New Age Islam
Thu Jan 16 2025, 05:09 PM

Urdu Section ( 28 Oct 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Strange Is The Concealment In Sitting Abreast Of The Blind خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

ایم ودود ساجد

مجھے مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ کی تجویز کی موافقت یا مخالفت ظاہر کرنے کی کوئی عجلت نہیں ہے۔ لیکن پہلے ہی دن سے کم وبیش تمام مسلم تنظیمیں اور تقریباً ہر مکتب فکر کے علما اس تجویز کی شدت کے ساتھ مخالف کرتے رہے ہیں ۔لیکن کیا ان سب نے اس مجوزہ ڈرافٹ کو پڑھا بھی ہے؟ میری معلومات کے مطابق خود مسلم ممبران پارلیمنٹ میں ہی چند کے علاوہ کسی نے مجوزہ ڈرافٹ کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔مرکزی مدرسہ بورڈ کی سن گن 2007سے جاری ہے اور اسی وقت سے ان کی چہار سو  مخالفت بھی ہورہی ہے۔ شاید اسی امر کو ذہن میں رکھتے ہوئے فروغ انسانی وسائل کے کپل سبل نے گزشتہ 3اکتوبر کو دونوں ایوانوں کے تمام مسلم ممبران کی ایک میٹنگ طلب کی تھی۔یہ میٹنگ نہ تو رات کے اندھیرے میں ہوئی اور نہ اس کا انعقاد لاطینی امریکہ کے کسی دور دراز علاقہ میں ہوا۔ وزارت نے ہر مسلم ممبرپارلیمنٹ کو دو۔دو بار دعوت نامہ بھیجے اور ساتھ میں مجوزہ اور بعد میں ہلکی پھلکی ترمیم ولا ڈرافٹ بھی ارسال کیا۔لیکن افسوس یہ ہے کہ اس اہم میٹنگ میں جہاں ہندوستان بھر کے دولاکھ سے زائد دینی مدارس کو ‘امریکی گیم پلان’ سے بچانے یا اس ‘پلان کوناکام’ بنانے کے لئے ایک اہم رول ادا کیا جاسکتا تھا 59میں سے محض 20مسلم ممبران پارلیمنٹ ہی پہنچے ۔غائب رہنے والوں میں مرکزی وزرا بھی شامل ہیں۔

2009کے الیکشن میں دوعلما دیوبند ’ مولانا اسرارالحق قاسمی اور مولانا بدرالدین اجمل قاسمی بھی لوک سبھا پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ جمعیت علما کے جنرل سیکریٹری مولانا محمود مدنی (قاسمی ) پہلے سے ہی راجیہ سبھا میں موجود  ہیں۔ ہر چند کہ تینو ’ الگ الگ پارٹیوں کے ٹکٹ پر ایم پی بنے ہیں تاہم ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ تینوں دارالعلوم دیوبند کے فرزند ہیں۔ بظاہر تینوں مجوزہ مدرسہ بورڈ کے سخت مخالف ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کپل سبل صاحب کے ذریعہ بلائی گئی میٹنگ میں مولانا اسرارالحق قاسمی ہی شریک ہوئے تھے ۔مسلمانوں کے اتنے اہم اشوپر بلائی گئی میٹنگ میں محض30فیصد مسلم نمائندوں نے شرکت کی۔ امید یہ تھی کہ تینوں عالم دین ممبران پارلیمنٹ پورے اہتمام کے ساتھ اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر اس میٹنگ میں شریک ہوں گے ۔ لیکن 59میں سے 20اور تین میں سے محض ایک کی شرکت نے مسلم مسائل کے تئیں مسلم نمائندوں کی بے حسی کو اور زیادہ اجاگر کردیا ۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ 4اکتوبر کے بعض اخبارات میں انہی مسلم ممبران پارلیمنٹ کے خیالات شائع ہوئے جو میٹنگ میں شریک ہی نہیں ہوئے ۔میٹنگ میں ان کی عدم شرکت اور اخبارات میں بیان بازی کا میرے نزدیک اس کے علاوہ کوئی سبب نہیں ہے کہ ان کے علمی بحث کرنے کی لیاقت نہیں ہے، آپ مخالفت کریں یہ آپ کا بنیادی اور پیدائشی حق ہے۔ لیکن مخالفت کے ٹھوس علمی اسباب اور دلائل ہونے چاہئیں ۔میں بلاتکلیف یہ الزام عائد کرتا ہوں کہ میٹنگ سے غائب رہ کر بیانات کے پلند ے جاری کرنے والے اس لیاقت سے محروم ہیں جو علمی بحث کے لئے درکار ہے۔

میں نے کئی درجن سے زائد ، ان چھوٹے مدارس کے ارباب اختیار سے بات کی جو مجوزہ مدرسہ بورڈ کے مخالف ہیں۔تقریباً تمام نے ایک ہی جواب دیا’ ۔۔۔اگر بورڈ بن گیا تو دینی مدارس میں حکومت کی مداخلت کا راستہ کھل جائے گا۔بعض ارباب مدارس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے بزرگان دین کا کہنا یہ ہے کہ بورڈ بن گیا تودینی مدارس حکومت کے تابع ہوجائیں گے، ۔ میں پوچھتا کہ آخر کیسے ؟ کہتے کہ یہ تومعلوم نہیں ۔ ان دونوں قسم کی آرا سے ایک بات تو صاف ہوگئی کہ سینکڑوں مدارس کے ذمہ دار وں کو مجوزہ بل کے تعلق سےکچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ وہ ‘حضرت’ کی عقیدت میں اتنے غرق ہیں کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ بورڈ بن بھی گیا تب بھی الحاق کے خواہش مند مدارس کو از خود درخواست دینی پڑےگی۔ انہیں درخواست دینے پر مجبور کرنے کےلئے ابھی تک کوئی قانون نہیں بنا ہے۔ اس پر بھی ضروری نہیں کہ درخواست دہندہ کا الحاق ہوہی جائے ۔ بورڈ بننے کے بعد کوئی بھی مدرسہ خود بخود اس کا حصہ نہیں بن جائے گا۔ بورڈ سے الحاق کی اپنی شرائط ہوں گی جن کو بورڈ کے اراکین ہی وضع کریں گے۔ بورڈ کے 16میں سے 10اراکین بشمول چیرمین مختلف مکاتب فکر کے علما  ہی ہوں گے ۔یعنی بورڈ کی کمان علما کے ہی پاس ہوگی۔ اپنی مرضی سے الحاق کے بعد بھی اگر کوئی مدرسہ الحاق ختم کرنا چاہے گا تو اسے اس کا مکمل اختیار ہوگا۔ پھر الحاق کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ مدرسہ میں وہی ہوگا جو بورڈ چاہے گا بلکہ الحاق مشروط ہوگا اور بورڈ کے ذریعہ صرف اور صرف کمپیوٹر ، سائنس، انگریزی اور ریاضی کی تعلیم وتربیت کے لئے مادی امدار فراہم کرائی جائے گی ۔ بورڈ انہی چار موضوعات کا امتحان لینے کا مجاز ہوگا۔ اسے مدارس کے نصاب تعلیم یا ان کی فقہی تعلیم یا قرآن وسنت کی تعلیم میں مداخلت یا چھیڑ چھاڑ یا ان کے تعلق سے استفسار کرنے کاکوئی حق نہیں ہوگا۔اتنی محدود دیت کے باوجود ملحقہ مدارس کے فارغین کو جو سرٹیفیکٹ ملے گا وہ ہندوستان کی ہر یونیورسٹی میں مزید تعلیم جاری رکھنے کے لئے قابل قبول ہوگا۔ یہی نہیں اگر کسی غیر ملحقہ مدرسہ کا کوئی طالب علم بورڈ کے امتحان میں بیٹھنا چاہیگا تو اس کا بھی التزام ہوگا اور اس کو بورڈ کا سرٹیفیکٹ مل جائے گا۔یعنی غیر ملحقہ مدرسے کے فارغین بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ میرا خیال ہے کہ مخالفت میں پیش پیش علما کے ذریعہ یہ تمام نکات بیشتر چھوٹے مدارس کے ذمہ داروں سے یا تو چھپائے گئے ہیں یا ایک ‘بڑے خطرہ’ سے آگاہ کر کے انہیں بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے۔سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کے تمام دینی مدارس ‘اصحاب خیر’کے عطیات سے چلتے ہیں ۔ بہت سے مدارس کے ذمہ دار ان بیرون ممالک سے بھی بھاری عطیات لاتے ہیں ۔وہ خود اپنی یادداشت کے لئے اس چندہ کا کوئی حساب ضرور رکھتے ہوں گے لیکن کیا ارباب مدارس اس رقم کا حساب کتاب عام مسلمانوں یا کم سے کم چندہ دہندگان کے سامنے رکھتے ہیں؟صاحب خیر مسلمان ’غریب ونادار مسلم طلبہ کی بہبود ’اساتذہ کی معقول تنخواہوں اور مدارس میں سہولیات کے اضافہ کے لئے دینی مدارس کی مالی مدد کرتے ہیں۔ لیکن مدارس کے موروثی مہتمم صاحبان اس رقم کا دیانتداری کے ساتھ استعمال کرتے ہیں؟ کیا چندہ دینے والے مسلمانوں نے ایسی کوئی انجمن صاحبان اس رقم کا دیانتداری کے ساتھ استعمال کرتے ہیں؟ کیا چندہ دینے والے مسلمانوں نے ایسی کوئی انجمن بنارکھی ہے جو قتاً فوقتاً مدارس کا جائزہ لیتی ہو اور اپنی رقم کا صحیح مصروف جاننے کے لئے مدارس کا دورہ کرتی ہو؟اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف جہاں ہندوستان میں آزادی کے بعد مدارس کے قیام نے چند گروہوں کے لئے منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے وہیں دوسری طرف ان مدارس میں کسان کے ہل کی طرح جتے رہنے والے اساتذہ کی معاشی حالت انتہائی ابتر کہے۔500روپے سے لے کر زیادہ سے زیادہ 5000روپیہ ماہانہ تک میں وہ پوری زندگی گھٹ گھٹ کر کاٹ دیتے ہیں ۔ بے چارے طلبہ تو اپنی حالت زار پر لب کھول نہیں نہیں سکتے۔ پچھلے سال دارالعلوم دیوبند (وقف اور رجسٹرڈ دونوں) کے طلبہ اور ان کے حامیوں کے درجنوں مراسلات اردو اخبارات کی زینت بن چکے ہیں جن میں اہل مدارس کی شاہانہ زندگی اور طلبہ کی قابل رحم حالت کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں۔

ملحقہ مدارس میں جو اساتذہ بورڈ کا نصاب پڑھائیں گے ان کو تنخواہیں بھی سرکاری ملازمین کے مسافی دی جائیں گی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں انتہائی حقیر تنخواہوں پر مدارس کا اپنا نصاب پڑھانے والے اساتذہ میں بے چینی اضطراب اور احتجاج کا عنصر پیدا ہوگا۔ ایسا ہوا تو مہتمم صاحبان سے کوئی حساب کتاب مانگنے والا گروہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔اگر چند ہ کے بل پرچھوٹے چھوٹے مدارس کے مہتمم بہترین مکانوں اور کاروں کے مالک ہوسکتے ہیں تواساتذہ کو معقول تنخواہیں کیوں نہیں دے سکتے ؟ یہ ہے وہ خطرہ جو مدارس کے ذمہ داروں کو ستارہا ہے۔ ورنہ کمپیوٹر اور دوسری سہولیات حاصل کرنے کے لئے ان میں سے بیشتر دن رات ہندو اور مسلم ممبران پارلیمنٹ کے چکر کاٹتے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ راجیہ سبھا کے بعض ممبروں نے کئی مدارس کو اپنے ایم پی فنڈ سے کمپیوٹر اور دوسری سہولیات فراہم کرائی ہیں۔ لہذا میرا دعوی ہےکہ جو بڑے نامی گرامی علما مجوزہ بورڈ کی مخالفت میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ان کی مخالفت اصولی نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے دوبڑے علما راز داری کے ساتھ بورڈ کی زیادہ سے زیادہ سیٹوں کا مطالبہ نہ کرتے۔ ان میں سے ایک نے تو ڈرافٹ کی تیاری میں شامل ایک بڑی شخصیت سے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر بورڈ کے دس میں سے سات ممبر میرے نہ ہوئے تو میں اس بل کی مخالفت کروں گا۔ (نئے ترمیمی ڈرافٹ میں اب 16اراکین کی گنجائش نکالی گئی ہے، تو ممکن ہے کہ اب ‘ان ’ کا مطالبہ سات کی بجائے 10کا ہوجائے)۔اس وقت ہندوستان بھر میں کم وبیش دولاکھ مدارس ہیں۔ ان میں سے بیشتر کسی نہ کسی بڑی شخصیت کی زیر سرپرستی چل رہے ہیں۔ اگر ان مدارس کو مالی وسائل بہم پہنچاکر انہیں ‘ پڑھا لکھا’ بنادیا گیاتو پھر ان کے سرپرستوں کا کیا ہوگا؟یہ خطرہ بھی نامی گرامی علما کے پیش نظر ہے۔ ایک بڑے عالم دین کہتے ہیں کہ حکومت دینی مدارس کی اسلامی روح ختم کرنا چاہتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بیشتر مہتمم صاحبان کے اندر بھی اصلاح روح باقی ہے؟کیا اسلامی روح کا تقاضا یہ ہے کہ آپ خود تو تمام عیش وآرام اڑائیں اور اپنے ہزاروں اساتذہ کو سڑی گلی زندگی گزارنے پر مجبور کردیں؟ آخر کیوں اساتذہ وہ زندگی نہیں گزار پاتے جو مہتمم صاحبان گزارتے ہیں؟ کیا دونوں گروہوں کی آمدنی کے درمیا ن زمین و آسمان کا فرق نہیں ہے؟

یہاں ایک او ردلچسپ حقیقت کا بیان بے حد اہم ہے۔ اتر پردیش عربک اینڈ پرشین ایگز امینشن بورڈ ایک عرصہ سے دینی مدارس کے طلبہ کی بڑی خدمت انجام دے رہا ہے ۔طلبہ خاموشی کے ساتھ اس کے متشی ،عالم اورفاضل کے امتحانات پاس کرکے یونیورسٹیوں میں داخلہ لے لیتے ہیں ۔خود بعض یونیورسٹیوں نے ، جن میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، دہلی یونیور سٹی بنارس ہندو یونیور سٹی او رعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی شامل ہیں ، اکثر مدارس کے عالم اور فاضل کی اسناد کو بارہویں کلاس کے مساوی تسلیم کر رکھا ہے۔ہر سال بہت سے طلبہ صرف انگریزی کے ایک پرچہ کا امتحان پاس کر کے بی اے سال اول میں داخلہ لے لیتے ہیں ۔ آج جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘ڈی یو’‘ جے این یو’ اے ایم یو اور بنارس ہندو یونیورسٹی میں ہزاروں فارغ طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں اور دودرجن سے زائد مدرسہ کے فارغین پروفیسر بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض تو مختلف ڈیپارٹمنٹس کے ہیڈ تک بن گئے ہیں۔ لیکن ان سے جاکر پوچھئے تو وہ بتائیں گے کہ انہوں نے یہاں تک پہنچنے کے لئے کتنی غیر معمولی محنت کی ہے۔ اگر انہیں مدارس میں شروع سے ہی عصری علوم کا بھی کچھ حصہ پرھنے دیا گیا ہوتا تو آج وہ کہاں کہاں نہ ہوتے؟

مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ کے تعلق سےایک الزام یہ بھی عائد کیا گیا ہے کہ یہ مدارس پر شکنجہ کسنے کے امریکی پلان کا حصہ ہے۔ ایک گروہ نے یہ بھی کہا کہ بورڈ کا خیال اڈوانی کےدماغ کی اپج ہے۔ مجھے ان الزامات کی تردید کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن میں اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ اگر یہ پلان امریکہ کے بجائے اسرائیل کا بھی ہواور اگر یہ خیال اڈوانی کے بجائے مودی اور توگڑیا کا بھی ہوتب بھی اس سے فائدہ اٹھانے میں حرج کیا ہے؟ پیمانہ یہ ہونا چاہئے کہ فائدہ عقیدہ کی قیمت پر نہ  ہو ۔ لیکن کیا بہت سے علما ہر سال عقیدہ کی قیمت پر امریکی سفارت خانہ کی افطار پارٹی میں ٹوٹ کر شرکت نہیں کرتے ؟ کیا ان میں سے بعض امریکی حکومت کے خرچ پر امریکہ کا دورہ کر کے نہیں آئے ہیں؟ بعض مدارس نے تو امریکی سفارت خانہ میں درخواست تک دے رکھی ہے کہ سابق صدر بش کی اسکیم کے مطابق انہیں مالی امداد دی جائے۔ ایسے درجنوں مدارس نے لمبی لمبی پروجیکٹ رپورٹس امریکی سفارت خانہ میں جمع کرارکھی ہیں۔آخر کیوں؟ کیا اس میں اسلامی روح کو کوئی خطرہ نہیں؟

میں نے اس سطور میں نہ علما کے موقف کی حمایت کی ہے اور نہ ہی مجوزہ بورڈ کا دفاع کیا ہے۔ میں نے ہزاروں لاکھوں مسلم بچوں کی تلخ اور صعوبیت بھری زندگی کے پیش نظر محض دوگروہوں کے درمیان موازنہ یا تقابل کرنے کی کوشش کی ہے۔فیصلہ تو فیصلہ کرنے والے کریں گے یہاں ایک بات حکومت سے بھی کہنی ہے کہ اس نے افریقہ کے صحرا میں آگ لگا کر ہاتھوں پر سرسوں اگانے کی ٹھانی ہے۔مختلف العقائد علما کو ایک بورڈ میں شامل کرنا ایسا ہے جیسے ایک بہت بڑی کشتی میں سب ایک ساتھ سوار کرنے کی کوشش کرنا۔ دیوبندی ، بریلوی، ایل حدیث، شافعی ،مالکی، داؤدی اور شیعہ وغیرہ مکاتب فکر آج تک کسی انتہائی اہم سے اہم اشوپر ایک جگہ نہیں بیٹھ سکے ہیں۔ کیا وہ ایسے بورڈ میں یکجا ہوسکیں گے جہاں ملت کے لاکھوں کروڑوں بچوں کی بہبو د کے سوا، ان کے اپنے کھانے کمانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔

wadoodsajid@gmail.com

URL: https://newageislam.com/urdu-section/strange-concealment-sitting-abreast-blind/d/2006


Loading..

Loading..