New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 05:34 PM

Urdu Section ( 3 Jan 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Understanding the Psychological Factors of Terrorism دہشت گردی کے نفسیاتی عوامل

Understanding the Psychological Factors of Terrorism: An In-Depth Analysis of Dr. Randy Borum’s Ideas

دہشت گردی کے نفسیاتی عوامل: ڈاکٹر رینڈی بورم کے خیالات کا  تجزیہ

 

 

Ghulam Ghaus Siddiqi, New Age Islam

غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام

3 January 2025

دہشت گردی ایک پیچیدہ اور کثیر الجہت مسئلہ ہے، جو نہ صرف سیاسی اور اقتصادی مسائل سے جڑا ہے بلکہ اس کے پسِ پردہ نفسیاتی عوامل بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر رینڈی بورم، جو اس شعبے کے ماہر ہیں، نے اپنی کتاب Psychology of Terrorism میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ افراد ذاتی مشکلات، ظلم و ناانصافی ، گروہ سے  ہمدردانہ تعلق یا احساسِ عدم تحفظ کی بنا پر دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بنتے ہیں۔ ان کی تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کہ دہشت گردی محض سیاسی یا معاشی مسائل تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے۔ نفسیاتی کمزوریاں جیسے احساسِ تنہائی، غصہ اور معاشرتی انصاف کی کمی افراد کو شدت پسندی کی طرف مائل کرتی ہیں، جبکہ دہشت گرد تنظیموں کے فراہم کردہ حمایت اور تعلق کے احساسات ان افراد کو مزید ملوث کرتے ہیں۔ ڈاکٹر بورم کا نقطہ نظر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دہشت گردی کے رجحانات کو کم کرنے کے لیے ہمیں ان نفسیاتی عوامل کو گہرائی سے سمجھنا ضروری ہے، تاکہ ہم ان عوامل کا تجزیہ کر کے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مؤثر حکمتِ عملی اپنانے میں کامیاب ہو سکیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دہشت گردی ایک پیچیدہ اور کثیر الجہت مسئلہ ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا بھر کے ماہرین، پالیسی سازوں، سکیورٹی حکام اور عام شہریوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس مسئلے کو سمجھنا ایک چیلنج بن چکا ہے کیونکہ اس کے پسِ پردہ عوامل بہت پیچیدہ ہیں، جن میں نفسیاتی عوامل ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ عوامل یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ افراد دہشت گرد تنظیموں کا حصہ کیوں بنتے ہیں، وہ انتہاپسند نظریات کو کیوں اپناتے ہیں، اور یہ کہ وہ ان گروپوں میں کیوں رہتے ہیں یا انہیں  کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔بعض لوگ دہشت گرد ، دہشت گردی ، انتہاپسندی ، جیسے اصطلاحات استعمال کرتے ہیں تو ان کا  اشارہ اسلام یا مسلمانوں کی طرف ہوتا ہے حالانکہ  تاریخی ریکارڈ اور موجودہ صورتحال اس بات کے گواہ ہیں دہشت گردی ، انتہاپسندی  اور تشدد جیسے واقعات کسی خاص مذہب کے ماننے والے ہی نہیں بلکہ دنیا کے  ہر مذہب کے ماننے والوں بلکہ غیر مذہبی لوگوں میں بھی ایسے مجرموں کی نشاندہی ہوتی ہے جنہوں نے اپنی ذاتی  یا کسی مذموم  ایجنڈے کے تحت مذہب کا استعمال کرکے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دیتے رہے ہیں ۔جو لوگ کسی مذہب کو نہیں مانتے ان میں بھی ایسے لوگ دہشت گردی اور انتہاپسندی کی تاریخ کا کلیدی حصہ رہ چکے ہیں ۔واضح ہے کہ کوئی بھی مذہب دہشت گردی   ، ظلم و ناانصافی ، غیر منصفانہ امتیازی سلوک  کی تعلیم نہیں دیتا  لیکن یہ تو لوگوں کے نفسیاتی مسائل ہیں جو انہیں انتہاپسندی کی راہ چلنے پر مجبور کرتے ہیں ۔دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ہمیں ان نفسیاتی عوامل کو خوب سمجھنا ہوگا جن کی زد آکر آج کا انسان دہشت گرد بنتا ہے ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر رینڈی بورم، جو اس شعبے کے ایک ماہر ہیں، نے اپنے کام کے ذریعے اس موضوع پر اہم بصیرت فراہم کی ہے۔

