حسن کمال
گزشتہ دس بارہ برسوں
سے عالمی پیمانہ پر مسلمانوں کی اجتماعی سوچ ایک طرف کا نفسیاتی سفر طے کررہی تھی،
بس اس سفرکا مقصد واضح اور اس کی سمت طے نہیں تھی۔ اس سوچ کا آغاز عراق پر امریکی
حملے سے ہوا تھا اور اسے تیز گام بنانے میں 11/9کے منحوس واقعہ کا ہاتھ تھا۔ اس واقعہ
کے رد عمل کے طور پر ساری دنیا کے مسلمانوں نے دنیا کا رویہ اپنی طرف بہت جارحانہ اور
معاندانہ پایا ۔ انہیں ہر جگہ شک وہ شبہ کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا، جس سے ان کی نفسیات
بہت بری طرح متاثر ہوئی ۔جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ، چاروں طرف سے مایوس ہونے
کے بعد انسان کے سامنے اللہ کی ذات بھروسہ نفسیاتی تسکین کا واحد ذریعہ رہ جاتا ہے۔
اسے احساس ہونے لگتا ہے کہ اس کے مصائب وآلام کی واحد وجہ اپنے دین کی طرف اس کی بے
گانگی ہے۔ عالمی پیمانہ پر بہت تیزی سے مسلمانوں کا جھکاؤ اسلام اور اسلامی تعلیمات
کی طرف ہونے لگا۔عالمی پیمانہ پر بہت تیزی سے مسلمانوں کا جھکاؤ اسلام اور اسلامی
تعلیمات کی طرف ہونے لگا ۔ یہ بھی ہمیشہ سے ہوتا آیا ہےکہ بعض مفاد پر ست عناصر اس
جھکاؤ کا رخ اپنے ذاتی مفاد کی طرف موڑ لیتے ہیں۔ وہ دین کی طرف اس جھکاؤ کو اپنے
سیاسی اور مذہبی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا میاب ہوجاتے ہیں ۔ اپنے ملک سعودی عرب
کی حکومت سے ناراض اسامہ بن لادن نے بھی یہی کیا اور مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کو اپنے
اور اپنے نام نہاد جہاد کے حق میں کرلیا ۔ اس کا رد عمل اور بھی شدید ہوا۔ دنیا میں
مسلمانوں سے ناراضگی او ربھی بڑھ گئی۔ دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا
کہ مسلمانوں کی طرف سے دنیا کے اس معاندانہ اور جارحانہ رویہ کے پیچھے عقلی منطق کم
اور بے جاتعصب کا عنصر زیادہ تھا۔ دنیا اس جھوٹے پروپیگنڈے کے سچ ماننے پر تلی نظر
آنے لگی، جو اسلام اور مسلمان دشمن طاقتوں نے عام کررکھا تھا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام
دشمن عناصر میں اسرائیل کی صہیونی حکومت سب سے آگے تھی۔ اسرائیل کی صہیونی حکومت پر
ہمیشہ یہ خوف غالب رہا کہ کہیں دنیا فلسطینی جدوجہد سے متاثر ہوکر اس کی حامی نہ ہوجائے ،وہ ایک بار یہ دیکھ چکی تھی
کہ یاسر عرفات کو دہشت گرد ثابت کرنے کی اس کی ہر ممکن کو شش کے باوجود دنیا نے یاسر
عرفات اور ان کی جد وجہد کی صداقت میں امن کے ضامن بن سکتے ہیں۔اسرائیل کی صہیونی حکومت
یاسر عرفات کی موت کے بعد ایک بار پھر فلسطینی جد وجہد کو دہشت گردانہ کا رروائی ثابت
کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ اسرائیل کی صہیونی حکومت نے یہ زہر پھیلا نا شروع کیا کہ اسلام
دراصل جارحیت پسند مذہب ہے اور تشدد کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے اس کا مقصد صرف
