جاوید حبیب
سرسید نے جب علی گڑھ تحریک شروع کی تو ان کی زبردست مخالفت کی گئی۔ انہیں کافر ،ملحد، نیچر یہ ، گردن مروڑی مرغی کھانے والا ،انگریزوں کا پٹھواور خوشامد ی کہا گیا ۔لیکن سرسید نے اپنی جدوجہد نہ چھوڑی اور انہوں نے کہا ‘‘جو شخص سچے دل سے اور نیک نیتی سے کام کو کرتا ہے اس کو برا کہنے والوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اس کو خدا سے غرض ہوتی ہے۔ اور جب کہ خدا سے ہے تو لوگوں کو برُا کہنے سے اس کے دل پر کچھ نہیں ہوتا بلکہ ان لوگوں کے ساتھ اس کی محبت بڑھتی جاتی ہے اور وہ زیادہ کوشش کرنے لگتا ہے ۔وہ سمجھتا ہےکہ ان لوگوں کو فائدہ پہنچانے اور سمجھانے کے لئے زیادہ کوشش درکار ہے اور جوں جوں مخالفت بڑھتی جاری ہے، اس کی کوشش بھلائی کے واسطے ترقی کرتی جاتی ہے۔
سر سید کے جدوجہد کے نتیجے میں علی گڑھ میں مدرسہ قائم ہوا ۔یہ مدرسہ کالج بنا اور 1920میں یہ کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن گیا ۔1920سے لے کر 1988تک 68سال گزر گئے ۔سرسید نے مدرسۃ العلوم 1875میں قائم کیا تھا۔ اس طرح مدرسہ قائم ہوئے 113سال گزر گئے۔
مدرسہ کے قیام سے آج تک 113سال کا زمانہ گزر گیا ان 113سالوں میں زمانہ کہا ں پہنچ گیا اور مسلمان کہا سے کہاں پہنچے ۔ان دو سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ آج ہندوستان میں کوئی مسلمان سرسید کو برا کہنے والا نہیں ہے بلکہ آج اب وہی سرسید کو جنہیں 113سال پہلے کافر کہا گیا انہیں ہندستان کے تمام ممتاز علما بھی سرسید علیہ الرحمتہ کہتے ہیں، اور آج کے زمانے میں اگر کوئی شخص سرسید کو برا کہے تو ایسے شخص کو پوری ملت براکہے گی ۔ زمانے کے اس انقلاب یا رویوں کی اس تبدیلی پرکوئی تبصرہ کئے بغیر ہم انتہائی ادب کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں ،مسلم قائدین اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ،اساتذہ ،ملازمین اور طلبا سے یہ سوال کرنے کی جرأ کرتے ہیں کہ ذرا یہ بتائے کہ آج جب ہم سرسید کی عظمت کے قائل ہوچکے ہیں ، جب ہم سرسید سےاپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں، جب ہم سرسید کو مسلمانوں کا عظیم رہنما سمجھتے ہیں تو پھر سرسید کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے کیوں نہیں؟
سرسید کی شخصیت بھی عجب ہے کہ جب وہ زندہ تھے تو کافر کہے گئے اور آج جب وہ اس دنیا میں نہیں تو انہیں رحمۃ اللہ علیہ کہا جاتا ہے ۔لیکن ہماری حالت میں شاید کوئی فرق نہیں آیا ہے۔
سرسید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پورے ملک میں ایک اکیلی مسلم یونیورسٹی ہے۔ ہندوستان کے کروڑوں مسلمان اور ان کے بڑے بڑے قائدین ،ممتاز ترین علما اور دانش ورمل کر بھی آج تک کوئی دوسری مسلم یونیورسٹی نہ بناسکے۔
دوسری مسلم یونیورسٹی تو ہم خیر کیا بناتے سرسید کی اکیلی اکلوتی مسلم یونیورسٹی بھی ہمارے لئے آپسی اختلافات کا کھلونا بنی ہوئی ہے۔1965سے 1988تک کے پورے 23سال کے زمانے پر غور کیجئے تو نظر آئے گا کہ اس پورے عرصے میں مسلم یونیورسٹی کے ساتھ کوئی نہ کوئی تنازعہ جڑا ہوا ملےگا۔ پہلے اقلیتی کردار کی لڑائی چلی بعد میں یونیورسٹی کے اندر باہمی مفادات کا ٹکراؤشروع ہوا۔
یونیورسٹی کے طلبا ایجی ٹیشن ، احتجاجی ،ہڑتال ،دھرنے ،جلوس کے حوالوں سے مسلم یونیورسٹی کی خدمت کا فریضہ اداکرتے رہے۔ اساتذہ کرام اور یونیورسٹی کے ملازمین اپنے اپنے مفادات کی لڑائیوں کو اقلیتی کردار اور اسلامی کردار کا نام دے کر یونیورسٹی کی خدمت کی ذمےداریاں پوری کرتے رہے۔
وائس چانسلر ز آئے اور گئے جو وائس چانسلر آیا پہلے اس کا استقبال کیا گیا۔ پھر اس کے خلاف ہنگامے کئے گئے ۔کوئی وائس چانسلر نرم مزاج نکلا تو اس نے اپنی بچت کے لئے طلبا ، اساتذہ ،ملازمین اور اولڈ بوائز کی ہاں میں ہاں ملا کر اور سب کو خوش رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر اپنی جان بچائی اور یونیورسٹی کے نظام کو ڈھیلا کیا ۔کوئی وائس چانسلر سخت جان نکلا تو اس نے دھونس ، دھمکی اور احتجاج کا مقابلہ کرنے اور اپنی آبرو بچانے کے لئے ضلع انتظامیہ ،پولس اور تادیبی کارروائیوں سے اپنا وقت گزارا۔
جو وائس چانسلر آیا پہلے اس کی تعریف کی گئی پھر اسے ملت کا غدار ،اقلیتی کردار تباہ کرنے والا ،ڈاکٹیٹر ،آمر اور یونیورسٹی کے مفادات کا مخالف بتایا گیا۔
اقلیتی کردار کی بحالی اور یونیورسٹی کی خودمختاری اور جمہوری کردار کو واپسی کے لئے جب 1981میں پارلیامنٹ سے نیا ترمیمی بل پاس ہوکر ایکٹ بنا تو پھر یونیورسٹی کورٹ کے انتخابات ہوئے یونیور سٹی کے ہمدردوں اور بزعم خود یو نیورسٹی کے مفادات کے محافظین نے اپنی ذاتی اور گروہی نمائندگی کے لئے جم کر لڑائیاں لڑیں اور مقدمے بازی کی گئی اور ایک دوسرے کو بے ایمان اور بدعنوان بتا کر ایک دوسرے کے انتخابات کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا اور آج بھی یہ افسوس ناک سلسلہ جاری ہے ، اور اس ہنگامہ آرائی کو اقلیتی کردار کا نام دیا گیا۔
بے ادبی معاف! وہ عظیم بزرگ جنہوں نے درحقیقیت مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی لڑائی لڑی تھی نہ کورٹ کے ممبر بنائے گئے اور نہ انہیں یونیورسٹی کے نمائشی ۔5.4لوگوں کو کورٹ کاممبر بنایا گیا تو بھی مجبوراً اور بادل ناخواستہ ڈاکٹر فریدی ، یوسف صدیقی،محمد مسلم،شفیق الرحمن ،کلب عباس ،ظفر احمد صدیقی کیسے کیسے بزرگ تھے۔ اپنی جان قربان کرگئے لیکن ان میں سے کوئی نہ کورٹ کا ممبر بنا نہ کسی نے ممبری اور انتخابات کے لئے مقدمہ بازی کی۔
مولانا ابو للیث اصلاحی، سید افصل حسین ،مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ،سید امین الحسن رضوی ،سیتا رام دویدی جیسے لوگ بھی کورٹ ا ور عہدوں کی دوڑ سے دوررہے۔
البتہ چند مسلم قائدین اور علما اور ممتاز اولڈ بوائز ضرور ممبر منتخب کئے گئے تو ان بے چاروں کی بات سننے والا کوئی نہیں البتہ ان کے خلاف بڑھ چڑھ کر بکواس کرنے والے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بازیابی کے لئے 15سال جدوجہد کی، یوم احتجاج ویوم سیاہ منائے ،جلسے کئے، جلوس نکالے، مظاہرے کئے ، گولیاں کھائیں ،جانیں قربان کیں لیکن کسے فکر ہے کہ ان کروڑوں بے چہرہ، بے نام مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کی تکمیل کرے۔‘‘وائس چانسلر لاؤاور وائس چانسلر بھگاؤ’’ کی لعنت نے گذشتہ 10،15سالوں میں مسلم یونیورسٹی کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ اس لعنت سے نقصان اگر پہنچا تو صرف اور صرف معصم طلبا کو یا یا ان کے ماں باپ کو اور فائدہ اگر پہنچا تو یونیورسٹی کے مفادپرستوں کے نمائندوں کو ہم کسی کا نام لینا نہیں چاہتے لیکن گزارش ہے کہ اسلام ،اقلیتی کردار یا روشن خیالی اورترقی پسند ی کے نعروں کی دہائی دینے والے یونیورسٹی کے ہر معاملے کو اسلام اورکفر کی لڑائی بنانے والے ، یونیورسٹی کے معصوم طلبا کو غلط راہوں پربھڑکانے والے خواہ وہ اسلام کے علم بردار بنیں یا کمیونزم اور ترقی پسندی کے صرف اور صرف اپنے مفادات کے علم بردار بنے ہوئے ہیں۔کسی کی ہمت نہیں کہ جو اس مفاد پرست ٹولے کو مسلم یونیورسٹی میں بے اثر بناسکے۔
یہ مفاد پرست ٹولا جو کبھی وائس چانسلر کا حامی بن جاتا ہے کبھی مخالف ،یہ کبھی طلبا کی حمایت کرتا ہےاور کبھی طلبا کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ کا مددگار بن جاتا ہے ۔اس کی تنحواہیں برقرار رہتی ہیں ان کےمفادات بحال رہتے ہیں ،کوئی ان سے پوچھے کہ جو یہ مسلم یونیورسٹی کی حفاظت کے دعویدار اور ٹھیکیدار بن گئے ہیں کبھی انہوں نے خود بھی سو چا کہ یہ خود مسلم یونیورسٹی اور ہندوستانی مسلمانو ں کے لئے کیا کررہے ہیں؟
ہندوستانی مسلمان تعلیم میں پیچھے ہیں۔ علی گڑھ کی حفاظت کے دعوے دار مجاہدین سے ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کبھی انہوں نے اپنی پوری زندگی میں علیگڑھ کی اندرونی سیاست الگ ہٹ کر بھی ہندوستان کے کسی علاقے میں جاکر ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کی طرف توجہ دی؟ کیا کبھی انہوں نے اپنی تنخواہوں سے مسلم یونیورسٹی میں نادار اور غریب طلبا کو مدددی ؟کیا کبھی انہو ں نے خدمت خلق کے کسی کام میں عملی دل چسپی لی؟
اے بھائیو! اے دوستو! اے بزرگو! سرسید کے پرستار ! سرسید کے انتقال کو بھی 90سال گزر گئے۔ اب تو سرسید کی فکر،کار کردگی اور اظہار قبول کرلو۔اب تو عقل ،محنت ،لیاقت ،صلاحیت ، ہمدردی ،قومی خدمت ،اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرتا سیکھ لو ۔سرسید نے تو فراخ دلانہ تحمل اور برداشت اور آزادانہ تحقیق کا درس دیا تھا۔ہم علی گڑھ والے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اور اپنے ضمیر یا اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر خود غور کریں کہ سرسید کی ان دونوں باتوں پر آج ہمارا کتنا عمل ہے؟
نہ ہماری طبیعتیں فراخ دلانہ تحمل اور برداشت کو قبل کرتی ہیں اور نہ ہم یونیورسٹی میں آج تک آزادنہ تحقیق کا ماحول بناسکے ۔غور کرواے چھوٹے اور بڑے علیگ بھائیو ! سرسید کے نام پر ہر سال عرس یا میلے کی طرح ڈنر کی تقریب برپا کر کے خوش ہوجانے یا سرسید ڈنر نہ ہو سکنے پر ماتم وافسوس کرنے سے نہ مسلم یونیورسٹی کی حالت بدل سکتی ہے اور نہ ہندوستانی مسلمانوں کی۔
اے علیگ بھائیو! سرسید کا انتقال ہوا تو ان کا کفن چندے سے خریدا گیا، اور آج حال یہ ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ (کچھ کو چھوڑ کر ) کو سب سے بڑی فکر اپنا ذاتی مکان اور وہ بھی علی گڑھ ہی میں بنانے کی فکر ہے۔ رہے نام سرسید کا سرسید کا نگر جاری ہے اور اس سے فیض حاصل کرنے والے اپنی دنیا میں مست چلے جارہے ہیں۔
علی گڑھ والوں کو علی گڑھ سے محبت ہے بالکل مناسب ہے۔علی گڑھ والوں کو سرسید سےعقیدت ہے بالکل درست ہے۔علی گڑھ والوں کو یونیورسٹی کا اقلیتی کردار عزیز ہے جائز بات ہے۔ علی گڑھ والوں کو مسلم یونیورسٹی میں مسلمانوں کی اکثریت برقرار رہنے کی فکر ہے صدفی صد اس کا حق ہے۔
