وہابیت کی تردید اوراسکا مقابلہ
پر زور انداز میں کیا جا نا چا ہئے ، ورنہ بے شمار نو جوان لڑکیوں کا اغوا ان کی معصومیت
کی وجہ سے کیا جائے گا۔
حیات نقوی
انگریزی سے ترجمہ ۔مصبا ح
الہدیٰ،نیو ایج اسلام
کچھ سال ہوئے جب میں اپنے آبا ئی وطن ہندوستان گئی تھی۔ میں آخری
مرتبہ وہاں گزشتہ مہینے گئی ، اور میں وہا
ں بہت سا ری تبدیلیاں دیکھ کر حیران تھی ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کی ترقی
سے لیکر متوسط طبقہ کی ترقی اور خوشحالی کے مد نظر سرمایا داری کے نظام تک ،در اصل ہندوستان کا یہ سفر سبق آموز تھا
۔(آپ ابھی بھی وہاں گلیوں اور سڑکوں پر کار ،سائیکل اور انسانوں کے ایک سمندر میں
گائے اور بکریوں کو پائیں گے ،اور اتفاقاً بیل گاڑی بھی )۔ لیکن جو بات قابل توجہ ہے
وہ یہ کہ چند مسلم کمیونٹیز میں انتہائی قدامت
پسند سلفی اور وہابی نظریات کا اثرو رسوخ تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے جو کہ انتہائی گمراہ کن
ہے ۔
ہندوستان میں وہابی اور صوفی
کی نظریاتی رقابت نئی نہیں ہے ۔دونوں اسلام ی نظریات کے بالکل مخالف سمت میں ہیں ،اور
ہندوستان میں تسلسل کے ساتھ دونوں کے درمیان مقابلہ ہوا ہے ۔ اس وقت میں نے سنااور دیکھا کہ کچھ مخصوص لوگ ایک بالکل نئے سماجی اصول کی قیادت
کر رہے ہیں :لڑکیوں کو حجاب پہننےپر اور کچھ حالات میں تو بر قعہ پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔لیکن
میں نے دیکھا کہ چھوٹی لڑکیاں ،بچیاںسر کا
اسکارف پہنی ہوئی تھیں جو کہ سب سے زیا دہ غضب ناک منظر تھا ۔
مجھے یہ با ت سمجھ میں آئی
کہ بہت سارے مسلم عر ب خلیجی ممالک میں کا م کرنے جاتے ہیں،وہاں انہیں وہابی
نظریات کے تناظر میں اسلامی عقائد کی تعلیم دی جاتی ہےاس کے بعد انہیں ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے ،لہٰذا قدامت پرستی کا یہ بڑھتا
ہوا رجحان اسی کا نتیجہ ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ
یہ 1980s سے ایک رجحان بن گیا ہے ،اور ایسے نتائج لڑکیوں اور
عورتوں کے لئے سول کوڈکے صریحاًنفاذ ،اور متعدد داڑھی والے مردوں کی وجہ سے بر آمد
ہوئے ہیں ۔
لیکن چھوٹی بچیوں کو کیوں حجاب پہننا چاہئے ؟یہ حقوق
کی پا مالی ہے۔میں ان چھو ٹی بچیوں کی تعدا د بھول گئی ، ان میں سے اکثر بچیاں چھ سال سے کم کی تھیں ،جو حجاب پہنے ہوئے
اپنی فیملی کے ساتھ بائک پر سوار تھیں۔ابھی
جلد ہی انسانی حقوق کے سر گرم کار کنوں نے مراکش میں نو جوان لڑکیوں کے حجاب پر اسی
طرح کے اعتراضات اٹھائے ہیں ۔اور انہوں نے یہ اعتراض کیا کہ یہ بچوں کے بنیادی حقوق
کی خلاف ورزی ہے اور ان کے معصومیت کی بیخ کنی ۔حجاب سن بلوغت کو پہونچنے پر ایک اختیاری
،مسئلہ ہے ۔اور یہ جنوبی ایشیاء کی تہذیب کے بالمقابل عرب کی تہذیب میں زیادہ عام بھی
ہے ۔
چھوٹے بچوں کے ماں باپ انہیں
حجاب پہناکر اس سے کیا پیغام پہونچانا چاہتے ہیں ؟کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ حجاب
میں ہو نگی تو مردوں کے لئے وہ کشش کا با عث نہیں ہو نگی ؟سی کو pedophilia کہتے ہیں ۔یا کیا یہ فیملی کی مذہبیت اور اطا عت
ظاہر کر نے کی زیادہ پر جوش ترغیب ہے ، جوکہ وہابیت کا بنیادی اصول ہے ؟ہر کسی کو اپنےمذہبی
عقائد ضرور ظاہر کرنی چاہئے ۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے
کہ وہابیت ان نظریا ت میں سے ایک ہے جس سے طالبانیوں کا وجود متأثر ہے ۔
اسلام کی انتہائی قدامت پسند
تشریح کی تلقین ا ور جبراً اس کی اطاعت سے
ہی ان کے اصل نظریات کی تشکیل ہے ۔یہ اصول
پر اسرار طریقے سے وقوع پذیر ہو سکتے ہیں
۔ جیسا کہ یہ معاملہ خلیجی ممالک سے کام کرکے لوٹنے والوں کے ذریعہ وہابی نظریات کی
در آمد سے ہندوستان کے ساتھ پیش آیا۔ یا وہ بہت زیادہ متشدد اور سنگین ہو سکتے ہیں
،جیسا کہ یہ معاملہ نام نہاد ‘‘مذہبی پولس ’’ کی وجہ سے سعودی عرب میں ہے ۔
دوونو ں حالتوں میں وہابیت
کا پھیلناخطرنا ک ہے اس لئے کہ وہ واضح طور پر متشدد ،متعصب اور زن بیزارہے ۔
ہندوستان میں اتنی بڑی تعداد
میں نا با لغ بچیوں کو حجاب پہنے ہوئے دیکھ کر مجھے بڑا دھچکا لگا ۔ میں اسے ‘‘بچوں
کا حجا ب’’ کہوں گی ۔برقع میں ملبوس بہت ساری
عورتیں بد صورت لگ رہی تھیں۔یہ تمام چیزیں ہندوستان میں مسلسل وہابیت کے نفوذارو اسکی توسیع کی طرف غما ز ہیں
، جبکہ تصوف کا زیادہ روا دار اور پر امن نظریہ ویسے ہی خاموش مغلوب ہے یا محدود ، آسودہ خاطر ہوتا جا رہا ہے ۔
وہابیت کے بڑھتے ہوئے اس خطرے
سے نبرد آزماء ہونے کے لئے تصوف کے ماننے والوں کو اپنی جدو جہد اور مذہبی تعلیم میں
اضافہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ورنہ ،انہیں وہابی تعصب اور جبرو تشدد کا سامنا ہو گا ، خاص
کر فرقہ وارانہ تنگ نظری اور دباؤ کا ،تا کہ وہ اپنے متشدد اور متعصب عقائد کو منواسکیں
۔ایسے مقامات میں عورتیں اور لڑکیاں ہمیشہ بھاری قیمت چکا تی ہیں ۔
اگر کوئی سلفی اور وہابی کی
عدم رواداری اور جہالت کو ثابت کرنا چاہے ،تو وہ یہ دیکھ لے کہ حالیہ دنوں میں انہوں نے ٹمبکٹواور مالی میں عالمی
ثقافتی ورثہ اور مقبروں کے ساتھ انھوں نے کیا کیاہے۔انہوں نے اسی عدم رواداری اور جہالت
کا مظاہرہ کیا جو طالبانیوں نے بامیان افغانستان
میں گوتم بدھ کی قدیم مورتی منہدم کرکے کیا ۔
وہاں طالبان نے اس مورتی کو
منہدم کرنے کیلئے بھاری بھر کم ہتھیار کا استعمال کیا، مالی میں جنگجووں نے قدیم مقامات،مذہبی
مزارات اور مقبروں کو ڈھانے کیلئے ہتھوڑے کے
ساتھ کلہاڑیوں کا استعمال کیا،کیا ہندوستانی مسلمان اس طرح کے مہلک اور مضر جنگجووں
کو اپنے معاشرے میں آنے کی دعوت دینا چاہتے ہیں؟
کیا یہ کافی نہیں ہے کہ عرب
خلیجی مما لک میں کا م کرنے والے بے شمارتارکین
وطن سنگین نسل پرستی اور بے عزتی کا سامنا کر رہے ہیں ؟لہٰذا ایسے نظریات کوانہیں
کیوں قبول کرنا چاہئے جو ان کے ملک میں نفوذ کر رہا ہے ؟واضح طور پر اس نے حقوق انسانی اور رواداری کے اصولوں کی حمایت نہیں کی ۔اگروہابیت
کے نظریہ نے کچھ کیا ہے تو وہ یہ ہے کہ اس نے عالمی سطح پرصرف نفرت ،انتہاپسندی ،عدم
رواداری ،زن بیزاری ،جنگجوئیت اورتشدد کو فروغ دیا ہے ۔ وہابیت کی تردید اوراسکا مقابلہ
پر زور انداز میں کیا جا نا چا ہئے ، ورنہ بے شمار نو جوان لڑکیوں کا اغوا ان کی معصومیت
کی وجہ سے کیا جائے گا۔
مصنفہ یو ایس نیویل کالج نیوپور
ٹ رہوڈ آئی لینڈ(US Naval War College in Newport, Rhode
Island) میں ایسوسیٹ پروفیسر ہیں ،اور یہ خیالات ان کے اپنے
ہیں ۔
Source:
http://www.jpost.com/Opinion/Op-EdContributors/Article.aspx?id=277134
URL
for English article: http://www.newageislam.com/radical-islamism-and-jihad/hayat-alvi,-an-associate-professor-at-the-us-naval/india--the-growing-threat-of-wahhabism/d/9382
URL: