رابرٹ جے بوروس نیو ایج اسلام کے لئے
22 اپریل، 2014
جیسا کہ آج دنیا عالمی جنگ کے حوالے سے مختلف تقریبات کا انعقاد کرنے میں مشغول ہے، آسٹریلیا یوم ANZAC کے نام سے اپنے ملک کی تاریخ کے ایک سب سے اہم واقعہ کی سویں سالگرہ کی طرف بڑھ رہا۔ 25 اپریل 1915 اور اس کے بعد کئی دنوں تک آسٹریلیا کو ترکی کے گیلی پولی میں زبر دست نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
کبھی کبھی جب ہم جنگ کی باتیں کرتے ہیں تو ہم ایک اچھے مقصد کے لئے قربانی پیش کرنے کی بات کرتے ہیں۔ کبھی ہم اس سلسلے میں ضیاع جان و مال کی بات کرتے ہیں ۔ کبھی کبھی ہم اس سلسلے میں جنگ کی ہیبت ناکیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اور کبھی کبھی ہم جنگ کے نتیجے میں آزادی اور جمہوریت کے حق میں قومی یا بین الاقوامی حصولیابی کی بات کرتے ہیں۔ اور شاذ و نادر ہی ہم کبھی جنگ کی وجوہات اور سخت ترین صورت حال کا تجزیہ کرتے ہیں تاکہ ایک دن ہم اسے ختم کر سکیں۔
جب میں جنگوں پر غور کرتا ہوں تو مجھے میرے چچا، میری ماں اور میرے والد یاد آتے ہیں (دونوں دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج میں تھے) اور مجھے معلوم ہے کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن سب سے پہلے مختصر طور پر میں چند تاریخی پہلو پیش کرنا چاہوں گا۔
میرے بڑے چچا تھامس آئنس فیرل پہلی جنگ عظیم کے دوران اے آئی ایف کے 16ہویں بٹالین میں ایک سپاہی تھے ، ان کی موت 2 مئی 1915 پوپس ہل، گیلی پولی میں ایک کارروائی کے دوران ہوئی۔
میرے ایک اور چچا لیسلی بوروس ، اے آئی ایف کے 10ویں لائٹ ہارس رجمنٹ میں ایک فوجی تھے، وہ گیلی پولی میں کارروائی کے دوران تین مرتبہ زخمی ہوئے تھے، وہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ چکے تھے اور جنگ عظیم کے چند سالوں کے بعد قبل از وقت ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بلاشبہ وہ آج کی زبان میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار تھے۔ وہ اپنی مشکل اور مختصر ترین زندگی میں نفسیاتی طور پر جنگ کی ان ہولناکیوں کو جیتے رہے۔
میرے والد کے دو بھائی تھے: بڑے بھائی، رابرٹ، اور ان کے جڑواں بھائی، تھامس۔ دونوں دوسری جنگ عظیم میں مارے گئے۔
میرے والد آسٹریلیائی امپیریل فورس کے 34ویں فارٹریس انجینئرز میں ایک فوجی تھے۔ انہیں 22 جنوری 1942 کو رباؤل کے زوال کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، انہیں مالاگونہ روڈ کیمپ میں قیدی بنا کر ضروریات زندگی سے محروم کر دیا گیا، پھر انہیں جون کے آخر میں جاپانی جنگی قید خانے 'مونٹیویڈیو مارو' میں ڈال دیا گیا تھا۔ 1جولائی 1942کے دن گمنام 'مونٹیویڈیو مارو' کو 'یو ایس ایس سٹرجن' نے نشانہ بنایا۔ جہاز چھ منٹ میں ڈوب گئی۔ اس میں موجود تمام 1 ہزار 53 آسٹریلیائی قیدی مار دیے گئے۔ یہ پوری جنگ کے دوران ایک ہی حادثے میں میں اتنی زیادہ جانوں کے ضیاع کا واحد واقعہ تھا۔
میرے والد نے زمانہ قید کے دوران اپنے آخری خط میں لکھا تھا کہ : 'جتنی جلدی ممکن ہو سکے جم کو باہر نکالو'، لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ میرے والد کے بھائی جم پہلے ہی ایم خصوصی فورس میں شمولیت اختیار کر چکے تھے؛ انہوں نے پاپوا نیو گنی میں ساحل نگہبان کے طور پر خدمات انجام دی تھی۔ جنگ کے بعد انہوں نے ویمنس آسٹریلین ایئرفورس (WAAF) کے ایک آفیسر، بیرل سے شادی کر لی۔
میرے والد کے جڑواں بھائی ٹام راف (RAAF) کے 100 سکواڈرن میں ایک بیوفورٹ حملہ آور پر ایک وائرلیس ایئر گنر (wireless air gunner) تھے۔ انہیں 14 دسمبر 1943 کے دن ان کے پہلے مشن پر ہی رباؤل میں گولی مار دی گئی، ان کا طیارہ کبھی دریافت نہیں کیا جا سکا۔
1966 ء میں، میں جب 14 سال کا ہو گیا تو میں نے دو سوالات کے جوابات تلاش کے لئے اپنی پوری زندگی کو وقف کرنے کا فیصلہ کیا: (1) انسان متشدد کیوں ہے؟ (2) اس تشدد کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے؟ اور ان دو سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں جو میں نے سیکھا ہے اسی پر میں نے عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ میرے لیے زندگی کے ایک جذبہ سے زیادہ ہے؛ یہی وجہ ہے کہ میں اب تک زندہ ہوں۔
اگر آپ چاہیں تو انیتا کی مدد سے وہ سب آپ بھی جان سکتے ہیں جو میں نے پچھلے 49 سالوں میں سیکھا ہے۔ انہیں میں نے مختصر طور پر 'Why Violence?' نامی ایک دستاویزی شکل میں جمع کر دیا ہے۔ http://tinyurl.com/whyviolence
آپ آن لائن عہد پر دستخط کرکے ایک غیر متشدد دنیا تخلیق کرنے کی ایک عالمی کوشش میں شامل ہو سکتے ہیں۔ http://thepeoplesnonviolencecharter.wordpress.com
ہو سکتا ہے کہ تشدد سے خالی کسی دنیا کا وجود ممکن نہ ہو، لیکن ہم انسان ہمیشہ ایسی چیزوں یا ایسے مقاصد کی طرف قدم اٹھاتے ہیں جو پہلی نظر میں ناممکن نظر آتے ہیں۔ میرے والدین نے ہمیشہ مجھے سعی پیہم کی تعلیم دی ہے۔ اور میں اب بھی اس پر عمل پیرا ہوں۔ اور 92 کی عمر میں وہ اب بھی میرے سب سے معاون ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/spiritual-meditations/legacy-war/d/102586
https://newageislam.com/urdu-section/legacy-war-/d/102645 URL for this article: