New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 08:15 AM

Urdu Section ( 15 Jul 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

I Fight Petrodollar Islam: Sultan Shahin میری جدوجہد پیٹرو ڈالر اسلام کے خلاف ہے

Virtual warrior Sultan Shahin takes on Muslim fundamentalists through his website NewAgeIslam.com

By Mohammad Wajihuddin, The Times of India, Mumbai

Shahin later landed up in London as editor of Asia Times, a weekly owned by one Arif Ali of Indian origin. A decade or so in England, he says, gave him great experience “as it exposed me to different strains of Islam and Muslims”. Like, once at a friend’s house in Nottingham, he heard a 20-year-old Muslim extolling the virtues of Ahle Hadees, a sect which propagates puritanical Islam. Shahin asked the boy the treatment he would prescribe for those Muslims who didn’t follow the Ahle Hadees sect. “Kill them,” said the young fanatic in a cold-blooded tone. “It really disturbed me. The boy had apparently been influenced by radical organisations like Al Mujahidun and Hizb-ut-Tehrir. Thousands of young Muslims had been brainwashed by incendiary preacher Omar Bakri who commanded the following that saints do,” recalls Shahin. “I knew it would not take long before the fires of fanatic Islam reached the Indian subcontinent and consumed our youth.”

Shahin personally encountered the ugly face of exclusivist, supremacist Wahhabism in India when he left the London job to edit a magazine in Delhi in the 1990s, backed by a group of influential, educated, “enlightened” Muslims. A few months into his new job, over breakfast one morning, a member of the management asked him a strange question: “You have been married to a Hindu (Pragya) for a decade. Why have you not been able to bring her under the fold of Islam?” “I quoted him the Quranic verse La ikraha fiddeen (there is no compulsion in religion) and reasoned that to convert or not to Islam was her personal choice. But it didn’t cut any ice and they sacked me,” Shahin says.

He went into deep depression, as the blow had been dealt by the people whom he believed to be “the cream of Indian Muslim society”. He took to freelancing aggressively in the national press, opposing the conservative mindset, a mentality which threatened the multicultural, pluralistic ethos of India and Indian Islam. Many in the Sangh Parivar, including the BJP, mistook him for the right medium to reach out to Muslims. “They didn’t know that many Muslims hated me. I was a bad choice to become a bridge between the Sangh Parivar and Muslims,” laughs Shahin, who has been variously addressed as kafir (infidel), munafiq (hypocrite) and even Dear Zionist.

His liberal, rational advocacy of Islamic principles, especially since he launched the website, has enraged many Islamists, who hack his website regularly and post abusive letters and rejoinders. Many threaten him with the fires of hell. “Initially, I left the site unmonitored, as I wanted a free and frank dialogue. But now we monitor it, as we discovered that not just the jihadists, but even some Viagra-selling companies were using the website to advertise their products,” he smiles. “We sell ideas, not aphrodisiacs.”

Source: The Times of India

URL For Full Article in English: http://www.newageislam.com/the-war-within-islam/i-fight-petrodollar-islam--sultan-shahin/d/3275

 

میری جدوجہد پیٹرو ڈالر اسلام کے خلاف ہے

سلطان شاہین، ایڈیٹر،  نیو ، ایج اسلام

محمد وجیح الدین ، ٹائمس آف انڈیا،   ممبئی

مترجم،  سمیع الرحمٰن

سلطان شاہین اپنی ویب سائٹ نیو ایج اسلام ڈاٹ کام کے ذریعہ مسلم انتہا پسندی سے نبرد آزما ہیں۔

مشرقی دہلی کےپٹ پڑ گنج علاقے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک شخص اپنا زیادہ تر وقت کمپیوٹر پر صرف کرتا ہے ۔ ان کا یہ جنون یا اسے کچھ اور کہیں  ان کے لاکھوں لوگوں کے ہوں گے لیکن سلطان شاہین کو صرف یوں ہی ویب کا نشہ نہیں ہے بلکہ اپنی ویب سائٹ پر لگاتار سرفنگ کرنا ، لکھنا اور اپنی تحریریں پوسٹ کرنے کے پس پشت ایک مقصد ہے کہ اسلام کو جہادیوں اور پیٹرو ڈالر کی امداد حاصل کرنے والے سلفیوں و ہابیوں کے چنگل سے بچانا ہے۔

شاہین ویب سائٹ کے ذریعہ اسلام میں غیر اعتدال پسندی سے مقابلہ کررہے ہیں ۔ وہ طالبانیوں اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کے ساتھ ہی ساتھ اسلام کی برتری اور دوسرے مذاہب کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والوں سے نبرد آزما ہیں اور ان لوگوں کے خلاف نظریاتی طور پر جدوجہد کررہے ہیں جن کا تصور ہے کہ اسلام ،اللہ تعالیٰ کے ذریعہ منتخب کیا گیا وہ واحد راستہ ہے جو جنت میں لے جاتا ہے۔

