آصف محمود
19اکتوبر ، 2012
جناب قاضی حسین احمد کا مضمون
میرے سامنے پڑا ہے ’ ملالہ پر دل خراش قاتلانہ حملہ‘ ۔ یہ مضمون مجھے سوشل میڈیا پر
ان کے ایک چاہنے والے نے اس پیغام کے ساتھ بھیجا ہے: ’پڑھئے تاکہ آپ کی الجھنیں سلجھ
سکیں‘۔ میں نے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اس مضمون کو پڑھا ہے، ایک بار نہیں، متعدد
دفعہ ، کامل یکسوئی سے، لیکن اس مطالعے کا حاصل یہ ہے کہ میری الجھنوں میں مزید اضافہ
ہو گیا ہے۔ کسی گمنام شاعر کا ایک مصرع ہے : ’ حادثہ ہوا تو کئی رہبر کھلے‘۔
قاضی صاحب کے مضمون کا آخری
پیرا گراف خاصے کی چیز ہے۔ لکھتے ہیں : ’’ طالبان کون ہیں اس بارے میں پشاور کے گردونواح
میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک صحافی درہ آدم خیل بازار گیا اور وہاں آئے روز کی متشددانہ
کارروائیوں کے بارے استفسار کیا ۔ انہوں نے کہا ہمیں سچ کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے ۔ آپ
اس دیوانے سے پوچھ لیں جو سڑک کے بیچ میں پھر رہا ہے، وہ سچ بتائے گا ۔ دیوانے سے صحافی
نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ’’وردی پہن لیں تو فوجی ہیں اور وردی اتار لیں تو طالبان
ہیں‘‘۔ اب قاضی صاحب ایک فکاہیہ کالم نگار تو نہیں کہ انہوں نے یہ واقعہ محض تفنن طبع
کے لئے لکھ دیا ہو ۔ وہ ایک اہم جماعت کے امیر رہ چکے ہیں اور ان کے چاہنے والے انہیں
’ امام قاضی‘ کہتے ہیں۔ اس ملک میں ویسے تو دیوانے بہت کچھ کہتے پھرتے ہیں لیکن قاضی
صاحب نے اس لطیفے کو شرف قبولیت بخشا ہے تو اس کی معنویت سے انکا ر ممکن نہیں رہتا
۔ گویا وہ بین السطور یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج ہی طالبان ہے اور طالبان ہی فوج ہیں ۔
آگے چل کر وہ اہتمام کے ساتھ ہمیں یاد دلاتے ہیں ’’ ملالہ اور اسکول کی وین پر مذموم
قاتلانہ حملہ فوجی چوکی کے قریب کیا گیا اور حملہ آور بھاگ نکلے‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ
قاضی صاحب کہنا کیا چاہتے ہیں؟ کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ملالہ پر حملہ ہماری اپنی
فوج نے کیا ؟ کیا ان کا مؤقف یہ ہے کہ درہ آدم خیل میں متشددانہ کارروائیوں میں بھی
فوج ہی ملوث ہے کیونکہ وردی پہن لی تو فوجی اور وردی اتارلی تو طالبان ؟ قوم اس وقت
فکری طور پر کنفیوژ ہوچکی ہے۔ امریکہ کی psywarنے
لوگوں کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا ہے۔ایسے میں قاضی صاحب اگر ہمیں درہ آدم خیل کے ایک
دیوانے کا لطیفہ سنار ہے ہیں تو کیسے تصور کرلیا جائے کہ یہ محض ایک لطیفہ ہے؟ قاضی
صاحب جیسے آدمی کا یہ مقام نہیں کہ وہ ایسے نازک وقت پر لطائف سے جی بہلائیں۔ یقیناًان
کے لطیفے میں ایک جہانِ معنی ہے۔ تو کیا وہ کھل کر قوم کی رہنمائی کریں گے کہ وہ کہنا
کیا چاہتے ہیں ؟ کیا کا سینہ کچھ رازوں کا امین ہے جو وہ یہ راز قوم کے سامنے نہیں
رکھ رہے؟
قاضی صاحب نے دوسری اہم بات
یہ کی کہ گلبدین حکمت یار طالبان کو بی بی سی کہتے تھے ۔ اس کی وضاحت قاضی صاحب یوں
فرماتے ہیں کہ پہلی Bنصیر
اللہ بابر کے لئے ، دوسرا Bبرطانوی
ہائی کمشنر بیر نگٹن کے لئے اور Cکلنٹن
کیلئے تھا ۔یعنی قاضی صاحب کا مقدمہ یہ ہے کہ طالبان برطانوی ، امریکی اور پاکستانی
خفیہ ایجنسیوں کی پیداوار تھے۔ گویا ملا عمر اس خطے میں امریکی کھیل کھیل رہے تھے؟
اور ان کو بیر نگٹن اور کلنٹن کی سر پرستی تھی؟ یہ راز قاضی صاحب نے اتنی دیر بعد کیوں
فاش کیا؟ کیا یہ ایک متوازن تجزیہ ہے یا قاضی صاحب کی حکمت یار کے لئے غیر معمولی محبت
کے پرانے دنوں کے کسک تجزیے کی صحت پراثر انداز ہوئی ہے؟ طالبان کا نصیر اللہ بابر
اینڈ کمپنی سے تعلق تو BBCقرار
پایا ، اب جماعت اسلامی کا جو تعلق حکمت یار اور سروبی کی رزم گاہوں سے تھا کیا اسے
CNNکا
