تعارف
ڈاکٹر سید جعفر احمد
جنوبی ایشیا ان دنوں دوسنگین
عارضوں میں مبتلا ہے۔مذہبی تنگ نظری اور جنگی جنون ۔جہاں تک مذہبی تنگ نظری ،عدم رواداری
اور تعصب کا تعلق ہے ،ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ ان رجحانات نے جنوبی ایشیا کے دونوں
بڑے ملکوں پاکستان اور ہندوستان کی داخلی وحدت کےلئے سخت مشکلات پیدا کردی ہیں۔ چنانچہ
ہندوستان میں جتھہ بند ہند و گروہوں کی طرف سے مسلم آبادیوں پر حملے روز کا معمول
بن چکے ہیں۔بستیوں کی بستیاں نذر آتش کردی جاتی ہیں، کاروبار تباہ کردئے جاتے ہیں
،عورتوں کی آبروریزی کی جاتی ہے، معصوم بچوں کوموت کی نیند سلادیا جاتا ہے اور ہندتو
ا کے نام لیوا برچھیاں اوربھالے لہراتے ہوئے اپنے کارناموں پر رقص کرتے ہیں۔اور ہندوستان
کی حکومت جو جمہوریت اور سیکولر ازم کے راگ الاپتے ہیں ہمہ وقت مصروف رہتی ہے ،ا کا
رروائیوں سےصرف نظر کرتی ہے اور اب یہ بات بھی پوشیدہ نہیں رہی کہ اکثر واقعات میں
خود کی پشت پناہی بھی انتہا پسندوں گروہوں کو حاصل ہوتی ہے۔
پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی
کی اپنی ایک دنیا ہے۔ ایک جانب اکثر وبیشتر مذہبی تنظیمیں غیر مسلموں کی طرف سے مستقل
عناد کے رویے کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ دوسری طرف فرقہ پرستی کا دور دورہ ہے اور ایک فرقے
کے انتہا پسند دوسرے فرقے کا کافر گردانتے ہیں اور ان کو تہہ تیغ کرنے کو اپنے لئے
وسیلہ نجات تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ مسجدوں اور امام باڑوں پر حملے ہوتے ہیں مخالف فرقے
کے سرکردہ افراد کی ‘‘ٹارگیٹ کلنگ’’ ہوتی ہے اور جنازوں تک پر فائر کی جاتی ہے۔
مذہبی تنگ نظری کے اس مہلک
عارضے کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کے دونوں بڑے ملک جنگی جنون میں بھی مبتلا ہیں جس کی
ابتدا تقسیم ہند کے وقت ہی ہوگئی تھی ۔پھر اس جنگی جنون میں وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا ۔ دونوں
ملکوں نے تین باقاعدہ جنگیں بھی لڑلیں مگر راہو ہمارے تعصب کا جو ہم کو اپنے ارد گرد
کے حقائق سے چشم پوشی پرمجبور کرتا ہے اور ہم کو ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹادینے
کی خواہش میں مبتلا رکھتا ہے۔خیر سے اب یہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت بھی بن گئے ہیں
۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کی آبادی کا تقریباً نصف خط افلاس سے نیچے
زندگی بسر کررہا ہے،بڑھتی ہوئی اور در کنار
ہوتی ہوئی آبادیاں محدود وسائل کے حامل شہروں کو ‘‘تاراج’’ کررہی ہیں ،اپنی اپنی معیشت
کی گاڑی کو چلانے کے لئے دونوں ملک کچھ کم یا زیادہ کےفرق کے ساتھ بیرونی امداد اور
قرضوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔دونوں ملکوں کے ہاتھوں میں کاسہ گدائی
ہے مگر ذہنوں میں یہ سودا سمایا ہوا ہے کہ ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجائے بغیر چین
سے نہیں بیٹھیں گے ۔
جنوبی ایشیا کی اس دیوانگی
اور شوق تباہی کے آگے بند کون باندھے گا ؟ اور کون جنوبی ایشیا کو امن بھائی چارے،
افہام و تفہیم اور بقائے باہمی کا متبادل راستہ دکھانے کا کام کرے گا؟بدقسمتی سےدونوں
ملکوں کے ریاستی ڈھانچے اور ریاستی اداروں میں متمکن افراد ہمیں روشنی کی کوئی کرن
نہیں دکھاتے ۔ یہ ادارے اور افراد مسئلے کا حل یوں نہیں دے سکتے کہ یہ خود مسئلے کا
حصہ ہیں۔ تب امید کی کرن کہاں؟ حالات کیوں کربدل سکتے ہیں ؟ تصورات میں تبدیلی کس طرح
سے آسکتی ہے ؟ حال ہی میں مشہور عرب دانشور ایڈورڈ سعید نے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے
ایک نکتے کی بات کہی ہے ۔برسہا برس کی آویز ش عرب اسرائیلی تنازعے ،عالم عرب میں امریکہ
کے نفوذ اور عربوں کے بکھرتے ہوئے شیراز ے کے تناظر میں ایڈورڈ سعید کا کہنا ہے کہ
شرق اوسط کو ایک عرب متبادل کی ضرورت ہے۔ یعنی خود عالم عرب ہی سے ابھرنے والا ایک
نیا طرز فکر ،ایک نیا پیرا ذائم ۔ یہ عرب متبادل ہی عربوں کے آج کے داخلی و خارجی
ماحول کو تبدیل کرسکتا ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کو بھی آج ایک جنوبی ایشائی
متبادل کی ضرورت ہے جو ہماری موجودہ تنگ نظری کے مقابل ہم کو ایک وسیع تر تناظر اور
اپنے اجتماعی مفادات کا ایک حقیقی اور گہرا شعور فراہم کرسکے۔ جو ہم کو ایک ایسا ورلڈ
یودے سکے جس کے دائرے میں ہم جنوبی ایشیا کے امکانات کو سمجھ سکیں ۔ یہ متبادل ایسا
ہو جو ہمیں اپنے مسائل کو بات چیت کے ذریعے اور ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سےمٹائے بغیر
حل کرنے کا طریقہ تجویز کرسکے۔
اگر یوں ہے تو پھر سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنوبی ایشیائی متبادل جو ہم کو امن و آتشی اور پرانے امن بقائے
باہمی کے راستے پر ڈال سکے اور ہم کو ہوس جنگ سےباز رکھ سےا ،پیداکس طرح سے ہو ؟ یہ
کام وہ اہل دانش ہی کرسکتے ہیں جن کی آنکھوں پر تعصب کے پردے نہیں پڑے اور جو جنوبی
ایشیا کی ایک ارب سے زیادہ مخلوق کے حقیقی غمگسار اور ان کے پر امن مستقبل کے آرزو
مند ہیں۔ خوش قسمتی سے ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہوں پر ایک اہل قلم کی کمی نہیں
ہے جو نفرتوں کی زبان نہیں بولتے ۔ جو عصبیتوں سے بلند ہوکر سوچتے ہیں اور جن کے قلم
برچھیوں کا کام نہیں کرتے بلکہ جن سے امن ومحبت کی روشنی پھوٹتی ہے ۔زاہدہ حنا ایسے
ہی ادیبوں اور قلمکاروں میں شامل ہیں۔
زاہدہ حنا ایک افسانہ نگار
اور کالم نویس کی حیثیت سے کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ انہوں نے افسانہ نگاری میں
اپناایک منفرد مقام بنایا ہے۔ ان کی کہانیاں اپنے بیباک موضوعات ، تکنیک کے نت نئے
تجربات اور اپنی غیر معمولی سماجی معنویت کے حوالے سے منفرد شناخت رکھتی ہیں۔ ان کے
دو افسانوی مجموعے‘‘قیدی سانس لیتا ہے ’’اور ‘‘راہ میں اجل ہے’’ ان کے مطالعے کی وسعت
اور ان کی سماجی بصیرت کے آئینہ دار ہیں ۔ ان کے بہت سے افسانوں کا دوسری زبانوں میں
ترجمہ ہوچکا ہے ۔ اب وہ ٹیلی ویژن کے لئے بھی لکھتی ہیں اور ان کے لکھے ہوئے سیریل
مقبول بھی ہورہے ہیں ۔زاہدہ حنا علمی و ادبی جرائد کی ایڈیٹر بھی رہی ہیں۔ خاص طور
سے ان کا جاری کردہ پرچہ ‘‘روشن خیال’’ ایک بہت ہی اہم پرچہ تھا جس نے سماجی اور سیاسی
موضوعات پر سنجیدہ تحریروں کو شائع کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ افسوس کہ وہ پرچہ چند برس
نکل کر بند ہوگیا۔
زاہدہ حنا کالم نگار بھی ہیں
۔ وہ برسہا برس پہلے ایہک روزنامے میں ‘‘خاتون کی ڈائری’’ لکھا کرتی تھیں ۔ پچھلے پندرہ
برس سے وہ روز نامہ ‘‘جنگ’’ میں کالم لکھ رہی ہیں ۔ ان کالموں میں انہوں نے جمہوریت
کا مقدمہ لڑا ہے، سماجی انصاف کے لئے آواز اٹھائی ہے اور جنون جنگ بازی کی مسموم فضاؤں
میں امن کے دیئے جلائے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1998کی شور انگیز ایٹمی
فضا میں جبکہ ہمارا اردو پریس جنگی جنون اور جھوٹے احساس تفاخر کی حدوں کو چھوررہا
تھا اور خود اخبار ‘‘جنگ’’ کے ادارتی صفحے پر ایسی ایسی نفرت انگیز تحریریں چھپ رہی
تھیں جن کے لکھنے والوں نے تمام اخلاقی حدوں کو توڑ دیا تھا، زاہدہ حنا یکسوئی کے ساتھ
امن کی ہم نواز ہیں اور دلائل سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہیں کہ ایٹمی دوڑ
دونوں ملکوں کے لئے کس قدر نقصان دہ ہے۔ چار پانچ سال ادھر جبکہ بعض ایسےلوگ بھی جو
کل تک ایٹمی دھماکوں کے سرور میں مبتلا تھے ان دھماکوں کی افادیت کے بارے میں سوال
کرنے لگے ہیں ۔ ایٹمی صلاحیت نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن کی ضمانت فراہم
نہیں کیے اور دونوں ملکو ں کو نئے نئے مسائل سے سابقہ پڑرہا ہے ۔زاہدہ حنا اور ان جیسے
دوسرے راست فکر لکھنے والوں کی تحریروں کی سچائی واضح سے واضح تر ہوتی جارہی ہے۔
‘‘تعلیم برائے امن’’ کے سلسلہ مضامین کے زیر نظر چھٹے کتابچے میں ہم
جنگ اور امن کے موضوع پر زاہدہ حنا کے تین مضامین شائع کررہے ہیں ۔ ان میں سے پہلا
مضمون ‘‘ضمیر کی آواز’’ معروف صحافی اور ادیب ضمیر نیازی صاحب کی مرتبہ کتاب ‘‘زمین
کا نوحہ’’ کی تقریب رونمائی کے موقع پر لکھا گیا اور اس مضمون کے کچھ حصے مذکورہ تقریب
میں پڑھے گئے۔ اب یہ مفصل مضمون اس کتابچے میں شائع کیا جارہا ہے ۔ دوسرا مضمون ‘‘سماج
میں نراج اور جنگی جنون’’ نومبر 2000میں ارتقا لٹریر یفورم اور انجمن ترقی پسند مصنفین
کی جانب سے ہونے والے سہ روزہ سیمینار قلم برائے امن (Pen
for Peace) میں
پڑھا گیا۔ تیسرا مضمون ‘‘برصغیر خود کشی پر تلا ہوا ہے’’ پاکستان میں کولیشن Coaliation Pakistan Peace) کی جانب سے منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں 28مئی کو پڑھا گیا ۔
اس روز ملک میں ایٹمی دھماکوں کی چوتھی سالگرہ منائی جارہی تھی۔
ان مضامین میں زاہدہ حنا امن
کی وکالت بہت موثر انداز کے ساتھ کرتی ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور ہندوستان سے متعلق
بے شمار اعداد وشمار بڑی محنت سے اکٹھا کئے ہیں۔ ان اعداد وشمار سے وہ ان ملکوں کی
عبرتناک اور ابتر معاشی صورت حال کی تصویر کشی کرتی ہیں اور پھر یہ دکھاتی ہیں کہ یہ
ملک اسلحے کی دوڑ پر کیا کچھ خرچ کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سامان تباہی پر اٹھنے
والے اخراجات اگر اپنے اپنے غریب عوام کی بہبود پر خرچ کئے جائیں تو دونوں ملک کو ایسی
خوشحالی حاصل کرسکتے ہیں جو ان کو حقیقی احساس تفا کر فراہم کرسکتی ہے۔ زاہدہ حنا کے
سیاسی واقتصادی دلائل ،تاریخ کے اوراق سے اخذ کئے گئے ان کے سبق ، ادبیات عالیہ سے
دی گئی شہادتیں اور ان سب پر مشتر ادان کا پنا تخلیقی پیرائیہ بیان ان سب چیزں نے مل
کر ان مضامین میں وہ قوت اور اثر پیدا کردیا ہے جس کو ہر حساس پڑھنے والا محسوس کرے
گا۔
ضمیر کی آواز : پہلی قسط
زاہدہ حنا
ہماری دنیا 16جولائی 1945کو
ہونے والے پہلے کامیاب ایٹمی تجربے کے بعد ‘ایٹمی دور’ میں داخل ہوئی اور اس کے صرف
بیس دن بعد 6اگست 1945کو ہیرو شیما پر دنیا کا پہلا ایٹم بم گرادیا گیا۔
ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے
ذبیحے کے فوراً بعد ملکوں اور قوموں میں مہلک ترین ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی دوڑ
لگ گئی ۔ ان ہی دنوں برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا ،
اس نئی اور نظریاتی مملکت کے وجود میں آنے کے فوراً بعد اعلیٰ سولاور فوجی حکام نے
ہتھیاروں کے حصول کے لئے کوئٹے کے فاؤسٹ کی طرح پاکستان کی روح مغربی طاقتوں کے ہاتھ
فروخت کردی ۔ امریکہ سے پاکستان کی سول اور فو جی نوکر شاہی کاعقد ز فاف ہوچکا تھا
،الفت کے دن تھے اور وصلت کی راتیں ۔جنگی جنون اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کے خلاف ساری
دنیا کے ادیب اور دانشور اپنے شدید ردعمل کا اظہار کررہے تھے لیکن پاکستان میں تخلیقی
سطح پر احتجاج کی یہ آواز بہت مدھم تھی۔ امن اور انسانی حقوق کی بات کرنے والے ‘‘غدار’’
کہلاتے اور سماج میں انہیں ‘‘عفریت’’ کے طور پر پیش کیا جاتا ۔ حکومت پاکستان نے انجمن
ترقی پسند مصنفین پر پابندی عائد کردی تھی اور بہت سے ادیب قید و بند کی صعوبتوں سے
خوفزدہ ہوکر ان مضو عات پر لکھنے سے کنارہ کرنے میں عافیت محسوس کررہے تھے۔ وہ ادیب
اور شاعر جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لکھ رہے تھے ان کی تحریروں کی اشاعت ایک مسئلہ
تھی۔
یہی وہ زمانہ ہے جب پاکستان
کیا مفتی اور خاکی انتظامیہ نے بغداد پیکٹ ، سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں کے ذریعہ
ملک کو امریکہ کی طفیلی ریاست بنادیا ۔ ‘‘کمیو نزم کی یلغار ’’ کے آگے بند باندھنے
کے لئے بہت سے ادیب ،دانشور اور صحافی پیش منظر پر نمودار ہوئے، ادب جو اپنی بنیاد
میں سیکولر ہوتا ہے، اسے بھی ‘‘اسلامی’’ اور ‘‘پاکستانی’’ کا نام دیا گیا ۔فوج جو
1952سے پس پردہ رہ کر ملکی معاملات میں دخیل تھی، اکتوبر 1958میں براہِ راست اقدار
پر قابض ہوگئی، ملک کی ترقی پسند قوتیں روز بہ روز کمزور تر ہوتی گئیں ۔ستمبر 1965کی
جنگ نے ہندوستان کی صورت میں پاکستان کی خاکی اور مفتی نوکر شاہی کو ایک ‘‘ازلی اور
ابدی دشمن’’ فراہم کردیا۔ اسلحے کے ڈھیر لگتے گئے، جنگی جنون کو‘ حب الوطن ’ اور ملک
کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے نام پر بڑھا یا گیا ۔ مشرقی پاکستانی
کے جمہوری حقوق غصب کیے گئے ،1970میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے کی
بجائے وہاں کی عوامی جد وجہد کو طاقت کے ذریعہ کچلا گیا ۔ 1971کے سانحے کے بعد ہندوستان
دشمنی کو مزید فروغ ہوا ۔1974میں مسز اندرا گاندھی کی قیادت میں ہندوستان نے پہلا ایٹمی
دھماکہ کیا۔ پاکستان میں ‘‘جوابی کارروائی ’’ کےلئے شور مچ گیا۔یوں بھی 1966سے پاکستان
کی مقتدر اشرافیہ اپنا فیصلہ ایٹم بم بنانے کے حق میں دے چکی تھی، چنانچہ مسنر اندرا
گاندھی کے اس اقدام نے پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنا فیصلہ ایٹم بم بنانے کے حق میں
دے چکی تھی، چنانچہ مسز اندرا گاندھی کے اس اقدام نے پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کے ہاتھ
مضبوط کئے۔ ہندوستان نے 11مئی 1998کو ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کیا تو پاکستان میں
یہ کہنےوالے دانشوروں اور ادیبوں کا کاٹ تھا کہ اگر ہندوستان کی رجعت پسند حکومت نے
ایک غلط فیصلہ کیا ہے تو اس کی پیروی کیوں کریں؟ کیا عوام اور کیا خواص ، سب ہی ‘‘
ساتویں ایٹمی طاقت، بن بیٹھنے کے لئے بیتاب تھے۔ چنانچہ 28مئی 1998کو پاکستان کی طرف
سے ایٹمی طاقت بن جانے کے اعلان کے ساتھ ہی ملک میں ایک عظیم الشان جشن منایا گیا جو
ہفتوں جاری رہا
برصغیر میں اسی ایٹمی عفریت
کی پیدائش سے پہلے مئی کے مہینے کو میں برصغیر کے ایک قوم پرست شہری کے چور پر دیکھتی
تھی ۔مجھے یادآرہا ہے کہ ....
یہ 22مئی 1498کا دن تھا جب
واسکو ڈی گاما نے اپنے ملاحوں اور جہازیوں
کے ساتھ برصغیر کی سرزمین پر قدم رکھا اور ہندوستان پر نو آباد یاتی تسلط کے بیج بوئے
گئے۔
یہ 4مئی 1788کی تاریخ تھی
جب ہندوستان میں برطانوی استعمار کو زچ کردینے اور اس کے خلاف جی جان سے لڑنے والے
قوم پرست ٹیپو نے میدان جنگ میں اپنی زندگی ہاردی اور اس کے ساتھ ہی انگریزوں کو ہندوستان
پر راج کرنے کی چھٹی مل گئی ۔
یہ 10مئی 1857کی رات تھی جب
برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لئے میرٹھ کے شہر میں وہ شعلہ لپکا جو ہندوستان
کے طول و عرض میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا ،جسے انگریزوں کی لکھی ہوئی تاریخ میں
آج بھی ‘‘غدر’’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ہم جسے ‘‘جنگ آزادی ’’ کا نام دیتے
ہیں ۔
10مئی 1998کےبعد میرے لیے اس مہینے کی معنویت یکسر بدل گئی کیو نکہ
یہ 11مئی 1998کی دو پہر تھی جب ہندوستان کی انتہا پسند سیاسی جماعت بی جے پی کی اقلیتی
حکومت کے معتدل ، نرم مزاج، شائستہ اور شاعر وزیر اعظم نے برصغیر میں ایٹمی اسلحہ کی
اس دوڑ کا آغاز کردیا جو ....
میرے منہ میں خاک ....اس خوبصورت
اور خیال انگیز خطے کو راکھ کا ڈھیر بناسکتی ہے اور پھر 28مئی 1998کو پاکستان بھی ایٹمی
اسلحے کی اس دوڑ میں شامل ہوگیا ۔
یہ درست ہےکہ 1974میں مسز
اندراگاندھی اور 1998میں اٹل بہاری واجپئی نے ‘‘ایٹمی پہلکاری’’ سے کام لیا اور پاکستان
کو اس میدان میں اپنے ‘‘جوہر’’ دکھانے کاموقع دیا ۔ اس کے باوجود ہمیں یہ حقائق بھی
فراموش نہیں کرنے چاہئیں کہ یہ ایوب کا بینہ میں شامل ایندھن ،بجلی اور قدرتی وسائل
کے جواں سال اور دانشور وزیر ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے 1966میں کہا تھا کہ اگر
ہندوستان نے ایٹم بم بنایا تو پاکستان بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہے گا ۔ انہوں نے
کہا تھا....‘‘اگر پاکستانیوں کو گھاس کھانی پڑی تب بھی ہم (ایٹم) بم بنائیں گے۔’’ان
کایہ جملہ پاکستان میں آج تک دہرایا جاتا ہے۔ پاکستان نے اپنی اسی پالیسی کے تحت
1968میں این پی ٹی (Non-Poliferation Teaty) پر دستخط کرنے سے انکار
کردیا تھااور اپنا نیو کلئیر آپشن کھلا رکھا تھا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1969میں
ایٹمی ہتھیار وں کے حصول کا جوازیوں دیا تھاکہ ...‘‘ ہمارے عہد کی تمام جنگیں مکمل
جنگیں ہوچکی ہیں۔ ہمیں یہ فرض کرنا چاہئے کہ پاکستان پر اگر کوئی جنگ مسلط کی گئی تو
وہ ایک مکمل جنگ (نیست ونابود کر دینے والی ) میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ اگر ہم
نے اس کےلئے کم تیاری کی تو وہ خطرناک ہوگی۔ ہمیں اپنے منصو بے میں نیوکلیائی مزاحمت
کو بھی شامل کرنا ہوگا۔’’انہوں نے 1972میں صدر پاکستان کی حیثیت سے ملتان میں ایک خفیہ اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں پاکستان
کے نیو کلئیر سائنسدان ،اعلیٰ فوجی اور سول حکام مو جود تھے۔ ان لوگوں کے سامنے انہوں
نے ایٹم بم تیار کرنے کے اپنے منصوبے کو بیان کیا تھا
اب یہ بحث بیکار ہے کہ برصغیر
میں ایٹمی جن کو بوتل سے باہر لانے کی زیادہ ذمہ داری کس کی ہے؟ لیکن یہ ضرور ہے کہ
اس ایٹمی دوڑ میں فاقہ زدہ ہندوستان اور پاکستان ،دونوں ہی ہانپتے کانپتے ،گرتے پڑتے
ایک دوسرے کا تعاقب کررہے ہیں جبکہ دونوں طرف کے لوگوں کے لیے 11مئی 1998سے پہلے ایٹمی
آگ اور نیو کلیائی رات ان سے ہزاروں میل کے فاصلے پر تھی ۔ یہ یورپ او رامریکہ کا
،روس یا چین کامسئلہ اور معاملہ تان ۔ ہم پاکستان میں رہتے ہوں یا ہندوستان میں ،چین
آرام سے سوتے تھے ۔ یہ جانتے تھے کہ اگر دونوں طرف سناٹا ہوگا ۔ یہ سمجھتے تھے کہ
جنگ ہوئی تو رات کے اندھیرے میں ایٹمی ایئر کرافٹ کی چھوڑی ہوئی آتش بازی دیکھیں گے
اور دن کے روشنی میں کراچی یا دلّی ، لاہور یا امرتسر کے آسمان پر دونوں طرف کے طیاروں
کی ڈاگ فائیٹ نظر آئے گی۔ جنگ کے خوف کے باوجود اس کا یقین رہتا تھا کہ گولے گرے بھی
تو ہم ضرور بچ جائیں گے ، ایک دیوار گر گئی تو نئی دیو ار اٹھالیں گے اور یہ یقین کیوں
نہ ہوتا کہ امید پر دنیا قائم ہے۔
لیکن اٹل بہاری واجپئی او
رلال کرشن ایڈوانی کو تمام ہندوستانی اور پاکستانی ‘‘دعائیں’’ دیں گے کہ انہوں نے صلح
کی باتوں کو بزدلی اور جنگجو یانہ نعروں کو بہادری سمجھتے ہوئے برصغیر میں نیو کلیائی
اسلحے کی دوڑ کا وہ سلسلہ شروع کیا جس کا خاتمہ
نہ جانے کب اورکیسے ہوگا۔ شاید بات ہم سب کے خاتمے پر ختم ہو۔
11مئی 1998کےبرصغیر میں رہنے والا ہر فرد اپنی آخری سانس تک اس عذاب
میں مبتلا رہا کرے گا کہ دنیا کے ہولناک ترین ہتھیار اس کے خطے کے اسلحہ خانوں کی زینت
بن چکے ۔ یہ عفریت جواب تک نیوکلیائی لیبارٹریوں میں منجمد تھے، پیدا ہوچکے ،سانس لے
رہے ہیں اور ان کی زہریلی پھٹکاریں کلکتہ سے کراچی تک اور لاہور سے دلی تک سب کو صاف
سنائی دے رہی ہیں اور ان کی تپش سب ہی محسوس کررہے ہیں۔برصغیر جس میں ان نئے ہتھیار
وں نے جنم لیا ہے اس کے دونوں ملکوں کے درمیان ایک سنگین علاقائی تنازعہ موجود ہے۔
اس تنازعہ کے سبب بر صغیر میں نصف صدی کے دوران کئی جنگیں ہوچکیں ،پاکستان کا ایک حصہ
آخری جنگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش بن چکا ہے ۔ آج بھی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان
سرحدی جھڑپیں روز کا معمول ہیں، ان جھڑپوں کا نتیجہ دونوں طرف کے بے گناہ شہریوں کی
ہلاکت ہوتا ہے جوادھر یا ادھر کی آوارہ گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان او رہندوستان