ڈاکٹر بورم یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں "مینٹل ہیلتھ، لا اینڈ پالیسی" کے شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور اپنی کتاب Psychology of Terrorism میں دہشت گردی کے نفسیاتی پہلوؤں پر تفصیل سے تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی  تحقیق میں  مارتھا کرینشا اور جیرولڈ پوسٹ  جیسے معروف محققین  کے  خیالات کو شامل کیا ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ کس طرح فرد کی جذباتی، ذہنی اور سماجی حالت اس کے فیصلوں کو متاثر کرتی ہے۔

ڈاکٹر بورم کی تحقیق میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ افراد اپنی ذاتی مشکلات، احساسِ عدم تحفظ یا گروہ سے وابستگی کے لیے دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہ تحقیق اس بات کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ بعض افراد مختلف نفسیاتی دباؤ، حالات اور تجربات کے باعث ان تنظیموں سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دہشت گردی محض سیاسی یا معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے جسے سمجھ کر ہم اس پر قابو پانے کے طریقے تلاش کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر بورم کی تحقیق ایک تنقیدی نقطہ نظر اپناتی ہے، جس میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے محرکات کو صرف نظریاتی عوامل سے نہیں، بلکہ فرد کی نفسیاتی کمزوریوں اور ذاتی تجربات سے بھی جوڑا گیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ نفسیاتی کمزوریوں، جیسے احساسِ تنہائی، ناراضگی یا معاشرتی انصاف کی کمی، شدت پسندی کی طرف مائل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے دی جانے والی حمایت اور تعلق کا احساس ان افراد کو مزید ملوث کرتا ہے۔

ڈاکٹر بورم کی تحقیق ہمیں یہ سمجھاتی  ہے کہ اگر ہم ان نفسیاتی پہلوؤں کو بہتر طور پر سمجھیں، تو ہم دہشت گردی کے رجحانات کو کم کرنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔

دہشت گردی  پر مطالعہ و تحقیق کی  توجہ کا ارتقاء

ابتدائی تحقیق میں دہشت گردی پر بنیادی طور پر اس سوال کا جواب تلاش کرنے پر زور دیا گیا تھا، "لوگ دہشت گرد کیوں بنتے ہیں؟" اس نقطہ نظر کے تحت یہ تصور کیا گیا کہ افراد ایک شعوری اور یک وقتی فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ دہشت گرد بنیں گے۔ تاہم، یہ سادہ خیال شدت پسندی کے سماجی اور نفسیاتی عمل کی پیچیدگی کو سمجھنے میں ناکام رہا۔ حالیہ برسوں میں، ماہرین جیسے جان ہورگن اور میکس ٹیلر نے اس نقطہ نظر کو تبدیل کرتے ہوئے دہشت گردی کو ایک ایسا عمل سمجھا ہے جو وقت کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے اور اس میں مختلف مراحل شامل ہوتے ہیں، بجائے اس کے کہ اسے محض دہشت گرد تنظیم میں شامل ہونے کا ایک منفرد فیصلہ سمجھا جائے۔

ہورگن اور ٹیلر کا ماڈل یہ تجویز کرتا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث ہونے کے عمل کو تین واضح مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: دہشت گرد بننا، دہشت گرد ہونا اور دہشت گردی سے دستبردار ہونا۔ یہ تفریق ہر مرحلے میں موجود نفسیاتی عوامل کو بہتر طور پر سمجھنے کی اجازت دیتی ہے۔ مثلاً، "دہشت گرد بننے" کے مرحلے میں ایک فرد بیرونی اثرات جیسے گروہی نفسیات یا ذاتی شکایات سے متاثر ہو سکتا ہے، جو آہستہ آہستہ اسے دہشت گردی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، "دہشت گرد ہونے" کے دوران افراد گروہ کا حصہ بننے یا اپنے نظریاتی عزم کو ثابت کرنے کے لیے دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ آخرکار، "دہشت گردی سے دستبرداری" کا مرحلہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں دہشت گرد گروہ سے علیحدہ ہونا شامل ہوتا ہے، جو فرد کی ذاتی محرکات میں تبدیلی، گروہ میں ہم آہنگی کی کمی، یا دہشت گردی کے منفی نتائج کے ادراک کی بنا پر ہو سکتا ہے۔

یہ تبدیلی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس سے محققین اور پالیسی سازوں کو دہشت گردی کے نفسیاتی پہلوؤں کے بارے میں مزید مخصوص سوالات پوچھنے کا موقع ملتا ہے، جیسے: وہ کون سے جذباتی اور ذہنی عوامل ہیں جو افراد کو شدت پسندی کی طرف زیادہ مائل کرتے ہیں؟ سماجی اور نفسیاتی کمزوریاں کس طرح فرد کے دہشت گرد گروہ میں شامل ہونے، اس میں رہنے، یا اس سے نکلنے کے فیصلے کو متاثر کرتی ہیں؟ ڈاکٹر بورم کا کام اس زیادہ گہرائی والے فہم پر مبنی ہے، اور شدت پسندی کے نفسیاتی عمل میں  (motive and vulnerability ) موٹیو اور ولنیریبلیٹی دونوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

ڈاکٹر بورم نے جو موٹیو اور ولنیریبلیٹی (محرکات اور کمزوری) کے نکات بیان کیے ہیں، انہیں سمجھنے کے لیے ان دونوں اصطلاحات کو واضح طور پر سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ یہ دونوں نفسیاتی عوامل شدت پسندی کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

موٹیو (محرکات):

موٹیو سے مراد وہ وجوہات یا عوامل ہیں جو کسی فرد کو دہشت گردی یا شدت پسندی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ یہ محرکات مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں، جیسے ذاتی سطح پر سیاسی یا سماجی نظریات کی حمایت، کسی گروہ کے ساتھ وابستگی کا احساس، یا ذاتی بدلہ لینے کی خواہش۔ جب فرد کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ کسی خاص مقصد کے لیے لڑ رہا ہے یا کسی نظریے کی حمایت کر رہا ہے، تو یہ احساس اسے دہشت گردانہ یا انتہاپسندانہ  کارروائیوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ مثلاً، ایک فرد اپنے عقائد کو تقویت دینے یا کسی مخصوص گروہ سے تعلق کا احساس حاصل کرنے کے لیے دہشت گردانہ عملوں میں ملوث ہو سکتا ہے۔

ولنیریبلیٹی (اثرات سے متاثر ہونے کی کمزوری یا حساسیت ):

ولنیریبلیٹی سے مراد وہ سماجی یا نفسیاتی کمزوریاں ہیں جو فرد کو شدت پسندی کے اثرات میں جلدی ڈھال دیتی ہیں۔ یہ کمزوریاں فرد کے ذہنی، جذباتی، یا سماجی حالات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، جیسے جذباتی تنہائی، مایوسی یا ذاتی مشکلات۔ اگر فرد اپنے معاشرتی حلقے میں اپنے آپ کو الگ تھلگ محسوس کرتا ہے یا کسی مسئلے میں غمگین ہوتا ہے، تو وہ شدت پسندی کے گروہ میں شامل ہو سکتا ہے جہاں اسے اہمیت اور تسلی ملتی ہے۔ دہشت گرد گروہ ان کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان افراد کو اپنے گروہ میں شامل کر لیتے ہیں اور انہیں شدت پسندی کی طرف راغب کرتے ہیں۔

مجموعی طور پر، موٹیو اور ولنیریبلیٹی دونوں عوامل شدت پسندی کے نفسیاتی عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جہاں موٹیو فرد کو دہشت گردی کی طرف مائل کرتا ہے، وہیں کمزوری اسے ان اثرات کا زیادہ شکار ہونے کی اجازت دیتی ہے۔

موٹیو اور ولنیریبلیٹی (محرکات اور کمزوری) کو سمجھنے کے لیے وطن عزیز کے تناظر میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔

فرض کیجیے کہ بعض افراد اسلام کا کلمہ پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسلام اور جہاد کے نام پر پرتشدد واقعات کو انجام دیتے ہیں۔ ان افراد کا مقصد مسلمانوں کے دلوں میں ہندوستان کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور انہیں یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم ہو رہا ہے، اس لیے انہیں بغاوت اور تشدد کا راستہ اپنانا چاہیے۔ یہ دہشت گرد گروہ بیرونِ ملک سے اس پروپیگنڈے کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے ہتھیار اٹھانا اور تشدد کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکیں۔

ایسی دہشت گرد تنظیموں میں سب سے معروف نام ISIS کا ہے، جو "Voice of Hind" جیسے میگزین کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کو اکسانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ تنظیمیں مسلسل اس بات کی کوشش کرتی ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے وطن سے بدظن ہوں اور اپنے ہی ملک میں تشویش اور انتشار پھیلائیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے ہراساں کریں، انہیں تشویش میں مبتلا کر کے ان کے دلوں میں نفرت کے جذبات پیدا کریں اور پھر ان سے اپنے اہداف کے لیے کام لیں۔

تاہم، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام کسی بھی ایسی ریاست کی حمایت نہیں کرتا جس کی بنیاد ظلم، ناانصافی یا لوگوں پر تشدد ہو۔ اسلام کا مقصد ہمیشہ عدل و انصاف کا قیام، انسانوں کے حقوق کا تحفظ اور امن کا قیام ہے۔ ایسی دہشت گرد تنظیمیں جو مسلمانوں کو بغاوت کی طرف مائل کرتی ہیں، نہ صرف اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہیں بلکہ ملکی حالات کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کو اُکسانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسلام میں جہاں تک کسی معاشرتی یا سیاسی نظام کا تعلق ہے، وہ ہمیشہ امن، عدل اور قانون کی حکمرانی پر مبنی ہوتا ہے، اور ایسا کوئی عمل نہیں ہو سکتا جس میں جبر، ظلم یا تشدد شامل ہو۔

اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ہندوستان کا مسلمان ہمیشہ اپنے وطن سے محبت کرتا ہے اور ان دہشت گرد گروپوں کے پروپیگنڈے کا کبھی حصہ نہیں بن سکتا۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب، ثقافت، اور اقدار کے مطابق جینے کا پورا حق حاصل ہے، اور یہاں ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئین و قانون موجود ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے وطن کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے اور ان کے دلوں میں اپنے ملک کے لیے محبت اور وفاداری ہے۔

اس کے علاوہ، ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان دہشت گرد گروپوں کے پروپیگنڈے کا مقصد صرف مسلمانوں کو گمراہ کرنا اور انہیں تشویش میں مبتلا کرنا ہے۔ اس کا جواب دینے کے لیے ہمیں اپنے مذہب کی صحیح ترجمانی پیش کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کہ اسلام امن، محبت، اور انسانیت کا پیغام دیتا ہے، نہ کہ تشدد اور بغاوت کا۔

ہندوستان میں بھائی چارہ قائم رکھنا اور مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہمیں ان انتہاپسند گروپوں کے منصوبوں کو ناکام بناتے ہوئے اپنے وطن کی حفاظت کرنی ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہندوستان میں ہر شہری کو آزادی، انصاف، اور مساوات کا حق حاصل ہو اور ہمارے درمیان مسجد و مندر کا نیا نیا تنازع ہرگز نہ ہو۔

کتنی افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر جو لوگ تشدد کرتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کیوں عوام کو بمباری کا نشانہ بناتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ یہ عوام "ہیومن کیزولٹیز" (انسانی جانی نقصانات) کے شکار ہیں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے اعمال کا جواز پیش کرتے ہیں، حالانکہ یہ سراسر دھوکہ اور جھوٹ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام پر بمباری کا تسلسل اور ان مظلوموں کو "ہیومن کیزولٹیز" کا شکار قرار دینا ایک گمراہ کن اور مذموم مقصد کا اشارہ ہے، جو حقیقت سے مکمل طور پر منحرف ہے۔ اس طرح کی تشہیر اور تشویش صرف ظلم کو جائز ٹھہرانے کی کوشش ہوتی ہے، اور اس کا مقصد انسانیت کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کرنا ہے۔

اسی طرح، اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ ہندوستان میں بعض افراد ہندوتوا کے افکار و نظریات کو اپناتے ہوئے یہ سوچ رکھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے تمام دینی، شخصی، قومی اور وطنی حقوق کو سلب کر لیں گے، اور پھر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی، تحریکیں، اور جھوٹ پر مبنی افکار و نظریات کو فروغ دے کر ہندو عوام کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کیا جائے، تو یہ ایک واضح اور خطرناک موٹیو (محرک) کو ظاہر کرتا ہے جو شدت پسندی کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا، ان کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا، اور ان کی ثقافت و شناخت کو مسخ کرنے کی کوشش شامل ہے تاکہ ایک مخصوص گروہ میں نفرت کی آگ بھڑکائی جا سکے۔

اس کے بعد، جب اقلیتی مسلمان جوابی کارروائی کے طور پر احتجاج کرتے ہیں، تو ان کی آوازوں کو دبانے کے لیے جیلوں میں بھرنے، ان کے حقوق کو سلب کرنے، اور ان کی مساجد پر حملوں کی باتیں کی جاتی ہیں، تو یہ سب ایک بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور تشویش کا نتیجہ ہے۔ ان کوششوں کا مقصد ملک کے امن و سکون کو خراب کرنا اور لوگوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنا ہے تاکہ ایک مخصوص نظریہ یا ایجنڈا کو نافذ کیا جا سکے۔

یہ تمام واقعات اور رویے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کسی بھی ریاست یا معاشرے میں انتہاپسندی کا پھیلاؤ صرف ایک گروہ یا کمیونٹی سے مخصوص نہیں ہوتا، بلکہ یہ مختلف سماجی، سیاسی اور مذہبی گروپوں کی طرف سے انتہاپسند نظریات اور تشدد کے ذریعے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ موٹیو شدت پسندی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور اس کے اثرات سماج میں ناانصافی، نفرت اور تقسیم کو بڑھاتے ہیں۔

آئیے اب ڈاکٹر بورم کے نظریے کے مطابق (Motive) محرک اور (Vulnerability) اثرات سے متاثر ہونے کی حساسیت کو تفصیل سے سمجھتے ہیں، جنہیں وہ دہشت گردی میں ملوث ہونے کے اہم نفسیاتی عوامل کے طور پر بیان کرتے ہیں:

ان کے نظریے کے مطابق، محرک (Motive) سے مراد وہ جذبات، خواہشات یا ضروریات ہیں جو کسی فرد کو کسی خاص عمل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے، محرک (Motive) مختلف وجوہات کی بنا پر پیدا ہو سکتا ہے جیسے نظریاتی عقائد، ذاتی شکایات، سماجی حیثیت کی خواہش یا کسی حقیقی یا مزعوم زیادتی پر بدلہ لینے کی آرزو۔ لیکن ڈاکٹر بورم کے مطابق، دہشت گردی کے پیچھے جو اصل (Motive) محرک ہوتا ہے، وہ صرف ایک سادہ نظریے سے وابستہ نہیں ہوتا بلکہ اکثر و بیشتر یہ پیچیدہ، گہری اور مختلف نوعیت کا ہوتا ہے جو ایک فرد کی داخلی دنیا اور اس کے مختلف تجربات سے جڑا ہوتا ہے۔

پہلے کی تحقیق میں اکثر دہشت گردی کو نظریے (ideology) سے جوڑا جاتا تھا، یعنی یہ سمجھا جاتا تھا کہ دہشت گردی کے پیچھے صرف سیاسی یا مذہبی نظریات کا ہاتھ ہوتا ہے۔ تاہم، ڈاکٹر بورم کا کہنا ہے کہ اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ افراد مختلف جذباتی اور نفسیاتی عوامل کی بنا پر دہشت گردی کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔ محرک (Motive) صرف سیاسی یا مذہبی عقیدے کی بنیاد پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ گہری ذاتی اور جذباتی وجوہات پر مبنی ہوتے ہیں، جیسے ظلم و زیادتی، ناانصافی یا اپنے وجود کی شناخت کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل وغیرہ۔

مارتھا کرن شا (1985) نے دہشت گردی کے محرک (Motive) کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے، جیسے: کسی عمل کو انجام دینے کا موقع، کسی خاص گروہ سے تعلق بنانے کا احساس، سماجی حیثیت کی خواہش اور مادی انعامات کا حصول ۔ مثال کے طور پر، بعض افراد دہشت گردی کی طرف اس لیے راغب ہو سکتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں کسی مقصد کو حاصل کرنے یا کسی عمل کو انجام دینے کا موقع ملتا ہے، یا انہیں کسی مقصد کا احساس ہوتا ہے، یا وہ موجودہ حالات کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بعض افراد ذاتی تسلیم یا مالی فائدے کی خواہش کی وجہ سے بھی دہشت گردی کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔

جیروالڈ پوسٹ (1990) نے مزید کہا کہ بعض افراد کے لیے دہشت گردی صرف کسی خاص مقصد کے حصول کی ایک کوشش نہیں بلکہ ایک ایسا عمل ہو سکتا ہے جس میں وہ داخلی طور پر تشدد کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ پوسٹ کے مطابق، افراد دہشت گرد گروپوں میں اس لیے شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ انہیں اندرونی طور پر تشدد کرنے کی خواہش ہوتی ہے، اور گروپ کا نظریہ ان کے اعمال کے لیے ایک جواز بن جاتا ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دہشت گردی ہمیشہ کسی سیاسی یا مذہبی مقصد کے ردعمل میں نہیں ہوتی، بلکہ نفسیاتی عوامل بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق، دہشت گرد گروپوں میں شامل ہونے کی وجوہات زیادہ ذاتی نوعیت کی ہو سکتی ہیں، جن کا تعلق فرد کی داخلی کشمکش یا نفسیاتی مسائل سے ہو۔

(Vulnerability): اثرات سے متاثر ہونے کی حساسیت

جہاں محرک (Motive) کسی فرد کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کی طرف مائل کرتا ہے، وہیں (Vulnerability) سے مراد وہ عوامل ہیں جو کسی فرد کو شدت پسند نظریات یا دہشت گرد تنظیموں کے اثرات سے زیادہ متاثر ہونے کے لیے حساس بناتے ہیں۔ (Vulnerability) ولنیریبلیٹی کے لغوی معنی کمزوری کے ہوتے ہیں لیکن لغوی معنی یہاں کافی نہیں اس لیے اسے ہم نے اثرات سے متاثر ہونے کی حساسیت سے تعبیر کیا ہے ۔ اس فکر کا مطلب یہ نہیں کہ کسی فرد کی کوئی خاص "دہشت گرد شخصیت" ہوتی ہے، بلکہ یہ نفسیاتی، سماجی اور ماحولیاتی عوامل ہوتے ہیں جو بعض افراد کو شدت پسند گروپوں سے جڑنے پر ابھارتے ہیں ۔

جیسا کہ ہورگن (2003) نے کہا، (Vulnerability) وہ عوامل ہیں جو بتاتے ہیں کہ کچھ افراد شدت پسند نظریات سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ عوامل ذاتی بحران، سماجی تنہائی، موجودہ سماجی نظام سے ناخوش ہونا یا ناانصافی کا سامنا کرنا ہو سکتے ہیں۔ وہ افراد جو خود کو کمزور، بے اختیار یا سماجی طور پر تنہا محسوس کرتے ہیں، عموماً ایسے نظریات کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں جو انہیں طاقت، کمیونٹی اور مقصد کا احساس دیتے ہیں۔

اس نظریہ کا یہ مطلب نہیں کہ ہر فرد دہشت گردی میں ملوث ہو جائے گا، لیکن یہ اس بات کو بڑھا دیتی ہے کہ اگر انہیں شدت پسند نظریات کے بارے میں معلومات ملیں تو وہ ان کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے (Vulnerability) کو سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ ان افراد کی شناخت کی جا سکے جو شدت پسندی کا شکار ہو سکتے ہیں، اور ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے مناسب تدابیر تیار کی جا سکیں۔ (Vulnerability) کا یہ بھی مطلب ہے کہ ہمیں ان حالات اور عوامل کو بہتر طور پر سمجھنا ہو گا جو کسی فرد کو شدت پسند گروپوں کی طرف مائل کر سکتے ہیں، اور ان افراد کو معاونت فراہم کرنے کے طریقوں کو اپنانا ہو گا تاکہ وہ ایسی سرگرمیوں سے دور رہ سکیں۔

اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کے اندر تمام افراد خواہ وہ مسلم ہوں، ہندو ہوں، یا کوئی بھی غیر مسلم ہو، ہر شہری کے ساتھ انصاف اور ان کے حقوق کی حفاظت کی جائے۔ کسی کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مذہب یا عقیدے کے نام پر کسی بھی اقلیت کو نشانہ بنا کر نفرتی بیانات دے اور ملک کا ماحول خراب کرے۔ ملک میں ہم آہنگی، بھائی چارہ اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینا انتہائی اہم ہے تاکہ ہر شہری کو تحفظ اور احترام کا احساس ہو۔ اس کے لیے حکومت، اداروں اور معاشرتی تنظیموں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ناصرف شدت پسند گروپوں کی طرف جانے والے افراد کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، بلکہ ہم سب کے درمیان باہمی احترام اور رواداری کی فضا بھی قائم ہو۔

اسی طرح، یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیم، میڈیا، اور عوامی سطح پر ایسے پروگرامز اور مہمات چلائی جائیں جو لوگوں میں نفرت اور تقسیم کو کم کرنے اور محبت، سمجھوتے اور تاثر کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ انفرادی سطح پر، ہر فرد کو اپنے آپ کو دوسرے کے دکھ درد اور عقائد کو سمجھنے کے لیے تیار کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کر سکیں اور معاشرتی توازن کو برقرار رکھ سکیں۔

محرک (Motive) اور اثرات سے متاثر ہونے کی کمزوری (Vulnerability) دونوں عوامل کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگر کسی فرد میں محرک (Motive) موجود ہو، جیسے کہ انتقامی جذبہ یا سیاسی یا مذہبی عقائد، اور ساتھ ہی وہ  جلد متاثر ہونے کی کمزوری (Vulnerability) کا شکار ہو، یعنی وہ اپنی زندگی میں کوئی بحران یا تنہائی کا شکار یا ظلم و زیادتی کا احساس ہو، تو ایسے افراد شدت پسند گروپوں کی طرف زیادہ راغب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے دونوں عوامل کو یکجا دیکھنا اور سمجھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ہم دہشت گردی کے مسئلے کو بہتر طور پر حل کر سکیں اور اس میں ملوث افراد کی مدد کے لیے مؤثر اقدامات اٹھا سکیں۔

محرک کے تین اہم عوامل: ظلم، شناخت، اور تعلق

ڈاکٹر بورم نے محرک کے تین اہم موضوعات کی نشاندہی کی ہے جو دہشت گردی میں ملوث افراد میں مستقل طور پر پائے جاتے ہیں: ظلم، شناخت، اور تعلق۔ یہ موضوعات یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ افراد دہشت گرد گروپوں کی طرف کیوں راغب ہوتے ہیں اور انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں کیوں ملوث رہتے ہیں۔

ظلم: اصلاح اور انتقام کی خواہش

ظلم کا موضوع ایک طاقتور نفسیاتی محرک ہے جو افراد کو دہشت گردی کی طرف مائل کرتا ہے۔ ڈاکٹر بورم کے مطابق، ظلم کا احساس—چاہے وہ حقیقی ہو یا خیالی—انتقام کی خواہش کو جنم دیتا ہے۔ اس احساس کے تحت افراد اپنی شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے انتہا پسندانہ اقدامات اٹھاتے ہیں، خاص طور پر جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ بڑے سماجی یا سیاسی نظام کی طرف سے ظلم کا سامنا ہے یا ان کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔

شناخت: خود کی تلاش اور معنی کی جستجو

شناخت کا موضوع اس وقت اہمیت اختیار کرتا ہے جب افراد اپنے بارے میں واضح اور مستحکم احساس خودی نہیں رکھتے۔ ڈاکٹر بورم کے مطابق، شناخت کی تشکیل نوجوانی کے دوران ہوتی ہے، اور جب افراد اس مرحلے پر خود کی وضاحت کرنے میں ناکام ہوتے ہیں، تو وہ انتہا پسندانہ نظریات میں پناہ تلاش کرتے ہیں، جو انہیں واضح شناخت اور مقصد فراہم کرتے ہیں۔

تعلق: کمیونٹی اور یکجہتی کی ضرورت

تعلق کا موضوع بھی دہشت گرد گروپوں میں شامل ہونے کا ایک اہم محرک ہوتا ہے۔ بہت سے افراد جو معاشرتی سطح پر تنہائی اور بیگانگی کا سامنا کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد گروپوں میں شامل ہو کر ایک کمیونٹی، یکجہتی اور تعلق کا احساس پا لیں گے جس کی انہیں ان کی ذاتی زندگی میں کمی محسوس ہوتی ہے۔

ظلم، شناخت، اور تعلق کے متعامل اثرات

محرک کے یہ تینوں موضوعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو بڑھا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ڈاکٹر بورم کے مطابق، جو افراد ظلم کا شکار محسوس کرتے ہیں اور اپنے معاشرے کی جانب سے علیحدگی محسوس کرتے ہیں  وہ شناخت کی جستجو اور تعلق کی تلاش میں انتہا پسندانہ نظریات کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔

نتیجہ: دہشت گردی کی جامع تفہیم کی طرف

ڈاکٹر بورم کا نفسیاتی فریم ورک دہشت گردی کے پیچھے موجود جذباتی اور ذہنی عوامل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ ان کے مطابق، دہشت گردی کے عوامل میں ظلم، شناخت، اور تعلق اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان نفسیاتی زاویوں کو انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ انتہا پسندی کو روکنے، دہشت گرد بھرتی کو ناکام بنانے، اور دہشت گردی سے انخلا کے لیے جامع اور مؤثر حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ آخرکار، دہشت گردی کی نفسیاتی حرکیات کو سمجھ کر، محققین، پالیسی ساز، اور سیکیورٹی ماہرین تشدد کی بنیادوں کو بہتر طور پر حل کر سکتے ہیں اور ایک محفوظ تر اور پرامن دنیا کے قیام کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔

 

URL:     https://www.newageislam.com/urdu-section/psychological-terrorism-randy-borum/d/134228

 

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..