر طالبانیوں نے قاتلانہ حملہ کیا ۔ وہ اللہ کے فضل سے
بچ گئی لیکن طالبان نے اس کو مرتد اور امریکہ کا جاسوس قرار دیا ہے اور اس طرح اس کے
قتل کا فتویٰ صادر کیا ہے ۔ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ طالبان کے ذریعہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اور
لڑکیوں کے اسکولوں کو بند کروانے کے خلاف غیر متشدد مہم چلا رہی تھی ۔ لہٰذا ، اس مخالفت
کی سزا کے طور پر طالبان نے اس کے قتل کا فیصلہ کرلیا ۔ چونکہ ملالہ بھی مسلمان ہی
ہے اس لئے اس کے قتل کا جواز طالبان کو تلاش کرنا اور اسے اس قتل کو اسلامی شریعت کے
مطابق جائز ٹھہرانا تھا لہٰذا ، اس کو امریکہ کا جاسوس قرار دینا ضروری تھا ۔ اس صورت
میں طالبان کے ملاّ العبیری نے اس کے قتل کے لئے علما ء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
‘‘ عورتوں ، بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کا قتل ایسے وقت میں جائز ہے
کہ جب وہ لڑائی میں اپنی قوم کی کسی بھی قسم کی اعانت کریں ۔’’
لہٰذا دشمن (امریکہ ) کی کسی
بھی قسم کی اعانت کےاصول کے ذیل میں ملالہ کو لانے کے لئے اسے امریکہ کا جاسوس قرار
دیا گیا تاکہ اسے ‘‘دشمن کی کسی بھی قسم کی اعانت’’ (یعنی دشمن کی جاسوسی )کے الزام میں قتل کردیا جائے اور
اسے اسلامی شریعت کے عین مطابق قرار دیا جائے ۔ قسط ۔6 میں ملاّ العبیری کا سارا زور
عورتوں کے ذریعے دشمن کی معاونت کرنے کے ذیل میں ہے لہٰذا یہ کہنا
غلط نہ ہوگا کہ مضمون کا یہ حصہ ملالہ کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا ہے ۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-truth-behind-taliban-fatwa/d/9786