حافظ مولانا ڈاکٹر سلیم الرحمن
خان ندوی
3 جولائی،2012
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم
میں ارشاد فرمایا:
‘‘حٰمٓ وَ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ
اِنَّآ آنْزَلْنٰہُ فیِْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَ کَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِ رِیْنَ فِیْھَا
یُفْرَ قُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ اَ مْرً ا مِّنْ عِنْدِنَا اَنَّا کُنَّا مُرْ سِلِیْنَ رَحْمَۃً مِّنْ رَّ بِّکَ اِنَّہ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَ بِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْا َ رْضِ وَمَا بَيْنَھُمَا اِنْ کُنْتُمْ مُّوْ قِنِیْنَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا
ھُوَ یْحْیٖ وَ یُمِیْتُ رَ بُّکُمْ وَرَ بُّ اٰبَآ یکُمُ الْاَ وَّ لِیْنَ ’’(سورہ
الدخان 44، آیات 1۔8) (ترجمہ ) حٰم اس کتاب روشن کی قسم کہ ہم نے اس کو مبارک رات
میں نازل فرمایا بیشک ہم تو ڈرانے والے ہیں ۔ اسی رات میں تمام حکمت کے کام کا فیصلہ
کیا جاتاہے (یعنی ) ہمارے ہاں سےحکم ہوکر۔ بے شک ہم ہی (رسولوں کو ) بھیجتے ہیں (یہ
) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے۔ وہ تو سننے
والا جاننے والا ہے۔ آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب کا مالک ہے،
بشرطیکہ تم لوگ یقین کرنے والے ہو ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔(وہی ) جِلاتا ہے اور
(وہی) مارتا ہے ۔ وہی تمہارا او رتمہارے باپ دادا کا پروردگار ہے۔
اسلامی کیلنڈر کے مطابق شعبا
ن کا مہینہ آٹھواں مہینہ ہے ، جو رجب ا ور رمضان المبارک کے درمیان کا مہینہ ہے ،
حقیقت یہ ہے کہ شعبان کا مہینہ بہت سی فضیلتوں کا حامل ہے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں زیادہ روزے رکھتے تھے ۔ ہم یہاں پر چند احادیث شریفہ
کاذکر کرتے ہیں۔
عَن عَائِشَۃَ رَضِيَ اللہُ
عَنھَا قَا لت کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَصُو مُ حَتَّی
نَقُولَ لاَ یُفطِرُ وَیُفطِرُ حَتَّی نَقُولَ لاَ یَصُومُ فَمَا رَأَ یتُ رَسُولَ
اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ استَکمَلَ صِیَا مَ شَھرٍ إِلاَّ رَمَضَانَ وَمَا
رَأَ یتُہُ أَ کثَرَ صِیَا مًا مِنہُ فِي شَعبَانَ (صحیح البخاری :1883)(ترجمہ) حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم روز ے رکھتے تھے
کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر روزہ کے نہیں رہیں گے او ر روزے نہیں
رکھتے تھے یہا ں تک کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے نہیں رکھیں گے اور
میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رمضان (کے علاوہ ) مکمل مہینہ کے روزے رکھتے ہوئے
نہیں دیکھا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ (کسی اور مہینہ )
میں (نفلی ) رو زے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔
عَن أُ سَا مَۃَ بنِ زَیدٍ
قَالَ قُلتُ یا رَسُولَ اللہِ لَم أَرَکَ تَصُومُ شَھرًا مِن الشُّھُورِ مَا تَصُو
مُ مِن شَعبَانَ قَالَ ذَلِکَ شَھر یَغفُلُ النَّاسُ عَنہُ بَینَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ
وَھُوَ شَھر تُر فَعُ فِیہِ الأَ عمَا لُ إِ لَی رَبَّ العَا لَمِینَ فَأُ حِبُّ
أَ ن یُر فَعَ عَمَلِي وَ أَنَا صَا ئِم (سنن النسائي: 2317) (ترجمہ) حضرت اسامہ
بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کو شعبان سے زیادہ کسی او رمہینے میں (نفلی ) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ہے جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ،میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال
میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔
عَن عَشَۃَ قَا لَت فَقَدتُ
رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیلَۃٍ فَخَرَ جتُ فَإِ ذَا ھُوَ
بِا لبَقِیعِ رَا فِع رَأ سَہُ إِلَی السَّمَا ءِ فَقَا لَ لِي أَ کُنتِ تَخَا فِینَ
أَن یَحِیفَ اللہُ عَلَیکِ وَرَسُو لُہُ قَا لَت قُلتُ ظَنَنتُ أَنَّکَ أَتَیتَ
بَعضَ نِسَا ئِکَ فَقَا لَ إِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ یَنزِلُ لَیلَۃَ النَّصفِ مِن
شَعبَانَ إِلَی السَّمَا ءِ الدُّنیَا فَیَغفِرُ لِأَ کثَرَ مِن عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ
کَلبٍ ( مسند أحمد: 24825) (ترجمہ) حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (حجرہ)
میں نہیں پایا تو میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے ) نکلی، میں نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو بقیع (جنت البقیع) میں پایا اس طور پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
اپنے سر کو آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا
تمہیں ڈرتھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں عرض کیا یا رسول اللہ مجھے
گمان ہوا کہ آپ دیگر ازواج مطہرات کے پاس
تشریف لے گئے ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی شب کو نچلے آسمان پر نزول فرماتا
ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
عَن عَلِيَّ بنِ أَ بِي طَا
لِبٍ قَا لَ قَال رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ إِ ذَا کَا نَت لَیلَۃُ
النَّصفِ مِن شَعبانَ فُقُو مُوا لَیلَھَا وَصُو مُوا نَھَا رَھَا فَإِ نَّ اللہَ یَنزِلُ
فِیھَا لِغُرُ و بِ الشَّمسِ إِلَی سَمَا ءِ الدُّنیَا فَیَقُولُ أَلاَ مِن مُستَغفِرٍ
لِي فَأَ غفِرَ لَہُ أَ لَا مُستَرزِق فَأَ رزُقَہُ أَلَا مُبتَلًی فَأُ عَا فِیَہُ
أَ لَا کَذَا أَ لاَ کَذَا حَتَّی بَطلُعَ الفَجرُ ( سنن ابن ماجۃ:1378) (ترجمہ)
حضرت علی بن أ بی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا : جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو اس رات میں قیام کرو اور اس دن کا
روز ہ رکھو ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ غروب شمس کے وقت سے سماءِ دنیا پر نزول فرما کر
ارشاد فرماتے ہیں: کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی
رزق کا متلاشی ہے کہ میں اسے رزق عطا کروں ؟کیا کوئی مصیبت میں مبتلا ء ہے کہ میں اس
کی مصیبت کو دور کروں؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے ؟ یہا ں تک کہ صبح صادق
کا وقت ہوجاتاہے۔
عَن أَ بِي مُوسیَ الأَ
شعَرِيَّ عَن رَسُول ِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ قَا لَ إِ نَّ اللہَ لَیَطَّلِعُ
فِي لَیلَۃِ النَّصفِ مِن شَعبَانَ فَیَغفِرُ
لِجَمِیعِ خَلقِہِ إِ لَّا لِمُشرّکٍ أَو مُشَا حِنٍ ( سنن ابن ماجۃ: 1380) (ترجمہ)
حضرت موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں تمام مخلوق ( کے اعمال سے ) مطلع ہوتے ہیں
اور ساری مخلوق کی مغفرت فرماتے ہیں سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے۔
عَن عَبدِ اللہِ بنِ عَمرٍ
و أَ نَّ رَسُولَ اللہِ صلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَطَّلِعُ اللہُ عَزَّ
وَجَلَّ إِلَی خَلقِہِ لَیلَۃَ النَّصفِ مِن شَعبَانَ فَیَغفَرُ لِعِبَا دِہِ إِ لَّا
لَا ثنَینِ مُشَا حِنٍ وَقَا تِلِ نَفسٍ ( مسند أ حمد: 6353) (ترجمہ)
حضرت عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا : اللہ عزوجل شعبان کی پندرہویں شب میں تمام مخلوق ( اعمال سے ) مطلع
ہوتے ہیں اور ساری مخلوق کی مغفرت فرماتے ہیں سوائے دو (لوگوں کے ) بغض رکھنے والا
اور کسی نفس کو قتل کرنے والا ۔
دوسری احادیث شریفہ میں اس کے علاوہ زنا کرنے والا ، عداوت کرنےو الا،
تکبر انہ طور پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والا ، والدین کی نافرمانی کرنے والا، اور
شراب پینے والا کا بھی ذکر وار د ہوا ہے۔
علامہ تقی عثمانی دامت برکاتہ
نے شب برأت کی حقیقت کے متعلق تفصیل سے تحریر فرمایا ہے، جس میں سے چند باتوں کا یہاں
مختصراً ذکر کیا جاتا ہے: دین اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقہ
کی اتباع کا نام ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے
احادیث مروی ہیں، جن میں نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نےاس رات کی فضیلت بیان فرمائی ہے، ان میں بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے
شک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ
اس رات کی فضیلت بےاصل ہے ، لیکن حضرات محدثین او رفقہاء کایہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک
روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو، لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اس
کی کمزوری دور ہوجاتی ہے۔ امت مسلمہ کے جو
خیر القرون ہیں یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کا دور، تابعین رحمۃ اللہ علیہ کا دور، تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ کادور،
اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے
کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔
قبرستان جانے کے بارے میں
تحریر فرماتے ہیں : میرے والد ماجد حضرت مفتی
محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے جس درجے میں ثابت ہو، اسی درجہ میں اسے رکھنا چاہئے ، اس سے آگے نہیں پڑھنا
چاہیے ،لہٰذا ساری حیات طیبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ جنت البقیع
جانا مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب
برأت میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لیے تم بھی اگر
زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے۔ لیکن قبرستان جانے کو شب برأت کے ارکان
میں داخل کرنا اور اس کو شب برأت کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ
شب برأت نہیں ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔ درحقیقت دین
کی سمجھ کی بات ہے کہ جو چیز جس درجہ میں ثابت ہو، اس کو اسی درجہ میں رکھا جائے ،
اس سے آگے نہیں بڑھا جائے بلکہ اس کے علاوہ دوسری نفل عبادت ادا کرلی جائے۔
مولانا محمد نجیب سنبھلی قاسمی
صاحب (ریاض) نے بھی شب برأت کے بارے میں تحریر فرمایا ہے، جس میں سے چند باتوں کو
مختصراً نقل کیا جاتا ہے: حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ (جلیل القدر تابعی) نے لیلۃ مبارکۃ
سے مراد شعبان کی پندرہویں رات (شب برأت) لی ہے، اگر چہ جمہور علماء کرام نے اس سے
مراد لیلۃ القدر کو لیا ہے۔
شب برأت کی فضیلت کے متعلق
تقریباً 17 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں، جن میں بعض صحیح ہیں، جن کی صحت کا اعتراف شیخ محمد ناصر الدین البانی
رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدث نے بھی کیا ہے، اگرچہ دیگر احادیث کی سند میں ضعف موجود ہے
لیکن وہ کم از کم قابل استدلال ضرور ہیں اور احادیث کی اتنی بڑی تعداد کو رد کرنا درست
نہیں، نیز امت مسلمہ کا شروع سے اس پر معمول بھی چلا آرہا ہے، لہٰذاعلم حدیث کے قاعدہ
کے مطابق ‘‘اگر حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہو لیکن امت مسلمہ کاعمل اس پرچلا آرہا
ہوتو اس حدیث کو بھی قوت ہوجاتی ہے اور وہ قابل اعتبار قراری جاتی ہے’’ ان احادیث پر
عمل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس باب کی احادیث مختلف سندوں کے ساتھ وارد
ہوئی ہیں اگر چہ بعض احادیث کی سند میں ضعف ہے لیکن علم حدیث کے قاعدہ کے مطابق ایک
دوسرے سے تقویت لے کر یہ احادیث حسن لغیرہ بن جاتی ہیں، جس کا اعتراف متعدد بڑے بڑے
محدثین نے بھی کیا۔
احادیث شریفہ میں جن اعمال
کے کرنے کا شب برأت میں اشارہ ملتاہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ فرض نمازوں کو خشوع وخضوع
کے ساتھ باجماعت ادا کرنا۔
2۔ بقدر توفیق نوافل خاص کر
تہجد کی نماز ادا کرنا۔
3۔ اگر ممکن ہوتو صلاۃ التسبیح پڑھنا۔
4۔ قرآن کریم کی تلاوت کرنا۔
5۔ اللہ تعالیٰ کاذکر کثرت
سے کرنا۔
6۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خوب دعائیں مانگنا ۔
7۔ لغزشوں او رگناہوں سے سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا ۔
8۔ کسی شب برأت میں قبرستان جاکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے مرنے
والے مسلمانوں کے لیے دعائے مغفرت کرنا، لیکن ہر شب برأت میں قبرستان جانے کا خاص
اہتمام کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیو نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی
میں صرف ایک مرتبہ اس رات میں قبرستان جاناثابت
ہے۔
فرض نمازوں کو باجماعت ادا
کرنا ،اس کے علاوہ اس رات میں بقدر توفیق انفرادی
عبادت کرنا چاہئے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس رات میں اجتماعی طور پر کوئی عبادت کرنا ثابت نہیں ہے۔
9۔ ماہ شعبان میں کثرت سےروزے رکھنے کی ترغیب احادیث میں وارد ہوئی
ہے، لیکن شعبان کے آخری دنوں میں روزے رکھنے کی ممانعت آئی ہے، تاکہ رمضان المبارک
کے روزے اچھی طرح رکھے جاسکیں ۔
آج ہماری زندگی سے نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ختم ہوتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے آج پوری امتِ مسلمہ پریشانیوں او رمصائب سےدوچار ہے اور
وہ باتیں و اعمال ہماری زندگی میں داخل ہوتے جارہے ہیں ، جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق
نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں
دعا ہے کہ ہم سب کو اللہ تعالیٰ اپنے احکام
او رمحمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور دنیا وآخرت میں کامیابی و کامرانی عطا فرما ئے!
مصنف ندوہ ایجوکیشن سینٹر
،جاپان کے صدر اور چوؤ یونیورسٹی ،ٹوکیو میں پروفیسرہیں۔
3 جولائی ، 2012
URL: