Excerpts Exclusive to New Age Islam
کتاب: مسئلہ
تکفیر ومتکلمین
تصنیف: ذیشان احمدمصباحی
تزئین و کتابت: ظفر عقیل سعیدی
اشاعت: ستمبر ۲۰۲۰ء/صفر ۱۴۴۲ھ
ضخامت: ۴۲۲؍صفحات
قیمت: ۳۲۰؍روپئے
ناشر: شاہ
صفی اکیڈمی، خانقاہ عالیہ عارفیہ ،سید سراواں، کوشامبی( یوپی)
Mas'ala-e-Takfeer-o-Usool-e-Mutakallemin
By: Zishan Ahmad Misbahi
Shah Safi Academy,
Khanq-e-Arifia, Sayed Sarawan,
Kaushambi,U.P. 212213
E-mail:shahsafiacademy@gmail.com
Ph: 9910865854 / 9026981216
پیش لفظ
۲۰۱۲ء
میں جامعہ عارفیہ کے استاذ کی حیثیت سے خانقاہ عارفیہ، سید سراواں کی مستقل خدمت
پر مامور ہوا۔ اسی سال شہید بغداد مولانا اسید الحق قادری بدایونی (۲۰۱۴ء) کی
تحریک پر ان کے ادارے مدرسہ قادریہ کے استاذ مولانا دلشاد قادری نے حجۃ الاسلام
امام محمد غزالی کی معرکہ آرا کتاب فَیصَلُ التَّفرِقَۃِ بَینَ الاِسلامِ
وَالزَّندَقَۃ کا اردو ترجمہ کیا۔ مولانا اسیدالحق نے وہ ترجمہ راقم السطور کے
حوالے کیا اور مجھے اس پر نظر ثانی کرنے اور مقدمہ لکھنے کے لیے حکم فرمایا۔
تعمیل حکم میں میں نے
پورا ترجمہ دیکھا اور اس کے بعد مقدمہ لکھنے بیٹھا۔ اندازہ تھا کہ آٹھ دس صفحات
پر کتاب اور صاحب کتاب کا تعارف لکھ دوں گا ، وہی مقدمہ بن جائے گا۔ پھر خیال آیا
کہ یہ کتاب اپنے عہد میں غلو فی التکفیر کے طوفان کو روکنے کے لیے لکھی گئی تھی
اور آج ہزار سال بعد اس کی اہمیت بدستور باقی ہے، جس کی وجہ سے اس کا اردو ترجمہ
سامنے آرہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کتاب میں ان جدید شبہات کا ذکر نہیں ہےجو
موجودہ عہد کی پیداوار ہیں اور یہ فطری بھی ہے، اس لیے کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ
کتاب کے اہم نکات کو نمایاں کرتے ہوئے معاصر اسلوب میں کچھ ایسے خطوط کھینچ دیے
جائیںجن کی روشنی میں موجودہ تکفیری ذہنیت کی تفہیم ہوسکے۔ اسی پہلو سے مقدمہ
لکھنے بیٹھا تو لکھتا چلا گیااور وہ مقدمہ تقریباً سو صفحات پر پھیل گیا۔
جب ہماری مقدمہ نگاری کا
ذکر میرے بعض صالح احباب کو ہوا تو مشمولات مقدمہ کو دیکھے بغیر انہوں نے اندازہ
کیا کہ شاید تقدیم نگار نے اس میں تکفیر سے متعلق کچھ ایسی بحثیں اٹھائی ہیں جن کی
وجہ سے خانقاہ عارفیہ پر مہربان افراد اپنی کرم فرمائیوں میں مزید اضافہ کرسکتے
ہیں۔ احباب نے اس کی شکایت مرشد گرامی حضرت شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی
ادام اللہ ظلہ علینا تک پہنچائی۔ مرشد گرامی کا اصول ہے کہ جس عمل پر ان کے اپنے
لوگ مطمئن نہیں ہوتے، اس کی اجازت نہیں دیتے۔چناںچہ اپنے مخصوص اشارات میں گفتگو
کرتے ہوئے ایک دن کہنے لگے:
میں نے سنا ہے کہ امام
ابوحنیفہ نے یزید کے ایمان کےمسئلے میں سکوت فرمایا۔ذرا غور کیجیے کہ وہ امام جس
نے اپنی خداداد فقہ و بصیرت سےصدیوں بعد آنے والے مسائل کا حل فرمادیا، اس کے لیے
اتنا چھوٹا مسئلہ کیسے لاینحل رہ سکتا تھا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے
ایسا حکمت کے پیش نظر کیا۔ شاید اس وقت کا مسلم معاشرہ یزید کے بارے میں امام
ابوحنیفہ کا سچ سننے کی تاب نہیں رکھتا تھا، اسی لیے آپ نے اس مسئلے میں سکوت
فرمایا۔ واللہ اعلم!
شیخ کی اس بات سے میں نے
یہ اشارہ لیا کہ اس تکفیری ماحول میں میرے تکفیر مخالف مقدمے کی اشاعت شیخ قرین
مصلحت نہیں سمجھ رہے ہیں۔ میں نے مولانا اسید الحق صاحب سے یہ بات بتائی۔ وہ ہنسنے
لگے۔ کہا: ’’مولانا! رہنے دیں مقدمہ، مجھے بھی یہ تشویش ہورہی تھی
کہ پتہ نہیں آپ اس کے اندر کون کون سی بحثیں شامل کردیں اور پھر میرے لیے مسئلہ
ہوجائے۔ ‘‘ چناں چہ مذکورہ کتاب راقم کے مقدمے کے بغیر شائع ہوگئی۔
کئی سال گزر گئے۔وہی
احباب جنہیں اس مقدمے کی اشاعت پر تامل تھا،جب بعد میں انہیں مقدمے کے مشمولات سے
متعارف کرایا اور تیزی کے ساتھ بدلتے حالات کا انہوں نے جائزہ لیا تو متعدد بار ان
حضرات نے اصرار کیا کہ اب اس مقدمے کی کتابی اشاعت کا وقت آگیا ہے، آپ نظر ثانی
کرکے اسے کتابی انداز میں پیش کریں۔ مجمع السلوک ، مجلہ الاحسان اور شاہ صفی
اکیڈمی و جامعہ عارفیہ کی دیگر علمی و تعلیمی مصروفیات نے کئی سالوں تک نظر ثانی
کی مہلت نہیں دی۔ سال گذشتہ اس پر ایک نظر ڈالی تھی، لیکن کام ادھورا رہ گیا تھا۔
اس سال ۲۰۲۰ء
میں کرونا وائرس کی وجہ سے ۲۲؍
مارچ کو پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہوگیا اوروقت سے پہلے رجب میں ہی جامعہ بند ہوگیا۔
میں اس لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہ صفی اکیڈمی سے مستقبل قریب میں شائع
ہونے والی شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی دو کتابیں؛ تکمیل الایمان اور مرج البحرین کے
اردو ترجمے پر نظر ثانی کے ساتھ اپنے مقدمے کو بھی دوبارہ دیکھنے لگا۔ اللہ کا شکر
ہے کہ اس دوران کئی ایک علمی اضافات ہوئے اور اب کتاب آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔
پیش نظر کتاب میں’’مسئلۂ
تکفیر کی عصری تفہیم‘‘کی کوشش کی گئی ہے۔ شروع میں ہم نے اسے اسی نام سے موسوم کیا
تھا۔ پھر مرشد گرامی کی طرف سےاس کے لیے تاریخی نام ’’مسئلہ تکفیر و متکلمین‘‘ (۱۴۴۲ھ)آیا جسے عنوان کتاب
بنا دیا گیا۔ آخر آخر میں برادر گرامی مولانا غلام مصطفیٰ ازہری اور مخدوم گرامی
مولانا حسن سعید صفوی کی طرف سے یکے بعد دیگرے سن عیسوی کے اعتبار سے یہ دو تاریخی
نام آئے:’’اصول تکفیربیان تکفیریت‘‘ (۲۰۲۰ء)اور ’’اصول تکفیر ومبادی تکفیریت‘‘(۲۰۲۰ء)۔ مولیٰ کریم ان تمام
تسمیات کی برکات سے کتاب کومالا مال فرمائے۔
ہم نے اس کتاب میں موضوع
کے تمام اہم گوشوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم فلاسفہ،دیابنہ اور قادیانیہ
کے مسئلے کو ہم زیر بحث نہیں لاسکے ہیں، جب کہ ممکن ہے کہ ہمارے بعض قارئین کوکتاب
میں ان موضوعات کی بھی تلاش ہو۔فلاسفہ کی بحث کا خیال آخر آخر میں آیا، نیز یہ
برصغیر کے تناظر میں بہت زیادہ حساسیت کا حامل بھی نہیں ہے،تاہم ممکن ہے کہ کتاب
کے اگلے اڈیشن میں اس کا اضافہ کروں۔ دیوبندیت کا مسئلہ ضمنی نہیں مستقل بحث کا
متقاضی ہے، اس لیے اللہ نے چاہا تو اس کا تجزیہ ایک مستقل کتاب میں کیا جائے گا۔
رہی بات قادیانیت کی تو چوں کہ قادیانی ختم نبوت کے منکر ہیں، اس لیے وہ سرے سے
اہل قبلہ میں آتے ہی نہیں، لہٰذا کتاب میں ان کی شمولیت کا جواز بھی پیدا نہیں
ہوتا، تاہم ضمنی طور پر ہی سہی ان کے تعلق سے راقم کی مدلل رائے شامل کتاب ہے۔
مرشد گرامی قدر، ان کے ذی
علم مسترشدین اور ان کے قائم کردہ چمنستان علم و حکمت کا شکر واجب ہےکہ اس کتاب کی
سطر سطر میں ان سب کی توجہ، عنایت اور معاونت شامل ہے۔ ڈاکٹر سید شمیم الدین احمد
منعمی،ڈاکٹر وارث مظہری،جناب نوشاد عالم چشتی، ڈاکٹر خوشتر نورانی، ڈاکٹر عمیر
محمود صدیقی اور برادرم محمد علی کا خصوصی شکریہ کہ ان حضرات نے نہ صرف اس کتاب کے
پڑھنے میں اپنا قیمتی وقت صرف کیابلکہ بعض انتہائی مفید اصلاحات بھی فرمائیں اور
اپنے حوصلہ افزا کلمات تحسین و آفرین سے بھی نوازا۔اللہ کریم اس حقیر پر ان
صاحبان علم و فضل کیعنایتوں کا سلسلہ یونہی دراز رکھے۔ آمین۔
برصغیر کی تکفیریت({ FR 1856 }) پسند،
ملت شکن اور مسلکی منافرت کی اس مکدر فضا میں اگرمیری اس کاوش سے تھوڑی بہت بھی
صفائی آتی ہے اور چند ایک نوجوان بھی تکفیر کی جگہ تاویل، کفر کی جگہ ایمان اور
مسلک کی جگہ ملت کی فکر سے روشناس ہوجاتے ہیں تو میں سمجھوں گا کہ میری کوشش
ٹھکانے لگی اور آخرت میں میری بخشش کا ایک سامان ہوا۔
وَلِلّٰہِ الحَمدُ
أَوَّلاً وَآخِراً وَمِنہُ التَّوفِیقُ وَعَلَیہِ التَّکلانُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ
شَیٍٔ قَدیرٌ.
