اصغر علی انجینیر
7 دسمبر ، 2012
(انگریزی سے ترجمہ ۔مصباح الہدیٰ
، نیو ایج اسلام )
ابھی جلد ہی ممبئی میں،اکھل بھارتیہ مسلم مہیلا ایسوسی ایشن ، نامی عورتوں کی ایک تنظیم نے ایک سروے کا اہتمام کیا ، اور اس میں یہ پایا کہ صوفیوں کے
18 ایسے مقبرے ہیں جن کے آستانوں اور
عبادت گاہوں میں پہلے تو عورتوں کو داخل ہونے کی اجازت تھی لیکن اب ان مقامات پر عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے ۔
ان سب مقبروں میں سب سے اہم
حاجی علی درگاہ ہے جو غیر مسلموں کے درمیان بھی کا فی مشہور و معروف ہے ۔اس درگاہ پر سینکڑو غیر مسلم خاص کر ہندو حاضری دیتے
ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں ۔
یہ رپورٹ پریس کے ذریعہ جاری کی
گئی تھی
،جو کہ غیض و غضب کا بھی باعث بنا ۔یہ میڈیا کی پوری توجہ کے ساتھ ،بحث کا سلگتا
ہوا عنوان بن چکا ہے ۔ بے شمار اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اس با ت پر توجہ مرکوز کرنا
شروع کر دیا ہے کہ عورتیں مزارات اور مسجدوں میں کیوں نہیں داخل ہو سکتیں ۔
کیا ان مقامات پر حقیقتاً داخلہ ممنوع ہے ؟ اور اگر ممنوع ہے تو کس
کے حکم سے ؟ در اصل مسلم مولوی او رملا ہر مسئلے میں حدیث سے رجوع کرتے ہیں ، اور اگر
حدیث میں کوئی بات کہی گئی ہے تو وہ بغیر کسی اعتراض کے اس پر عمل کرتے ہیں ۔
وہ اس بات کو سمجھنا نہیں
چاہتے کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے ، اس کا کوئی خاص سیاق و سباق تو نہیں اور پیغمبر اسلام
( صلی اللہ علیہ وسلم )نے کوئی بات کسی خاص
تناظر میں کہی ہو ۔ ہمارے علماء پوری طرح سیاق وسباق کو نظر انداز کرتے ہوئے صر ف حدیث کو نقل کر دیتے ہیں ۔کچھ علماء کے مطابق
پیغمبر اسلام کے نقل حدیث سے منع کرنے کی یہی وجہ تھی ،اس لئے کہ انہیں پتہ تھا کہ
آپ کے وصال کے بعد یہ بہت ساری پریشانیوں کی
وجہ بنے گی ۔
فطری طور پر ، جب میڈیا نے
کچھ علماء سے عورتوں کے درگاہوں میں داخلہ ممنوع ہونے کےتعلق
سے سوال کیا تو انہوں نے فوراً حدیث کا حوالہ دینا شروع کر دیا اور کہا چونکہ ہمارے
عقائد میں یہ بات ممنوع ہے اسی لئے انہیں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ در حقیقت وہ یہ بات کہنے میں دیانت دار نہیں ہیں کہ یہ پورا مسئلہ اختلافی
اور نزاعی ہے ۔کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے بخاری
کی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ مزارات
پر عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے جبکہ کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے مسلم کا حوالہ دیتے ہیں کہ
یہ پہلے ممنوع تھا لیکن بعد کے زمانے میں پیغمبر اسلام نے اس کی اجازت دے دی تھی۔
در اصل پیغمبر اسلام نے قبرستان
میں عورتوں کا داخلہ اس لئے ممنوع قرار دیا تھا کہ کچھ عورتیں اپنے چہیتوں کی قبروں کو گلے لگاتی تھیں اور واویلا مچاتی تھیں ۔پیغمبر اسلام نے ہمیشہ زارو قطار رونے ، واویلا مچانے اور سینہ کوبی کرنے
سے منع فرمایا ہے اور با عزت طریقے سے غم و افسوس منانے کی حمایت کی ہے ۔
عورتیں مردوسے زیادہ متأسف
اور غمزدہ ہونے کی عادی تھیں اسی لئے پیغمبر
اسلام نے مزارت پر عورتوں کی کو منع فرمایا
لیکن اس کے بعد وہ باعزت طریقے سے مزارات
پر حاضری دیتی تھیں ۔
لیکن بہت سارے علماء ( اسلاف
)، جو یہ سمجھتے ہیں کہ عورتیں کمزور ہیں اور وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکتیں ،انہوں
نے پیغمبر اسلام کی بعد والی حدیث کو یکسر نظر انداز کر دیا اور ان پر پوری پابندی
لگا دی اور اس پر جتنا وہ کر سکتے تھے اپنی قوت صرف کر دی ۔
پیغمبر اسلام انتہائی رحیم
اور کریم النفس تھے اور انہوں نے غور و فکر کرنےکے بعد عورتوں کو مزارات پر جانے سے
منع فرمادیا ،لیکن ان کے کچھ ماننے والوں نے اس پر مکمل پابندی لگا دی ۔ عورتوں کی
مزارات پرداخلے پر پابندی کی کوئی اور وجہ
نہیں ہے ، درحقیقت مقبروں میں داخلے اور اپنے
چہیتوں کےمزارات پر حاضری کی حقدار عورتیں بھی اتنی ہی ہیں جتنےمرد ۔
ایک مولانا نے تو یہاں تک
کہہ دیا کہ مزارات پر عورتوں کی حاضر اس لئے
ممنوع ہے کیوں کہ جب کوئی عورت درگاہ میں داخل
ہوتی ہے تو وہ (اصفیاء جو وہاں مدفون ہیں ) انہیں برہنہ دیکھتے ہیں ۔عقیدے میں خرافات
کی ایک حد ہے ۔
وہ اصفیاء ، جنہوں نے اپنی
زندگی میں اپنی خواہشات کو قابو میں رکھا ،
وہ اپنی موت کے بعدعورتوں کو کو دیکھ کر کیسے مشتعل اور مضطرب ہو سکتے ہیں ؟ مذہب ایک
افضل و اعلیٰ شئی ہے اور اس میں مضحکہ خیز حد تک اضافہ نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اس قسم
کے تبصرے کچھ لوگوں کے عقلی معیار کا اظہار
کرتی ہیں ۔
در حقیقت ، ہم نے اپنے آپ کو مذہب
کے اعلیٰ اقدار پر فائز کرنے کے بجائے اسے اپنے فرسودہ خیالات کے ذریعہ پستی کی طرف
پھیر دیا ہے۔مجھے یہا ں دوبارہ عرض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ قرآن نے مرد اور
عورت دونوں کو یکساں قدرو منزلت عطا کیا ہے ۔
جنوبی ایشیا میں عورتوں کو مساجد
میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے جب کہ انہیں ہر جگہ جانے کی اجازت ہے ، انہیں سب سے
مقدس مسجد کعبہ میں جانے کی اجازت ہے ، جہاں مرد اور عورتیں ایک ساتھ نماز ادا کرتے
ہیں اور ایک ساتھ اس کا طواف (چکر لگانا) کرتے
ہیں ۔
پیغمبر اسلام نے واضح طور پر فرمایا کہ اللہ کی بندیوں
کو اللہ کے گھر میں داخل ہونے سے مت روکو،اور
اب ہمارے علمائے کرام مساجد میں داخل ہونے سے انہیں روکتے ہیں ۔ کیا یہ ان کے عورت
سے نفرت کی وجہ سے نہیں ؟
میں نے ایک عالم سے پوچھا کہ اگر عورتوں پر جمعہ کی نماز فرض ہوتی تو کیا
عورتوں کو مسجد میں جمعہ کی نماز نہیں پڑھنی چاہئے جیسا کہ مرد پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے
کہا کہ پڑھنا چاہئے لیکن اگر وہ مسجد میں ہونگی
تو دوپہر کا کھانا کون بنائے گا ؟اس مولانا
کو یہ بھی نہیں پتہ ہے کہ نان و نفقہ کے قوانین کے مطابق یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ یا تو وہ خود بیوی کے
لئے کھانا پکائے یا روپے دیکر کسی اور سے بنوائے
( فتاویٰ عالمگیری )
قرآن مقدس نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ ہمیں موجودہ حالا ت سے اوپر اٹھانے کی کوشش کی ہے تا کہ عورتیں اپنی قوت اور قدرو منزلت کو اچھی طرح جان سکیں ،لیکن مرد اپنے سخت نظریات اور انداز فکر کی وجہ جنسی مساوات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ایسا لگتا ہے
اس سے مردوں کی انانیت اور خودی کو ٹھیس پہونچتی ہو ۔اسی لئے مردوں نےعورتوں کو مختلف
ذرائع کے ذریعہ کم اہمیت و عظمت دیا ہے جو کہ قبل ازاسلام کا معیار ہے ۔
اسلامی دنیا کی تاریخ عورتوں
کےحوالےسےنا قابل رشک ہے ۔اگر مسلمان اسلامی تعلیمات کےحوالے سے سنجیدہ ہیں تو یہ ان
کے لئے نہایت ہی اہم موقع ہے کہ وہ اپنی ذات کو قرآن کے معیار کے مطابق بلند کریں،
اور جو حقوق ان پر واجب الادا ہیں انہیں تسلیم کریں ۔
قرآن مقدس اور حدیث دونوں
نے علم حاصل کرنے پر بہت زور دیا ہے اور ہمارے علما ابھی بھی یہ حکم دیتے ہوئے فتویٰ
جاری کر رہے ہیں کہ واجب مراسم کی ادائیگی مثلاً نماز وغیرہ میں جتنا علم ضروری ہے
اس سے زیادہ علم عورتوں کو نہ دی جائے۔
یہ ہمارے لئے نہایت ہی شرم
کی با ت ہے اور ہم جتنی جلدی ان چیزوں کی اصلاح کریں گے ہمارے لئے اتنا ہی بہتر ہو
گا ۔ عورتوں کی تعلیم اور انہیں اہم مقام دینا ، ہماری ترقی کے لئے دونوں ہی ضروری
ہیں۔
--------
اصغر علی انجینیر ایک اسلامی
اسکالر ہیں ، اور وہ سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم، ممبئی کی سربراہی بھی کرتے ہیں ۔
Source: http://dawn.com/2012/12/07/womens-access-to-holy-places
URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/women’s-access-holy-places/d/9589
URL: