پاکستان نامہ کریدتے ہو جو اب راکھ...
زاہدہ حنا
ہوش سنبھالا تو جن بازاروں اور عمارتوں کے نام کان میں پڑے وہ بولٹن مارکیٹ ، جو ڑیا بازار، ڈینسو ہال اور لکشمی بلڈنگ تھے یہ ہول سیل بازار تھے ان سے مہینے بھر کا کھانے پینے کا سامان اکٹھا آتا تھا۔ ان ہی بازاروں سے کھلونے، دوائیں اور دسرا سامان خریدا جاتا تھا ۔ یہ وہ بازار تھے جن کی گلیوں اور دکانوں میں سرمایہ گردش کرتا تھا، شہر کا دل دھڑکتا تھا ، وہ شہر جس کے امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے انگریزوں نے اسے ‘‘ملکہ مشرق’’ کہا تھا، جہاں کی میونسپل کارپوریشن سے تعلق رکھنے والے ہندو ،مسلمان اور پارسی سب ہی جی جان سے اسے دل نواز اور دل پسند بنانے میں جٹے ہوئے تھے ۔ انہیں شہر سے محبت تھی اور شہر ان کے مرتبے بلند کرتا تھا۔
شہر میں جب تک بجلی نہیں آتی تھی، اس کی گلیاں اور چوک روشن رکھنے کے لئے میونسپل کارپوریشن کے معمولی اور گمنام ملازم سرشام شانے پر سیڑھی اور دوسرے ہاتھ میں تیل کی کپی اٹھائے ہر گلی میں نمودار ہوتے، سیڑھی پر چڑھ کر کندھے سے جھاڑن اتارتے ،لالٹین کی چمنی صاف کرتے، کپی سے تیل ڈالتے اور لالٹین روشن کردی جاتی، اندھیرے میں لوگوں کو راستہ دکھانے کے لئے وہ معمولی لوگ گزر گئے۔ ان کا محض ذکر کراچی شہر کے ابتدائی تذکروں میں ملتا ہے ۔ اس کی گلیوں کو روشن کرنے والے، منہ اندھیرے اس کی سڑکوں کو پانی سے دھونے والے اسے سجانے اور سنوارنے والے سب چلے گئے ۔ اب شہر میں عوامی تعمیرات کا صلہ کرو ڑوں روپے ہے، اب سڑکوں کو بجلی کے قمقمو ں سے روشن کرنے والے کھمبوں پر بارود سے بھرے ہوئے تھیلے لٹکائے جاتے ہیں، اس کا انتظار کیا جاتا ہے کہ کب ماتمی جلوس پہنچے اور کب اسے باردو کا تحفہ پیش کیا جائے اور گھات میں وہ بھی بیٹھے ہوئے ہیں جو افراتفری اور بھگدڑ کے دوران نکلتے ہیں اور جائے حادثہ سے متصل بازاروں ،بینکوں،گوداموں اور کئی منزلہ کاروباری عمارتوں کے تالے تو ر کر سامان لوٹتے ہیں ،فاسفورس چھڑ کتے ہیں او رآگ لگاتے ہیں ۔
برطانوی راج کے زمانے کی وہ عمارتیں جو کراچی کی پہچان تھیں اور اس کا ثقافتی ورثہ کہی جاتی تھیں ان کو بھی آگ لگانے والوں نے نہیں چھوڑا ۔ ان میں سے ایک کراچی میونسپل کارپوریشن کی پرانی بلڈنگ تھی جس کے بارے میں ہماری مشہور آرکیٹکٹ یاسمین لاری کہتی ہیں کہ اس میں کراچی کے وہ Maps Survey میں برٹش سرویرزنے تیار کئے تھے۔ یاسمین لاری بتاتی ہیں کہ بندر روڈ پر ( جواب ایم اے جناح روڈ کہلاتی ہے) دومیل کی لمایئی میں دونوں طرف 60سے زیادہ عمارتیں ہیں جو برٹش راج کے زمانے میں انگریزوں ، پارسیوں، ہندوؤں اور مسلمانوں نے بہت محبت اور محنت سے بنائی تھیں۔ ان میں تھیو سوفیکل ہال، ڈینسو ہا، ماما پارسی اسکول ، خالقدینا ہال، این جے وی اسکول، ریڈیو پاکستان بلڈنگ بھی شامل ہیں۔ شہر والے جہاں انسانی جانوں اور کاروباری اداروں کی تباہی پر رورہے ہیں وہیں انہیں اس کا بھی صدمہ ہے کہ ان کے شہر کو پہچان دینے والی کئی عمارتیں آگ کا نوالہ بن گئیں۔