کی افواج ہمہ وقت ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں اور ان کے درمیان کسی بھی لمحے کوئی
ایسا واقعہ ہوسکتا ہے جو بھرپور جنگ میں بدل جائے، ایک ایسی جنگ میں جواب محض روایتی
ہتھیار وں سے نہیں لڑی جائے گی۔
ایک ایسے جنگ زدہ خطے میں
دونو ں ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار وں کی موجودگی بعض خوش فہمیوں کے خیال میں ‘‘طاقت
کا توازن’’ قائم کرتی ہے جبکہ درحقیقت یہ ‘‘دہشت کا توازن ’’ ہے جو دونوں ملکوں کے
درمیان قائم ہوگیا ہے۔ اس صورت حال کا منطقی نتیجہ اب یہی نکلے گا کہ دہشت کے اس توازن
میں اضافہ ہوتارہے گا ،غریب کے منہ کانوالہ چھٹتا رہے گا اور نیو کلیائی اسلحے کی طاقت
وتعداد میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہوتی رہے
گی۔
جنگ کی اور جنگی جنونیوں کی
بات کرتے ہوئے مجھے سویئزر لینڈ کا ایکے شہری جین جیکو ئس ہیبل یاد آیا ۔بیسویں صدی
کے آخری برسوں میں ایک روز اسے خیال آیا کہ ذرا حساب تو لگا یا جائے کہ انسان ساڑھے
تین ہزار قتل مسیح سے اب تک ،یعنی گزشتہ ساڑھے پانچ ہزار برس کے دوران کل کتنے دنوں
حالت امن میں رہا ہے ۔ مہینوں اور برسوں کی ریاضت کے بعد تاریخ کی کتابوں اور مختلف
زمانوں میں لڑی جانے والی لڑائیوں کے روز نامچوں ، یادداشتوں ،اخباروں اور رسالوں کو
کھنگال کر ، پھر جمع تفریق کے مرحلوں سے گزر کر جیکو ئس ہیبل اس نتیجے پر پہنچا کہ
انسان کی معلوم تاریخ کے ساڑھے پانچ ہزار برسوں کے دوران صرف 292برس ایسے گزرے ہیں
جب دنیا میں کوئی قوم کسی قوم سے کوئی قبیلہ کسی قبیلے سے اور کوئی ریاست کسی ریاست
سے برسر پیکار نہیں تھی۔ ان اعداد وشمار کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچنا کچھ مشکل
نہیں کہ جنگ حکمرانوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس لیے کہ ان کا اور ان کے وابستگان کا فائدہ
اسی میں ہے کہ فوجیں پھلتی پھولتی رہیں ،ہتھیار وں کی صنعت ترقی کرتی رہے ، ایٹم بم
کے بعد ہائیڈ روجن بم اور اس سے بھی ہلاکت خیز ہتھیار وجود میں آتے رہیں اور نسل انسانی
جنگ کے جہنم کا ایندھن بنی رہے ۔ میں اس وقت ترقی یافتہ دنیا میں لگے ہوئے اسلحے کے
انبار کے بارے میں کچھ نہیں چاہتی ۔ میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ برصغیر میں انتہا پسند
حکمران طبقوں کو یہ حق نہیں ملنا چاہئے کہ وہ برصغیر کو نیو کلیائی ہتھیاروں کا ایندھن
بنادیں اور ہماری تاریخ و تہذیب یوں ملیا میٹ ہو جائے جیسے وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔
سوا ارب انسان جیسے پیدا ہی اس لیے ہوئے تھے
کہ برصغیر کے جنگی جنونیوں کا نوالہ بن جائیں ۔
مئی 1998کا مہینہ اب برصغیر
کے جنگی جنونیوں کی جیت ایک ‘‘تاریخی باب’’ بن چکا ہے ۔ یہ وہ دن تھے جب ہندوستان او
رپاکستان کے حکمرانوں کو یاد نہیں رہا تھا کہ وہ دنیا کے غریب ترین عوام پر حکمرانی
کررہے ہیں۔ ان کی مملکتوں میں 40کروڑ افراد روزانہ بھوکے سوتے ہیں۔مزدور بچوں کی کل
تعداد 3؍کروڑ
20؍لاکھ ہے ، 26؍کروڑ
انسان طبی سہولتوں اور 83؍کروڑ
افراد صفائی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہاں کے 50؍کروڑ
انسان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور ان دونوں ملکوں کی دیہاتی عورتیں
اپنے مویشیوں سے کم قیمت میں بیچی اور خریدی جاتی ہیں۔ ان تمام باتوں کو بھلا کر برصغیر
کے مقتدرین نے اس خطے کے لوگوں کی مشکلات کم کرنے کی بجائے یہاں نیو کلیائی جہنم بھڑکانے
کا اہتمام کیا اور اس کے لئے دونوں طرف سے کھربوں روپے خرچ کئے گئے ۔ کوئی بھی باشعور
انسان یہ کیسے مان سکتا ہے کہ نیو کلیائی جن کو آزاد کرتے ہوئے برصغیر کے حکمران طبقات
ان حقائق سے آگاہ نہیں تھے۔
درج بالا بدترین محرومیوں
کے باوجود جنوبی ایشیا دنیا کا سب سے بڑا فوجی خطہ ہے اور ہندوستان اور پاکستان دنیا
کی بڑی افواج رکھتے ہیں ۔ یہ دونوں ملک جدید ترین اسلحے کی خریداری پر سعودی عرب سے
دگنی رقم خرچ کرتے ہیں ۔ یہ دنیا کے وہ دو ملک ہیں جنہوں نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد
بھی اپنے فوجی اخراجات میں بھاری اضافہ کیا ہے۔ دنیا میں فوجی اخراجات 145فیصد اور
پاکستان 7فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے، ہندوستان کا فی کس دفاعی خرچ 10؍ڈالر
جب کہ پاکستان 26؍ڈالر
