Transcription By New Age Islam Edit Desk
محترم جناب وائس چانسلر، اور اس اسٹیج پر موجود سبھی علماء و مفکرین اور بھائیوں اور بہنوں!
آج میرا موضوع سخن یہ ہے کہ کیا اسلام ایک خدا پر یقین رکھنے والے دھرم کی نمائندگی کرسکتا ہے؟ میرا جواب ہے بالکل کر سکتا ہے۔ لیکن ایک شرط ہے، کہ پہلے مسلمان قرآن کی طرف لوٹیں، اور لوٹ کر ایک قرآن اور ایک اسلام کے جھنڈے کے نیچے آئیں، تبھی کو دوسروں کو جھنڈے کے نیچے لانے کی سیکھ دے سکتے ہیں۔ دوسروں کو بدلنے سے پہلے خود اپنے کو بدلنا ہو گا ۔ ہم جو بھی بولیں گے بھارت کے تناظر میں بولیں گے، اس دیش میں جس نے عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا وہ کامیاب رہا۔ اور جس نے تشدد کا راستہ اختیار کیا وہ ناکامیاب رہا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) سے سینکڑوں سال پہلے، اس دیش کے سناتن دھرم کو ماننے والوں نے تشدد کا راستہ اپنایا، ویدک دھرم کے لوگ اپنے راستے سے بھٹک گیے اور انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کر لیا۔ جس کے مقابلے میں پہلے جینیوں نے اور بعد میں بودھوں نے عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا، اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے جو کہ ویدک دھرم سے ہی ٹوٹ کر الگ ہوئے تھے، ان لوگوں نے ویدک دھرم کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ویدک دھر م کو ماننے والے یہاں اقلت میں آ گئے، اور جین دھر اور بودھ دھر م کو ماننے والے اکثریت میں آ گئے۔ بعد میں آدی شنکر آچاریہ نے مذاکرہ اور مکالمہ کر کے جین دھرم آچاریوں اور بودھ دھرم آچاریوں کو ہرایا۔ آدی شنکر آچاریہ نے دلیل دی کہ جین دھر م اور بودھ دھرم میں جو عدم تشدد ہے وہ سناتن ویدک دھرم کا ہی عدم تشدد ہے، کیوں کہ وید ہی عدم تشدد کا اصول پیش کرتے ہیں۔
آدی شنکر آچاریہ نے یہ بھی کہا کہ جو سناتن ویدک دھر م میں تشدد پیدا ہو گیا ہے وہ ویدوں کی غلط ترجمانی کی وجہ سے ہے۔ آدی شنکر آچاریہ نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ وید عدم تشدد کو سب سے بڑا دھرم مانتے ہیں۔ اسی لیے آپ لوگ جو یجّ کرتے ہو اور یجّ میں جو بلی دیتے ہو وہ جانور کی قربانی نہ دیکر ناریل کی قربانی دو۔ آدی شنکر آچاریہ کے کہنے سے آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہندؤں میں کوئی بھی کام ہوتا ہے تو اس سے پہلے ناریل پھوڑا جاتا ہے، ناریل کی بلی دی جاتی ہے، یہ آدی شنکر آچاریہ کے کہنے سے ہوا۔ اس طر ح سے آدی شنکر آچاریہ نے جین اور بودھ دھرم کے عدم تشدد کا مقابلہ ویدک عدم تشدد سے کیا اور کامیاب رہے اور بازی پلٹ گئی۔ ایک ووقت میں جین اور بودھ دھرم اکثریت میں آگئے تھے، اب جین اور بودھ دھرم کو ماننے والے اقلیت ہو گئے، اور پھر سے سناتن ویدک دھرم کو ماننے والے اکثریت ہو گئے۔
بعد میں مسلمان آئے، مسلمانوں نے اپنے طریقے سے اس دیش کی زمین پر تو اپنی حکومت پا لی، لیکن اس دیش کے باشندوں کے دلوں پر حکومت نہیں پا سکے۔ 1192 سن عیسوی میں محمد شہاب الدین غوری کی حکومت کے ساتھ اس ملک میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی جو 550 سال تک چلی۔ ان 550 سالوں کے بعد، یعنی انگریزوں کے آنے کے وقت تک اس ملک میں 20 فیصد مسلمان تھے اور 80 فیصد ہندو تھے یعنی اللہ کا کام فیل، ساڑھے پانچ سو سال کتنا ہوتا ہے، یہ سننے میں صرف ساڑھے پانچ سو سال لگتا ہے لیکن ذرا سوچیے، دو سو سال پہلے ہم لیتے ہیں، ہر پچیس سال میں ایک نسل بڑھ جاتی ہے، یعنی ایک بیس پچیس سال کے بچے کا ایک بچہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا، پچیس پچیس سال میں آٹھ نسل بنتی ہے، یعنی آپ کے دادا کے دادا کے دادا کے دادا دو سو سال پہلے میں موجود تھے ، اور آپ سب میں سے شاید ہی کوئی اپنے دادا کے دادا کے دادا کے دادا کا نام جانتا ہو گا، یعنی آپ جن کی اولاد ہو ان کا نام بھول گئے دو سو سالوں میں، دو سو سال اتنا ہوتا ہے۔ اور ساڑھے پانچ سو سال مسلسل حکومت رہی مسلمانوں کے منہ سے نکلا ہوا لفظ، بادشاہ نے اپنے منہ سے جو لفظ نکالا وہی قانون اس کے بعد بھی مسلمان کتنے ہوئے صرف 20 فیصد اور 80 فیصد ہندو ہی رہے۔ اب یہاں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے صرف حکومت کی انہوں نے اللہ کا کام نہیں کیا، لیکن یہ غلط ہے، سچائی یہ نہیں ہے،کیا لیکن غلط طریقے سے کیا، ان کا طریقہ غلط تھا۔ اور جو غلط طریقہ پہلے اپنایا گیا تھا وہی طریقہ آج بھی اپنایا جا رہا ہے دکھ اس بات کا ہے۔
میں نے یہ بتایا کہ اس ملک میں جس نے عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا وہ جیت گیا، قرآن میں بھی اس عدم تشدد کا تصور موجود ہے، عدم تشدد کا مطلب ‘‘من، وچن اور کرم سے عدم تشدد’’ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو تکلیف پہنچانے کے لیے سوچو بھی نہیں یہ ‘من سے عدم تشدد ’ کا مطلب ہے، کوئی ایسی بات بولوں نہیں کہ اس کو تکلیف پہنچے ‘یہ وچن سے عدم تشدد’ کا مطلب ہے، اور کوئی ایسا کام مت کرو جس سے کسی کو تکلیف پہنچے یہ ‘کرم سے عدم تشدد ’ کا مطلب ہے۔
اور ‘‘من، وچن اور کرم سے عدم تشدد’’ کا یہ تصور قرآن میں بھی موجود ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ نمبر 28 اور آیت نمبر 83 میں ہے کہ، اللہ کا یہ وعدہ ہے اللہ یہ وعدہ کر رہا ہے کہ ہم ‘پر لوک’ کا گھر یعنی جنت کا گھر ان لوگوں کے لیے خاص کر دیں گے، خاص کر دیں گے جو اس زمین پر ظلم اور فساد کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یعنی جو فساد کا ارادہ بھی نہیں کرتے ان کے لیے ہم جنت کا گھر خاص کر دیں گے، یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ یہ ہے من سے عدم تشدد۔ اور وچن سے، قرآن مجید کی سورۃ نمبر 41 آیت نمبر 34 میں دیا گیا ہےکہ، ‘‘بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی، تو لوگوں کی سخت باتوں کا ایسے طریقوں سے جواب دو جو بہت اچھا ہو، ایسا کرنے سے تم دیکھو گے کہ جس میں اور تم میں پہلے دشمنی تھی اب وہ تمہارا گہرا دوست ہے۔’’ یعنی اگر کوئی شخص آپ سے سخت طریئقے سے بات کر رہا ہے، آپ کو گالی دے رہا ہے تو آپ کو گالی نہیں دینا ہے یہ قرآن کا حکم ہے۔ آپ کو سخت طریقے سے بات نہیں کرنی ہے بلکہ آپ کو ایسے بات کرنی ہے کہ آپ دل جیت لیں ، اسلام دل جیتنے کا مذہب ہے۔ یہ وچن سے عدم تشدد کا مطلب ہے۔
اور کرم سے سورہ نمبر 5 اور آیت نمبر 32 میں ہے کہ، ‘‘جس کسی نے ایک انسان کا قتل کیا تو مانو کہ اس نے سارے انسانوں کا قتل کر دیا، اور اگر کسی نے کسی ایک بے گناہ کو بچایا تو مانو اس نے سارے انسانوں کو ایک زندگی دے دیا، سارے انسانوں میں جان ڈال دی’’۔ یہ ہے کرم سے عدم تشدد۔ یہی ہے اسلام کا ‘‘من، وچن اور کرم سے عدم تشدد’’ کا تصور۔ اور اگر عدم تشدد کے اس تصور کو اپنایا گیا ہوتا تو اس ملک کی حالت دوسری ہوتی۔ جبکہ عدم تشدد کے اس تصور کی طرف دیکھا بھی نہیں گیا۔
آج فیشن چل گیا ہے similarities پر بولنے کا ۔ کچھ لوگ اتنے پر جوش ہو گئے ہیں کہ وہ وید میں آپ کا نام بھی بتا ہے ہیں، مکہ مدینہ کا بھی نام بتاتے ہیں کہ وید میں مکہ مدینہ کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ یہ جو اٹکل بازی کی کلا بازی ہے اس کلابازی سے کچھ فاہدہ نہیں ہونا، یہ صرف مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے کی جاتی ہے مسلمانوں کی جیب ہلکی کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ ہمیں وہ کلابازی کرنی چاہیے جس سے ہم اللہ کا پیغام، اللہ کا دین آگے بڑھائیں، ہمیں وہ کلابازی کرنی چاہیے، وہ کلابازی کرنی چاہیے جس سے غیر مسلم متاثر ہو، مسلم نہیں، وہ تو ہے ہی، غیر مسلم متاثر ہو ہم کو وہ کام کرنا چاہیے۔ اور وہ حکمت موجود ہے، قرآن مجید میں وہ حکمت موجود ہے، وہ اللہ کی حکمت ہے، وہ اللہ کی حکمت کہاں ہے، سورہ نمبر 3 آیت نمبر 64 میں ہےکہ؛ ‘‘آؤ اس بات کے طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم ایک خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کریں’’۔ یہ اللہ کی حکمت ہے۔ اس پلیٹ فارم کو اگر پکڑا گیا ہوتا تو ہم کب کا کامیاب ہو چکے ہوتے، لیکن ہم نے اس کو نہیں پکڑا۔
اسلام کی بنیاد ہے، لاالٰہ الا اللہ (اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے)، اور یہی بنیاد سناتن ویدک دھرم کی ہے۔ دنیا کے سب سے پرانی آسمانی کتاب رگ وید، منڈل 1 سوتر 7 کا 10واں منتر ہے ، ترجمہ: ‘‘اے انسانوں تمہارے لیے انتہائی ضروری ہے کہ تم مجھ ایک پرمیشور (خدا) کو چھوڑ کر کسی دوسرے دیو کو کبھی مت مانو، کیوں کہ عبادت کے لائق مجھ پرمیشور (خدا) کو چھوڑ کر کوئی اور نہیں ہے’’۔ سرمد پھگود گیتا ہے میں ہے کہ ‘‘عبادت کے لائق مجھ پرمیشور (خدا) کے علاوہ اور کوئی پرمیشور نہیں ہے’’۔ یہ ہے اسلام میں اللہ کی حکمت، اور اس پلیٹ فارم کو اگر پکڑا گیا ہوتتا تو آج معاملہ دوسرا ہوتا۔
ہمارے آر ایس ایس کے بھائی کہتے ہیں، وشو ہندو پریشد کے لوگ بھی کہتے ہیں کہ اس دیش میں رہنے والا ہر انسان ہندو ہے، لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ بھی اٹکل بازی ہے، من مانی اٹکل بازی ہے، جو چاہا سو بول دیا، کیا دلیل ہے اس کی بھائی کہ اس ملک میں رہنے والا ہر انسان ہندو ہے، لیکن اس بات کی دلیل ہے کہ ایک ایشور (خدا) کی عبادت کرنے والا ہر ہند و مسلمان ہے۔ آپ لوگ نوجوان ہو، ہم آپ لوگوں سے یہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ، مسلمان دوسروں کو سب سے زیادہ متاثر کر سکتے ہیں، کب، جب وہ برائیوں کو نہ دیکھیں، اپنی اچھائیوں کو بتائیں اور خود عمل میں بھی لائیں۔ کیا بتائیں ، یہ بتائیں کہ اسلام غصہ کرنے کا مذہب نہیں ہے، اسلام لڑائی کرنے کا مذہب نہیں ہے، اسلام زبردستی کرنے کا مذہب نہیں ہے اسلا م بدلہ لینے کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام شانتی کا مذہب ہے، اسلام دیا کا مذہب ہے، اسلام معافی کا مذہب ہے، اسلام دل جیتنے کا مذہب ہے۔ اسلام میں برائی کا بدلہ برائی نہیں، بلکہ برائی کا بدلہ بھلائی ہے، کیوں کہ اسلام قرآن کا مذہب ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اترا، اترنے کے بعد آپ کے دل میں اتر گیا اور دل میں اترنے کے بعد آپ کے کرموں میں اتر گیا۔ قرآن کی ایک ایک اچھائی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اچھائی بن گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں اپنے مخالفین کے لیے بھی بد دعا نہیں کی، اپنے دشمن سے بھی بدلہ نہیں لیا۔ ذرا دھیان دیجئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے بھی بدلہ نہیں لیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو اونٹ سے گرا کر مارنے کی کوشش کی تھی۔ ان ابو سفیان سے بھی بدلا نہیں لیا جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر لڑائی میں آپ کے دشمونوں کی قیادت کی۔ احد کی لڑائی میں جس میں آپ کے بہت سے صحابہ، بڑے بڑے صحابہ شہید ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بری طرح گھایل ہوئے اس لڑائی کی بھی قیادت کر رہے تھے ابو سفیان۔ ایسے ابو سفیان کو فتح مکہ کے دن نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کیا بلکہ یہ اعل؛ان کر دیا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کو بھی معافی، جو مسجد میں داخل ہو جائے اس کو بھی معافی اور جو اپنے گھر کے دروازے بند کر لے اسے بھی معافی، یعنی کسی نہ کسی بہانے سب کو معافی، کیوں ؟ کیوں کہ یہ اللہ کا حکم تھا، کیا حکم تھا؟ قرآن مجید کے سورہ نمبر 7 آیت نمبر 199 میں اللہ کا فرمان ہے کہ ‘اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) معافی کا طریقہ اپناؤ، بھلائی کرتے رہو اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے رہو،’۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو معافی کا طریقہ اپنا لیا، لیکن آپ کے ماننے والوں نے اس طریقے کو نہیں اپنایا، مسلمانوں نے کس کو اپنایا؟ غصہ، غصہ اور غصہ، بدلہ، بدلہ اور بدلہ۔
کتنے بڑے دکھ کی بات ہے کہ جن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لاکھو کڑوڑو لوگ جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہیں، اپنی جان دینے کے لیے تیار ہیں خوشی خوشی، انہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بہت بڑے دکھ کی بات ہے۔ آج اپنے آپ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار کہنے والے لوگ جگہ جگہ بے قصوروں پر، عورتوں پر اور بچوں پر حملے کر رہے ہیں، کتنے دکھ کی بات ہے!! اور کہہ کیا رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں پر ہوئے ظلم کا بدلہ لے رہے ہیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بدلہ لیا؟ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی برایہ کا بدلہ برائی سے نہیں دیا، آپ نے برائی کا بدلہ اچھائی سے دیا۔
یہاں مجھے ایک بڑھیا مائی کی یاد آ رہی ہے، ایک بڑھیا مائی اس راستے پر رہتی تھی جس راستے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گزرتے تھے، وہ غیر مسلم تھی اور آپ سے اتنا چڑھتی تھی کہ آپ جب بھی نکلتے آپ پر کوڑا پھینک دیتی، ایک دن آپ نکلے، کوڑا نہیں گرا، دوسر دن کوڑا نہیں گرا، تیسرے دن کوڑا نہیں گرا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچھا کہیں بڑھیا مائی بیمار تو نہیں ہو گئی؟ آپ اوپر چڑھ کر گئے ، آپ نے آواز لگائی مائی، مائی، مائی تو مائی نے آواز دیا کون؟ آپ نے کہا میں محمد! اتنا سننا تھا کہ بڑھیا مائی بہت زور ناراض ہو گئی، ارے محمد کیسے آئے، آپ نے بڑی ہی عاجزی اور انکساری سے کہاکہ مائی آپ نے میرے اوپر تین دن سے کوڑا نہیں پھینکا میں نے سوچا کہ کہیں آپ بیمار تو نہیں ہو گئیں، اس لیے میں آپ کو دیکھنے چلا آیا، اتنا سننا تھا کہ بڑھیا مائی بڑے زور زور سے رونے لگی اور کہنے لگی اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کتنے اچھے ہو، میں کتنی بری ہوں، میں آپ کے اوپر روز کوڑا پھینکتی تھی اور آپ میرا حال لینے آئے ہو، اور آخری وقت میں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیرکار بن گئی۔ ایسے تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ایسا ہے اسلام اور ایسا ہے قرآن۔
میں نے کیا بتایا کہ قرآن کی ایک ایک اچھائی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اچھائی بن گئی، جو بھی آپ کا کام ہوتا تھا وہ قرآن کے مطابق ہوتا تھا۔ اب ہم آخر میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کا یہ اسلام اس دنیا کی قیادت کر سکتا ہے۔اور ایسا اس وقت ہوگا جب یہ اسلام سب کے عمل میں آئے تب۔ طئے آپ کو کرنا ہے، دنیا کے مسلمانوں کو یہ طئے کرنا ہےکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام عمل میں لانا چاہتے ہیں یا اپنا اسلام عمل میں لانا چاہتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/interfaith-dialogue/swami-lakshmi-shankaracharya-delivers-speech/d/103501