نام دیا جائے؟ قاضی صاحب کا مقدمہ کیا ہے؟ اگر ان کا استدلال یہ ہے کہ طالبان کی حمایت
امریکہ اور ہماری فوج نے کی تو اس دلیل کی کسوٹی پر وہ خود کو کیوں نہیں پرکھ رہے ؟
کیا یہ درست نہیں کہ بہت سے نازک مقامات پر خود ان کی جماعت بھی اس سرپرستی کے مزے
لیتی رہی ؟آئی جے آئی کیسے بنی ؟پرائیویٹ جہاد کے تصور کو کیسے فروغ ملا؟ قاضی صاحب
نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا مشہور دورہ کہا ں سے بریفنگ لینے کے بعد کیا ؟ عرب مجاہد کس
کے مہمان بنتے رہے؟ پی پی حکومت میں دھرنے کس کے اشارے پر دیے گئے ؟ ایم ایم اے کو
لو گ مُلاّ ملٹری الائنس کیوں کہتے تھے؟ کاش اس صحافی نے درہ آدم خیل کے دیوانے سے
چند اور سوال بھی پوچھ لئے ہوتے؟ تیسری بات قاضی صاحب نے یہ کی کہ : ’’ حزب اسلامی
اور جمعیت اسلامی کو آپس میں لڑا کر طالبان کو افغانستان میں مسلط کرنے میں پاکستانی
حکمرانوں کا حصہ ہے‘‘۔ اب ایک طرف تو گلبدن اتنے ’مردِ دانا‘ بیان کئے جارہے ہیں کہ
انہوں نے اس دور میں ہی طالبان کو بی بی سی کہہ کر ان کی اصلیت قاضی صاحب کو بتادی
مگر وہ یہ نہ جان سکے کہ پاسکتانی حکمران ایک سازش کے تحت ان کو استاد ربانی سے لڑارہے
ہیں۔ خوست میں جماعت اسلامی کو جو جہادی تربیتی کیمپ تھا کیاوہاں یہ نعرے نہیں لگتے
تھے ’’ ربانی بھاگ جائے گا انقلاب آئے گا‘‘۔ کیا یہ نعرہ بھی پاکستانی حکمرانوں کی
سازش تھی ؟ استاد ربانی کے خلاف گلبدن کی طرف سے جماعت اسلامی کے جو لوگ لڑتے رہے وہ
بھی کیا صرف حکمرانوں کی سازش تھی؟
اس بات میں کس کو شک ہے کہ
امریکہ نے ہمیں برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ فوجی آمروں کے بے بصیرتی کے نقصانات بھی ہمارے
سامنے ہیں۔ لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ سوال یہ بھی ہے کہ ملک میں پرائیویٹ جہاد
کا فروغ کیسے ممکن ہوا ؟ میجر مست گل کو ہیرو بنا کر شہر شہر کس نے گھمایا؟ کیا یہ
قیادت کی غلطی نہیں تھی کہ اس نے اپنے بچوں کو تو اسمبلیوں میں پہنچا دیا اورامریکہ
سے تعلیم دلوائی لیکن عام آدمی کے بیٹوں کے ہاتھ میں قلم اورکتاب کی بجائے کلاشنکوف
پکڑوا کر کبھی سری نگر فتح کرنے بھجوا دیا تو گاہے کابل؟آج ہم معاشرے میں شدت پسندی
کو رورہے ہیں ، کیا یہ درست نہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں طلباء ایک دوسرے کو قتل
کرتے تو اس کو رومانوی مرتبہ عطا کرتے ہوئے کہا جاتا یہ شہید ہوگئے ہیں۔ اپنے تعلیمی
ادارے ہم نے میدان جہاد بنادیے۔ غاصب جرنیلوں کو مرد مومن مرد حق کہا جاتا رہا اور
بچوں سے کہا گیا جاؤ کلاشنکوف لے کر دنیا پر چھا جاؤ ۔ بلاشبہ قیادت نے بد نیتی نہیں
کی ہوگی لیکن غلطی تو کی۔ کیا آج اس غلطی کا اعتراف نہیں کرلینا چاہئے ؟
آج قیادت اپنی غلطی کا اعتراف
کرنے کے بجائے اگر قوم کو مزید کنفیوژ کرے گی تو پھر اس کی سابقہ غلطی کو اجتہاد ی
غلطی بھی نہیں کہا جاسکے گا۔ پھر معاملہ سنگین ہوجائے گا۔ تحریک طالبان پاکستان نے
تو اپنا موقف بہت واضح رکھا ہوا ہے۔ کیا مذہبی قیادت بھی اپنے مؤقف کی وضاحت کرے گی؟
تحریک طالبان پاکستان نے علماء کے نام خط میں جو اہم سوال اٹھائے ہیں ان کا جواب مذہبی
قیادت کے ذمے فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ وہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے کیا غلط کیا، آؤ
ہمارے ساتھ بات کرو، کل تک تم خود ہمیں جو بتاتے اور سمجھاتے تھے ہم تو اسی کی روشنی
میں کارروائیاں کررہے ہیں۔ اب ہم غلط کیسے ہو گئے ؟ کیا مذہبی قیادت مکالمے کو تیار
ہے؟کیا وہ خود احتسابی پتھر اٹھانے کو تیار ہے؟ کیا وقت آنہیں گیا کہ اپنی غلطیوں کو
تسلیم کرلیا جائے؟ کہنے کو تو اس طالب علم کے پاس بھی بہت کچھ ہے لیکن سوچتا ہوں۔
’ کتنے ایسے سخن ہائے گفتنی ہیں جو بزرگوں کے احترام میں ناگفتہ رہ گئے‘
19اکتوبر ،2012 بشکریہ :روز نامہ نئی بات ، پاکستان
URL: