ابو عبداللہ احمد
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس
چانسلر نجیب جنگ کو اس عہدے کی ذمہ دار یاں سنبھالے ہوئے ابھی اتنی مدت بھی نہیں ہوئی ہے، جتنی زچگی کے بعد سنبھلنے کے لئے کسی خاتون
کو درکار ہوتی ہے، لیکن اسی مدت میں موصوف نے اپنی تیور اور اپنے بیانات سے نہ صرف
جامعہ کے طلبا او راساتذہ بلکہ پوری ملت اسلامیہ میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ ان کے پیشرو
پروفیسر مشیر الحسن اپنے اشتراکیت پسندانہ نظریات وخیالات کے لئے بدنام تھے۔ شاتم رسولؐ
ملعون زمانہ سلمان رشدی کی حمایت کے حوالہ سے تنازعہ میں رہے ہیں جامعہ کے کردار کو
اپنے سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کرتے رہے ، لیکن وہ بھی کبھی اپنی زبان پر یہ الفاظ
لانے کی ہمت نہیں جٹا پائے کہ ‘‘ پتہ نہیں کیوں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک
طرح کی مسلم یونیورسٹی ہے۔ ہم لوگوں کے اس نظریہ کوتبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ اس چھاپ
کو (مٹانا چاہتے ہیں).....’’جس شخص کو یہ بھی نہیں معلوم کہ لوگ جامعہ ملیہ اسلامیہ
کومسلم یوینورسٹی کیوں سمجھتے ہیں ، اسے اس عظیم ملی ادارے کے وائس چانسلر کے عہدہ
پر رہنے کا کیا حق ہے۔ جامعہ کے سربراہ کو اور کچھ نہیں تو کم از کم اتنا علم تو ہونا
ہی چاہئے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے معنی کیا ہیں؟ اس کے بانیوں نے کن مقاصد کی تکمیل
کے لئے اس کی بنیادرکھی تھی۔ جامعہ کے دستور سیاسی اور پارلیمنٹ کے منظور کردہ اس ایکٹ
کا علم تو ہونا چاہئے، جس کی بنیاد پر اس ملی اثاثہ کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ دیا
گیا ہے۔ وائس چانسلر نے یہ بات جس پس منظر میں اور جس اندازے سے کہی ہے، اس سے لگتا
ہے کہ موصوف فرانس کے صدر سرکوزی اور اس کی محبوبہ کارلا برونی سے سیکولر ازم اور عظمت
کردار کا درس لے رہے ہیں۔پتہ نہیں کل کو وہ
جامعہ میں بھی حجاب پر پابندی لگائیں اور جامعہ کے کردار کو بدلنے کے لئے اسی قسم کی
عریانیت اور لڑکے لڑکیوں کے آزادانہ اختلاط کوفروغ دیں، جو انسان کو انسان نہیں رہنے
دیتا ،جانوروں کی صف میں کھڑا کردیتا ہے، نجیب جنگ سے کسی کو یہ توقع نہیں ہوسکتی کہ
وہ اسلام کو فروغ دیں گے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر بنے ہیں، تو نماز روزے
کی پابندی کریں گے، اپنی غیر اسلامی سوچ اور عادات وافعال کو ترک کردیں گے۔ لیکن ان
سے یہ مطالبہ کیا جانا ہی چاہئے کہ وہ اسلام کو فروغ دیں گے، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
وائس چانسلر بنے ہیں، تو نماز روزے کے پابندی کریں گے، اپنی غیر اسلامی سوچ اور عادات
وافعال کو ترک کردیں گے۔ لیکن ان سے یہ مطالبہ کیا جانا ہی چاہئے کہ وہ جس منصب پر
فائز ہیں ،اس کی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے نبھائیں اور اپنی الٹی سیدھی حرکتوں سے
اس کے وقار کو پامال نہ کریں۔ نجیب جنگ کو دہلی کے مسلمان خوب جانتے ہیں کہ وہ اپنی
ذاتی زندگی میں کس قسم کے آدمی ہیں ،لیکن اس کے باوجود وہ جب جامعہ کے وائس چانسلر
بنائے گئے تو سب نے کھلے دل سے اس کا خیر مقدم کیا، کیونکہ او رتمام باتوں کے باوجود
لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص اور اچھے منتظم ہیں۔
انہیں لگتا تھا کہ جامعہ کو
مشیر الحسن جیسے سخت مزاج اشتراکیت پسند وائس چانسلر سے نجات مل جائے گی، لیکن نجیب
جنگ نے مسلمانوں کی توقعات کو اپنے اس ایک بیان سے خون کردیا۔ انہیں اس کا خیال بھی
نہیں رہا کہ جس وقت ملت کے دردمند وں کی جماعتیں جامعہ کے اقلیتی کردار پر لٹکتی تلوار
سے بے چین ہیں۔ اقلیتی طلبا کو حاصل مراعات کو اوبی سی سے بچانے کی جدوجہد کررہی ہیں،
ان کے اس بیان کا کیا اثر ہوگا کہ پتہ نہیں بہت لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ یہ ایک طرح
کی مسلم یونیورسٹی ہے۔ انہیں یہ بھی احساس نہیں رہا کہ اس سے وائس چانسلر اور جامعہ
کے طلبا اور اساتذہ میں پھر وہی بلکہ اس سے بڑھ کر ٹکراؤ ہوگا، جو ان کے پیشرو کے زمانے
میں تھا۔ وہ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیان سے کس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
خوانخواستہ وہ کسی اسلام دشمن طاقت کی گود میں تو نہیں کھیل رہے ہیں؟ او رکہیں حکومت
تو نہیں ان سے پروفیسر مشیر الحسن کے ادھورے کاموں کو پورا کرنا چاہتی ہے؟ اگر ایسا
ہے تو وہ اپنے گریبان میں منہ ڈالیں اور اپنے عزائم سے باز آجائیں۔ خدا را، وہ ملت
مظلوم کو کسی آزمائش میں مبتلا نہ کریں۔ جامعہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ خبر رساں ایجنسی
آئی اے این ایس کو انٹرویو دے رہے تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انہیں یہ کہنے کی ضرورت
کیوں پیش آئی کہ ‘‘ ہم کوئی اعلیٰ مدرسہ نہیں ہیں۔ پتہ نہیں کیوں بہت سے لوگ یہ سمجھتے
ہیں کہ یہ ایک طرح کی مسلم یونیورسٹی ہے۔ ہم لوگوں کے اس نظریے کو تبدیل کرنا چاہتے
ہیں’’۔کیا ہم نجیب جنگ سے پوچھ سکتے ہیں کہ جس شخص کو اتنا علم بھی نہیں کہ جامعہ ملیہ
اسلامیہ کے معنی کیا ہیں، اسے اس ادارہ کے عہدے پر رہنے کا کیا حق ہے؟وائس چانسلر صاحب!
جامعہ بلاشبہ اعلیٰ درجہ کے مدرسے کو ہی کہتے ہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی اعلیٰ
درجہ کا مدرسہ ہی ہے۔ دنیا کے مشہور یونیورسٹی جامعہ الازہر بھی ایک اعلیٰ درجہ کا
مدرسہ ہی ہے۔ جامعہ قرطبہ اور جامعہ نظامیہ بغداد ہی دنیا کی وہ عظیم درسگاہیں تھیں، جنہوں نے دنیا کو یونیورسٹی کا تصور دیا اور
یہ بھی اعلیٰ درجہ کے مدرسے ہی تھے۔ نجیب جنگ صاحب! یہ آپ کی جہالت اور احساس کمتری
ہے، جو سرچڑھ کر بول رہی ہے۔ کاش! آپ نے اور کچھ نہیں تو خود جامعہ کا دستور اساسی
اور جامعہ اسلامیہ (سینٹرل یونیورسٹی) ایکٹ کو ہی پڑھ لیا ہوتا تو اس قسم کی باتیں
نہ کرتے۔ آپ کو معلوم ہوتا کہ جامعہ کے اسکولوں کو مدرسہ ابتدائیہ اور مدرسہ ثانویہ
کہا جاتا ہے اور جامعہ کا لفظ ان ہی مدرسوں کے اعلیٰ درجہ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ دستور
میں درج ہے کہ اس ادارہ کا سربراہ شیخ الجامعہ کہلائے گا۔ یہ ایسا ہی ہے ،جیسے جامعہ
ازہر (مصر) کا سربراہ شیخ الجامعہ اور شیخ الا زہر کہلاتا ہے۔ اگر آپ کو مدرسہ جامعہ
اور شیخ الجامعہ جیسے الفاظ اتنے ہی ناپسند تھے، تو اس منصب کو قبول کرنے سے بہتر تھا
کہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرتے۔ اس منصب پر
فائز ہونے والے شخص کم از کم مدرسہ اور جامعہ کے معنی تو معلوم ہوتے۔ مسٹر نجیب
جنگ اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ جامعہ ایک عظیم جدید اور سیکولر ادارہ ہے۔ ہمارے
یہاں لڑکے لڑکیاں لان اور کیفے میں ساتھ ساتھ بیٹھے جاسکتے ہیں۔’’
بے شک جامعہ ایک عظیم جدید
اور سیکولر ادارہ ہے۔ یہاں ہمیشہ سے لڑکے لڑکیاں، ہندو مسلمان اور امیر وغریب ہر طبقہ
کے لوگ ساتھ ساتھ پڑھتے رہے ہیں ، لیکن آپ اگر سرکوزی سے سیکولر ازم اور عظمت کردار
کا درس لے رہے ہیں اور لڑکے لڑکیوں کا آزادانہ اختلاط او ر عریانیت اگر آپ کے نزدیک
ماڈرن اور سیکولر ہونے کی لازمی شرط ہے، تو یہ جامعہ کی تاریخی عظمت کے منہ پر بھی
طمانچہ ہے اور اس کے تابناک مستقبل کے لئے بھی خطرناک ۔ جامعہ عظیم اس لئے ہے کہ اس
کا نصب العین عظیم ہے۔ اس کے بانیوں میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن رئیس الا حرار
مولانا محمد علی جوہر ، مسیح الملک حکیم اجمل خان ،بابائے قوم مہاتما گاندھی جیسے عظیم
رہنما ؤں کے نام شامل ہیں۔ پروفیسر عبدالمجید خواجہ، ڈاکٹر ذاکر حسین ، پروفیسر محمد
مجیب ،مولانا اسلم جیراج پوری اور پروفیسر عابد حسین جیسے عظیم رہنماؤں اور دانشوروں
نے اسے اپنے خون پسینے سے سینچا ہے۔ یہ سیکولر ہے تو اس لئے کہ اس کی رگوں میں انسانیت
،رواداری ، محبت ،اخوت او ر عدم تشدد کے اصول ونظریات خون کی طرح دوڑرہے ہیں ، اس لئے
نہیں کہ اس کے کیفے اور لان میں لڑکے لڑکیاں آزادانہ ملتے جلتے ،کھاتے پیتے نظر آتے
ہیں۔ جدید اور عظیم اس لیے ہے کہ یہاں جدید علوم وفنون کی اعلیٰ اور بہتر تعلیم ہوتی
ہے، اس لئے نہیں کہ یہاں مغرب کی نقالی اور عریانیت کو فروغ دیا جارہا ہے۔
آپ جامعہ میں تبدیلی لانے
کی بات کررہے ہیں، کہتے ہیں کہ اس میں تین سےچار سال کی مدت لگے گی تو کیا آپ ان اصول
ونظریات کو فروغ دیں گے اور تعلیم وتدریس کے معیار کو بہتر سے بہتر بنائیں گے یا اس
کی مسلم شناخت کو تبدیلی کریں گے، اس کے روایتی کردار کو تختہ مشق بنائیں گے اور کیا
جامعہ کے نام سے ملیہ اور اسلامیہ کو کھرچ کر الگ کریں گے؟ آخر آپ جامعہ کی مسلم شناخت
کو کیوں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟ جب اس ملک کی
دوسری نامی گرامی یونیورسیٹیاں ہندو یونیورسٹی او رمسلم یونیورسٹی کہلا نے میں میں
کوئی عار نہیں محسو س کرتیں، تو جامعہ کی مسلم شناخت اس کےلئے کیوں شرم کی بات ہوگئی؟
جامعہ کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر ذاکر حسین، جو ملک کے سب سے بڑے آئینی منصب پر فائز
رہے( اور اس ملک کے مسلمانوں کے لئے سیکولرازم کا اگر کوئی ایک نمونہ اور معیار ہوسکتا
ہے تو وہ نجیب جنگ جیسے چھٹ بھیے نہیں وہی
ہوسکتے ہیں)اپنے ایک مضمون جامعہ ملیہ کیا ہے (رسالہ ‘جامعہ، دسمبر 1938) میں رقم طراز
ہیں کہ ‘‘ جامعہ کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی آئند ہ زندگی کا
نقشہ تیار کرے ، جس کا مرکز مذہب اسلام ہو اور اس میں ہندوستان کی قومی تہذیب کا وہ
رنگ بھرے، جو عام انسانی تہذیب کے رنگ میں کھپ جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی
مسلمانوں کی آئند ہ زندگی کے اس نقشے کو سامنے رکھ کر ان کی تعلیم کا ایک مکمل نصاب
بنائے اور اس کے مطابق بچوں کو جو مستقبل کے مالک ہیں، تعلیم دے’’۔ کیا ان مقاصد کو
پس پشت ڈال کر بھی جامعہ کا وائس چانسلر اس منصب کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے؟جامعہ کے
بانیوں کو تو اس کی اسلامی شناخت سے شرم نہیں آتی تھی، لیکن اس کے موجودہ وائس چانسلر
کو اس سے شرم آتی ہے۔ وہ اس شناخت کو ختم کرنا چاہتا ہے تو کیوں ؟ نجیب جنگ سے ہماری
صرف ایک گذارش ہے کہ اگر انہیں اپنے مسلمان ہونے پر شرم آتی ہے تو آیا کرے۔ اپنی اس
احساس کمتری کا تختہ مشق جامعہ کو ہر گز نہ بنائیں۔ منہ کھولیں تو بہت سوچ سمجھ کر
کھولیں اپنے منصب کے دائرے میں رہیں ۔ اگر انہیں شیخ الجامعہ کہلانے میں شرم آتی ہے
اور وہ ایک دوسری قسم کی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کہلانا چاہتے ہیں تو انہوں نے اس
اعلیٰ مدرسے کی سربراہی قبول ہی کیوں کی؟ بہتر ہوگا کہ وہ جہاں سے تشریف لائے ہیں اپنی
ذات شریف کو وہیں واپس لے جائیں۔ کیونکہ ملت اسلامیہ ہندان کی اس قسم کی بکواس کی متحمل
نہیں ہوسکتی۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/bother-with-muslim-identity-university/d/2416