ہے۔
ہندوستان کے پانچ نیو کلیائی
دھماکوں نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ۔ وہ بھی ایک ایسے زمانے میں جب دنیا میں سرد
جنگ کا خاتمہ ہوچکا ہو، تخفیف اسلحہ کی بات کی جارہی ہو، اس پر اصرار کیا جارہا ہو
کہ انسانی وسائل کو زیادہ سے زیادہ ترقی دینے کی ضرورت ہے ، کسی ملک کا نیو کلیائی
ہتھیار بنانے پر کمر باندھ لینا بہت سے سوالات اٹھاتا ہے ۔ میرے خیال میں ان سوالات
کا سب سے اہم حوالہ ہندوستان کی سماجی صورتحال ہے۔
اس نقطہ نظر سے معاملہ کا
جائزہ لیں تو ہندوستان اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ناخواندہ آبادی کا ملک ہے۔ زیریں
صحارائی افریقہ کے پورے براعظم میں جتنے ناخواندہ افراد ہیں اس سے ڈھائی گنا زیادہ
افراد ہندوستان میں ہیں۔کروڑوں کو پینے کے لئے صاف پانی نہیں ملتا اور 70؍فیصد
آبادی کو صفائی کی بنیادی سہولتیں نہیں میسر ہیں۔ دنیا بھر کے کوئی ایک تہائی انتہائی
غریب افراد ہندوستان میں بستے ہیں اور سب سے زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان
کے 24؍فیصد
غریب ، انتہائی غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم
ہے اور ان میں سے دو تہائی لوگ اس قدر زیادہ غریب ہیں کہ وہ تعلیم اور صحت کی ان کم
سے کم سہولتوں سے بھی محروم ہیں جو انسانی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے ضروری
ہیں۔ انسانی ترقی کے اشاریے کے لحاظ سے 74؍
ملکوں میں ہندوستان کا نمبر 135؍واں
ہے۔
ہندوستان میں انسانی محرومیوں
کا سب سے بڑا نشانہ عورتیں اور بچے ہیں ۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
پانچ سال سے کم عمر 26؍ملین
بچے ناقص غذائیت کا شکار ہیں۔
16؍
سال سے کم عمر بچوں میں ایک تہائی کو مجبوراً محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے۔
15؍
سے 49؍
کے درمیان عمر کی 88؍فیصد
حاملہ عورتیں قلت خون کے مرض میں مبتلا ہیں۔
بالغ عورتوں کی دوتہائی تعداد
ناخواندہ ہے۔
ہندوستان میں بیروزگار ی ایک
سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہے۔اگر چہ بیروزگاروں کے صحیح اعداد وشمار کا اندازہ لگانا
مشکل ہے تا ہم تقریباً 7؍ملین
افراد کا ہر سال لیبر فورس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وہ زیادہ ترتعلیم یافتہ یا ہنر
مند ہیں۔ لیکن معاشی ترقی اس رفتار سے نہیں ہورہی کہ ضرورت کے مطابق ذرائع روزگار میں
اضافہ ہونا ایک لازمی امر ہے۔ 1996کی انسانی وسائل کی ترقی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان
میں 80فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں لیبر فورس 3فیصد
سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ ہونے کے
باوجود بیروزگاری اور نیم بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملازمتوں کے مواقع کی فراہمی
معاشی ترقی کو انسانی زندگیوں سے مربوط کرنے والی اہم ترین حکمت عملی ہے۔
ہندوستان او رمتعدد دوسرے
ترقی پذیر ممالک میں بیروزگاری جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس نے آبادی کی ایکثریت کو
شدت سے غیر مطمئن کررکھا ہے۔
یہ ایک غریب اور پس ماندہ
سماج کی تصویر ہے جو اعداد ودشمار کی روشنی میں ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ایک طرف ہندوستان
کا یہ رخ ہے،دوسری طرف یہی ہندوستان گزشتہ 50برسوں سے 6؍فیصد
سالانہ کے حساب سے اپنے دفاعی اخراجات میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔ تین سال پہلے تک ہندوستان
کے پاس 3400جنگی ٹینک ، 770؍
لڑاکو ہوائی جہاز ، 2؍طیارہ
برادار جنگی جہاز ، 15؍آب
دوزیں ، تار پیڈہ کو تباہ کرنے والے 5؍جہاز
موجود تھے۔ وہ ایک طیارہ بردار جہاز ، 4؍نئی
آب دوزیں اور متعدد دیگر نہایت مہلک اور بے پناہ قیمتی جنگی جہاز اور دوسرے ہتھیار
خریدنے کی تک ودو میں لگا ہوا تھا۔ اور گزشتہ برس یعنی 2000۔1999کے ہندوستانی بجٹ میں
‘‘ملکی سلامتی’’ کے نام پر دفاعی اخراجات میں پہلے کی نسبت 51؍ارب
روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے جس ہندوستان کے دفاعی بجٹ کی مجموعی مالیت 4؍کھرب
12؍ارب روپے ہوگئی ہے۔
ہندوستان سے شائع ہونے والے
رسالے ‘‘انڈین سوشل انسٹی ٹیوٹ بلیٹن ’’ نے جو 1998میں اپنا اداریہ اسی موضوع پر تحریر
کیا ہے اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ .....
‘‘ہمیں پوکھران دھماکوں کی کیا واقعی ضرورت تھی؟ یہ سوال ہندوستان کےکئی
سنجیدہ شہری پوچھ چکے ہیں اور نہ ہی ابھی تک اس کا تسلی بخش جواب ملا۔ یہ سچ ہے کہ
ایٹمی دھماکوں کا قومی جو ش و جذبے کے ساتھ خیر مقدم کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ سرکاری افسر،
تاجر، کاروباری، اور متوسط طبقے نے سڑکوں پر نکل کر جشن منایا ۔ ہندوستان کی برسراقتدار
جماعت کا کہنا تھا کہ 11مئی کو قومی یوم فخر کے طور پر منانا چاہئے ۔ جنہوں نے ایٹمی
دھماکوں کی مخالفت کی یا کسی بھی سطح پر مختلف
رائیگا اظہار کیا انہیں ‘‘قوم دشمن’’ اور ‘‘وطن دشمن’’ ٹھہرایا گیا۔ ایٹمی دھماکوں
کو ہندوستان کی جدید تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔
ایٹمی ہتھیار بڑے پیمانے پر
انسانی تباہی کے ہتھیار ہیں۔ ان کے کرۂ عرض پر انسانی زندگی کی بقا خطرے میں پڑسکتی
ہے۔ اس تباہی کا سب سے پہلا شکار معصوم شہری ہوتے ہیں۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی کے دلخراش
سانحوں سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ یہ بم ان ایٹمی ہتھیاروں سے طاقت میں کہیں کم تھے جو
اس وقت ہمارے پا س ہیں ۔لیکن پھر بھی ان بموں نے دو لاکھ انسانوں کو ہلاک کر ڈالا اور
جغرفیائی او رماحولیاتی اعتبار سے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔’’
بھارت کے ایک جریدے ‘‘آؤٹ
لک’’ نے اپنی 25مئی 1989کی اشاعت میں اندازہ لگایا تھا کہ.....
‘‘اگر دہلی پر بم گرے تو 90؍لاکھ
انسان ہلاک ہوجائیں گے جبکہ بمبئی میں مرنے والوں کی تعداد 89لاکھ ہوگی۔ زیر زمین پانی
اور دریاؤں پر اثرات تباہ کن ہوں گے۔ زمین کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ کیا کوئی بھی
ملک اتنی عظیم تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا جواز فراہم کرسکتا ہے؟’’
ہمار ملک ایک بہت غریب ملک
ہے۔ یہا ں بھوک ،ناخواندگی ،پینے کے صاف پانی اور روزگار کی کمی ہے۔ ہمارے پانچ سال
کی عمر تک کے 60؍لاکھ
بچے ناقص غذائیت کا شکار ہیں۔ 1991کی مردم شماری کے مطابق ہماری 48؍فیصد
آبادی ان پرھ ہے۔ ہمیں تو ابھی بہت سے منزلیں سرکرنا ہیں۔ اسکول بنانے ہیں، ہمارے
بچوں کو رہنے کے لئے گھر درکار ہیں۔ بھوک پیاس کا خاتمہ کرنا ہے اور بنیادی اقتصادی
ڈھانچہ تعمیر کرنا ہے تاکہ ملک ترقی کرسکے ۔ ایٹمی ہتھیار بہت مہنگے ہیں۔ان ہتھیاروں
کا کیا فائدہ ؟جب بھی کوئی ملک ایٹمی ہتھیار وں کی تیاری ،حصول یا تجربات کی راہ پر
قدم رکھتا ہے تو وہ دراصل انسانی تباہی کے راستے پر چل نکلتا ہے ۔ کیا یہ راستہ درست
ہے ؟ یہ سوال ہم سب سے جواب کا طلب گار ہے۔’’
ادھر پاکستان ہے جو ہر وقت
بھیک کا پیالہ لیے ہوئے بین الاقوامی ایجنسیوں کے سامنے کھڑا رہتا ہے جب کہ ایک اندازے
کے مطابق اس نے گزشتہ بیس برس میں صرف اپنے نیو کلیائی ہتھیاروں سے متعلق تجربات اور
تیاری پر چھ کھرب روپیوں سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔
(جاری)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-voice-conscience-part-1/d/2360