New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 05:35 AM

Urdu Section ( 13 Feb 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Understanding the Quran قرآن کی تفہیم

اصغر علی انجینئر  (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)

10فروری، 2012

قرآن کو کس طرح سمجھا جائے ایک اہم سوال ہے۔ عام طور پر ہم اپنی بات ثابت کرنے کے لئے غور و فکر کر نے کے بعد ایک آیت کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس طرح بہت سے مسلمانوں کا قرآن کو سمجھنے کا انداز مختلف ہے۔

مختلف مفاہمت میں کچھ بھی غلط نہیں ہے لیکن اس سے بد نظمی نہیں پیدا ہونی چاہیے۔ ایک طریقہ کار ہونا چاہیے تاکہ قرآن کو سمجھنے کے مختلف طریقوں کے باوجود اس عمل کو  بعض ہدایات کے تحت کیا جانا چاہیے۔ تفہیم کے اصولوں میں یکسانیت  ہونی چاہئے۔

میں اس پر روشنی ڈالنا چاہوں گا کہ کس طرح ایک خاص مقرر کردہ طریقہ کار کے تحت کوئی قرآن کو سمجھنے کی کوشش کر سکتا ہے جس سے کہ آمریت سے بچا جا سکے۔ جس  موضوع پرمختلف آیتیں  موجود ہوں  اسے ایک آیت  کے ذریعہ حل کرنے سے  کو یٔ مناسب نتیجہ برآمد نہیں ہو   سکتا ۔ اور  یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ بہت سے فقہاء کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہم ایک سے زائد شادی کے معاملےکو لیں۔  ہمارے علماء عام طور پر آیت 4:3 کو غیر مشروط ایک سے زائد شادی کے معاملے میں جواز  کے لئے بطور حوالہ پیش کرتے ہیں۔

لیکن اس موضوع پر  ایک اور آیت ہے یعنی  4:129  ؛ اگر دونوں آیات کو ایک ساتھ پڑھا جائے تو  ایک مختلف نتیجہ برآمد ہو گا۔ دوسری آیت میں انصاف کا ذکر اس قدر مضبوط ہے کہ ایک کے مقابلے ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی  اہمیت کم ہو جاتی ہے ؛ انصاف زیادہ اہم ہو جاتا ہے اور اس کے باوجود ہمارے ماہر قانون اور فقہاء بمشکل ہی آیت 4:129  کا حوالہ دیتے ہیں۔

وہ صرف آیت  4:3  کا حوالہ بار ہا  دیتے رہتے  ہیں۔ اگرچہ آیت  4:3  بھی انصاف پر زور دیتی ہے، یہ آیت  بھی کہتی ہے کہ اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم انصاف  نہیں کر سکو گے تو  ایک وقت میں صرف ایک نکاح کرو۔ اگر دونوں آیات ایک ساتھ پڑھی جائیں تو  یہ قاضی کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ یہ تحقیق کریں کہ کیوں ایک شخص دوسری بیوی چاہتا ہے یا واقعی میں اس شخص کو دوسری بیوی کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ واضح قوانین وضع کرتے وقت انصاف کو  اتنی شدّ  کے ساتھ مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو وضاحت کرے کہ بیوی کے ساتھ کس طرح کا عمل  انصاف کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس پر کبھی بھی ہمارےروایتی فقہاءنے عمل نہیں کیا۔

 بیوی کی پٹائی بھی ایک اور اہم سوال ہے، آیت  4:34 کا حوالہ بیو ی کی پٹائی کی قرآنی اجازت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

لیکن خواتین کے حقوق اور خواتین کے ساتھ برتائو  کے بارے میں دیگر تمام آیات  اس آیت کی تردید کرتی ہیں۔ اس معاملے میں بھی ضرورت اس بات کہ ہے کہ خواتین کے ساتھ برتائو پر تمام آیات کو پڑھیں، اور لفظ ‘ضرب ’کو (پٹائی کے لئے) کا استعمال کرتے ہوئے قرآن مجید کی دیگر  آیتوں کو مدّ نظر رکھیں  تو  نتائج بہت مختلف ہوں گے۔

بلکہ اسکا نتیجہ یہ نکلے  گا کہ قرآن بیوی کی شوہر کے ذریعہ پٹائی کی کبھی بھی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔ سب سے پہلے اس بات پر  غور کر نا چاہیے کہ خواتین سے متعلق تمام آیات میں قرآن شوہر کے مقابلے میں ان کےحقوق پر زور دیتا ہے اور مردوں سے متعلق تما م آیات میں بیویوں کے مقابلے ان کی ذمہ داریوں پر زور دیا  گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو کس طرح قرآن کسی  شوہر کو بیوی کی پٹائی کرنے کی اجازت  دے سکتا ہے؟  بیوی کے ساتھ برتائو کے معاملے میں  اور یہاں تک کہ   آیتیں کہتی ہیں کہ طلاق کے بعد  بھی خواتین کے ساتھ احسان اور معروف کا رویہ ہونا چاہیے۔

اس کے بعد ، قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے شوہر اور بیوی کے درمیان مودّت اور رحمت پیدا کی۔ پھر اگر شوہر کو بیوی کی پٹائی کی اجازت  دی گئی تو ، دونوں کے درمیان  محبت اور رحم کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔

کوئی دلیل دے سکتا ہے کہ نشوز  (بغاوت، سرکشی) کے معاملے میں پٹائی کی اجازت ہے پھر اگر نشوز کا مطلب سرکشی ہے تو یہ کتنی سنگین ہے کہ اس کے لئے پٹائی کی ضرورت ہے؟  حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اپنی سنجیدگی ظاہر کرنے کے لئے قرآن نشوز کے ساتھ کسی بھی لفظ کا استعمال نہیں کرتا ہے۔ ایک فقیہ جن کے ساتھ  میری بات چیت ہوئی انہوں نے کہا کہ نشوز کے معنی بیوی کے ناجائز تعلقات سے ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے،  تو یہ شایداس سے بھی زیادہ سنگین سزا کی ضرورت ہوگی اور سزا بھی شوہر کے ذریعہ نہیں بلکہ قانون یا قاضی کی عدالت ہی سزا دے سکتی ہے۔

قرآن مجید میں دیگر آیات ہیں جن میں لفظ ضرب کا استعمال دوسرے مختلف معا نی میں کیا گیا ہے۔12ویں صدی کے ایک لغط نویس امام راغب نے اشاارہ کیا ہے کہ قرآن سے قبل کی عربی میں ضرب کے معنی ایک اونٹ کے اونٹنی کے پاس صحبت کے لئے جانے کے تھا۔

اگر ہم اس معنی کو لیں تو  آیت ہمیں بتائے گی کہ اگر بیوی  سرکشی سے باز آجائے تو شوہر اس کے قریب جا سکتا ہے، اور یہ معنی زیادہ مناسب معلوم پڑتا ہے، کیونکہ آیت کی گزشتہ لائن شوہر  کو مشورہ دیتی ہے  کہ  کسی بھی انتہائی کارروائی سے قبل منحرف بیوی کو الگ تھلگ کردے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شوہر اور بیوی کے درمیان مفاہمت ہونے کے بعد  اور بیوی کو الگ تھلگ کرنے کے بعد شوہر کو اس کے پاس جانا چاہیئے۔

اس طرح اگر ہم قرآن فہمی کےلیۓ  مناسب طریقہ کار اپنائیں  تو آیت سے بہت ہی مختلف معنی برآمد ہوں گے ۔ اس سے بہت فرق پڑ جاتا ہے۔ ابھی تک روایتی فقہاءکے غور و فکر کے بعد آیتوں کے انتخاب کرنے کے سبب یہ نتیجہ اخز کیا گیا کہ قرآن بیوی کی پٹائی کی اجازت دیتا ہے۔اور یہ قرآن میں ایک اور آیت  33:35 کے پوری طرح  برعکس ہے۔

یہ آیت ہر سلسلے میں مرد اور عورت کو براری کا  درجہ عطا کرتی ہے اور کہتی ہے کہ دونوں کو یکساں طور پر ان کے اچھے اعمال کے لئے اجروثواب حاصل ہو گا، اس لئے ایک کا دوسرے پر مکمل اختیار کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات ذہن میں رکھی جانی چاہیے کہ قرآن مجید لفظ 'شوہر' اور 'بیوی' کے استعمال سے بچتا ہے۔قرآن دونوں کے لئے زوج کا استعمال کرتا ہے جس سے  ظاہر ہوتا  ہے کہ خدا دونوں کے ساتھ یکساں رویہ رکھتا ہے۔

یہ توضیحی مثالیں ہیں اور نہ کہ جامع مثالیں ہیں۔ اگر ہم اس قسم کے طریقہ کار کا استعمال قرآن فہمی کے لئے کرتے ہیں تو ہمارے بہت سے مسائل آسانی سے حل کئے جا سکتے ہیں؛  قرآنی آیات کی مزید جامع معنی تک پہنچنا آسان ہو سکتا ہے، اور غیر مسلم کی جانب سے اٹھائے جانے والے بہت سے اعتراضات کو آسانی سے مسترد کیا جا سکتا ہے۔

مصنف اسلامی اسکالر ہیں اور سینٹر فار اسٹدی آف سیکولرزم اینڈ سوسائٹی، ممبئی کے سربراہ ہیں۔

بشکریہ: دی ڈان، کراچی

URL for English article: http://newageislam.com/islamic-sharia-laws/understanding-the-quran/d/6595

URL: https://newageislam.com/urdu-section/understanding-quran-/d/6636

Loading..

Loading..