لیکن ان خواہشات کی تکمیل کے لئے ہم اپنے علاوہ ہر دوسرے شخص کو ذمے دار سمجھتے ہیں ۔کبھی ہمیں حکومت سے شکایت ہوتی ہے کبھی ہمیں وائس چانسلر سے شکوہ ہوتا ہے ،کبھی ہم ملت کے اکابرین سے مطالبات کرتے ہیں ۔پھر الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ شروع ہے۔ پھر گروپ بندیاں ہوتی ہیں، اخباری بیانات آتے ہیں، مقدمے بازی ہوتی ہے،یونیورسٹی بند ہوتی ہے ، پولس آتی ہے ، اخراج ہوتا ہے ، گرفتاریاں ہوتی ہیں، ہندی اور انگریزی اخبارات جم کر یونیورسٹی کو بدنام کرنےوالی خبریں ،مضامین اور رپورٹیں شائع کرتے ہیں ۔یونیورسٹی کی بدنامی ہوتی ہے۔غیر مسلموں میں یونیورسٹی کا وقارمجروح ہوتا ہے ، ایک عامسلمان ان حالات پر افسوس کرتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ کیا اسی اقلیتی کردار کےلئے اس سے قربانیاں مانگی گئی تھیں۔ کیا اسی ہنگامہ آرائی کے لئے انہوں نے اپنی جانیں کھپائیں ۔
آخر میں سیاست داں ، وزیر اور حکومت مداخلت کرتی ہے۔ وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے پھر ہم سب ایک لڑائی سے تھک جاتے ہیں اور کچھ دیر کے لئے سکون قائم ہوجاتا ہے اور پھر وہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
تو اے علیگ بھائیو! آؤ! ہم سب مل کر ا یک بار عہد کریں آؤ ایک بار اپنے دلوں کی کدورتیں مٹاکر ، اپنے ذاتی مفادات کو بھلا کر ،غصے ،انتقام ،نفرت کے جذبوں کو ختم کر کے ، ایک دوسرے کی کاٹ کرنے کی روش کی جگہ باہمی اعتماد ، باہمی اشتراک وتعاو ن ،محبت ،تہذیب، عقل اور سائستگی کے ساتھ ایک عہد کریں کہ سرسید کی روایتوں کو عملاً پھر زندہ کریں گے۔ آؤ! ایک بار عزم کریں کہ ہم سرسید کی مسلم یونیورسٹی کو حقیقی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز بنائیں گے۔علی گڑھ تحریک کو دوبارہ زندہ کریں گے۔
علی گڑھ کے وائس چانسلر صاحب، علی گڑھ کی اسٹاف ایسوایشن ،علی گڑھ کی اولڈ بوائز ایسوایشن ،علی گڑھ کے ملازمین کی تنظیمیں ،طلبا کے نمائندے اور طلبا کی یونین اور ملت کے نمائندے ایک بار نئے سرے سے مسلم یونیورسٹی کو ہندوستانی مسلمانوں کو عملی تعلیمی ،دانش وارانہ سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی کوشش کریں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی اقتصادی ،سماجی، تعلیمی بدحالی کو دور کرنے کا کام ہی علی گڑھ والوں کااصل کام تھا آخر کب تک علی گڑھ والے اپنے اس کام میں غفلت کرتے رہیں گے؟.
اگر ہم علی گڑھ والوں نے اپنی حالت نہ بدلی تو آنے والا مورخ لکھے گا کہ سرسید، محسن الملک ،وقار الملک ،حالی، سید محمود کی یاد گار جسے ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز سمجھا تھا اسے علی گڑھ والوں کی ہی ایک نسل نے مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کا قفس بنادیا ۔
اگر ہم دوسری مسلم یونیورسٹی نہ بنا سکے تو کم از کم اس ایک اکیلی مسلم یونیورسٹی کو تو بچالیں۔(گستاخی معاف(
-----------
جناب جاوید حبیب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ہونہار فرزند ہیں ۔ وہ اپنی طالب علمی کے زمانے میں طلبا یونین کے صدر ہ چکے ہیں ۔انہوں نے اقلیتی کردار کی تحریک اور سرسید کے مشن سے وابستہ دیگر امور میں سرگرم حصہ لیا ۔زیر نظر مضمون انہوں نے اپنے ہفتہ وار ‘ہجوم’ میں کئی برس قبل شائع کیا تھا ۔ اس مضمون کی معنویت اور تازگی آج بھی برقرار ہے لہٰذا ہم اسے دوبارہ شائع کررہے ہیں۔(ایڈیٹر)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/muslim-university-center-desires-cage/d/1968