New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 09:22 AM

Urdu Section ( 8 Feb 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hazrat Sheikh Najibuddin Mutaawakkil Chishti: A Sufi Saint whose Shrine is in Delhi حضرت شیخ نجیب الدین متوکل چشتی: ایک صوفی بزرگ جن کا مزار دہلی میں ہے

 ساحل رضوی، نیو ایج اسلام

 06 فروری 2025

 اس مضمون میں قرون وسطی کے ہندوستان کے ایک عظیم صوفی بزرگ حضرت شیخ نجیب الدین متوکل چشتی کی زندگی اور میراث کا گہرائی و گیرائی کے ساتھ جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ آپ چشتی سلسلے کے ایک عظیم بزرگ تھے، اور آپ کو اللہ پر غیر متزلزل توکل، روحانی علوم میں مہارت اور حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے ساتھ آپ کی قربت کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

 اہم نکات:

 1.  چشتی سلسلے ایک عظیم صوفی جنہیں اللہ پر ان کے غیر متزلزل توکل اور روحانی معمولات سے گہری عقیدت کے لیے جانا جاتا ہے۔

 2. آپ ایک معزز نسب سے تعلق رکھتے تھے، اور آپ کا خاندان سیاسی ہلچل کی وجہ سے کابل سے ہندوستان ہجرت کر کے قصور اور بعد میں دہلی میں آباد ہوا۔

 3. حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے چھوٹے بھائی جن سے آپ نے تصوف و روحانیت کی تعلیم اور خلافت حاصل کی۔

 4. کرامت کے لیے بڑے مشہور تھے بشمول روحانی بصیرت اور اخلاقی تعلیمات کے، جس کا اثر ان کے مریدوں اور حکمرانوں دونوں پر یکساں تھا۔

 5.  دہلی میں ان کا مزار ایک عام زیارت گاہ ہے، جو چشتی روایت اور تصوف و روحانیت پر ان کے دیرپا اثر کی علامت ہے۔

 -----

 حضرت شیخ نجیب الدین متوکل چشتی ہندوستان کے اندر، قرون وسطی کے تصوف کی تواریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آپ کی زندگی جو عاجزی، گہری روحانی بصیرت، اور توکل علی اللہ سے عبارت تھی، متعدد جغرافیائی اور تاریخی واقعات کا موضوع رہی ہے۔ اس مضمون کا مقصد ان کی سوانح عمری کا ایک جامع تجزیہ فراہم کرنا، ان کے زمانے کے سماجی و سیاسی تناظر کا جائزہ لینا، اور ان کی منفرد روحانی خدمات کو اجاگر کرنا ہے، جس کا اثر چشتی سلسلے اور وسیع تر صوفی بیانیے پر ہے۔

 تاریخی تناظر اور ہند میں آمد

 شیخ کی زندگی کے تاریخی پس منظر کو ان کے دور کے برصغیر پاک و ہند کے سماجی و سیاسی تبدیلیوں کے وسیع فریم ورک کے اندر دیکھا جانا چاہیے۔ آپ ایک نامور خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جس کی جڑیں کابل کے سابق حکمران فرخ شاہ سے ملتی ہیں، آپ کا خاندا غزنوی خاندان کے عروج سے کافی متاثر ہوا۔ فرخ شاہ کے اقتدار کے خاتمے اور اس کے بعد غزنویوں کے کابل پر قبضے کے بعد، خطے میں بڑی سیاسی تبدیلیاں آئیں۔ واقعہ یہ ہے کہ غزنی پر چنگیز خان کی چڑھائی کے دوران، شیخ کے آباؤ اجداد کابل کی لڑائی میں جام شہادت نوش کر گئے۔ اس کے بعد آپ کے خاندان نے ہجرت کر کے پہلے لاہور اور بعد میں قصور منتقل ہوئے، جہاں شیخ کی شہرت کے باعث انہیں مقامی سلطان نے تیسوال میں قاضی مقرر کیا۔ تبدیلی کا یہ دور ماقبل جدید ہندوستان میں سیاسی اتھل پتھل اور روحانی قیادت کے ارتقاء کے درمیان تعامل کو واضح کرتا ہے۔