2009کا سال سوات ،مالا کنڈ ،دیر ،جنوبی وزیر ستان ،پشاور ،اسلام آباد، لاہور، پنڈی، اوکاڑہ، کامرہ اور دوسری متعدد بستیوں کو لاشوں کا تحفہ دیتا ہوا گزرا ہے۔ لیکن روز عاشور کراچی اور کراچی والوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دہشت گر دوں کا ماسٹر اسٹروک ہے۔ انہوں نے جہاں شہر والوں میں خوف وہراس کی لہر دوڑ ادی ۔وہیں انہوں نے اس شہر کی اقتصادی اور معاشی سرگرمیوں پر بھی کاری ضرب لگائی۔ شہر خوف کے آسیب کی گرفت سے تو شاید چنددنوں میں نکل آئے لیکن اس کی اقتصادی سرگرمیوں پر جو کاری ضرب لگائی گئی ہے اس کے اثرات پہلے دن سے ملک کی معیشت پر مرتب ہونے لگے ہیں ۔ ہو منڈیاں اور مارکیٹ جنہیں آگ چاٹ گئی، وہ لائٹ ہاؤس ، ڈینسو ہال ، میریٹ روڈ ، بولٹن مارکیٹ اور چھانٹی لین میں واقع تھیں۔ان میں سب سے مشہور لنڈا بازار تھا۔ جہاں غریبوں سے لے کر امیرو ں تک سب ہی کے قدم جاتے تھے ۔غریب کا گزار ا وہیں کے ان میل بے جوڑ کپڑوں سے ہوتا تھا، پانچ روپے کی قمیض ،دس روپے کی پتلون جب لیر لیر ہوجاتی تب ہی وہ وہاں کا رخ کرتا تھا، سردیاں بھی وہ یہاں کے سستے ترین سویٹروں کے سہارے گزار تا تھا۔ متوسط طبقہ وہاں کے کپڑوں اور وہیں بیٹھے ہوئے کتر بیونت کرنےوالے درزیوں کی مدد سے اپنی سفید پوشی نبا ہتا تھا اور امیر گھرانوں کی خواتین یہاں سے پردے ،چادریں اور اعلیٰ ملبوسات خرید کر نت نئی تراش کے جدید لباس تیار کراتیں ،بوتیک چلانے والیاں یہاں سے بیلیں اور بٹن خرید کر انہیں نئے لباسوں میں استعمال کرتیں۔وہ غریب پرور بازار پھر کب آباد ہوگا اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔
بارود کا نوالہ بننے والے سپرد خاک کردیئے گئے ، وہ آگ جو بازار وں اور گوداموں میں لگی آخر کار بجھ گئی ۔ لیکن دلوں میں لگنے والی آگ ایک طویل عرصے تک لگی رہے گی۔ کراچی کے لاکھوں شہریوں کے ذہنوں میں سوالات کا دھواں اٹھتا رہے گا جو ہر گز رتے ہوئے دن کے ساتھ دبیز ہوتا جائے گا۔ سرگوشیاں اور کہانیاں تیزی سے گردش کررہی ہیں۔ یہ گردش ہر اس اور وسو سوں کو جنم دے گی۔ ان دنوں اردو کے اہم ادیب شوکت صدیقی کی یاد آتی ہے ۔انہوں نے پاکستان بننے کے صرف دس برس کے اندر شہر کراچی کے نے خدوخال دیکھ لیے تھے اور ان کی تصویر کشی اپنے ناول ‘‘خدا کی بستی’’ میں مہارت سے کی تھی۔یہ ناول وہ آئینہ ہے جس میں قیام پاکستان کے صرف دس برس کے اندر اقدار کی شکست وریخت اپنی تمام جزئیات کے ساتھ نظر آتی ہے۔ اس میں حرام کمانے والے، غیر قانونی کاروبار میں ملو ث افراد ہیں، پرمٹ اور لائسنس کی بلیک کرنے والے ہیں، خستہ وخراب کمبلوں کاٹھیکہ لینے والے اور ناقص عمارتی سامان سے رہائشی عمارتیں تعمیر کرنے والے اور جب ایسی عمارتیں پہلی بارش میں زمین بو س ہوجائیں تو تحقیقات کرنے والوں کو خرید نے اور سیاہ کاریو ں کا راز کھل جانے کے خوف سے شریک جرم لوگوں کو راستے سے ہٹادینے والے ہیں۔
ہمارے سماج کا پاکستان بننے کے صرف آٹھ دس برس کے اندر جب یہ عالم ہوا تھا تو سو چنے کی بات ہے کہ چار فوجی حکومتوں کی جھیلنے اور اعلیٰ ترین سے ادنیٰ ترین لوگوں کے کرپشن میں ملوث ہونے کے بعد سماج پر کیا گزری ہوگی۔ کراچی والوں کو بوہری بازار کی آگ ابھی نہیں بھولی لیکن وہ حادثہ تھی۔ روز عاشور پرانی کراچی کے بازاروں پر جو کچھ گزری وہ سفاک دل اور چالاک منصوبہ سازوں کی کارستانی تھی۔ تمام برے لوگوں کے ساتھ ‘‘خدا کی بستی’’ میں وہ لوگ موجود تھے جو اچھے دنوں کی نوید دیتے تھے ، آج بھی ایسے لوگ ہمارے یہاں پائے جاتے ہیں لیکن وہ پہلے سے کہیں زیادہ ناتواں ہیں۔ یہ لوگ اپنی بساط بھر آج بھی سیاہ کاروں سے لڑرہے ہیں،کل بھی لڑیں گے لیکن یہ لڑائی پہلے سے کہیں جان گسل اور جان لیوا ہے۔
مالا کنڈ،سوات، لاہور، اسلام آباد، کراچی اور شاہ حسین خیل تک درجنوں شہروں اور بستیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو بارود کا نوالہ بنیں ۔ یہ دھماکے (ر) جنرل پرویز مشرف کے دور میں آغاز ہوئے اور اب شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا جاتا ہو جب سو پچاس بے گناہ ان دھماکوں میں جان سے نہ گزرتے ہوں۔
کراچی میں صرف جانیں ہی نہیں گئیں اربوں کا مال ومتاع بھی گیا اور روزانہ اپنی اپنی دکانوں سے گھر لوٹ کر آنے والوں کا ذہنی سکون بھی غارت ہوا۔ نہیں معلوم کہ کب کس کااشارہ ہو اور کون سا بازار فاسفورس چھڑک کر آگ کے سپرد کیا جائے۔ ان بازاروں کو فارسفورس سے جلانے کی خبر یں ہیں۔ یہ وہی فاسفورس تو نہیں جس کا تذکرہ لال مسجد اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد کراچی میں آتش زنی کے واقعات میں زیر بحث آیا تھا؟ یہ سفوف اتنی آسانی سے آگ لگانے والوں کو کیسے میسر آجاتا ہے ؟ اس نکتے پر ہمارے ذہن اور ذمے دار صوبائی وزیر داخلہ غور کریں۔ ان کا یہ بیان پڑھ کر جی بہت خوش ہوا کہ پولس اور ینجر ز نے دہشت گردوں پر گولی نہ چلا کر عقل مندی کا ثبوت دیا کیونکہ ان میں سے کچھ لوگ سیاہ پوش تھے۔ ان کے لئے ‘‘مشو رہ’’ ہے کہ آئندہ جو دہشت گرد فوجی وردی میں نظر آئیں ان پر بھی گولی نہ چلائی جائے کہ کہیں پاکستانی فوج کے وقار پر حرف نہ آجائے ۔ وہ ان لوگوں کو بھی انعام واکرام سے نوازیں جو فائر بریگیڈ کی گاڑیوں پر فائرنگ کررہے تھے۔ کوئی ان سے جاکر یہ کہہ دے کہ وہ تحقیق و تفتیش کا سلسلہ بھی بند کرادیں کہ ہمیشہ کی طرح اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ کراچی والوں کا احوال تو اب کچھ یہ ہے کہ :
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جواب راکھ، جستجو کیا ہے!
URL for this article: