انتخاب عارد صدیقی
ماہ محرم الحرام کا ہلال نظر
آتے ہی عاشقان اہلبیت مصطفیٰ ﷺ اپنے اپنے انداز میں شہدان کربلا کی بارگاہ میں خراج
عقیدت پیش کر کے اپنی خوش عقیدگی کااظہار کرتے ہیں ۔کہیں شہادت نامہ ہوتو کہیں غم حسینؑ
میں مجالس کااہتمام ۔کہیں نذر ونیاز کا اہتمام توکہیں مرثیہ خوانی کااہتمام ۔غرض یہ
کہ ہر کوئی اہلبیت مصطفیٰ ﷺ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت
پیش کرتا ہے۔ اس ہی کے برعکس جگہ جگہ بحث ومباحثہ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔عاشقان
یزید یزید کو جنتی بنانے کے لئے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں کہیں حدیث قسطنطنیہ
بطور دلیل پیش ہوتی ہے۔کہیں کوئی اور روایت ۔خیر یہ اپنا اپنا نصیب ہے ۔ کسی کو مصطفیٰ
جان رحمت ﷺ کی اہلبیت سے محبت ہے تو کسی کو یزید پلید سے ، سچ کہا ہے کسی نے ‘‘یہ بڑے
کرم کا ہےفیصلہ یہ بڑے نصیب کی بات ہے’’ جب ہم اکابرین اہلبیت کی ارشاد ات پڑھتے ہیں
تو اس بدبخت یزید کی اصل صورت ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتی ہے۔ وہ تمام حضرات جو یزید
پلید کے سچے عاشق ہے۔ جو اسے امیر المومنین ،صحابی رسولﷺ کہتے ہیں، ذرا ٹھنڈے دماغ
سے حضرت سراج الہند عبدالحق محدث دہلوی بخاری قدس سرہ کا ارشاد مبارک ملاحظہ فرمائیں۔
شیخ محقق قدس سرہ تکمیل الایمان میں رقم طراز ہیں۔بعض یہ کہتے ہیں کہ یزید نے امام
عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا ،نہ ان کے قتل سے راضی
تھا اورنہ ان کے اور نہ کے عزیزوں کے قتل سے خوش ومسرور ہوا ۔یہ بات مردو دوباطل ہے۔
اس لیے کہ اس شقی کا اہل بیت نبوتﷺ سے عداوت رکھنا اور ان کے قتل سے خوش ہونا اور ان
کی اہانت کرنا معنوی طور پر درجہ تو اتر کو
پہنچ چکا ہے۔ اور اس کا انکار تکلیف ومکابرہ یعنی خواہ مخواہ کا جھگڑا ہے(تکمیل الایمان
ص98) حضرت علامہ سعد الدین تفتازانی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ یزید کا حضرت حسینؓ ابن
علیؑ کے قتل پر راضی اور خوش ہونا اور اہلبیت بنوت ﷺ کی اہانت کرنا ان امور میں سے
ہے جو اتواتر معنوی کے ساتھ ثابت ہے۔ (شرح عقائد نسفی) علامہ تفتازانی اور سراج الہند
قدس ہماکے فیصلے کے بعد اگر چہ مزید کسی شہادت اور حوالے کی ضرورت نہیں رہتی ۔عاشقان
یزید حدیث قسطنطنیہ کو بطور دلیل پیش کر کے اپنی سچی عقیدت ومحبت کا ثبوت دیتے ہیں
۔یزید حضرت امیر معاویہ ؓ کا بیٹا تھا جس کی کنیت ابوخالد ہے۔ یہ وہ بدبخت انسان ہے
جس کی پیشانی پر نواسۂ رسول ؐ،جگر گوشۂ بتول حضرت امام عالی مقام سید نا امام حسینؓ
کے قتل سیاہ داغ ہے،جس پر ہر زمانے میں لوگ ملامت کرتے رہے اور رہتی دنیا تک ایسے ہی
ملامت کرتے رہیں گے(انشااللہ تعالیٰ)۔یہ بدبخت 25 ھ میں پیدا ہوا۔حضرت عبداللہ جو حظلہ
غسیل الملائکہ کے صاحبزادے ہیں وہ فرماتے ہیں ‘‘یزید پر ہم نے اس وقت حملہ کی تیاری
کی جب ہم لوگوں کو اندیشہ ہوگیاکہ اس کی بدکاریوں کے سبب ہم پر آسمان سے پتھروں کی
بارش ہوگی ۔اس لئے کہ فسق وفجور کا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنی ماں بیٹیوں اور بہنوں سے
نکاح کررہے تھے ۔شرابیں پی جارہی تھیں۔ لوگوں نے نمازیں ترک کردی تھیں (تاریخ خلفا)
۔یزید نے مدینہ طبیبہ اور مکہ مکرمہ کی بے حرمتی کرائی۔ ایسے شخص کی حکومت گرگ کی چوپانی
سے زیادہ خطرناک تھی۔ ارباب فراست اور اصحاب اسرار اس وقت سے ڈرتے تھے جب کہ عنان سلطنت
اس شقی کے ہاتھ آئی۔ اسی لئے ۵۹ھ
میں صحابی رسول حضرت ابوہریرہ ؓ نے دعا مانگی ‘‘ یارب میں تیری پناہ مانگتا ہوں ۶۰ھ کے آغاز اور لڑکوں کی حکومت
سے’’۔اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ جو حامل اسرار تھے انہیں معلوم تھا
کہ ۶۰ھ
کا آغاز لڑکوں کی حکومت او فتنوں کا وقت ہے۔ اس کی یہ دعا قبول ہوئی اور ۵۹ھ میں مدینہ طیبہ میں رحلت
فرمائی۔ حضرت ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں ‘‘بعض جاہل جو کہتے ہیں کہ امام حسینؓ نے یزید
سے بغاوت کی تو یہ اہل سنت و جماعت کے نزدیک باطل ہے اور اس طرح کیا بولی خارجیوں کے
ہذیانات میں سے ہے جواہل سنت وجماعت سے خارج ہیں۔یزید پلید جس نے مسجد نبوی اور بیت
اللہ شریف کی سخت بے حرمتی کی، جس نے ہزاروں اصحاب مصطفیٰ وتابعین عظام ؒ کا بے گناہ
قتل عام کیا ہے ج سنے مدینہ طیبہ کی پاک دامن خواتین کو اپنے لشکر پر حلال کیا۔ جس
نے جگر گوشۂ رسول ؐ حضرت امام حسینؓ کو بے آپ ودانہ رکھا۔ ایسے بدبخت اور مردو کو
پیدائشی جنتی اور بخشا بخشا یا ہوا ثابت کرنے کے لئے آج کل کچھ لوگ ایڑی چوٹی کا زور
لگا رہے ہیں ۔کبھی کہتے ہیں یہ صحابی تھا ۔کبھی کہا جاتا ہے کہ امیر المومنین تھا۔
(نعوذ باللہ )۔ایسے لوگ چاہے اپنے کو کچھ بھی کہیں لیکن حقیقت میں وہ اہل بیت رسالت
کے دشمن خارجی اور یزیدی ہیں۔ اس بدبخت کیا
حمایت میں وہ بخاری شریف کی ایک حدیث پاک پیش کرتے ہیں جو حدیث قسطنطنیہ کے
نام سے یاد کی جاتی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
‘‘نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ
) پر حملہ کرے گا وہ بخشا ہوا ہے’’ (بخاری شریف ج اول) ۔یزیدی گروہ کی اس دلیل کا جواب
یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے محبوبﷺ کا فرمان حق ہے لیکن قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر پہلا حملہ
کرنے والا یزید نے قسطنطنیہ پرکب حملہ کیا، اس کے بارے میں چار اقوال ہیں۔ ۴۹عیسوی ، ۵۰ہجری، ۵۲عیسوی، اور ۵۵عیسوی دیکھئے کامل ابن اثیر
جلد ۳۔
بدایہ ونہایہ جلد ۸۔
عینی شرح بخاری جلد ۱۴۔
اور اصابہ جلد اول ۔معلوم ہوا کہ یزید ۴۹ ہجری سے ۵۵ہجری تک قسطنطنیہ کی کسی جنگ
میں شریک ہوا۔ چاہے سپہ سالات رہا ہو یا حضرت سفیان بن عوف کا معمولی سپاہی رہا ہو
مگر قسطنطنیہ پر اس سے پہلے حملہ ہوچکا تھا۔جس کے سپہ سالار حضرت عبدالرحمٰن بن خالد
ابن ولید تھے اور ان کے ساتھ حضرت ابوایوب انصاریؒ بھی تھے۔ اٹھائیے حدیث کی مشہور
کتاب ابوداؤد شریف ، صفحہ (۳۴۰)
پر درج ہے حضرت عبدالرحمٰن بن خالدؒ کا انتقال ۴۶ھ ۴۷ھ میں ہوا جیسا کہ بدایہ نہایہ
جلد (۸) کامل
ابن اثیر جلد (۳) اور
اسد الغابہ جلد (۳) میں
ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ کا حملہ قسطنطنیہ پر ۴۶ھ سے پہلے ہوا اور تاریخ کے اوراق شاہد ہیں
کہ یزید قسطنطنیہ کی ایک جنگ کے علاوہ کسی میں شریک نہیں ہوا۔شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر
القادری صاحب فرماتے ہیں ‘‘ اللہ عزوجل کے حبیب ﷺ کا ارشاد پاک میری امت کا پہلا لشکر
جو شہر قسطنطنیہ پر حملہ کرے گا وہ بخشا ہوا ہے۔ ذرا غور تو کرو یہ بشارت پہلے لشکر
کے لئے ہے ۔ لوگ تاریخ سے ناآشنا ہیں یا پھر وہ حب یزید بغض ِ حسینؓ کی بیماری میں
مبتلا ہیں۔ وہ یزید کو جنتی بنانے میں لگے ہیں۔ ارے نادانو جس لشکر کے لئے یہ بشارت
تھی وہ پہلا لشکر تھا، جس کے سپہ سالار حضرت عبدالرحمٰن بن خالد ابن ولید ؓ تھے۔ یہ
بشارت حضرت عبدالرحمٰن کے لشکرکے لئے ہے۔ یہ بدبخت آٹھویں لشکر میں شریک ہوا تھا
(طاہر القادری)’’ ۔ ان روایات سے ثابت ہوگیا کہ حضرت عبدالرحمٰن ؓ نے قسطنطنیہ پر جو
پہلا حملہ کیا تھا ا س میں یزید شریک نہیں تھا تو پھر حدیث اول جیش من امتی الخ میں
یزید داخل نہیں ۔ جب وہ داخل نہیں تو ا س حدیث شریف کی بشارت کا بھی وہ مستحق نہیں۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ ابو داؤد شریف صحاح ستہ میں سے ہیں ۔عام کتب تاریخ کے مقابلے
میں اس کی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔ بارگاہ رب العزت میں دیا ہے ک عاشقان یزید کو
صحیح سمجھ عقل سلیم عطا فرمائے۔
URL for this article:https://newageislam.com/urdu-section/a-scrutiny-yazid-lovers-order/d/2291