شجرہ نسب اور خاندانی پس منظر

 حضرت شیخ نجیب الدین متوکل چشتی کا نسب نامہ وسیع اور شاندار ہے۔ ان کے نسب میں شیخ جمال الدین سلیمان فاروقی، شیخ شعیب فاروقی، اور کئی دیگر عظیم اور ممتاز شخصیات شامل ہیں۔ اور آپ کا یہ عظیم نسب نامہ حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے، جس سے آپ کے خاندان کی عزت اور علمی وراثت کو تقویت ملتی ہے۔ آپ کے والد شیخ جمال الدین سلیمان اپنی علمی اور روحانی خدمات کی وجہ سے اکناف عالم میں مشہور تھے، جب کہ ان کی والدہ، حضرت مولانا وجیہہ الدین خُجندی کی صاحبزادی بی بی کلثوم خاتون کو ان کے مثالی تقویٰ و طہارت کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ بات بڑی مشہور ہے کہ کس طرح بی بی کلثوم نے اپنی نماز کے دوران، کرشماتی طور پر ایک خوفزدہ چور کی بینائی بحال کی- جو کہ ایک ایسی کہانی ہے جس سے ان کے خاندان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔

 روحانی نسب اور تعلیم و تربیت

 شیخ کی زندگی کا ایک مرکزی پہلو چشتی سلسلے سے ان کی وابستگی ہے، جو ہندوستان کے سب سے زیادہ بااثر صوفی سلسلوں میں سے ایک ہے۔ وہ تین روحانی بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، ان کے بڑے بھائی عزالدین محمود اور منجھلے بھائی حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر تھے۔ شیخ نے اپنے بزرگ روحانی مرشد کے ہاتھوں پر بیعت کی، اور اس کے بعد صوفی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے خلافت (روحانی جانشینی) اور اجازت دونوں حاصل کیں۔ توکل کی ان کی مثالی زندگی - جس میں وہ مادی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود مکمل طور پر اللہ پر توکل کرتے تھے - نے انہیں اپنے ہم عصروں اور بعد کے صوفی بزرگوں میں پذیرائی بخشی۔

 روحانی خدمات اور منفرد خصوصیات

 شیخ خاص طور پر اپنی سادگی پسند طرز زندگی اور مادیات سے لاتعلقی کے لیے مشہور تھے۔ جغرافیائی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کی زندگی صرف یاد الٰہی کے لیے وقف تھی، اس حد تک کہ بازار اور سماجی میل جول جیسے دنیاوی معاملات سے بھی مکمل بیزار تھے۔ آپ کی دنیا سے یہ بیزاری سلطان محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء دہلوی کے ملفوظات سے نمایاں ہوتی ہے، جنہوں نے شیخ کی دنیاوی امور سے غیر معمولی لاتعلقی کا ذکر کیا ہے۔ مزید برآں، ایسے عہدوں یا اعزازات قبول کرنے سے آپ کا انکار جس سے آپ کی روحانی سالمیت پر آنچ آ سکتی ہو، آپ کی فقیرانہ طرزِ زندگی کا ثبوت اور صوفی برادری کے اندر ایک اخلاقی اور معنوی نمونے کے طور پر، آپ کے کردار کو واضح کرتا ہے۔

 کراماتی واقعات

 کرامات صوفی روایت کا ایک لازمی حصہ ہیں، اور اس طرح کے کئی واقعات حضرت شیخ نجیب الدین متوکل چشتی سے وابستہ ہیں۔ ایسا ہی ایک قابل ذکر واقعہ بدایوں کے دورے کے دوران پیش آیا، جب ایک معزز شیخ علی کی رہائش گاہ پر شیخ کے طرز عمل نے لوگوں کی توجہ حاصل کی۔ ادب و احترام کے طور پر، شیخ نے اپنے جوتے اتارے اور احتیاط کے ساتھ اپنے پاؤں جائے نماز پر رکھے - جو کہ ایک ایسا عمل تھا جس نے شیخ علی کو، اپنے طرز عمل پر غور کرنے پر مجبور کیا۔ شیخ علی کی موجودگی میں ایک کتاب کی جانچ پڑتال کرنے کی اجازت ملنے پر، شیخ نے ایک نوشتہ نکالا جس میں مستقبل کے صوفی شیوخ کے ظہور کی پیش گوئی کی گئی تھی، جو اپنے ارادے میں لڑکھڑا سکتے تھے۔ اس پر شیخ نے نرمی بھرے لہجے میں نصیحت کی، جس کے بعد شیخ علی نے توبہ کی، اس واقعے سے ان کی اخلاقی اور روحانی برتری کا اظہار ہوتا ہے جو شیخ کو حاصل تھا۔

بعد کی زندگی، انتقال اور میراث

 اپنی زندگی کے آخری دور میں حضرت شیخ نجیب الدین متوکل چشتی کے، اپنے شیخ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر سے بڑے گہرے مراسم رہے، خاص طور پر دہلی میں اپنے قیام کے دوران۔ سلطان محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء سمیت، دیگر عظیم شخصیات کے ساتھ ان کے مسلسل مراسم سے، ایک سرکردہ صوفی شیخ کے طور پر ان کی شخصیت کو تقویت ملی۔ شیخ کی زندگی 671 ہجری میں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں غیاث الدین بلبن کی نگرانی میں اختتام پذیر ہوئی۔ آپ کی آخری دعائیں، جو آپ کے روحانی شیخ سے ملاقات کی شدید خواہش سے لبریز تھیں، چشتی سلسلے کے مضبوط بندھنوں اور روحانی تسلسل پر آپ کی تعلیمات کی مظہر ہیں۔

 آپ کا مزار اور عصر حاضر میں اس کی اہمیت و افادیت

ضرت شیخ نجیب الدین متوکل چشتی کا مقدس مزار (مزار) مہرولی شریف دہلی کے مضافاتی گاؤں اڈچانی میں حضرت مائی صاحبہ کے دربار کے قریب واقع ہے۔ آج، یہ مزار زیارت گاہ عام و خاص اور روحانیت کا ایک عظیم مرکز ہے، جس سے آپ کی تعلیمات کے دیرپا اثرات کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہ مزار، دہلی کی دیگر اہم درگاہوں کے ساتھ ساتھ، علماء اور عامی عقیدت مندوں کے لیے یکساں طور پر ایک عظیم زیارت گاہ بنا ہوا ہے، جس سے شیخ کی روحانی میراث کی عصری اہمیت واضح ہوتی ہے۔

 خلاصہ

 حضرت شیخ نجیب الدین متوکل چشتی کی زندگی روحانیت، حسن اخلاق و حسن کردار اور توکل علی اللہ سے عبارت ہے۔ چشتی سلسلے کے لیے آپ کی خدمات - ایک روحانی شیخ اور مذہبی مصلح کے طور پر - علمی تحقیقات کا موضوع اور اعمال صالحہ کی ترغیب ہے۔ مستقبل کی تحقیق میں آپ کی زندگی کے سماجی و سیاسی جہتوں کا مزید جائزہ لیا جا سکتا ہے، اور قرون وسطی کے ہندوستان کے مذہبی منظر نامے پر، ان کی تعلیمات کے انقلابی اثرات پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔

 حوالہ جات

 · مزارات اولیا دہلی از محمد۔ عالم شاہ

 ·  اولیاءِ دہلی کی درگاہیں. از محمد۔ حفظ الرحمن

 ·  تاریخ اولیاء دہلی از احمد سعید

 ·  ان سرچ آف دی ڈیوائن: لیونگ ہسٹوریز آف صوفی ازم ان انڈیا، از رانا صفوی

 مردان خدا

 مراۃ الاسرار - شیخ عبدالرحمن چشتی کا اردو ترجمہ

 · https://ranasafvi.com/dargah-of-sheikh-najibuddin-mutawakkil/

 · https://auliadeccan.com/2023/08/31/hazrat-sheikh-najibuddin-mutawakkil/

 -----

English Article: Hazrat Sheikh Najibuddin Mutaawakkil Chishti: A Sufi Saint whose Shrine is in Delhi

URL: https://newageislam.com/urdu-section/hazrat-najibuddin-mutaawakkil-chishti-sufi-shrine/d/134551

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..