New Age Islam
Tue Sep 17 2024, 10:18 AM

Urdu Section ( 25 Feb 2010, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Risk of Burqa for Women Equality برقع نسوانی مساوات کےلئے خطرہ


اسد مفتی ایمسٹرڈم

فرانسیسی حکومت کےمطابق فرانس کے تمام پبلک مقامات پر برقع پر مکمل پابندی لگادی گئی ہے۔ فرانس کی پارلیمنٹ نے برقع پر مکمل امتناع اورپابندی عائد کرنے کا قانون بھاری اکثریت سے پاس کرلیا ہے ۔فرانس کے صدر سرکوزی نے کہا کہ برقع کےلئے اسلام میں جگہ ہوتو ہو فرانس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔خبر یہ ہے کہ فرانس میں عوامی اجتماعات یا پبلک مقامات پر برقع پوش عورتوں کو دیکھے جانے پر سات سو پونڈ جرمانہ کیا جائے اور بیوی، بہن، ماں یا خاندان کو دیگر خواتین کو زبردستی برقع اوڑھنے پر مجبور کرنے والے مردوں پر پندرہ سو پونڈ جرمانہ کیا جاسکے گا۔فرانسیسی صدر سرکوزی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے (اعلان کیا ہے) کہ برقع پہننے والی عورتوں کے حقو ق سلب کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہئے اور برقع پر پابندی کیلئے فرانس کی پارلیمنٹ مبارک باد کی مستحق ہے۔فرانس میں مسلمانوں کی آبادی لگ بھگ ساڑھے پانچ ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ جو کہ یورپی ممالک میں سب سے زیادہ تعداد بتائی جاتی ہے۔مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے برطانیہ دوسرے نمبر پر آتا ہے ،فرانسیسی سڑکوں پر ان دنوں مکمل حجاب ،برقع یا اسکارف جلباب میں مسلم خواتین کثیر تعداد نظر آتی ہیں۔ ادھر فرانس کے مسلم قائدین نے اعلان کیا ہے کہ اسلام میں خواتین کے لئے نقاب یا برقع لازمی نہیں ہے۔ پیرس کی ایک مسجد کے امام حسن چلفومی جس مسجد سے وابستہ ہیں وہ شمال پیرس کے مضافاتی علاقہ میں واقع ہے اور بیشتر مسلمان اسی علاقے میں رہتے ہیں ،امام یہ کہتے ہیں کہ جو خواتین اپنے چہروں کو حجان سے ڈھانکنا چاہتی ہیں وہ سعودی عرب یا دیگر مسلم ممالک کو چلی جائیں جہاں ایسے حجاب کی روایت ہے۔

کہتے ہیں کہ جب کسی قوم یا گروہ کا نام نہاد تہذیبی یا مذہبی وقار خطرے میں پڑجاتا ہے تو وہ اور اس کا ردعمل جذباتی ہوجاتا ہے آج یہی کچھ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کےساتھ ہورہا ہے۔مغرب کے عقائد اور تعلیمات کے مخالف مسلم مذہبی راہنما طویل عرصہ سے عورت کو پردے میں رکھنے اور اسے مرد کے برابر رتبہ نہ دینے کی وکالت کررہے ہیں ۔یہ برین واشنگ عقائد ونظریات زیادہ ترمشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے آئے ہیں مغرب میں تنگ نظری کے پرچار کے دراصل یہی مذہبی رہنما ذمہ دار ہیں جن کی کوئی قرآنی بنیاد نہیں ۔یہ نظریات دراصل اسلام کے چند بنیاد پرست اور سخت گیر مسالک کا پروپیگنڈہ ہے۔ ادھر برطانیہ میں ‘‘اینٹی ایکٹر یمٹ تھنک ٹینک’’ کے دانشوروں نے کہا ہے کہ خواتین کے برقع اوڑھنے پر پابندی ہونی چاہئے۔انہوں نے فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کے اس موقف کی کھل کر حمایت کی کہ خواتین کو برقع کی قید سے آزاد ہونا چاہئے ۔ برطانیہ کے موڈ ریٹ مسلمانوں کے نمائندوں نے اس تحریک کی حمایت کرتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں برقع کاکوئی جواز نہیں، ماڈرن یورپ میں برقع پہننا کسی اسلامی نقطہ نظر سے ضروری نہیں ہے، برطانوی اخبار ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق تھنک ٹینک کے عہدیدار غفلت حسین نے کہا کہ برقع پہننے سے خواتین کی ایسی ملازمتوں کے مواقع محدود ہوتے ہیں جو بآسانی کرسکتی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ قدامت پسند مسلمان قرآن کی غلط تشریح پیش کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے عورتیں پردے کے پیچھے ناپسندیدہ پوزیشن میں رہنے پر مجبور ہوجاتی ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہےکہ ڈیلی ایکسپریس کے پول میں 98فیصد جواب  دہندگان نے برطانیہ میں خواتین کے برقع پہننے پر پابندی لگانے سے اتفاق کیا۔ سینئر ڈائریکٹر ڈگلس مرے نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ برقع پہننے کے لئے مذہب کو استعمال کرنے کی دلیل مکمل طور پر بوگس ہے قرآن میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو خواتین کو ‘سیاہ بوری’میں بند کرنے کو جائز قرار دے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سیکورٹی کے خدشات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے ابھی حال ہی میں لندن کا ایک ناکام خود کش بمبار برقع اوڑھ کرفرار ہوگیا تھا۔

عراق کے ‘‘سالیڈ یرٹی یو کے’’ کے راہنما حسن العلق نے جو کہ ڈیڑھ ہزار عراقیوں کی نمائندگی کرتے ہیں کہا کہ برقع بنیاد پرستی کی علامت بن چکا ہے صحراؤں میں قبائلی افراد خود کو طوفان بادباراں سے بچانے کے لئے ایسے روایتی لباس پہننے پر مجبور ہیں لیکن یورپ میں ایسا روایتی لباس پہننے کیا کوئی عملی وجہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ ایسی پابندی کی حمایت کرتی ہیں جو مسلمان پیدا نہیں ہوئیں مگر سوچ بچار کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔ میرے حساب سے برقع عورتوں کو تنہا کردیتا ہے یہ مذہب کی نہیں خواتین کی غلامی کی علامت ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ برقع تنازع کا مرکز بنا ہو چندسال قبل برطانوی وزیر جیک سٹرا نے اپنے مسلم ووٹرز سے کہا تھا کہ وہ خود کو نقاب کے پیچھے رکھنا ترک کردیں۔ برقع اور ہیڈ اسکارف متعدد یورپی ملکوں میں پہلے بھی باعث نزا ع بنا ہوا ہے اٹلی نے 2005میں اینٹی ٹیررزم کے تحت برقع پر پابندی لگاد ی تھی ، ترکی نے اسکولز ،کالج ، یونیورسٹیز اوردفاتر میں ہیڈ اسکارف کی ممانعت کی ہوئی ہے بلجیم کے پانچ شہروں میں اور جرمنی کی نوریاستوں میں ہیڈ اسکارف پر پابندی عائد ہے ۔اب جب کہ فرانس نے برقع پر مکمل پابندی کا قانون منظور کرلیا ہے تو میرے حساب سے تمام یورپ میں اس کے اثرات مرتب ہونے لازمی ہیں۔

ادھر خود ساختہ پر امن مذہب کی داعی قوم کے ایک گروہ القاعدہ کی شمالی امریکی شاخ نے مسلم خواتین کے لباس کے خلاف ‘‘جنگ’’ چھیڑ نے پر فرانسیسی حکومت سے بدلہ لینے کی دھمکی دی ہے۔

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/risk-burqa-women-equality-/d/2503

 

Loading..

Loading..