یہ تھا کہ دنیا کسی حال میں فلسطینیوں کی ہمدرد نہ بننے پائے ۔لیکن کچھ حالات نے اور
کچھ اس پروپیگنڈے نے مسلمانوں کے لئے بہت منفی صورت حال پیدا کردی۔ ہمیں کہنے دیجئے
کہ اس صورت حال کا ہندو ستان میں بھی برہمن لابی نے مسلمانوں کے خلاف بہت غلط استعمال
کیا۔
یہ زہریلے صہیونی پروپیگنڈے کا یہ نتیجہ تھا کہ امریکہ کی یہودی
لابی نے امریکہ کو عراق پر حملہ کرنے پر راضی کرلیا۔ یہ مجروح مسلمان سوچ پر ایک اور
ضرب تھی ۔دنیا بھر کے مسلمان خواہ صدام حسین کے ہمدردنہ بھی ہوں، لیکن انہیں یقین تھا
کہ امریکہ کا حملہ بالکل غلط اور غیر اخلاقی
تھا۔ امریکہ اور مغربی دنیا سے مسلمانوں کی خفگی اور بڑھ گئی۔ بالکل اسی طرح عالمی
پیمانہ پر مسلمانوں کی اکثریت جڑواں ٹاورس کی تباہی پر غمزدہ تھی اور اسے بالکل غلط
اور ناعاقبت اندیشی پر محمول حرکت خیال کرتی تھی، لیکن مغربی دنیا جس طرح اور جن نعروں کے ساتھ (صدر جارج
بش نے اسے ‘‘صلیبی جنگ’’ تک کہہ دیا تھا)حملہ کیا تھا، مسلمان اس سے متفق نہیں تھے۔
مسلمان یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ امریکی جڑواں ٹاورس پر حملہ میں کوئی افغانی نہیں شامل
تھا ۔ بہر حال ان دو واقعات کی وجہ سے دنیا نے مسلمانوں کی طرف جو رویہ اختیار کیا،
اس سے صرف اسامہ بن لادن جیسے عناصر کو فائدہ پہنچا ۔ ان عناصر نے مسلمانوں کی اس خفگی
کا جی بھر کے استحصال کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا دنیا نے خود مسلمانوں کو
اسامہ بن لادن کی طرف ڈھکیلنے کا کام کیا۔ مسلمانوں میں شدت پسندی کو فروغ حاصل ہوا۔
اسلام دشمنی ، جہاد اور اسلامی مملکت کا قیام بہت سے مسلمانوں کے لئے بہت جاذب نظر
تصورات بن گئے ، لیکن اس سچ کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ ان تمام باتوں نے سب سے زیادہ
نقصان مسلمانوں کو ہی پہنچا یا۔ سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ بے قصور اور معصوم مسلمان
بھی دنیا کی نظر میں بے قصور اور معصوم نہیں رہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی اندھا ندھند
گرفتاریاں کسی کے لئے باعث تشویش نہیں رہیں۔ یہ مان لیا گیا کہ اسامہ بن لادن مسلمانوں
کے لئے سب سے بڑا ہیروبن چکا ہے، حالانکہ یہ
درست نہیں تھا، لیکن کچھ شدت پسندوں کی حرکتوں کی وجہ سے درست معلوم ہونے لگا تھا اور
کچھ پروپیگنڈے کا وجہ سے دولت مند اور بار
سوخ مسلم ریاستوں میں غیر جمہوری حکومتیں ہونے کی وجہ سے مسلمان اس پروپیگنڈے کا توڑ
نہیں کرپائے ۔جمہوری دنیا میں ان کے لئے ہمدرد ی کم سے کم ہوتی جارہی تھی ۔ یہ بات
زیادہ سے زیادہ مانی جانے لگی کہ مسلمان جمہوریت پسند نہیں ہیں، لیکن پچھلے کچھ عرصہ
میں ان سب حالات میں ایک مثبت تبدیلی نظر آئی ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ اسامہ بن
لادن اور دیگر شدت پسند عناصر ایک ایسی جنگ لڑرہے ہیں ، جو شروع ہونے سے پہلے ہی ہاری
جاچکی ہے۔ وہ دنیا کے کئی ممالک سے نہ ایک ساتھ لڑسکتے ہیں ، نہ جیت سکتے ہیں ۔ یہ
بات سمجھ میں آنے لگی کہ عالمی نظام کو دور کی بات ہے،مسلمان خود ان ممالک میں ، جہاں
اقتدار حکومت ان ہی کے ہاتھوں میں ہے، اسلامی ریاست قائم نہیں کرسکتی ۔ گلوبلائزیشن
،مٹتی ہوئی سرحدوں اور کشادہ تر ہوتی ہوئی عالمی معیشت دنیا کو کثیر رنگی اور مخلوطیت
کی طرف ڈھکیل رہی تھی، جس میں کوئی ایک نظام اور یک رنگی ریاست کا قیام دشوارسے دشوار
تر ہوتا جارہا تھا ۔ اس سے قطع نظر اسلامی ریاست کی مانگ کرنے والوں کے پاس بھی اسلامی
ریاست کا کوئی واضح تصور نہیں تھا ۔ جو لوگ یہ مانگ کررہے تھے، ان کے جوش وخروش میں
کوئی کمی نہیں تھی، ان میں سے کچھ واقعی اعلیٰ پایہ کے مذہبی عالم بھی تھے ،لیکن اس
امر میں شک تھا کہ وہ ایک ریاست کا نظم ونسق بھی سنبھال سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں
نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ ایک اسلامی ریاست کا معاشی نظام کیا ہوگا؟ محض یہ کہنے سے
کام نہیں چلتا کہ اسلام میں سود حرام ہے، اگر کسی ملک کی آبادی سود کالین دین ترک
بھی کردے تو اس صورت حال کی وضاحت نہیں کی گئی کہ اس اسلامی ریاست میں غیر ملکی بینک
کسی طرح کا م کریں گے اور کیا ان بینکوں میں کھاتہ کھولنے والے غیر ملکی تاجر ، مالی
ادارے او رکمپنیاں اس بات پر راضی ہوجائیں گی کہ وہ اسلامی ریاست کے معاشی نظام کی
پابندی کریں؟ ایک ریاست کے تصور میں نظم ونسق ،تعلیم کا بندوبست ، معاشی طریق کا ر
اور بہت سے دوسری باتیں شامل ہوتی ہیں او رمسلمان دیکھ رہے تھے کہ مطالبہ کرنے والوں
میں ان امور کے ماہرین بالکل نظر نہیں آتے ، چنانچہ بہت جلد یہ مطالبہ حقیقی سے زیادہ
جذباتی معلوم ہونے لگا اور اس احساس کے عام ہوتے ہی عالمی پیمانہ پر مسلمانوں کی عالمی
نفسیات اور سوچ میں تبدیلی آنے لگی۔ اس تبدیلی کا پہلا ثبوت دنیا کے سب سے بڑے مسلمان
آبادی والے ملک انڈونیشیا میں ملا۔ آج سے صرف آٹھ سال پہلے انڈونیشیا میں جماعہ
اسلامیہ کا بڑا زور تھا، اسامہ بن لادن کا جادو انڈونیشیا میں بقول شخصے سر چڑھ کے
بول رہا تھا۔ انڈونیشیا میں بم دھماکوں کے چند بہت ہولناک حادثات بھی ہوئے تھے، جن
میں بڑے پیمانے پر غیر ملکی خصوصاً مغربی ممالک کے باشندے مارے گئے تھے۔ اسلامی ریاست
کا مطالبہ بھی سب سے زیادہ شدت سے وہیں موجود تھا، لیکن جب جنرل سوہارتو کی آمریت
کا خاتمہ ہوا اور انڈونیشیا میں عام انتخابات
ہوئے تو انتخابات کے نتیجہ میں نہ صرف جمہوری ،بلکہ کسی حد تک سیکولر سیاسی وجماعتوں
کو فتح ملی۔ جماعہ اسلامیہ بالکل حاشئے پر پائی گئی ۔
(جاری)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/changes-collective-thinking-muslims-/d/2517