رپورٹ
ہندوستان کی تاریخ میں پہلی
بار ایک دینی مدرسے نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے، جو نہ صرف قابل تعریف ہے،بلکہ ملک کے
دیگر دینی مدارس کے لئے قابل تقلید بھی ہے۔ حیدرآباد کے ایک دینی مدرسہ المعہد العالی
الاسلامی نےمدرسہ میں ایک ڈپلو ما کورس کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ ایک سال کے اس ڈپلوما
کورس کے تحت شہر کے مفتی حضرات کو معاشی ماہرین میں تبدیل کرنے کاپروگرام بنایا گیاہے،
جنہیں سرمایہ کاری کے اسلامی اصولوں کا مکمل علم ہو۔ مدرسہ المعہد العالی الاسلامی
کے مہتمم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے مطابق ‘‘اسلامی نظام معیشت میں ، جہاں انسانی
وسائل کاتعلق ہے، ڈیمانڈ اور سپلائی کے بیچ زبردست خلا پایا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرہ
میں یا تو ایسے مسلمان ہیں ، جو مغربی نظام معیشت پر مہارت رکھتے ہیں ، یا پھر ایسے
علما جنہیں اس امر کا چنداں علم نہیں کہ عالمی معاشی منطقہ میں کیا سرگرمیاں جاری ہیں۔
چو نکہ اس وقت اسلامی معیشت اربوں ڈالر پر مشتمل ہے، اس لئے ہمارے نزدیک بازار کو ایسے
لوگوں سے بھرنا نہایت ضروری ہے، جنہیں جدید معاشیات اوراسلامی سرمایہ کاری کے اصولوں
کی مکمل واقفیت ہو’’۔ایک اور ماہر معاشیات اوصاف نفع اور نقصان دونو ں میں بیک وقت
شریک رہتے ہیں ۔ یعنی اس میں نفع اور نقصان دونوں میں شرکت لازمی ہے۔ اسلامی معیشت
کی بنیاد سو د یاربح پر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس میں شراب ،قماربازی (جوا) اور جسم
فروشی کی مدوں میں سرمایہ کاری قطعی ممنوع ہے۔ مدرسہ نے اعلان کیا ہے کہ ڈپلوما کورس
صرف مفتی حضرات کے لئے مختص ہوگا، کیونکہ صرف ان ہی کو اسلامی زندگی اور معاشرہ کی
بابت فتاویٰ جاری کرنے کا اختیار ہے۔ہمارے نزدیک یہ ایک بہت مثبت اور بروقت قدم ہے
اور اس کے لئے مو لانا خالد سیف اللہ رحمانی یقیناً مبارک باد کے مستحق ہیں۔عام مسلمانوں
کو معلوم ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے اور دنیا کدھر جارہی ہے۔ وہ حضرات جو اس
بات سے بہت خوش رہتے ہیں کہ ‘‘ وہ صرف آسمان کے اوپر اور زمین کے نیچے’’ کی باتیں کرتے
ہیں ۔ ان کے خلوص نیت میں شک نہیں، لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سب آسمان کے نیچے اور
زمین کےاوپر رہتے ہیں اور اللہ سے فی الا خرۃ
حسنۃ کے ساتھ ساتھ فی الدنیا حسنۃ کی دعا بھی مانگتے ہیں ۔
مولانا رحمانی کے اس ا نقلابی اقدام
نے ہماری توجہ ایک اور حقیقت کی طرف بھی منعطف
کرائی۔ مسلمانوں کی معاشی ، تعلیمی اور سماجی زندگی میں جس بہترین کی کوشش جنوبی ہندوستان
میں کی جارہی ہیں ،شمالی ہندوستان میں ان کوششوں کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا ۔ کیرل
،کرنانک، تمل ناڈو اور آندھرا کی غیر سیاسی مسلم تنظیمیں جوکام کررہی ہیں، شمالی ہندوستان
میں بہت سے لوگوں کو ان کا علم بھی نہیں ہے۔ ایک تو شمالی ہندوستان میں غیر سیاسی مسلم
تنظیمیں ہی عنقا ہیں اور جو ہیں بھی ،انہوں نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا ہے
، جس کی مثال دی جاسکے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ تک کوئی ایسا کام نہیں کرسکا ہے، جس نے
مسلمانوں کی زندگی میں کوئی انقلاب برپا کردیا ہو۔ یہ نکتہ چینی نہیں اظہار تاسف ہے
۔ جنوبی ہند کی غیر سیاسی مسلم تنظیمیں اس حقیقت سے مسلسل واقفیت رکھتی ہیں کہ اسلامی
ممالک میں کیسی کسی تبدیلیاں آرہی ہیں ، جبکہ شمالی ہند میں کوئی ایسی کوشش وکاوس نہیں
دکھائی دیتی ۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ہند کے مسلمان کئی معاملات میں شمالی ہند کے مسلمانوں
سے بہت آگے ہیں۔ مولانا رحمانی نے جنوبی ہند کی اس سبقت کو جاری رکھا ہے ۔ اسے اجتہاد
تو نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ اس بات کی کوشش ضرور ہے کہ اسلام آج کے جدید دور کے تقاضوں
کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے۔
https://newageislam.com/urdu-section/admirable-imitational-steps-/d/1984