ذیشان احمد مصباحی
۲۱؍ ستمبر ۲۰۲۰ء/ جامعہ عارفیہ
پس منظر
فتنۂ تکفیریت
غلو فی التکفیرجدیدعہد کا
کوئینیا فتنہ نہیں ہے،اس کا سرا تو عہد صحابہ سے ملا ہوا ہے۔ اس
وقت نیا صرف یہ ہے کہ آج مسلمانوں کا اجتماعی سیطرہ (Grand Leadership) مفقود ہے، جس کے سبب اس کی تباہ کاریاں ناقابل بیان حد
تک بڑھ گئی ہیں۔ آج ذو الفقار حیدری نہیں ہے جو خوارج عصر کی تکفیری فتنہ
سامانیوں کا سد باب کرکے افتراق پسندوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکے۔اس فتنےکے زیر
اثر آج امت کا تصور مضمحل ہوگیاہے اور مسلک سے باہر دین کا تصور کفر سا لگنے لگا
ہے۔ یہی وہ فتنہ ہے جس نےملکی اور بین الاقوامی سطح پر اخوت اسلامی کےاحساس کو مٹا
دیا ہے اور مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہی لہو کا پیاسا بنادیا ہے۔ اسی کا اثر ہے کہ
ملکی سطح پر مسلم اتحاد({ FR 1857 }) نہ ہونے کے سبب کروڑوں کی
تعداد میں ہوتے ہوئے بھی مسلمان اپنے ووٹ کی قیمت کھوچکے ہیں اور بین الاقوامی
نقشےپر پچاس سے زائد مسلم ریاستوں کے باوجود وہ غیرمسلم قوتوں کے دریوزہ گر اور
آلۂ کار بن چکے ہیں۔
یہی
فتنہ بالواسطہ طور پر خلافت عثمانیہ کے زوال کا بھی ایک اہم سبب رہا ہےاور تب سے
اب تک نہ صرف یہ کہ اس تکفیری فتنے نے متحدہ مسلم سیاست کو داخلی اور خارجی سطح پر
ایک جرم بناکر رکھ دیا ہے بلکہ موجودہ نام نہاد تصور خلافت کے پیچھے بھی یہی
تکفیریت کام کر رہی ہے۔ مسلم حکمرانوں کی بات کیجیے تو وہ یا تو سیکولر ہیں جن کو
اسلام سے برائے نام تعلق ہے اور وہ سرے سےکفرو اسلام کی بحث کو ہی غیر ضروری
سمجھتے ہیں اور اگر ان میں کچھ مذہبی ہیں بھی تو ان کا مذہب مسلکی جنونیوں کی گرفت
میں ہے۔
جہاں
تک علما کی بات کریں تو موجودہ عہد کے علما بالعموم اس مرض-تکفیریت- میں مبتلا
ہیں۔ شایدانہیں اس بات کا ادراک نہیں کہ اس فتنے کی پرورش و پرداخت کے ذریعے نہ
صرف وہ دنیا میں اسلام کا دائرہ تنگ کر رہے ہیں، بلکہ مسلمانوں کے گردزندگی کا
حصار بھی محدود کرتے جارہے ہیں اور آخرت میں اس کے لیے انہیں کن سختیوں سے گزرنا
ہوگا ،یہ راز تو اسی دنیا میں آشکار ہوگا۔علما کی اس روش کے خلاف مسلم اہل دانش
کے بعض حلقوں میں ایک اور فتنہ پنپ رہا ہے اور وہ ہے بہر صورت عدم تکفیر کا فتنہ۔
الغرض!
اس فتنےکے سبب مسلمان داخلی اور خارجی سطح پر دیگر اہم امور کی طرف کم ہی توجہ دے
پارہے ہیں اور وہ بطور امت اپنا وجود کھوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں اس فتنے کا سد باب
کس قدر ضروری ہے، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
تکفیر
میں غلو کے انداز
تکفیر
میں غلو کا مطلب کیاہے؟ تکفیر میں غلو کا سادہ مطلب یہ ہے کہ جو شخص رسول اکرم ﷺکی
تکذیب نہ کرے، جو اسلام کے کسی بنیادی رکن کا انکار نہ کرے،صرف فروعی عقائد و
مسائل میں اس کا اختلاف ہو تو ایسے شخص کی بھی تکفیر کی جائے۔ تکفیر
میں غلو کرنے والے ہمیشہ یہ کرتے ہیں کہ وہ دین کی فروعی بات کو اصولی بات
قرار دیتے ہیں۔ تکفیر میں غلو کرنےو الوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خود
جہاں چاہیں تاویل کر لیں لیکن اگر کوئی دوسرا تاویل کرے تو اسے مؤول کے
بجائے منکر کہہ دیتے ہیں۔تکفیر میں غلو کا مظاہرہ کرنے والوں کا ایک وصف یہ بھی ہے
کہ وہ اپنے فہم کو نص کا درجہ دے دیتے ہیں۔ اس صورت میں اگر کوئی شخص ان کے
فہم نص کا انکار کرتاہے تو اس پرمنکر نص کا مقدمہ چلاتے ہیں اور بالآخر اس کی
تکفیر کردیتے ہیں۔غلو فی التکفیر کے مجرمین کفر فقہی اور کفر لزومی پر تکفیر کرتے
ہیں۔ ایک ایسا قول جس کا ایک پہلو کفر کا ہواوراس کے دس پہلو ایمان کے ہوں، اس میں
کفر کے پہلو کو لےکر آتے ہیں اور اس پر تکفیر کرگزرتے ہیں۔ یہ مجرمین سوال کو بھی
انکار مان لیتے ہیں اور اگر کسی نے کوئی بات سمجھنے کے لیے بطور استفسارکہی اسے
بھی کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی موضوع پر گفتگو کرتے
ہوئے ضمنی طور پر کوئی لفظ ایسا آگیا جس میں ایک احتمال کفر کا نکلتا ہو، تو اسے
بھی کفر قرار دیتے ہیں۔ ان تکفیری غُلاۃ کی سب سے بڑی جسارت یہ ہے کہ یہ اپنے مسلک
کو کل دین سمجھے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے اپنے ہر مسلک مخالف کو کافر کہتے نہیں
جھجکتے۔کچھ ان میں ایسے جری ہوتے ہیں کہ جب ان سے سوال کیجیے اور ان کی غلطی
دکھائیے تو کہتے ہیں کہ ہم نے اس لیے ایسا کہہ دیا تاکہ عوام گمراہ نہ ہوں، یا پھر
یہ کہتے ہیں کہ فلاں مسلک کا فلاں عقیدہ کفر حقیقی نہ سہی کفر فقہی تو ہے جس پر بے
شمار فقہا نے تکفیر کی ہے۔ یہی وہ جرأتیں اور جسارتیں ہیں جن کے سبب امت کا
شیرازہ منتشر ہے اور وحدت ملی کا جنازہ اٹھتا نظر آتا ہے۔
پہلا
فتنۂ تکفیر
علمانے
لکھا ہے کہ تاریخ اسلام میں غلو فی التکفیرکے اولین مرتکب خوراج ہیں۔ ۳۷ھ/ ۶۵۷ء میں حضرت علی اور حضرت
معاویہ رضی اللہ عنہما نے رفع اختلاف کے لیے اپنی اپنی طرف سے ایک ایک حکم
مقررکیا۔ایک جماعت اس کے خلاف اٹھی۔اس نےقرآن کی آیت إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا
لِلٰہِ (حکم صرف اللہ کا ہے۔(انعام: ۵۷) سے استدلال کرتے ہوئے
حضرت علی اور معاویہ دونوں کی تکفیر کردی۔انہوں نے کہا کہ یہ حضرات حکم و فیصلے
میں اللہ کے ساتھ غیر اللہ کو شریک کر کے کافر و مشرک ہو گئے۔ حضرت علی نے ان
کی فہمائش کی بڑی کوشش کی۔ انہیں کہا گیا کہ قرآن میں مسئلۂ طلاق اور دیگر
مسائل میں حَکم مقرر کرنے کاذکر ہے۔إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ کا مطلب یہ ہے کہ جو فیصلہ کیاجائے اللہ ورسول
کے احکام کے مطابق کیا جائے۔مگر انہوں نے نہیں مانا۔پوری دیدہ دلیری اور جرات
وجسارت کے ساتھ اکابرصحابہ اور جمہورامت کوکافر و مشرک قراردیتے رہے۔بالآخر حضرت
علی نے ان کو کیفر کردار تک پہنچایا۔
اس
گروہ کو تاریخ میں خوارج کے نام سے جانا جاتا ہے۔خوارج کے غلو فی التکفیر کا نتیجہ
یہ ہوا کہ انہوں نے صرف اللہ ورسول کی باتوں کے انکار وتکذیب کو کفرنہیں کہا بلکہ
ان کی باتوں پر عمل نہ کرنے کو بھی کفر کا نام دےدیااور گناہ کبیرہ کا ارتکاب
کرنےو الوں کی تکفیر شروع کر دی۔
بعد
کے زمانے میں پیدا ہونے والے فرقہ معتزلہ نےبھی انہیں کے نقش قدم پر
چلتے ہوئے گناہ کبیرہ کے مرتکب شخص کواسلام سے خارج قرار دے دیا۔البتہ ا نہوں نے
ایک گنجائش یہ ضروررکھی کہ ایسا شخص کا فر بھی نہیں ہے۔ انہوں نے ایمان و کفر
کےدرمیان ایک تیسرامقام متعین کردیا اور گناہ کبیرہ کے مرتکب شخص کواسی مقام پر
ٹھہرایا اور کہا کہ ایسا شخص نہ مومن ہےاورنہ ہی کافرہے۔
خارجیت
کے جدید اثرات
بارہویں
صدی میں اٹھنے والی وہابی تحریک بہت سے امور میں خوارج کے مشابہ تھی،بطور خاص
مسئلہ تکفیر میں غلوکے معاملے میں ان دونوں میں بڑی مناسبت ہے۔جس طرح خوارج نے
اپنی چھوٹی سی جماعت کے علاوہ اپنے مخالف تمام مسلمانوں کوکافر کہہ دیااسی طرح
وہابی فکر کے بانی شیخ محمد ابن عبد الوہاب نجدی(۱۲۰۶ھ/ ۱۷۹۱ء) نے عامۃ المسلمین کو
جو توسل و زیارت اور احترام اولیا و مشائخ جیسے مسائل میں شیخ کے ہم نوا نہیں تھے،
ان سب کو کافر قرار دیا۔
معروف
حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین شامی (۱۲۵۲ھ/۱۸۳۶ء)کے الفاظ میں:
جیساکہ
ہمارے زمانے میں [محمد ابن ] عبد الوہاب کے متبعین کا معاملہ ہوا، جو نجد سے نکلے
اور حرمین پر قابض ہوگئے۔ مذہب حنبلی سے خود کو منسوب کرتے تھے، لیکن ساتھ ہی ان
کا اعتقاد یہ تھا کہ تنہا وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے عقیدے کے مخالف ہیں وہ مشرک
ہیں۔ اس کو بنیاد بناکر انہوں نے اہل سنت اور علماے اہل سنت کو مباح الدم قرار
دیا،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ۱۲۳۳ھ[۱۸۱۸ء] میں ان کی شوکت کا
خاتمہ کردیا، ان کے ملک کو ویران اور ان کے خلاف مسلمانوں کی فوج فتح وظفر سے ہم
کنار ہوئی۔({ FR 1858 })
اس
فکر کی عرب و عجم ہر جگہ مخالفت ہوئی ۔خاص بات یہ ہے کہ اس فکر کے رد میں جو کتاب
سب سے پہلے آئی وہ کسی اور کی نہیں ،بلکہ بانی وہابیت شیخ محمد ابن عبد
الوہاب نجد ی کے بھائی شیخ سلیمان بن عبد الوہاب(۱۲۰۹ھ/ ۱۷۹۵ء) کی تھی ۔یہ کتاب کیا
ہے اپنے بھائی کی جانب سے ہونے والی تکفیر مسلمین کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔اس
احتجاج میں بطور خاص حضرت احمد ابن حنبل ،شیخ ابن تیمیہ اور ابن قیم کے حوالے کثرت
سے دیے گئے ہیں،جس کی وجہ یہ ہے کہ وہابی شیوخ ان تینوں علما کو بطورخاص اپنے لیے
مستند اور معتبر سمجھتے ہیں۔
یہ
کتاب الصَّواعِقُ الاِلٰھِیَّۃِ فِی
الرَّدِّ عَلی الوَھَابِیَّۃ اور فَصلُ
الخِطَابِ دونوں ناموں سے چھپی ہے۔اس وقت میرے سامنے فَصلُ الخِطاب کا چوتھا
ایڈیشن ہے،اس کے دو اقتباسات قارئین کی نذر ہیں:
کہاں
یہ حقیقت اور کہاں تمہاری یہ بات کہ جو تم سے اختلاف کرے وہ کافر ہے اور جو اس کی
تکفیر نہ کرے وہ بھی کافر ہے۔ تمہیں خدا کا واسطہ ،ظلم و بہتان چھوڑ دو،سلف صالح
کی پیروی کرو اور گمراہوں کے طرز عمل سے باز آجاؤ۔۔۔۔اے اللہ کے بندو! ہوش
میں آؤ اور حق کی طرف رجوع ہوجاؤ،اس راہ پر چلو جس پر سلف صالح چلے
اوروہاں رک جاؤجہاں اسلاف رک گئے۔شیطان تمہیں برانگیختہ نہ کردے اوراہل اسلام کی
تکفیر کو تمہارے لیے مرغوب نہ کردے کہ تم اپنی مخالفت کو دوسروں کے کفر کا معیار
اور موافقت کو دوسروں کے ایمان کا پیمانہ بنالو۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ
رَاجِعُون۔({ FR 1859 })
علامہ
سلیمان بن عبد الوہاب نےغلوفی التکفیرکے حوالے سے یہ باتیں وہابیہ کے اولین
سربراہوں کے بارے میں کہی ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ علامہ سلیمان نے اپنے بھائی کی
ناروا تکفیر پسندی پر نوحہ تو پڑھا ہے، لیکن خود پلٹ کر شیخ ابن عبد الوہاب یا ان
کے گروہ کی تکفیر نہیں کی ہے۔
یہاں
اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ وہابیت پسند علما وہابی تحریک کے تعلق سے ایک مختلف
نقطۂ نظر کے حامل ہیں۔مولانا مسعود عالم ندوی (۱۹۵۴ء) شیخ ابن عبدالوہاب کے
عقائد پر تفصیلی گفتگو کے بعد لکھتے ہیں:
مندرجہ
بالاتفصیل سے یہ بات آئینہ ہوگئی کہ شیخ الاسلام محمد ابن عبد الوہاب کسی نئے دین
کی دعوت نہیں دیتے، نہ انہوں نے کوئی نیا فقہی مذہب ایجاد کیا ہے۔ وہ خود امام
احمد ابن حنبل (ف۲۴۱ھ)کے
مذہب پر ہیں۔ ان کی دعوت صرف کتاب و سنت کی دعوت ہے۔وہ حنفیوں سے صرف یہ کہتے ہیں
کہ وہ پکے حنفی ہوجائیں۔ یہی مطالبہ ان کا شافعیوں سے ہے۔ آج امام شافعی (ف۲۰۴ھ) کی قبر پر مصر میں جو
کچھ کیا جاتا ہےکیا اسے وہ کسی حالت میں روا رکھ سکتے تھے؟ یہی حال دوسرے ائمہ کا
ہے۔ ان میں سے کوئی بدعات کا روادار نہیں تھا اور نہ ہوسکتا تھا۔ محمد ابن عبد
الوہاب کے پیرو مسلمانوں کو انہی بدعتوں سے باز رکھنے کی دعوت دیتے ہیں اور جو بار
بار فہمائش کے بعد بھی نہیں مانتااس سے سختی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ان کے اسی شدت
فی العمل کو نہ جانے کن کن فقہی گالیوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ({ FR 1860 })
آپ
غور کیجیے تومعلوم ہوگا کہ یہ خصوصیات و مظاہروہابیت سے متاثرآج بہت سے معاصر
افراد وجماعات میں بھی پائی جاتی ہیں،بلکہ یہ خصوصیات ان تمام لوگوں
میں پائی جاتی ہیں جو غلوفی التکفیر کے عادی ہیں، خواہ وہ وہابیت مخالف پکے
سنی ہی کیوں نہ ہوں، امام حرم کے پیچھے جن کی نمازیں نہیں ہوتیں۔
غلو
فی التکفیر کے نقصانات
پچھلے
سو سالوں سے مسلمان برائے نام خلافت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔تعلیم و ٹیکنالوجی ہو
کہ سیاست و اقتصاد، ہر سطح پر مسلمان دوسری قوموں کے دست نگر بن کر رہ گئے ہیں۔
زندگی کے ہر شعبے میں آج مسلمان حاکم کے بجائے محکوم اور امیر کی جگہ مامور بن
چکے ہیں۔طاغوتی عفاریت اور سرکش فراعنہ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب و عناد
سے بھرے پڑے ہیں۔چراغ مصطفوی شرار بولہبی کی زد پر ہے۔خارجی سطح پر مسلمانوں کو
کمزور ولاچار اور مجبور ومحبوس بلکہ منضم یامعدوم کرنے کی ہر کوشش جاری ہے۔لادینی
افکار،مغربی تہذیب اور لہوو لعب میں ڈوبی ہوئی جدید طرز زندگی مسلم بچوں اور بچیوں
کے سینوں سے مسلمانیت کو کھرچ دینے کےدرپے ہے۔مسلمانوں کے افکار پر ہی پہرے نہیں
بٹھائے گئے ہیں، بلکہ مختلف ملکوں میں ان کا جسمانی قتل عام بھی جاری ہے۔ایسے
ماحول میں انہیں بلندآواز سے احتجاج و فریاد کا بھی حق نہیں رہا۔ایسی صورت
میں روئے زمین کے کلمہ خوانِ محمد اگر اپنے دین و ثقافت او رسیاست واقتصاد کے
مشترکہ مقاصد کے لیے جمع نہیں ہوئے اور اس کےبجائے حسب سابق ہر فرقہ دوسرے فرقے کی
تکفیروتضلیل میں لگارہاتو ان کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی جائے گی،جس کے بہت
سے مظاہر اس وقت ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔
غلوفی
التکفیر کی وجہ سے مسلم نوجوان کا ذہن خود اپنے دین و ثقافت کے حوالے سے پراگندہ
ہو نے لگاہے۔ آج صورت حال صرف یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کا ایک فرقہ دوسرے فرقوں کی
تکفیر کرتاہے بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک فرقے کے لوگ باہم خود ایک دوسرے کی
تکفیر میں جٹے پڑے ہیں۔آج کا مسلم نوجوان اس صورت حال سے پریشان بھی ہے اورنالاں
و فریاد کناں بھی۔غلوفی التکفیر کی وجہ سے مسلمانوں کا ذہن اسلام کی دعوت سے منحرف
ہوگیاہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ جب ان کی پوری ذہنی و فکری اور علمی و عملی کوششوں کا
محور تکفیر وتضلیل ہوگا تو بھلا وہ اسلام کی تبلیغ کے لیے فرصت ہی کب پائیں گے۔
موجودہ
حالات کے تمام تر منفی پہلوؤں کے ساتھ ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ آزادی اظہار رائے
کو عالمی اخلاقیات کا حصہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔اس آزادی کامثبت استعمال کرکے ہم
اللہ کے باغی بندوں کو اللہ کے حضور سر بسجود کر سکتےہیں۔لیکن پہلے ہمیں تکفیر سے
تو فرصت ملے۔
غلوفی
التکفیرسے اسلامی دعوت کو ایک اور نقصان پہنچاہے۔مدعو قومیں جب مسلمانوں کو آپس
میں لڑتے اور ایک دوسرے کو کافر کہتے دیکھتی ہیں تو اسلام کی طرف ان کا
اٹھتاہوا قدم رک جاتاہے۔وہ تذبذب کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ بہت بڑاالمیہ ہے۔ان
حالات میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ کے ایشو کو زیادہ نمایاں کریں اور
تکفیر کے ایشو کو حتی الامکان کم کریں؛کیوں کہ مسلمانوں کا فرض اولیں تبلیغ ہے نہ
کہ تکفیر۔حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہا تھا:
فَلْيُبْلِغِ
الشَّاهِدُ الغَائِبَ ({ FR 1861 })
جو
موجود ہیں وہ ان تک پیغام پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔
قرآن
نے کہا:
ادْعُ
إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ(النحل: ۱۲۵)
حکمت
اور اچھی نصیحت کے ساتھ لوگوں کو راہ حق کی دعوت دو۔
اب
اگر قضیۂ تکفیر،دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے تو ایسی صورت میں حکمت
کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کوہم نمایاں نہ ہونے دیں۔
عصر
حاضر میں غلوفی التکفیر کا ہی ایک بڑا مظہر یہ بھی ہے کہ کتاب و سنت کی دعوت
کے نام پربعض تکفیری جماعتیں وجود پذیر ہوئیں۔جماعۃ التکفیر و الھجرۃ اور اس قسم
کی دوسری متشددجماعتوں کا یہ ماننا ہے کہ صرف وہی مسلمان ہیں،جو ان کی تحریک سے
وابستہ نہیں وہ دین سے خارج ،کافر و مرتد ہیں۔ بعض غالی تکفیری آپ کو ایسے
ملیں گے جوالکُفرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ ({
FR 1862 }) پڑھ
کر اپنے مخصوص جتھے کے سوا پوری دنیا کے مسلمانوں کو کافر اور بےدین کہتے نظر آئیں
گے۔
غلوفی
التکفیر کا سب سے نمایاں مظہر دیکھناہو تو آپ بہت سے مسلم ممالک کا حال دیکھ لیں،
جہاں ہر دوسرے دن شیعہ سنی ،سلفی صوفی، دیوبندی بریلوی ایک دوسرے کی مسجدوں
پر اور ممتاز شخصیتوں پر بم اور بارود سے حملے کرتےرہتے ہیں، بلکہ خود کش حملوں سے
بھی دریغ نہیں کرتے۔جہاں گولی چلانے والا بھی اللہ اکبر کہہ کر گولی چلاتا ہے اور
گولی کھانے والا بھی اللہ اکبر کہہ کر دم توڑتا ہے۔ ہر مسلک کے ممتاز علما کو
سیکورٹی کےحصار میں چلنا ہوتاہے۔اس خصوص میں ’’داعی کتاب وسنت‘‘ جماعتوں کا رول
کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے،تاہم دوسری جماعتیں بھی ان سے کچھ پیچھے نہیں ہیں۔
اسے
بھی غلوفی التکفیر کا ہی ایک مظہر کہیے کہ جمہوری ریاستوں میں مسلمانوں کا ووٹ
متحد ومجتمع نہیں ہوپاتا۔ اس طرح ان کے شرعی ،سماجی اور مذہبی مطالبے بے وزن
ہواکرتے ہیں۔ ان کے اجتماعی مطالبوں میں عدم اجتماعیت کی وجہ سے مطلوبہ قوت و
طاقت نہیں ہوتی۔نتیجےکے طورپر حکومتیں اور عدالتیں مسلم پرسنل لا ءاور
مسلم مفاد عامہ کے خلاف فیصلے سناتی رہتی ہیں اور مسلمان عدم اتحاد کی وجہ سے
تماشائی بنے رہتےہیں۔حیرت ہے کہ تمام مسالک کے وابستہ گان جوپُر جوش انداز
میں اقبال کا یہ رزمیہ پڑھتے ہیں:
ایک
ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل
کی ساحل سے لےکر تابخاک کا شغر
ان
میں سے کوئی متحد نہیں ہونا چاہتا۔سب کا نعرۂ اتحاد اس غیر اعلانیہ شرط سے
مشروط ہوتا ہے کہ دوسرے مسلک کے لوگ پہلےاس کے مسلک کے مطابق تجدید ایمان واسلام
کرلیں۔متحد ہوں بھی کیسے چوں کہ ان ذہنوں میں غلو فی التکفیر کی وجہ سے
’’مسلم‘‘ کا Concept سرے سےواضح ہی نہیں
ہے۔غلوفی التکفیر کے یہ چند منفی مظاہر ہیں، غور کرنے پر یہ فہرست بہت لمبی ہو
سکتی ہے۔
تکفیریت
کےدو بڑے اسباب
تکفیر
میں غلو کے متعدد اسباب ہیں، جن میں سب سے بنیادی سبب دو ہیں؛ تعصب اور جہالت۔ غیر
مخلص اور شرپسند عناصر اپنی ذاتی مخالفت اور نفسانی عناد وتعصب کودینی اختلاف اور
اسلامی حمیت کے لبادے میں چھپاکر تکفیر کی گرم بازاری شروع کردیتے ہیں۔امام غزالی
فرماتے ہیں:
فإن
أكثر الخائضين في هذا إنما يحركهم التعصب۔ ({
FR 1863 })
اکثر
تکفیر میں غلو کرنے والوں کو تعصب ہی اس غلو پرآمادہ کرتا ہے۔
غلو
فی التکفیر کا دوسرا سبب جہالت ہے۔لوگ کفر وایمان کی حقیقت نہیں سمجھتے، دینیات
اور ضروریات دین کا فرق نہیں سمجھتے، پھر انکار دین کا مطلب نہیں جانتے اور اگر
جانتے ہیں تو انکار دین کے ثبوت کے لیے جو علمی اصول ومراحل ہیں، ان سے ناآشنا
ہیں، نتیجے کے طور پر جس کو بھی دین کے کسی مسئلے یا عقیدے میں-اس کی حیثیت و
نوعیت سے قطع نظر- خود سے مختلف پاتے ہیں،اس کی تکفیر کے آمادہ ہوجاتے ہیں۔
امام
غزالی فرماتے ہیں:
المبادرة
إلى التكفير إنما تغلب على طباع من يغلب عليهم الجهل.
تکفیر
میں جلد بازی انہیں طبائع پر غالب ہے جن پر جہالت غالب ہے۔
الغرض!
غلو فی التکفیر کے سب سے بڑے اسباب یہی دونوں ہیں۔
برصغیر
ہند وپاک میں ہم دیکھتے ہیں کہ علوم شرعیہ سے لوگ عام طور پر بیگانہ ہیں ۔ اگر کچھ
پڑھے لکھے ہیں بھی تو شخصی یا مسلکی عقیدت مندیوں نے انہیں اندھا بہرا بنا دیا ہے۔
عالم عرب میں جن افراد پر تکفیریت سوار ہے وہ یا تو کم خواندہ صحرائی ہیں، جنہوں
نے زیادہ سے زیادہ کسی مخصوص تحریک کا لٹریچر پڑھ لیا ہے، کتاب اللہ اور کتب سنت
کے سرسری مطالعے کا ذوق رکھتے ہیں مگر آیات کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے توفیق و
تطبیق پیدا کرنے اور کفر اصغر سے کفراکبر کو جدا کرنے کے علمی شعور سے محروم ہیں۔
تعصبات
کی بات کریں توتکفیر کے باب میں اس کی بھی مختلف سطحیں ہوتی ہیں۔ اس کی بنیاد خوف
خدااور احتساب آخرت سے بیگانہ پن ہے۔ اس مرض کے لاحق ہوجانے کے بعد جس سے بھی
ذاتییا گروہی مخاصمت ہوتی ہے ،تعصب زدہ افراد اس کے اقوال و اشعار میں خورد بین سے
کفری معنی تلاش کرنے لگتے ہیں۔ جاہ و حشم اور علم و فضل میں اپنا تفوق قائم کرنا
اور دوسروں کو پست و ذلیل کرنا بھی تکفیری تعصبات کی ایک قسم ہوسکتی ہے۔
اللہ
کریم ہمارے ذہن و دماغ کو جہل و تعصب کے ایمان سوز اور ملت شکن امراض سے شفایاب
فرمائے۔
غیر
تکفیری جرم
غلو
فی التکفیر کے رد عمل میں ادھر بعض حلقوں میں تساہل فی التکفیر کا داعیہ بھی پیدا
ہوگیا ہے۔ اسے ہم غیر تکفیری جرم کہہ سکتے ہیں۔ کچھ روشن خیال ایسے پیدا ہورہے ہیں
جو تکفیر کو سرے سے ہی ایک جرم سمجھتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ جو روشن خیال اپنے ملک
کی سرحدکو واضح طور پر پہچانتے ہیں ، وہ اپنے دین کے حوالے سے حدود کے تصور کو ہی
ایک جرم خیال کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ مذہب کے معاملے میں اسلام کا رویہ غیر جبری
ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ تکفیری فتووں کی کثرت کے سبب ایک عام مسلمان تھوڑی دیر کے لیے
انتہائی حد تک پریشان ہوجاتا ہے کہ کسے اسلام کہے اور کسے کفر اور کسے مسلمان
سمجھے اور کسے کافر، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ تکفیر میں خطا کرنے والوں کے
ردعمل میں اصلاًتکفیر کو ہی خطا سمجھ لیا جائے۔ اگر اسلام ایک دین ہے تو لازمی طور
پر اس کا کوئی دائرہ ہوگا جس میں آنے کے بعد ایک عام انسان مسلم ہوجاتاہے اور اس
سے نکل کر غیر مسلم۔ اگر یہ تحدید نہ ہو تو نہ تو کسی کو مسلم کہنا درست ہوگا اور
نہ ہی کسی کوغیر مسلم۔ اس لیے کہ حدود اور دائرے کی عدم وضاحت کی صورت میں یہ کیسے
پتہ چلے گا کہ فلاں دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا اور فلاں نکل گیا۔
یہ
سمجھنا کہ جو خود کو مسلمان کہے اسے مسلمان کہو اور جو خود کو کافر کہے اسے
کافرکہو، انتہائی درجےکی غیر معقول بات ہے۔ کیا ہم اسی اصول کی روشنی میں
ہندوستانی، پاکستانی، ڈاکٹر، انجینیر، بیمار، صحت مند جیسے الفاظ کا اطلاق
واستعمال کرسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ
ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے ، اسی حقیقت کے اعتبار سے اس شے کے وجود یا عدم وجود
کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ صرف دعویٰ کرلینے سے کسی شے کا وجود نہیں ہوجاتا۔یہ کلیہ جس
طرح علم وفکر کے دیگر میدانوں میں مقبول ہے، بعینہ اس کا اطلاق اسلام و کفر کے
حوالے سے بھی کیا جائے گا۔
بہرکیف!
جس طرح غلو فی التکفیر ایک جرم ہے اسی طرح مطلقاًانکار تکفیربھی ایک جرم ہے۔تکفیر
کے باب میں افراط و تفریط ہر دو رویے سے اجتناب واجب ہے۔
کافریا
غیر مسلم؟
کچھ
لوگ یہ کہتے ہیں کہ غیر مسلم کو کافر نہیں کہنا چاہیے۔ چوں کہ لفظ کافرکو ایک طرح
سے وہ اپنے لیے گالی تصور کرتے ہیں۔ اس خیال کی تائیدیا تردید سے قبل یہ بات
سمجھنا ضروری ہے کہ کسی لفظ کا اپنی ذات میں صحیح یا درست ہونا ایک بات ہے اور اس
کا اطلاق قرین مصلحت ہونا نہ ہونا ایک دوسری بات ہے۔ دراصل کافر یا غیر مسلم ایک
ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ آپ کسی کو کافر کہتے ہیں تو گویا اسی بات کا اعلان کرتے
ہیں کہ وہ مسلم نہیں ہے، اسی طرح اگر کسی کو غیر مسلم کہتے ہیں تو بھی یہی بتارہے
ہوتے ہیں کہ وہ مسلم نہیں ہے۔ اب ایسے میں کسی کو کافر کہیں یا غیر مسلم، حقیقت کے
لحاظ سے ایک ہی بات ہوئی۔ ایسے میں یہ خیال کرنا کہ غیر مسلم کہنا درست ہے اور
کافر کہنا غیر درست پرلے درجے کی سادگی ہے۔ ہاں! ایسا ہوسکتا ہے کہ احوال و ظروف
کے پیش نظر کسی جگہ غیر مسلم کا اطلاق قرین مصلحت ہو اور کسی جگہ کافر کا اطلاق
مناسب ہو۔
ہاں!
یہ ضرور ہے کہ کافریا non-believer کا ایک اطلاق اسلامی
مفہوم سے ماورا مطلقاً مذہبی اصطلاح کے طور پر بھی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے کافر کا
اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جو ایک خدا پر یقین نہیں رکھتے۔اس لحاظ سے دنیا
کے تمام موحدین believer اور غیر کافر ہیں۔
کبھی اس لفظ میں مزید
عموم ہوتا ہے اور اس کا اطلاق ان تمام افراد پر ہوتا ہے جو ماورائے کائنات قوت پر یقین نہیں رکھتے۔تاہم یہ
ایک الگ اصطلاح ہے۔ اسلامی اصطلاح میں وہ تمام افراد کافر ہیں جو غیر مشروط طور پر
نبی آخر الزماں ﷺ اور ان کی لائی ہوئی تمام باتوں کی تصدیق نہ کریں۔ کہا جاتا ہے:
لا مُشاحَّةَ فِي الاِصطِلاح۔اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ
دونوں اصطلاحیں اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ لیکن اس کا مطلب وہ نہیں جس کا سہارا
لے کر بعض متجددین زمانہ نفس اصطلاح کفر وکافر کا ہی انکار کرتے ہیں یا دینی
اصطلاح میں جس مفہوم میں کفروکافر کا اطلاق ہوا ہے اس سے چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے
مطلقاً تکفیریعنی کافر کو کافر کہنے کو ہی غلط کہتے ہیں یا دونوں اصطلاحات کا
حوالہ دیتے ہوئے بطور مغالطہ اسلامی اصطلاح کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔
الحاصل!اس میں کوئی
دورائے نہیں کہ اصل کے لحاظ سے کافر یا non-believer کا اطلاق جس طرح ملحد اور atheistکے
لیے درست ہے اسی طرح غیر مسلم یا non-Muslim کے
لیے بھی درست ہے۔ مگر بعض متجددین زمانی مرعوبیت یا دینی عدم تصلب کے سبب کچھ اور
ہی نیا کرنے کے درپے ہیں۔
پیش نظر کتاب انہی مذکورہ
تناظرات کے پس منظر میں معرض وجود میں آئی ہے۔ آنے والے صفحات میں مسئلۂ تکفیر
کا علمی مناقشہ اور تنقیدی تجزیہ حاضر ہے۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/excerpts-zishan-misbahi-new-book/d/123620
New
Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women
in Islam, Islamic Feminism, Arab
Women, Women In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam Women and Feminism