سلطان شاہین کہتے ہیں کہ ان کی لڑائی پیٹرو ڈالر اسلام کے خلاف ہے۔ شاہین مزید کہتے ہیں کہ میں ایک ایسے فورم کی تعمیر کررہا ہوں جو دوسرے مذاہب کے وجود کو قبول کرنے کے ساتھ ہی سبھی کو ساتھ لے کر چلنے والے اعتدال پسند اسلام سے تعارف کرائے گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام کوئی نیا مذہب نہیں ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ اسلام پہلے سے جاری مذاہب کی یقین دہانی کرانے کے ساتھ ہی انکا جواز بھی پیش کرتا ہے۔ سلطان شاہین یہ باتیں دعویٰ کے ساتھ کرتے ہیں۔

انتہا پسندوں کی نفرت کی وجہ سے سلطان شاہین کو کئی پیرو بھی مل گئے ہیں ۔ نیو ایج اسلام ڈاٹ کام کے مدیر کا دعویٰ ہے کہ ویب سائٹ قیام کے دوسال کے اندر ہی رجسٹرڈ سبسکرائبر (سبسکرپشن مفت ہے) کی تعداد 117000تک پہنچ گئی ہے ۔ پانچ معاونیں کی مدد سے شائع کئے جارہے نیوز لیٹر نے ایسے موضوعات اور شخصیات پر بحث کی شروعات کی ہے جن پر مسجد جانے والے اور مذہبی نظر آنے والے مسلمانوں نے شاید ہی کبھی بحث کی ہو۔ نیو ایج اسلام ڈاٹ کام نے ٹی وی پر نظر آنے والے ممبئی کے ڈاکٹر ذاکر نائک کی بھی تنقید کی ہے اور تنقید صرف اس لئے نہیں کہ جیسا کے کہا جاتا ہے کے وہ دولت مند سعودی شیخوں امداد حاصل کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ تمام مذاہب پر اسلام کی برتری اور دوسرے مذاہب کی حقیر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔20ویں صدی کے ایک محقق اور اردو  رسالہ، نگار، کے مدیر نیاز فتحپوری اسلامی اصولوں کی شائشتہ اور آسان تشریح کی وجہ سے ویب سائٹ پر کافی مقبول شخص بن گئے ہیں ۔ ویب سائٹ اردو پریس پر بھی نظر رکھتی ہے جن میں پاکستان سے شائع ہونے والے اخبارات بھی شامل ہیں۔ ان میں شائع شدہ معقول نظریات کو ویب سائٹ پر اردو کے ساتھ ہی انگریزی کا ترجمہ بھی شائع کیا جاتا ہے۔

سلطان شاہین کے مطابق ویب سائٹ پرلوگوں کا ملنے والا فیڈ بیک (FEEDBACK) حیران کردینے والا ہے۔ جب میں نے ویب سائٹ کی شروعات کی تھی تب مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ لوگوں میں اس قدر دلچسپی پیدا کرے گی اورلوگوں کو اپنی جانب راغب کرے گی خاص طور سے آسٹریلیا سے لیکر ابو ظہبی اور کناڈا سے لیکر کویمبٹور کے مسلم نوجوانوں میں ۔70کی دہائی میں جماعت اسلامی کی ترجمان ریڈینس سے سلطان شاہین نے اپنے صحافتی کیریئر کی ابتداکی جو ان دنوں پرانی دہلی کے بلی ماران کی گلیوں سے شائع ہوتا تھا۔

ایک مولوی کے بیٹے سلطان شاہین بہار کے اورنگ آباد ضلع کے ایک گاؤں میں پلے بڑھے ۔ ان کو آج بھی وہ راتیں یاد ہیں جب والد کی بیماری کی وجہ سے ان کے پانچ بھائی بہنوں کو خالی پیٹ ہی گزارنی پڑی تھیں۔ والد کی بیماری کے سبب ان کا کچھ دنوں بعد انتقال بھی ہوگیا ایسے حالات میں گھر کی ذمہ داریاں بڑے ہونے کے سبب سلطان شاہین کے نوجوان کاندھوں پر آگئی ۔ پٹنہ میں کالج میں پڑھائی کے دوران کئی مقامی اردو روز ناموں کے لئے پارٹ ٹائم نوکری بھی کی۔ بعد میں ہندوستانی نژاد عارف علی کے ہفتہ وار رسالے ایشیا ٹائمس کے مدیر کی حیثیت سے لندن روانہ ہوگئے۔ سلطان شاہین کا کہنا ہے کہ انگلینڈ میں ایک دہائی یا اس سے کچھ زائد رہنے کے دوران بہت کچھ سیکھنے کوملا۔ کیونکہ اس دوران اسلام اور مسلمانوں کے الگ الگ طبقات کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ۔ جیسے ناٹنگھم (انگلینڈ) میں ایک 20سال کے نوجوان کو اہل حدیث فرقہ کی تعریف کرتے سنا، یہ فرقہ اسلام کے سخت رخ کی وکالت کرتا ہے۔ سلطان شاہین نے اس نوجوان سے پوچھا کی اس کی ان مسلمانوں کے بارے میں کیا رائے ہے جو اس فرقہ میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اس لڑکے نے کہا کہ ان کا قتل کردینا چاہئے۔ اس نوجوان کے اس جواب نے مجھے بے چین کردیا ۔ اس لڑکے کا تعلق المجاجرون  اور حزب التحریر جیسے انتہا پسند تنظیموں سے تھا۔ عمر بکری نام کے مبلغ نے وہاں ہزاروں مسلم نوجوانوں کا برین واش کیا تھا اور اس شخص کے مرید اس کی ایسی ہی تعظیم کرتے تھے جیسے کہ سنتوں کو ان کے ماننے والے کیا کرتے ہیں۔ سلطان شاہین کو یہ لگ رہا  تھا کہ انتہائی پسندی کی اس آگ کو ہندوستانی براعظیم تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا اور یہ ہمارے نوجوانوں کو بھی اپنے گرفت میں کر لے گی۔

90کی دہائی میں جب سلطان شاہین دہلی میں ایک میگزین میں کام کرنے کے لئے واپس ہندوستان آئے تو یہاں بھی ان کو اسی غیر اعتدال پسندی کی بدترین صورت سے دوچار ہونا پڑا۔ حالانکہ یہ میگزین ہندوستانی مسلمانوں کے پرھے لکھے اور بااثر طبقے کے ذریعہ شائع کی جارہی تھی ۔ سلطان شاہین نے میگزین کے کام کو کچھ ماہ قبل ہی سنبھالا تھا کہ ایک روز ناشتے کی ٹیبل پر مینجمنٹ کے ایک ممبر نے ان سے سوال کیا  کہ ایک دہائی قبل آپ نے ایک غیرمسلم لڑکی سے شادی کی تھی اسے اب تک دائرہ اسلام میں کیوں نہیں لاسکے۔ سلطان شاہین نے قرآن کی ایک آیت لا اکرا ہافدین کا ذکر کیا اور بتایا کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اسلام مذہب قبول کرنا یا نہ کرنا اسکا اپنا نجی معاملہ ہے۔سلطان شاہین کا کہنا ہے کہ بات اتنی سی تھی اور ان کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ ان کو سب سے بڑا صدمہ اس بات کا لگا کہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ یہ برتاؤ کیا وہ مسلم سماج کے سب سے پڑھے لکھے اور باشعور لوگ مانے جاتے ہیں۔

ملازمت جانے کے بعد سلطان شاہین نے آزادانہ طور پر صحافت (فری لانسنگ) کرنے لگے اور اس دوران قومی پریس میں اسلام میں غیر اعتدال پسندی پر خوب مضامین لکھے  جس سے نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کو خطرہ ہے بلکہ ہندوستان کے کئے تہذیبوں والے قومی اخلاق کو بھی خطرہ لاحق ہے۔اسلامی اصولوں کی شائشتہ اور آزادانہ تشریح کی وجہ سے سلطان شاہین نے اسلام مذہب کے کئی ٹھیکیداروں کوبری طرح ناراض کیا، خاص طور سے ویب سائٹ کے قیام کے بعد سے ۔ یہ لوگ ویب سائٹ کو ہیک (HACK)کرنے کے علاوہ ایسے خطوط بھیج رہے تھے جو اخلاقی اعتبار سے بدتر تھے اور یہی نہیں یہ لوگ ویب سائٹ پر ایسے جوابات بھی خوب پوسٹ کیا کرتے تھے ۔ اور ان میں سے کئی مجھے جہنم کی آگ کا خوف بھی دکھاتے تھے۔ شروعات میں میں نے ویب سائٹ کو بغیر مانیٹرنگ کے ہی رکھا تھا کیو نکہ میں آزادانہ اور صاف ستھری گفتگو کرنا چاہتا تھا، لیکن اب ہم ویب سائٹ کو مانیٹر کرتے ہیں۔

سلطان شاہین چار بچوں کے والد ہیں۔ مذاہب اور خصوصی طور پر اسلام کے گہرے مطالعہ سے سلطان شاہین کے نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آدم ، موسیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح رام اور کرشن بھی ان  کے نزدیک پیغمبر ہیں اور اگر ہم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پکارتے ہیں تو مجھے رام کو حضرت رام کہنے میں  کوئی پرہیز نہیں ہے۔

اب جب ہم ذی شعور اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والے اسلام کے چیمپیئن سلطان شاہین کو الوداع کہہ رہے ہیں تو ہمیں ہندوستان کے قابل تکریم سیکولر زم پرفخر ہوتا ہے ۔ کون سا ایسا اسلامی ملک ہے جوسلطان شاہین کو برداشت کرے گا؟

URL: https://newageislam.com/urdu-section/i-fight-petrodollar-islam-sultan/d/5043

Loading..

Loading..