زاہدہ حنا
گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان اور ہندوستان کے لگ بھگ دس لاکھ فوجی ایک دوسرے کانشانہ لیے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں۔ ساری دنیا ایٹمی طاقت بن بیٹھنے والے ان دونوں ملکوں کی ایک دوسرے کو دی جانے والی دھمکیوں سے ہراساں ہے۔ فلسطین اور افغانستان کے معاملات بڑی حد تک پس پشت چلے گئے ہیں اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے اعلیٰ ترین سرکاری اہلکار ‘‘ہٹو بچو’’ کی آوازوں کی گونج میں ، صبح شام دلّی اور اسلام آباد دوڑے سےچلے آرہے ہیں۔اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ انہیں اچانک برصغیر سے عشق ہوگیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے پہلے توایٹمی طاقت بننے میں بلاجواز پھرتی دکھائی اور جب یہ صلاحیت دونوں کو حاصل ہوگئی تو اب دونوں ایک دوسرے کو ایٹم بم ماردینے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ یہ ایسا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جس سے ساری دنیا پریشان اور ناراض ہے۔
ایک طرف دونوں حکومتوں کا یہ جنگ جو یا نہ رویہ ہے ،دوسری طرف دونوں حکومتوں نے اپنے عوام کی فلاح وبہبود کو یکسر فراموش کررکھا ہے۔ نتیجے میں دونوں طرف کے شہری بیروزگار ی ، بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی ،جہالت، ظلم اور ناانصافی کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں ۔ دونوں طرف مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں اور طاقت کے سرچشمے پر قابض عناصر نے عوام کے شعور میں اضافے کی بجائے انہیں کچھ زیادہ تنگ دل ، تنگ نظر اور جنگی جنون کا ایندھن بنادیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زمینی حقائق کو نظر میں رکھ کر خارجہ پالیسی مرتب کرنے کی بجائے جذباتی نعروں اور کھوکھلے دعوؤں سے عوام کو بہلا یا جارہا ہے۔ اربوں کھربوں روپے کی وہ رقم جو عوامی بہبود کے لیے استعمال ہوسکتی تھی ،اسے بے دریغ اسلحے کی خریداری ،ایٹم بم کی تعداد میں اضافے اور ڈلیوری سسٹم کو بہتر سے بہتر بنانے پر خرچ کیا جارہا ہے۔
ایک پاکستانی ماہر عمرانیات کے مطابق اگر جنوبی ایشیا کے ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی کو انسانی فلاح وبہبود کے لیے بروئے کارلاتے تو یہاں کے لوگوں کو ترقی وخوشحالی کی نعمت حاصل ہوتی ۔ اس کے برعکس ارباب اختیار نے جنگ جوئی کی ایسی پالیسیاں اختیار کیں جن سے وسیع پیمانے پر تباہی وہلاکت خیزی کے سامان فراہم ہوئے۔ غورکرنے کی بات ہے کہ اس قدر قربانیوں کے باوجود دونوں ممالک کے عوام کو سلامتی اور تحفظ کی ضمانت نہیں ملی اور اب چند برسوں سے ان کے سروں پر ایٹمی جنگ کی تلوار بھی لٹک رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر ان ممالک کو عزت ووقارحاصل ہونے کی بجائے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اگر اب بھی ان حقائق کا ادراک نہ کیا گیا تو آئندہ نسلوں کو بھی اس گج فہمی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ پاکستان کی رواں ایٹمی پالیسیوں کے جواز میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے اس سے قطع نظر امر واقعہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کو نہ فوی لحاظ سے استحکام حاصل ہوا ہے اور نہ دونوں کے باہمی تعلقات جو روزاول سے بغض وعناد کا شکار ہیں، ان میں بہتری اور اصلاح کے کوئی آثار نمودار ہوئے ہیں۔کارگل کے بعد سے فضا مزید زہر آلود ہوگئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ہے لیکن پاکستان ان کو قطعاً خاطر میں نہیں لایا اور کارگل پر چڑھ دوڑا۔کارگل کے جواب میں ہندوستان نے بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کااہتمام کرلیا تھا، حالانکہ وہ یہ جانتا تھا کہ پاکستان کے پاس ایٹمی اسلحہ اور دور مار میزائل موجود ہیں ۔کارگل کا یہ واقعہ ‘ایٹمی حصار’ کے علمبردار وں کو غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ہندوستان اور پاکستان نے جن متوقع فوائد کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیار بنائے تھے ان میں سے کسی کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا ۔ ایٹمی اسلحہ سازی کے حق میں وکالت کرنے والوں کا دعویٰ تھا کہ ایٹمی ہتھیار وں کی بدولت روایتی فوجی اخراجات میں کمی آجائے گی۔ اس دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد دونوں ممالک کے فوجی اخرجات میں نمایا ں اضافہ ہوا ہے۔
مشکل دراصل یہ ہے کہ دنیا میں وہ افراد اور اقوام بہت کم ہیں جو تاریخ سے اور دوسروں کے تجربوں سے کچھ سیکھیں ۔پاکستان اور ہندوستان کے حکمران بھی دوسرے ملکوں سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین جیسی عظیم عالمی طاقت کا انجام دیکھنے کے بعد جنوبی ایشیا کے ان ملکوں اور بہ طور خاص پاکستان کو اپنے بے پناہ دفاعی اخراجات کے حوالے سے بہت کچھ سوچنا چاہئے تھا۔ یہ بھلا کون فراموش کرسکتا ہے کہ سوویت یونین کے پاس ہزاروں ایٹمی ہتھیار تھے ، اس کے روایتی ہتھیاروں کے انبار سے ساری دنیا ڈرتی تھی۔ وہ روایتی اور ایٹمی اسلحے کی تیاری کی دوڑ میں امریکہ سے مقابلہ کرتا رہا، عوام کی معاشی بدحالی اور ملک کی تباہ ہوتی ہوئی معیشت کے بارے میں سوویت حکمرانوں نے کچھ نہیں سوچا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی پیداوار کے اعتبار سے اس کے فوجی اخراجات امریکہ کے مقابلے میں تین گنا بڑھ گئے ۔سوویت معیشت کے لیے اس بوجھ کوبرداشت کرنا ممکن ہی نہیں رہا، آخر کار وہ زمین بوس ہوگئی اور ایک عظیم طاقت ایک درجن سے زیادہ ریاستوں میں تقسیم ہوکر قصہ پارینہ ہوگئی۔
پاکستان محدود وسائل رکھنے والا ایک ملک ہے۔ اس وقت وہ 36ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں میں جکڑ ا ہوا ہے ۔ اس کے اندرونی قرضے بھی کھربوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کے دفاعی اخراجات میں ہر سال جس طرح اضافہ ہورہا ہے ، وہ ہوشربا ہے۔ ایٹمی میزائلوں کی دوڑ اور ہندوستان سے اس کی سنگین سرحدی کشیدگی نے صرف چند مہینوں کے اندر اس کے دفاعی اخراجات میں اربوں روپے کا اضافہ کیا ہے۔ ‘‘قومی سلامتی’’ کے نام پر ہونے والے یہ اخراجات اگر واقعی قوم کی سلامتی کا سبب ہوں تو ان پر کسی فاتر العقل کو ہی اعتراض ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ناقابل برداشت غیر پیدا واری اخراجات کی بنا پر ہم تیزی سے اس مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کے بعد حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔
یہ زیادہ نہیں چند برس پرانی بات ہے کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اس کی تین ذیلی ریاستوں کی وراثت میں ایٹمی ہتھیار ملے تھے لیکن ان میں اتنی سکت نہیں تھی کہ ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کے اخراجات برداشت کرسکتیں چنانچہ انہوں نے این پی ٹی پر دستخط کرنے میں ہی عافیت سمجھی ۔ یوکرین کی حالت اس قدردگر گوں تھی کہ اس نے اپنےایٹمی اسلحہ خانے سے نجات حاصل کرنے کے اخراجات بھی امریکہ سے وصول کیے۔یہی حالت روس کی ہے۔ اس کے لئے ایٹمی ہتھیار وں کے ذخائر پریشان کن بوجھ بن چکے ہیں چنانچہ وہ اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے سابقہ ‘حریف اول’ امریکہ سے امدادی رقوم حاصل کرتا رہتا ہے اور ابھی چنددنوں پہلے ایک بار پھر اس نے امریکہ سے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
بدقسمتی سے جنوبی ایشیا میں ان معاملات اور واقعات سے سبق سیکھے بغیر ایٹمی اور روایتی اسلحے کے حصول کی دوڑ ابھی تک پورے جوش وخروش سے جاری ہے جس کا منطقی نتیجہ بھی کچھ ایسا ہی برآمد ہوسکتا ہے جس کا ذکر سابق سوویت یونین کے حوالے سے سطور بالا میں کیا گیا ہے ۔ تاہم اگر خوش امیدی سے کام لیا جائے تو پھر توقع کی جاسکتی ہے کہ کوئی قوم جذبۂ انتقام سے مغلوب ہوچکی ہو اچانک ہوش مندی ،معقولیت اور دور اندیشی سے کام لینا شروع کردے اور تباہی وبربادی کی بجائے امن، سلامتی اور خوشحالی کی راہ اختیار کرے۔ اس سلسلے میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جنوبی افریقہ اور برازیل کو مختلف حالات میں ایسے ہی معقول فیصلے کرنے کی سعادت ملی ۔ جنوبی افریقہ نے 1991میں اپنے ہتھیار تلف کیے کیونکہ اسے احساس ہونے کے باوجود وہاں نسل پرستی پر مبنی نظام برقرار نہیں رہ سکے گا جس کی بدولت وہ بین الاقوامی برادری میں یکہ و تنہا رہ گیا تھا۔ نسل پرست حکومت کو یہ بھی خدشہ تھا کہ جس دن وہاں سفید فام باشندوں کا اقتدار ختم ہوا تو ایٹمی ہتھیار سیا ہ فام افریقی حکومت کے قبضہ میں چلے جائیں گے۔
ارجنٹائن اور برازیل کے پاس ایٹمی صلاحیت تھی لیکن انہوں نے ایک باہمی سمجھوتے کے تحت اپنی ایٹمی تنصیبات کو انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے معائنے کے لئے کھول دیا اور ایٹمی اسلحہ سازی کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔ یاد رہے کہ دونوں ممالک کی ایٹمی پالیسیوں میں یہ تبدیلی فوجی اقتدار کے خاتمے اور جمہوریت کے آغاز پر عمل میں آئی ۔
پاکستان میں عام انتخابات امکانی طور پر اکتو بر میں ہونے والے ہیں ۔ ہم امید کرسکتے ہیں کہ ان انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسی باشعور اور سچے مفہوم میں محب وطن حکومت برسر اقتدار آئے جو عوام کو جھوٹے دعوؤں سے بہلانے کی بجائے ، اس کے سامنے حقائق کو پیش کرے اور یہ بتائے کہ صرف وہی قومیں اپنی سلامتی کا دفاع کرسکتی ہیں جو اقتصادی طور پر مستحکم اور معاشی طور پر خوشحال ہوں اور اس کے لیے لازمی ہے کہ ملکی وسائل کو دفاع سے زیادہ عوام کے حالات بہتر بنانے ، غربت ختم کرنے اور انہیں فوری انصاف فراہم کرنے پر خرچ کیا جائے۔عوام سے بڑی طاقت دنیا میں آج تک ایجاد نہیں ہوئی ۔ اگر عوام خوشحال اور مطمئن ہیں تو پاکستان کو دنیا کی کوئی طاقت سرنگوں ہونے پرمجبور نہیں کرسکتی۔ یہ تو ہم دیکھ چکے ہیں کہ ‘‘ ایٹمی طاقت’’ ہونے کے باوجود ہم گذشتہ چند مہینوں کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں سے ‘‘ڈکٹیشن ’’ لینے پر مجبور ہوئے ۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/nuclear-weapons-ground-facts-/d/1942