حامد میر
پوری قوم کو مبارک ہو۔ ایک قومی مجرم گرفتار کرلیا گیا۔ یہ شخص ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں صرف پاکستان نہیں بلکہ مسلمان بھی بدنام ہوئے۔ اس شخص نے سوات میں ایک لڑکی پر سرعام کوڑے برسا کر انسانیت کی تذلیل کی۔لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈو فلم کوپاکستانی میڈیا نے کئی دن تک ٹیلی ویژن اسکرینوں اور اخبارات کی زینت بنائے رکھا ۔ اس ویڈیو فلم نے سواب میں مولانا صوفی محمد اور حکومت کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کی اہمیت بھی ختم کردی اور صرف چنددنوں کے اندر اندر نہ صرف امن معاہدہ ختم ہوگیا بلکہ سوات میں ایک بڑا فوجی آپریشن بھی شروع ہوگیا۔ ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی فلم مارچ 2009میں منظر عام پر آئی تو سپریم کورٹ نے بھی اس کا از خود نوٹس لیا تھا۔ چھ ماہ کے بعد حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارنے والا الیاس نامی شخص ڈیرہ اسماعیل خان سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس شخص پر جلد از جلد مقدمہ درج کر کے عدالتی کارروائی شروع کی جانی چاہئے اور جرم ثابت ہونے پر اسے سخت سزادی جانی چاہئے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب پاکستانی ٹی وی چینلز لڑکی کو کوڑے مارنے کے مناظر دن رات دکھاتے تھے اور مجبور لڑکی چیخیں بار بار سنواتے تھے تو کئی سیاسی رہنماؤں نے باقاعدہ اپنی آنکھوں میں آنسولاکر اس وحشیانہ عمل مذمت کی تھی لیکن نہ جانے اب یہ رہنما ایک ایسی ویڈیوفلم پر کیوں خاموش ہیں جس میں سفید داڑھیوں والے بزرگوں پر صرف کوڑے سے زوردار ٹھڈے بھی مارے جاتے ہیں ۔ یہ بزرگ کوڑے کھا کر صرف ایک ہی لفظ زبان سے نکالتے ہیں اور وہ ہے ‘‘یا اللہ’’۔
خاکسار نے یہ ویڈیو فلم لیفنٹنٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کو دکھائی اور پوچھا کہ کیا کسی تھانے کے اندر درجنوں حوالاتیوں کے سامنے سفید داڑھیوں والے بزرگوں کو کوڑے مارنے سے سوات میں دہشت گردی کم ہوگی یا مزید پھیلے گی ؟ قیوم صاحب خاموش رہے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ انتہائی ندامت کے ساتھ آٹھ منٹ کی یہ فلم دیکھتے رہے جو بی بی سی اوریوٹیوب کے ذریعہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ اس فلم میں سوات کے ایک تھانے میں چار پانچ فوجی جوان اپنے ایک افسر کی موجودگی میں گرفتار حوالاتیوں پر تشدد کرتے نظر آتے ہیں ۔ حوالاتیوں کی چیخ وپکار اور آہ وبکا پشتوزبان میں ہے کوڑے مارنے والے انہیں پنجابی زبان میں گالیوں سے نوازرہے ہیں اور ایک افسر انتہائی شستہ اردو میں حوالاتیوں کو دھمکیاں دیتا ہے۔ یہ فلم ختم ہوئی تو لیفٹنٹ جنرل ریٹائر ڈ عبدالقیوم نے کہا کہ گرفتار قیدیوں اور بالخصوص بزرگوں پر وحشیانہ انداز میں تشدد کرنے والے فوجی جوانوں اور افسر کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے کیونکہ اس ویڈیو فلم سے صرف فوج اور پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔
اس ویڈیو فلم میں فوجی جوانوں کی طرف سے بزرگ قیدیوں پر جو تشدد نظر آتاہے وہ طالبان کی طرف سے ایک لڑکی پر کئے جانے والے تشدد سے کئی گناہ زیادہ ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق افواج پاکستان کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ بی بی سی اوریو ٹیوب پر موجود فلم میں نظر آنے والے واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یہ کارروائی جتنی جلد کی جائے اتنا بہتر ہوگا۔چند دن قبل مولانا فضل الرحمن نے ایک محفل میں ایسے ہی کئی واقعات سنائے جوڈیرہ اسماعیل خان کے آس پاس پیش آئے۔ اس محفل میں مولانا عبدالمجید ندیام شاہ، مولانا ظہور احمد علوی ، مولانانذیر فاروقی ، مولانا عبدالجبار، پیپلز پارٹی کے رہنما زمرد خان، مسلم لیگ ف(ن) کے ایمج این سے انجم عقیل خان ،حمید گل ، سلیم صافی اور یہ خاکسار بھی موجود تھا۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ فوج اورطالبان کی لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان عام لوگوں کا ہورہا ہے۔ انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا ۔ انہوں نے بتایا کہ فوج نے طالبان کی تلاش میں ایک گاؤں کو گھیر ا ڈالا اور ایک بزرگ سے پوچھ گچھ شروع کی ۔ فوجیوں کو شک تھا کہ گاؤں کے لوگ طالبان کے حامی ہیں ایک فوجی افسر نے بزرگ سے پوچھا کہ پاکستان آرمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟بزرگ نے کہا کہ پاکستان آرمی ہماری محافظ ہے اور ہم اپنی آرمی کی بہت قدر کرتے ہیں۔ فوجی نے کہا کہ کیا تم ہمیں کافر سمجھتے ہو؟ بزرگ نے جواب میں کہا کہ استغفراللہ ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ فوجی افسر نے پوچھا کہ تم طالبان کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہو؟ بزرگ نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ طالبان نفاذ شریعت چاہتے ہیں ، امریکا کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کے سپاہی ہیں۔ فوجی افسر نے پوچھا کہ کیا تم طالبان کو کافر نہیں سمجھتے ؟بزرگ نے کہا کہ حضور نہ ہم آپ کو کافر سمجھتے ہیں نہ طالبان کو کافر سمجھتے ہیں ۔ یہ سن کر فوجی افسر جھنجھلااٹھا اور اس نے غصے سے بزرگ کو پوچھا کہ اگر طالبان بھی مسلمان اور ہم بھی مسلمان ہیں تو پھر کافرکون ہے؟ بزرگ نے بڑی عاجزی سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ جناب کافر تو ہم عام لوگ ہیں جنہیں آپ دونوں سے مار پڑتی ہے۔
یہ قصہ سنا کر مولانا فضل الرحمن اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے جبکہ محفل میں موجود بزرگوں نے کیری لوگر بل ، این آر او توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کی خبروں کے حوالے سے اپنے تمام سوالوں کا رخ میری طر ف موڑ دیا ۔ سوالوں میں شدت اور حدت اتنی زیادہ تھی کہ میرے پسینے چھوٹ گئے اور میں نے برادرم سلیم صافی کے ہمراہ یہاں سے فرار میں عافیت سمجھی ۔ خبر یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے جنوبی وزیر ستان میں مجوزہ فوجی آپریشن کے بارے میں حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی مسلسل ٹیلی فون پر ایک دوسرے کے رابطے میں ہیں۔ نواز شرف کیری لوگر بل اور این آر او پر رائے عامہ کی مخالف سمت میں نہیں چلیں گے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پاکستان کو ایک ایسے موڑ ہر لے آئے ہیں جہاں کیری لوگر بل اور این آر او پر پارلیامنٹ کو وہ فیصلہ کرنا پڑے گا جو عوام کی خواہشات کے مطابق ہو۔ پارلیامنٹ کے فیصلے سے پاکستان بھی مضبوط ہوگا اور جمہوریت بھی مضبوط ہوگی۔ اگر ان معاملات پر پارلیامنٹ نے فیصلہ نہ کیا تو پھر معاملات نہ تو آصف زرداری اورنواز شریف کے کنٹرول میں رہیں گے اور نہ ہی فوج کنٹرول کرسکے گی۔ پھر تمام فیصلے سڑکوں پر ہوں گے اس لئے ہوش کے ناخن لیے جائیں اور قوم کی تقدید کے فیصلے صرف پارلیامنٹ میں کئے جائیں۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/only-unbelievers!-/d/1875